Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Asghar Gondvi's Photo'

اصغر گونڈوی

1884 - 1936 | گونڈہ, انڈیا

ممتاز قبل از جدید شاعر، صوفیانہ رنگ کی شاعری کے لیے معروف

ممتاز قبل از جدید شاعر، صوفیانہ رنگ کی شاعری کے لیے معروف

اصغر گونڈوی کے اشعار

11.4K
Favorite

باعتبار

چلا جاتا ہوں ہنستا کھیلتا موج حوادث سے

اگر آسانیاں ہوں زندگی دشوار ہو جائے

پہلی نظر بھی آپ کی اف کس بلا کی تھی

ہم آج تک وہ چوٹ ہیں دل پر لیے ہوئے

زاہد نے مرا حاصل ایماں نہیں دیکھا

رخ پر تری زلفوں کو پریشاں نہیں دیکھا

ایک ایسی بھی تجلی آج مے خانے میں ہے

لطف پینے میں نہیں ہے بلکہ کھو جانے میں ہے

عکس کس چیز کا آئینۂ حیرت میں نہیں

تیری صورت میں ہے کیا جو میری صورت میں نہیں

یوں مسکرائے جان سی کلیوں میں پڑ گئی

یوں لب کشا ہوئے کہ گلستاں بنا دیا

جینا بھی آ گیا مجھے مرنا بھی آ گیا

پہچاننے لگا ہوں تمہاری نظر کو میں

عالم سے بے خبر بھی ہوں عالم میں بھی ہوں میں

ساقی نے اس مقام کو آساں بنا دیا

ہوتا ہے راز عشق و محبت انہیں سے فاش

آنکھیں زباں نہیں ہیں مگر بے زباں نہیں

اک ادا اک حجاب اک شوخی

نیچی نظروں میں کیا نہیں ہوتا

وہ نغمہ بلبل رنگیں نوا اک بار ہو جائے

کلی کی آنکھ کھل جائے چمن بیدار ہو جائے

مائل شعر و غزل پھر ہے طبیعت اصغرؔ

ابھی کچھ اور مقدر میں ہے رسوا ہونا

بنا لیتا ہے موج خون دل سے اک چمن اپنا

وہ پابند قفس جو فطرتا آزاد ہوتا ہے

سنتا ہوں بڑے غور سے افسانۂ ہستی

کچھ خواب ہے کچھ اصل ہے کچھ طرز ادا ہے

رند جو ظرف اٹھا لیں وہی ساغر بن جائے

جس جگہ بیٹھ کے پی لیں وہی مے خانہ بنے

چھٹ جائے اگر دامن کونین تو کیا غم

لیکن نہ چھٹے ہاتھ سے دامان محمد

نہیں دیر و حرم سے کام ہم الفت کے بندے ہیں

وہی کعبہ ہے اپنا آرزو دل کی جہاں نکلے

زلف تھی جو بکھر گئی رخ تھا کہ جو نکھر گیا

ہائے وہ شام اب کہاں ہائے وہ اب سحر کہاں

مجھ سے جو چاہئے وہ درس بصیرت لیجے

میں خود آواز ہوں میری کوئی آواز نہیں

اللہ رے چشم یار کی معجز بیانیاں

ہر اک کو ہے گماں کہ مخاطب ہمیں رہے

سو بار ترا دامن ہاتھوں میں مرے آیا

جب آنکھ کھلی دیکھا اپنا ہی گریباں تھا

یہ بھی فریب سے ہیں کچھ درد عاشقی کے

ہم مر کے کیا کریں گے کیا کر لیا ہے جی کے

اصغرؔ غزل میں چاہئے وہ موج زندگی

جو حسن ہے بتوں میں جو مستی شراب میں

میں کیا کہوں کہاں ہے محبت کہاں نہیں

رگ رگ میں دوڑی پھرتی ہے نشتر لیے ہوئے

یہ آستان یار ہے صحن حرم نہیں

جب رکھ دیا ہے سر تو اٹھانا نہ چاہیئے

حل کر لیا مجاز حقیقت کے راز کو

پائی ہے میں نے خواب کی تعبیر خواب میں

نیاز عشق کو سمجھا ہے کیا اے واعظ ناداں

ہزاروں بن گئے کعبے جبیں میں نے جہاں رکھ دی

لوگ مرتے بھی ہیں جیتے بھی ہیں بیتاب بھی ہیں

کون سا سحر تری چشم عنایت میں نہیں

داستاں ان کی اداؤں کی ہے رنگیں لیکن

اس میں کچھ خون تمنا بھی ہے شامل اپنا

میں کامیاب دید بھی محروم دید بھی

جلووں کے اژدحام نے حیراں بنا دیا

اصغرؔ حریم عشق میں ہستی ہی جرم ہے

رکھنا کبھی نہ پاؤں یہاں سر لئے ہوئے

ہم اس نگاہ ناز کو سمجھے تھے نیشتر

تم نے تو مسکرا کے رگ جاں بنا دیا

آلام روزگار کو آساں بنا دیا

جو غم ہوا اسے غم جاناں بنا دیا

اصغرؔ سے ملے لیکن اصغرؔ کو نہیں دیکھا

اشعار میں سنتے ہیں کچھ کچھ وہ نمایاں ہے

عارض نازک پہ ان کے رنگ سا کچھ آ گیا

ان گلوں کو چھیڑ کر ہم نے گلستاں کر دیا

مجھ کو خبر رہی نہ رخ بے نقاب کی

ہے خود نمود حسن میں شان حجاب کی

لذت سجدۂ ہائے شوق نہ پوچھ

ہائے وہ اتصال ناز و نیاز

وہ شورشیں نظام جہاں جن کے دم سے ہے

جب مختصر کیا انہیں انساں بنا دیا

مری وحشت پہ بحث آرائیاں اچھی نہیں زاہد

بہت سے باندھ رکھے ہیں گریباں میں نے دامن میں

قہر ہے تھوڑی سی بھی غفلت طریق عشق میں

آنکھ جھپکی قیس کی اور سامنے محمل نہ تھا

روداد چمن سنتا ہوں اس طرح قفس میں

جیسے کبھی آنکھوں سے گلستاں نہیں دیکھا

یہاں کوتاہی ذوق عمل ہے خود گرفتاری

جہاں بازو سمٹتے ہیں وہیں صیاد ہوتا ہے

بے محابا ہو اگر حسن تو وہ بات کہاں

چھپ کے جس شان سے ہوتا ہے نمایاں کوئی

کیا مستیاں چمن میں ہیں جوش بہار سے

ہر شاخ گل ہے ہاتھ میں ساغر لیے ہوئے

اس جلوہ گاہ حسن میں چھایا ہے ہر طرف

ایسا حجاب چشم تماشا کہیں جسے

کچھ ملتے ہیں اب پختگی عشق کے آثار

نالوں میں رسائی ہے نہ آہوں میں اثر ہے

کیا کیا ہیں درد عشق کی فتنہ طرازیاں

ہم التفات خاص سے بھی بد گماں رہے

بستر خاک پہ بیٹھا ہوں نہ مستی ہے نہ ہوش

ذرے سب ساکت و صامت ہیں ستارہ خاموش

اے شیخ وہ بسیط حقیقت ہے کفر کی

کچھ قید رسم نے جسے ایماں بنا دیا

یہ عشق نے دیکھا ہے یہ عقل سے پنہاں ہے

قطرہ میں سمندر ہے ذرہ میں بیاباں ہے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے