مارے ہی ڈالے ہے جس کا زندگی میں اضطراب
مارے ہی ڈالے ہے جس کا زندگی میں اضطراب
ساتھ میرے دل گڑا تو آ چکا مرنے کا خواب
ٹک ٹھہرتا بھی تو کہتے تھا کسو بجلی کی تاب
یا کہ نکہت گل کی تھا آیا گیا عہد شباب
کی نماز صبح کو کھو کر نماز اشراق کی
ہو گیا مجھ پر ستم اچٹا نہ ٹک مستی میں خواب
دیکھنا منہ یار کا اس وجہ سے ہوتا نہیں
یا الٰہی دے زمانے سے اٹھا رسم نقاب
ضعف ہے اس کے مرض اور اس کے غم سے الغرض
دل بدن میں آدمی کے ایک ہے خانہ خراب
یار میں ہم میں پڑا پردہ جو ہے ہستی ہے یہ
بیچ سے اٹھ جائے تو ہووے ابھی رفع حجاب
صورت دیوار سے مدت کھڑے در پر رہے
پر کبھو صحبت میں اس کی ہم ہوئے نہ باریاب
مے سے توبہ کرتے ہی معقول اگر ہم جانتے
ہم پہ شیخ شہر برسوں سے کرے ہے احتساب
جمع تھے خوباں بہت لیکن پسند اس کو کیا
کیا غلط میں نے کیا اے میرؔ وقت انتخاب
- کتاب : MIRIYAAT - Diwan No- 6, Ghazal No- 1813
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.