کنہیا لال کپور کے طنز و مزاح
ایک شعر یاد آیا
بات اس دن یہ ہوئی کہ ہمارا بٹوا گم ہو گیا۔ پریشانی کے عالم میں گھر لوٹ رہے تھے کہ راستے میں آغا صاحب سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے کہا، ’’کچھ کھوئے کھوئے سے نظر آتے ہو۔‘‘ ’’بٹوا کھو گیا ہے۔‘‘ ’’بس اتنی سی بات سے گھبرا گئے، لو ایک شعر سنو۔‘‘ ’’شعر
غالب کے دو سوال
آخر اس درد کی دوا کیا ہے ایک دن مرزا غالب نے مومن خاں مومن سے پوچھا، ’’حکیم صاحب! آخر اس درد کی دوا کیا ہے؟‘‘ مومن نے جواب میں کہا، ’’مرزا صاحب! اگر درد سے آپ کا مطلب داڑھ کا درد ہے، تو اسکی کوئی دوانہیں، بہتر ہوگا آپ داڑھ نکلوا دیجئے کیونکہ
ہم نے کتا پالا
’’آپ خواہ مخواہ کتوں سے ڈرتے ہیں، ہرکتا باؤلا نہیں ہوتا۔ جیسے ہر انسان پاگل نہیں ہوتا۔ اور پھر یہ تو’ال سیشن‘ ہے۔ بہت ذہین اور وفادار۔‘‘ کیپٹن حمید نے ہماری ڈھارس بندھاتے ہوئے کہا۔ کیپٹن حمید کو کتےپالنےکا شوق ہے۔شوق نہیں جنون ہے۔ کتوں کو وہ اتنی محبت
سائیں بابا کا مشورہ
میرے پیارے بیٹے مسٹر غمگین! جس وقت تمھارا خط ملا، میں ایک بڑے سے پانی کے پائپ کی طرف دیکھ رہا تھا جو سامنے سڑک پر پڑا تھا۔ ایک بھوری آنکھوں والا ننھا سا لڑکا اس پائپ میں داخل ہوتا اور دوسری طرف سے نکل جاتا، تو فرطِ مسرت سے اس کی آنکھیں تابناک ہو
دو کو لڑانا
دو مرغوں یا بٹیروں کو لڑانا شغل ہوسکتا ہے فن نہیں، البتہ دو آدمیوں کو لڑانا خاص کر جب کہ وہ ہم پیالہ و ہم نوالہ ہوں، دانتوں کاٹی کھاتے ہوں یقیناً فن ہے۔ اس فن کے موجد تو نارومنی ہیں کیوں کہ ان کا پسندیدہ شغل دیوتاؤں اور انسانوں کو آپس میں لڑانا ہے
خودکشی
آخر اس نے خود کشی کر لی۔ کیا اسے کسی سے عشق تھا؟کیا وہ گھوڑ دوڑ میں روپیہ ہار گیا تھا؟کیا وہ مقروض تھا؟ نہیں، اسے صرف زکام کی شکایت تھی، بس اتنی سی بات پر، اتنا بزدل۔ نہیں صاحب وہ بزدل نہیں تھا جو شخص متواتر پندرہ دن سونف کا جوشاندہ پی سکتا ہے۔
غالب جدید شعرا کی ایک مجلس میں
دور جدید کے شعرا کی ایک مجلس میں مرزا غالب کا انتظار کیا جا رہا ہے۔ اس مجلس میں تقریباً تمام جلیل القدر جدید شعرا تشریف فرما ہیں۔ مثلاً م۔ ن ارشدؔ، ہیراجیؔ، ڈاکٹر قربان حسین خالصؔ، میاں رقیق احمد خوگر، راجہ عہد علی خاںؔ، پروفیسر غیظ احمد غیظؔ، بکرما
پیرومرشد
پطرس میرے استاد تھے۔ ان سے پہلی ملاقات تب ہوئی جب گورنمنٹ کالج لاہور میں ایم اے انگلش میں داخلہ لینے کے لئے ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ انٹرویو بورڈ تین اراکین پر مشتمل تھا۔ پروفیسر ڈکنسن (صدرشعبہ انگریزی) پروفیسر مدن گوپال سنگھ اور پروفیسر اے ایس بخاری۔
مرزا جگنو
مرزا جگنوکی کمزوری شراب ہے نہ عورت بلکہ پان، آپ پان کچھ اس کثرت سے کھاتے ہیں جیسے جھوٹا آدمی قسمیں یا کام چور نوکر گالیاں۔ خیر اگر پان کھا کر خاموش رہیں تو کوئی مضائقہ نہیں اپنا اپنا شوق ہے، کسی کو غم کھانے میں لطف آتا ہے۔ کسی کو مار کھانے میں اور
سامع
جس دن سے وہ ایک گم نام جزیرے کی سیاحت سے واپس آیا تھا، بہت اداس رہتا تھا۔ یہ بات تو نہیں تھی کہ اسے اس جزیرے کی یاد رہ رہ کر آتی تھی، کیوں کہ وہ جزیرہ اس قابل ہی کب تھا کہ اس کی زیارت دوبارہ کی جائے۔ کوئی بڑا فضول سا جزیرہ تھا۔ ’’کانا بانا کاٹا‘‘اور
زیب داستا ں کے لیے
انٹر کلاس کے ایک چھوٹے سے ڈبے میں پانچ مسافر بیٹھے ہوئے یہ سوچ رہے تھے کہ گاڑی کب چھوٹے گی۔ گنجے سر والے پروفیسر نے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا، ’’اگر اس گاڑی کا گارڈ میرے کالج کا طالب علم ہوتا تو میں اسے اتنی دیر گاڑی روکے رکھنے کے جرم میں بینچ پر
نیا شکنجہ
پارلیمنٹ میں ایک نہایت اہم تقریر مسٹر اسپیکر!پارلیمنٹ کا یہ غیر ضروری اجلاس ہے، اسے منعقد کرنے کی بالکل ضرورت نہ تھی۔ملک کی بد قسمتی سے انتخابات ہم نے بھاری اکثریت حاصل کر کے پارلیمنٹ میں ایسی مضبوط پارٹی بنا لی ہے کہ ہم اقلیت کے معقول سے معقول
چند مقبول عام فلمی سین
محبت کا سین مجنوں، مجھے تم سے کچھ کہنا ہے لیلیٰ۔ لیلیٰ، یہی نا کہ تمہیں مجھ سے محبت ہے۔ مجنوں، محبت نہیں بلکہ۔۔۔ لیلیٰ، (بات کاٹ کر)والہانہ عشق ہے۔ لیلیٰ، شکریہ، لیکن مجھ سے بغلگیر ہونے کی کوشش مت کرو، وہیں کھڑے کھڑے میری طر ف دیکھ
انکم ٹیکس والے
منکر نکیر اور محکمہ انکم ٹیکس کے انسپکٹروں میں یہی فرق ہے کہ منکر نکیر مرنے کے بعد حساب مانگتے ہیں اور موخر الذکر مرنے سے پہلے ۔بلکہ یہ کہ منکر نکیر صرف ایک بار مانگتے ہیں اور انکم ٹیکس کے انسپکٹر بار بار نیز یہ کہ منکر نکیر گناہوں کا حساب لیتے وقت
پانچ قسم کے بے ہودہ شوہر
اگر کسی مرد سے پوچھا جائے پانچ قسم کے بے ہودہ شوہر کون سے ہیں تو وہ کہے گا، ’’صاحب! عقل کے ناخن لیجئے۔ بھلا شوہر بھی کبھی بے ہودہ ہو ئے ہیں۔ بےہودگی کی سعادت تو بیویوں کے حصے میں آئی ہے۔‘‘ اور اگر کسی عورت سے یہی سوال کیا جائے تو جواب ملے گا، ’’صرف
جہلستان
جہلستان میں جسے کچھ لوگ جہالت نشان بھی کہتے تھے بہت سی چیزیں اور اشخاص عجیب و غریب تھے۔ ایسے دو پائے تھے جن پر چوپایوں کاگمان ہوتا تھا۔ ایسے وکلا تھے جن میں اور جیب کتروں میں بظاہر کوئی فرق نہ تھا۔ ایسے حکیم تھے جو دکھتی آنکھ کے مریض کو آنکھ نکلوادینے
کلکتہ کا ذکر
لاہور سے کلکتہ کا سفر در پیش ہو تو دو ہی طریقے ہیں۔ مقدور ہو تو ہوائی جہاز میں سفر کیجئے۔ ناشتہ لاہور میں اور شام کا کھانا کلکتہ میں کھائیے اور مقدور نہ ہو تو تھوڑا سا کلوروفارم جیب میں رکھ کر سیکنڈ کلاس کے ڈبے میں بیٹھ جائیے۔ جونہی گاڑی روانہ ہو،
حماقت
جب کالج میں پڑھتے تھے اور دوستوں اور رشتہ داروں کی ازدواجی زندگی کو قریب سے دیکھتے تھے تو سوچا کرتے تھے کہ زندگی میں بڑی سے بڑی حماقت کریں گے لیکن شادی نہیں کریں گے۔ یہ خیال اور بھی مستحکم ہو جاتا ہے۔ جب آئے دن بڑے بھائی صاحب اور بھاوج میں نوک جھونک
بندہ پرور! کب تلک؟
بندہ پرور! یہ سگریٹ جو میں نے ابھی آپ کو پیش کیا ہے دو سال ہوئے دو پیسےمیں یہاں بکتا تھا۔ پچھلے سال تین پیسے میں اور ان دنوں ایک آنے میں مل رہا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ آپ نے اس کی قیمت بڑھا کر مجھ پر احسان کیا ہے۔ میں آپ کی طرح ریاضی میں ماہر نہیں
ترقی پسند غالب
پہلا منظر (باغ بہشت میں مرزا غالب کامحل۔ مرزا دیوان خانہ میں مسند پر بیٹھے ایک پری زاد کو کچھ لکھوا رہے ہیں، ساغر و مینا کا شغل جاری ہے۔ ایک حور ساقی کے فرائض انجام دے رہی ہے) (منشی ہر گوپال تفتہ داخل ہوتے ہیں) تفتہ آداب عرض پیرومرشد۔ یہ آج
بنانے کا فن
دوسروں کو بنانا، خاص کران لوگوں کوجوچالاک ہیں یا اپنے آپ کوچالاک سمجھتے ہیں، ایک فن ہے۔ آپ شاید سمجھتے ہوں گے کہ جس شخص نے بھی ’لومڑی اور کوّے‘ کی کہانی پڑھی ہے، وہ بخوبی کسی اور شخص کو بنا سکتا ہے۔ آپ غلطی پر ہیں۔ وہ کوّا جس کا ذکر کہانی میں کیا