اب ہم فقیر جی سے دل کو اٹھا کے بیٹھے
اب ہم فقیر جی سے دل کو اٹھا کے بیٹھے
اس خصم جاں کے در پر تکیہ بنا کے بیٹھے
مرتے ہوئے بھی ہم کو صورت نہ آ دکھائی
وقت اخیر اچھا منہ کو چھپا کے بیٹھے
عزلت نشیں ہوئے جب دل داغ ہو گیا تب
یعنی کہ عاشقی میں ہم گھر جلا کے بیٹھے
جو کفر جانتے تھے عشق بتاں کو وہ ہی
مسجد کے آگے آخر قشقہ لگا کے بیٹھے
شور متاع خوبی اس شوخ کا بلا تھا
بازاری سب دکانیں اپنی بڑھا کے بیٹھے
کیا اپنی اور اس کی اب نقل کریے صحبت
مجلس سے اٹھ گیا وہ ٹک ہم جو آ کے بیٹھے
کیا جانے تیغ اس کی کب ہو بلند عاشق
یوں چاہیے کہ سر کو ہر دم جھکا کے بیٹھے
قطعہ
پھولوں کی سیج پر سے جو بے دماغ اٹھے
مسند پہ ناز کی جو تیوری چڑھا کے بیٹھے
کیا غم اسے زمیں پر بے برگ و ساز کوئی
خار و خسک ہی کیوں نہ برسوں بچھا کے بیٹھے
وادیٔ قیس سے پھر آئے نہ میرؔ صاحب
مرشد کے ڈھیر پر وے شاید کہ جا کے بیٹھے
- کتاب : MIRIYAAT - Diwan No- 2, Ghazal No- 1007
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.