Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مہاتما گاندھی

بسمل الہ آبادی

مہاتما گاندھی

بسمل الہ آبادی

MORE BYبسمل الہ آبادی

    سنا رہا ہوں تمہیں داستان گاندھی کی

    زمانے بھر سے نرالی ہے شان گاندھی کی

    رہے رہے نہ رہے اس میں جان گاندھی کی

    نہ رک سکی نہ رکے گی زبان گاندھی کی

    یہی سبب ہے جو وہ دل سے سب کو پیارا ہے

    وطن کا اپنے چمکتا ہوا ستارا ہے

    بنا تھا مست کوئی اور کوئی سودائی

    ہر ایک سمت تھی غفلت کی جب گھٹا چھائی

    تو اس کی عقل رسا کام وقت پر آئی

    مریض ملک ہے ممنون چارہ فرمائی

    نئے خیال میں اک اک کا دل اسیر ہوا

    ادھر امیر ہوا اور ادھر فقیر ہوا

    جفا و جور نے کی خوب اپنی بربادی

    خراب حال نہ دل رات کیوں ہوں فریادی

    بنا دیا تھا قفس کا بری طرح عادی

    مگر ہے شکر ملا ہم کو درس آزادی

    زمانہ کہتا ہے گاندھی مہاتما وہ ہے

    بشر نہیں ہے حقیقت میں دیوتا وہ ہے

    جو دل میں یاد ہے تو لب پہ نام اس کا ہے

    جو ہے تو ذکر فقط صبح و شام اس کا ہے

    بھلائی سب کی ہو جس سے وہ کام اس کا ہے

    جہاں بھی جاؤ وہیں احترام اس کا ہے

    اٹھائے سر کوئی کیا سر اٹھا نہیں سکتا

    مقابلے کے لئے آگے آ نہیں سکتا

    کسی سے اس کو محبت کسی سے الفت ہے

    کسی کو اس کی ہے اس کو کسی کی حسرت ہے

    وفا و لطف ترحم کی خاص عادت ہے

    غرض کرم ہے مدارات ہے عنایت ہے

    کسی کو دیکھ ہی سکتا نہیں ہے مشکل میں

    یہ بات کیوں ہے کہ رکھتا ہے درد وہ دل میں

    وہ رشک شمع ہدایات ہے انجمن کے لئے

    وہ مثل‌ روح رواں عنصر بدن کے لئے

    وہ ایک ساغر نو محفل کہن کے لئے

    وہ خاص مصلح کل شیخ و برہمن کے لئے

    لگن اسے ہے کہ سب مالک وطن ہو جائیں

    قفس سے چھوٹ کے زینت دہ چمن ہو جائیں

    جفا شعار سے ہوتا ہے بر سر پیکار

    نہ پاس توپ نہ گولا نہ قبضے میں تلوار

    زمانہ تابع ارشاد حکم پر تیار

    وہ پاک شکل سے پیدا ہیں جوش کے آثار

    کسی خیال سے چرخے کے بل پہ لڑتا ہے

    کھڑی ہے فوج یہ تنہا مگر اکڑتا ہے

    طرح طرح کے ستم دل پر اپنے سہتا ہے

    ہزار کوئی کہے کچھ خموش رہتا ہے

    کہاں شریک ہیں آنکھوں سے خون بہتا ہے

    سنو سنو کہ یہ اک کہنے والا کہتا ہے

    جو آبرو تمہیں رکھنی ہو جوش میں آؤ

    رہو نہ بے خود و بیہوش ہوش میں آؤ

    اسی کو گھیرے امیر و غریب رہتے ہیں

    ندیم و مونس و یار و حبیب رہتے ہیں

    ادب کے ساتھ ادب سے ادیب رہتے ہیں

    نصیب ور ہیں وہ بڑے خوش نصیب رہتے ہیں

    کوئی بتائے تو یوں دیکھ بھال کس کی ہے

    جو اس سے بات کرے یہ مجال کس کی ہے

    رفاہ عام سے رغبت ہے اور مطلب ہے

    انوکھی بات نرالی روش نیا ڈھب ہے

    یہی خیال تھا پہلے یہی خیال اب ہے

    فقط ہے دین یہی بس یہی تو مذہب ہے

    اگر بجا ہے تو بسملؔ کی عرض بھی سن لو

    چمن ہے سامنے دو چار پھول تم چن لو

    مأخذ:

    Jazbat-e-bismil (Pg. E-48 B-40)

    • مصنف: بسمل الہ آبادی
      • اشاعت: 2014
      • ناشر: انڈین پریس، الہ آباد
      • سن اشاعت: 1932

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے