شہر آشوب
اے مرے دیس میں بستے ہوئے اچھے لوگو
خود ہی سوچو کہ سزا جیسی یہ تنہائی ہے
جس جگہ پھول مہکتے تھے وفاؤں کے کبھی
ان فضاؤں میں اٹل رات کی گہرائی ہے
ان اندھیروں سے پرے آج بھی اس دنیا میں
لوگ خوش حال محبت سے رہا کرتے ہیں
آج بھی شام ڈھلے سکھ کی حسیں وادی میں
لوگ پیڑوں کے تلے روز ملا کرتے ہیں
روز اٹھتی ہے مہک ان کے حسیں آنگن سے
سادگی جینے کا سامان ہوا کرتی ہے
ان کی آنکھوں میں مہکتے ہیں گلابوں کے چمن
زندگی کیف کا عنوان ہوا کرتی ہے
اے مرے دیس میں بستے ہوئے اچھے لوگو
زندگی کون سے منظر میں گزاری تم نے
خاک اور خون سے لتھڑی ہوئی منزل کی طلب
کون سے قرض کی زنجیر اتاری تم نے
یوں الجھتے ہو بھٹکتے ہوئے آہو کی طرح
کیسے آشوب میں اک عمر گنوا دی تم نے
خارزاروں سے لکھی دل پہ کہانی دکھ کی
کون سی شب کی سیاہی کو جلا دی تم نے
اے مرے دیس میں بستے ہوئے اچھے لوگو
خود کو پہچان کے اس باب میں رسوا نہ کرو
زندگی صرف محبت کا حسیں تحفہ ہے
اس حسیں خواب کی تعبیر کا سودا نہ کرو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.