aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Firaq Gorakhpuri's Photo'

فراق گورکھپوری

1896 - 1982 | الہٰ آباد, انڈیا

ممتاز ترین قبل از جدید شاعروں میں نمایاں، جنہوں نے جدید شاعری کے لئے راہ ہموار کی۔ اپنے بصیرت افروز تنقیدی تبصروں کے لئے معروف۔ گیان پیٹھ انعام سے سرفراز

ممتاز ترین قبل از جدید شاعروں میں نمایاں، جنہوں نے جدید شاعری کے لئے راہ ہموار کی۔ اپنے بصیرت افروز تنقیدی تبصروں کے لئے معروف۔ گیان پیٹھ انعام سے سرفراز

فراق گورکھپوری کے اشعار

176.8K
Favorite

باعتبار

ایک مدت سے تری یاد بھی آئی نہ ہمیں

اور ہم بھول گئے ہوں تجھے ایسا بھی نہیں

بہت پہلے سے ان قدموں کی آہٹ جان لیتے ہیں

تجھے اے زندگی ہم دور سے پہچان لیتے ہیں

کوئی سمجھے تو ایک بات کہوں

عشق توفیق ہے گناہ نہیں

تم مخاطب بھی ہو قریب بھی ہو

تم کو دیکھیں کہ تم سے بات کریں

موت کا بھی علاج ہو شاید

زندگی کا کوئی علاج نہیں

ہم سے کیا ہو سکا محبت میں

خیر تم نے تو بے وفائی کی

غرض کہ کاٹ دیے زندگی کے دن اے دوست

وہ تیری یاد میں ہوں یا تجھے بھلانے میں

میں ہوں دل ہے تنہائی ہے

تم بھی ہوتے اچھا ہوتا

شام بھی تھی دھواں دھواں حسن بھی تھا اداس اداس

دل کو کئی کہانیاں یاد سی آ کے رہ گئیں

نہ کوئی وعدہ نہ کوئی یقیں نہ کوئی امید

مگر ہمیں تو ترا انتظار کرنا تھا

آئے تھے ہنستے کھیلتے مے خانے میں فراقؔ

جب پی چکے شراب تو سنجیدہ ہو گئے

تیرے آنے کی کیا امید مگر

کیسے کہہ دوں کہ انتظار نہیں

اب تو ان کی یاد بھی آتی نہیں

کتنی تنہا ہو گئیں تنہائیاں

رات بھی نیند بھی کہانی بھی

ہائے کیا چیز ہے جوانی بھی

کم سے کم موت سے ایسی مجھے امید نہیں

زندگی تو نے تو دھوکے پہ دیا ہے دھوکہ

بہت دنوں میں محبت کو یہ ہوا معلوم

جو تیرے ہجر میں گزری وہ رات رات ہوئی

اک عمر کٹ گئی ہے ترے انتظار میں

ایسے بھی ہیں کہ کٹ نہ سکی جن سے ایک رات

جو ان معصوم آنکھوں نے دیے تھے

وہ دھوکے آج تک میں کھا رہا ہوں

سنتے ہیں عشق نام کے گزرے ہیں اک بزرگ

ہم لوگ بھی فقیر اسی سلسلے کے ہیں

یہ مانا زندگی ہے چار دن کی

بہت ہوتے ہیں یارو چار دن بھی

کسی کا یوں تو ہوا کون عمر بھر پھر بھی

یہ حسن و عشق تو دھوکا ہے سب مگر پھر بھی

ذرا وصال کے بعد آئنہ تو دیکھ اے دوست

ترے جمال کی دوشیزگی نکھر آئی

زندگی کیا ہے آج اسے اے دوست

سوچ لیں اور اداس ہو جائیں

لہو وطن کے شہیدوں کا رنگ لایا ہے

اچھل رہا ہے زمانے میں نام آزادی

میں مدتوں جیا ہوں کسی دوست کے بغیر

اب تم بھی ساتھ چھوڑنے کو کہہ رہے ہو خیر

طبیعت اپنی گھبراتی ہے جب سنسان راتوں میں

ہم ایسے میں تری یادوں کی چادر تان لیتے ہیں

کچھ نہ پوچھو فراقؔ عہد شباب

رات ہے نیند ہے کہانی ہے

کھو دیا تم کو تو ہم پوچھتے پھرتے ہیں یہی

جس کی تقدیر بگڑ جائے وہ کرتا کیا ہے

تجھ کو پا کر بھی نہ کم ہو سکی بے تابئ دل

اتنا آسان ترے عشق کا غم تھا ہی نہیں

سانس لیتی ہے وہ زمین فراقؔ

جس پہ وہ ناز سے گزرتے ہیں

کوئی آیا نہ آئے گا لیکن

کیا کریں گر نہ انتظار کریں

دیکھ رفتار انقلاب فراقؔ

کتنی آہستہ اور کتنی تیز

تم اسے شکوہ سمجھ کر کس لیے شرما گئے

مدتوں کے بعد دیکھا تھا تو آنسو آ گئے

اب یاد رفتگاں کی بھی ہمت نہیں رہی

یاروں نے کتنی دور بسائی ہیں بستیاں

رونے کو تو زندگی پڑی ہے

کچھ تیرے ستم پہ مسکرا لیں

آنے والی نسلیں تم پر فخر کریں گی ہم عصرو

جب بھی ان کو دھیان آئے گا تم نے فراقؔ کو دیکھا ہے

لائی نہ ایسوں ویسوں کو خاطر میں آج تک

اونچی ہے کس قدر تری نیچی نگاہ بھی

کون یہ لے رہا ہے انگڑائی

آسمانوں کو نیند آتی ہے

ضبط کیجے تو دل ہے انگارا

اور اگر روئیے تو پانی ہے

پال لے اک روگ ناداں زندگی کے واسطے

صرف صحت کے سہارے عمر تو کٹتی نہیں

میں دیر تک تجھے خود ہی نہ روکتا لیکن

تو جس ادا سے اٹھا ہے اسی کا رونا ہے

اسی کھنڈر میں کہیں کچھ دیے ہیں ٹوٹے ہوئے

انہیں سے کام چلاؤ بڑی اداس ہے رات

جس میں ہو یاد بھی تری شامل

ہائے اس بے خودی کو کیا کہیے

سر زمین ہند پر اقوام عالم کے فراقؔ

قافلے بستے گئے ہندوستاں بنتا گیا

آج بہت اداس ہوں

یوں کوئی خاص غم نہیں

ترے پہلو میں کیوں ہوتا ہے محسوس

کہ تجھ سے دور ہوتا جا رہا ہوں

دیوتاؤں کا خدا سے ہوگا کام

آدمی کو آدمی درکار ہے

پردۂ لطف میں یہ ظلم و ستم کیا کہیے

ہائے ظالم ترا انداز کرم کیا کہیے

کہہ دیا تو نے جو معصوم تو ہم ہیں معصوم

کہہ دیا تو نے گنہ گار گنہ گار ہیں ہم

شکل انسان کی ہو چال بھی انسان کی ہو

یوں بھی آتی ہے قیامت مجھے معلوم نہ تھا

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے