رخش عمر
بیٹھا تھا ایک روز میں آنگن کی دھوپ میں
عالم تمام حلقۂ دام خیال تھا
سرگوشیوں میں وقت سناتا تھا بار بار
قصے قدیم قیصر و کسریٰ کی شان کے
کرتا تھا ورق ورق ہر اک داستان کے
میں نے کہا کہ ہمدم و ہمراز و دیدہ ور
ما قصۂ سکندر و دارا نہ خواندہ ایم
کچھ ذکر ہو صبا کا گلوں کا شباب کا
ساغر کا میکدے کا صراحی کا ناب کا
کچھ بات ہو بہار کی باراں کی دھوپ کی
خوشبو کی چاندنی کی فضاؤں کی روپ کی
ہو جائے کچھ مشاہدۂ حق کی گفتگو
کچھ بھولنے کی پھر اسے پانے کی جستجو
کچھ پوچھ مجھ سے بابت افکار دو جہاں
احوال و اختیار و شکایات دوستاں
جو جی میں آئے پوچھ
مگر اتنا یاد رکھ
''از ما بجز حکایت مہر و وفا مپرس''
بولا کہ تو ''رہین ستم ہائے روزگار''
کیا جانتا ہے بابت امکان زندگی
جیتا ہے زندگی سے پشیمان زندگی
کچھ اپنے دل کا حال بھی معلوم ہے تجھے
یہ وحشتیں یہ درد یہ تنہائیوں کا بوجھ
یہ ہجرتیں یہ کرب یہ بیزاریوں کا روگ
یہ حسرتیں یہ رنج یہ افسردگی یہ سوگ
سینہ ہے داغ داغ جگر لخت لخت ہے
تو خود کہاں ہے اور کہاں تیرا بخت ہے
قلزم کو ایک قطرے کی خاطر بہا دیا
جو وقت نے دیا تجھے سب کچھ گنوا دیا
ایک بار مڑ کے دیکھ کہ کیا تیرا کھو گیا
جاگا ترا نصیب تو تو خود ہی سو گیا
اب ہجر نہ وصال نہ سودا نہ سود ہے
لمحے سے بھی قلیل یہ تیرا وجود ہے
باقی بچا ہے اور کیا تیرے حساب میں
“نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں''
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.