کتاب
کتاب کھولیے پڑھیے کچھ آگہی کے لئے
کہ آج علم ضروری ہے زندگی کے لئے
اسی سفیر نے عالم کو آگہی دی ہے
اسی چراغ نے دنیا کو روشنی دی ہے
اسی چمن میں کئی پھول مسکراتے ہیں
ندی تو کیا ہے سمندر بھی ڈوب جاتے ہیں
ازل سے اس کی محبت سے آشنائی ہے
یہ بھیگتی ہوئی پلکیں نچوڑ لائی ہے
اسی کی اوٹ میں چھپ چھپ کے ہیر روتی ہے
اسی کی چھاؤں میں پاگل پریت سوتی ہے
اس انجمن میں ہلاکو کے ہونٹ سلتے ہیں
ادب سے بیٹھے ہوئے بادشاہ ملتے ہیں
اس آئنہ کو تمدن کی آبرو کہہ لو
یا ایک شہر جسے شہر آرزو کہہ لو
یہ سارے رمز کے پردے اٹھانے لگتی ہے
یہ دل کی بات ہر اک کو سنانے لگتی ہے
اسی کی آنکھ سے آنکھیں دکھائی دیتی ہیں
اسی مقام سے راہیں دکھائی دیتی ہیں
لپٹ کے اونگھنے لگتی ہے ماہ پاروں سے
یہ جا کے ٹھوکریں کھاتی ہے شیر خواروں سے
خدا کی ذات نے شہرت اسی سے پائی ہے
یہ اس زمیں پہ پیمبر کے ساتھ آئی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.