Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

جدائی

MORE BYفراق گورکھپوری

    شجر حجر پہ ہیں غم کی گھٹائیں چھائی ہوئی

    سبک خرام ہواؤں کو نیند آئی ہوئی

    رگیں زمیں کے مناظر کی پڑ چلیں ڈھیلی

    یہ خستہ حالی یہ درماندگی یہ سناٹا

    فضائے نیم شبی بھی ہے سنسنائی ہوئی

    دھواں دھواں سے مناظر ہیں شبنمستاں کے

    سیارہ رات کی زلفیں ہیں رسمسائی ہوئی

    یہ رنگ تاروں بھری رات کے تنفس کا

    کہ بوئے درد میں ہر سانس ہے بسائی ہوئی

    خنک اداس فضاؤں کی آنکھوں میں آنسو

    ترے فراق کی یہ ٹیس ہے اٹھائی ہوئی

    سکوت نیم شبی گہرا ہوتا جاتا ہے

    رگیں ہیں سینۂ ہستی کی تلملائی ہوئی

    ہے آج ساز نوا ہائے خونچکاں اے دوست

    حیات تیری جدائی کی چوٹ کھائی ہوئی

    مری ان آنکھوں سے اب نیند پردہ کرتی ہے

    جو تیرے پنجۂ رنگیں کی تھیں جگائی ہوئی

    سرشک پالے ہوئے تیرے نرم دامن کے

    نشاط تیرے تبسم سے جگمگائی ہوئی

    لٹک وہ گیسوؤں کی جیسے پیچ و تاب کمند

    لچک بھوؤں کی وہ جیسے کماں جھکائی ہوئی

    سحر کا جیسے تبسم دمک وہ ماتھے کی

    کرن سہاگ کی بندی کی لہلہائی ہوئی

    وہ انکھڑیوں کا فسوں روپ کی وہ دیوئیت

    وہ سینہ روح نمو جس میں کنمنائی ہوئی

    وہ سیج سانس کی خوشبو کو جس پہ نیند آئے

    وہ قد گلاب کی اک شاخ لہلہائی ہوئی

    وہ جھلملاتے ستارے ترے پسینے کے

    جبین شام جوانی تھی جگمگائی ہوئی

    ہو جیسے بت کدہ آذر کا بول اٹھنے کو

    وہ کوئی بات سی گویا لبوں تک آئی ہوئی

    وہ دھج وہ دلبری وہ کام روپ آنکھوں کا

    سجل اداؤں میں وہ راگنی رچائی ہوئی

    ہو خواب گاہ میں شعلوں کی کروٹیں دم صبح

    وہ بھیرویں تری بیداریوں کی گائی ہوئی

    وہ مسکراتی ہوئی لطف دید کی صبحیں

    تری نظر کی شعاعوں کی گدگدائی ہوئی

    لگی جو تیرے تصور کے نرم شعلوں سے

    حیات عشق سے اس آنچ کی تپائی ہوئی

    ہنوز وقت کے کانوں میں چہچہاہٹ ہے

    وہ چاپ تیرے قدم کی سنی سنائی ہوئی

    ہنوز سینۂ ماضی میں جگمگاہٹ ہے

    دمکتے روپ کی دیپاولی جلائی ہوئی

    لہو میں ڈوبی امنگوں کی موت روک ذرا

    حریم دل میں چلی آتی ہے ڈھٹائی ہوئی

    رہے گی یاد جواں بیوگی محبت کی

    سہاگ رات کی وہ چوڑیاں بڑھائی ہوئی

    یہ میری پہلی محبت نہ تھی مگر اے دوست

    ابھر گئی ہیں وہ چوٹیں دبی دبائی ہوئی

    سپردگی و خلوص نہاں کے پردے میں

    جو تیری نرم نگاہی کی تھیں بٹھائی ہوئی

    اٹھا چکا ہوں میں پہلے بھی ہجر کے صدمے

    وہ سانس دکھتی ہوئی آنکھ ڈبڈبائی ہوئی

    یہ حادثہ ہے عجب تجھ کو پا کے کھو دینا

    یہ سانحہ ہے غضب تیری یاد آئی ہوئی

    عجیب درد سے کوئی پکارتا ہے تجھے

    گلا رندھا ہوا آواز تھر تھرائی ہوئی

    کہاں ہے آج تو اے رنگ و نور کی دیوی

    اندھیری ہے مری دنیا لٹی لٹائی ہوئی

    پہنچ سکے گی بھی تجھ تک مری نوائے فراق

    جو کائنات کے اشکوں میں ہے نہائی ہوئی

    مأخذ :
    • کتاب : Gul-e-Naghma (Pg. 212)
    • Author :  Firaq Gorakhpuri
    • مطبع : Maktaba Farogh-e-urdu Matia Mahal Jama Masjid Delhi (2006)
    • اشاعت : 2006

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے