دلیپ کمار کی آخری خواہش
لے چلو دوستو
لے چلو قصہ خوانی کے بازار میں
اس محلے خدا داد کی اک شکستہ گلی کے مقفل مکاں میں
کہ مدت سے ویراں کنویں کی زمیں چاٹتی پیاس کو دیکھ کر اپنی تشنہ لبی بھول جاؤں
غٹرغوں کی آواز ڈربوں سے آتی ہوئی سن کے
کوٹھے پہ جاؤں کبوتر اڑاؤں
کسی باغ سے خشک میووں کی سوغات لے کر صدائیں لگاؤں
زبانوں کے روغن کو زیتون کے ذائقے سے ملاؤں
جمی سردیوں میں گلی کے اسی تخت پر نرم کرنوں سے چہرے پہ سرخی سجاؤں
کہ یاروں کی ان ٹولیوں میں نئی داستانیں سناؤں
انہی پان دانوں سے لالی چراؤں
مجھے ان پرانی سی راہوں میں پھر لے چلو دوستو
ہاں مجھے لے چلو اس بسنتی دلاری مدھو کی گلی میں
کہ خوابوں کی وہ روشنی آج بھی میری آنکھوں میں آباد ہے
میرے کانوں میں اس کے ترنم کی گھنٹی
صحیفوں کی صورت اتاری گئی ہے
سبھی کو بلاؤ کہ نغمہ سرائی کا یہ مرحلہ آخری ہے
بلاؤ مرے راج کو
آخری شب ہے
پھر سے حسینوں کے جھرمٹ میں بس آخری گھونٹ پی کے
فنا گھاٹیوں میں
میں یوں پھیل جاؤں کہ واپس نہ آؤں
سنو دوستو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.