مگرمچھ نے مجھے نگلا ہوا ہے
مگرمچھ نے مجھے نگلا ہوا ہے
اک جنین ناتواں ہوں
جس گھڑی رکھی گئی بنیاد میری
اس گھڑی سے
تیرگی کے پیٹ میں ہوں
خون کی ترسیل
آنول سے غذا
جاری ہے
کچی آنکھ کے آگے تنی
موہوم سی جھلی ہٹا کر
دیکھتا ہوں!
دیکھتا ہوں
گرم گہرے لیس کے دریا میں
کچھووں، مینڈکوں
جل کیکڑوں کے پارچوں میں
اوجھڑی کے کھردرے ریشوں میں
سالم ہوں
نبود و بود کے تاریک اندیشوں میں
باہر کون ہے
جو ذات کے اس خیمۂ خاکستری کے
پیٹ کے پھولے ہوئے
گدلے غبارے پر
ازل سے کان رکھ کر سن رہا ہے
سر پٹخنے
ہاتھ پاؤں مارنے
کروٹ بدلنے کی صدا!
پانی کا گہرا شور ہے
اندر بھی باہر بھی
برہنہ جسم سے چمٹے ہوئے ہیں
کائی کے ریزے
مجھے پھر سے جنم دینے کی خاطر
زچگی کے اک کلاوے نے
اگلنے کے کسی وعدے نے
صدیوں سے
مجھے جکڑا ہوا ہے
ماں
مگرمچھ نے مجھے نگلا ہوا ہے!!
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.