میر سوز
غزل 17
اشعار 8
جس کا تجھ سا حبیب ہووے گا
کون اس کا رقیب ہووے گا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
گو نہیں طنبور ڈھولک ہی اٹھا لا مطربا
غنچوں کے چٹکے پہ ہر بلبل نے گائی ہے بسنت
تشریح
’’خدائے سخن’’ میرؔ کا مشہور بلکہ بدنام قول ہے کہ اس وقت(یعنی میر ؔ کے عہد میں) صرف ڈھائی شاعر ہیں۔ ایک خود میرؔ دوسرا سوداؔ اور آدھا میر دردؔ۔ کسی نے جب میرؔ صاحب سے سوز کے بارے میں پوچھا تو تیوری پر بل چڑھا کر بولے کہ خیر پونے تین سہی۔ یہ سچ ہے کہ کسی بڑے شاعر کے دور میں ایک معمولی درجے کے شاعر کو اپنی پہچان قائم کرنے میں مشکل پیش آتی ہے مگر میر سوز اتنے بھی گیے گزرے نہیں کہ پونے قرار دیے جائیں۔ یہ بھی سچ ہے کہ میر و غالب کے زمانے میں کتنے شاعر ایسے رہے ہونگے جن کا اب کوئی نام و نشان بھی باقی نہیں۔ اقبالؔ نے ’’کم عیار‘‘ کے لئے خوب فیصلہ سنایا ۔میرؔ کو یہ احساس بھی نہ رہا ہوگا کہ ان کے اس بیان سے سوز ؔ پر آنے والے وقتوں میں کیاگزرے گی۔ اس کی ایک مثال ملاحظہ فرمائیں۔ ڈاکٹر ظہیر احمد صدیقی دیوانِ سوزؔ کے دیباچے میں لکھتے ہیں:
’’میر سوز اس بزمِ ادب کے رکن تھے جس میں میر تقی میرؔ، سودا اور درد جیسے باکمال رونق افروز تھے۔ میر تقی میر کی جذبات نگاری، سودا کا زور تخیل اور درد کا عارفانہ انداز ہماری شاعری کی آبرو ہیں۔ سوز کے کلام میں یہ چیز تو پیدا نہ ہوسکی البتہ یہ حقیقت ہے کہ ان کی غزلوں میں سیدھے سادے خیالات، اسلوب کی سادگی، زبان کی صحت و صفائی کے ساتھ ملتے ہیں۔ جن کی بنا پر وہ اپنے رفقائے کار کے ساتھ بزم شعر میں بیٹھے ہوئے اجنبی نہیں معلوم ہوتے۔‘‘
چلیے کچھ دیر کے لئے’’میر کی جذبات نگاری‘‘، سودا کے’’زورِ تخیل‘‘ اور درد کے’’عارفانہ انداز‘‘ کو برداشت بھی کرتے ہیں مگر یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ موصوف کا ’’سیدھے سادے خیالات‘‘، اسلوب کی سادگی‘‘، ’’زبان کی صحت و صفائی‘‘سے کیا مراد ہے۔ اور یہ فیصلہ انہوں نے کس دلیل کی بنا پر کیا کہ ’’جذبات نگاری‘‘، ’’زور تخیل‘‘ اور عارفانہ انداز‘‘ ہماری شاعری کی آبرو ہے۔ اس حساب سے تو خود میر اور بعد میں غالب اور اقبال وغیرہ کی شاعری میں کوئی خاص بات نہیں۔ ظہیر صاحب نے بعد کے اقتباسات میں سوز کی شاعری کے بارے جو کچھ فرمایا ہے وہ نہایت عبرت ناک ہے۔
خود میرؔ کے بارے میں ’’نشتروں‘‘ کا مفروضہ قائم کرکے انہیں عام شاعروں کے کھاتے میں ڈال دیا گیا۔ یہ تو بھلا ہو شمس الرحمان فاروقی کا جنہوں نے قبر کھود کر میر ؔ کو باہر نکالا۔ ورنہ اب بھی ہمارے نقاد دور ہی سے’’تربتِ میرؔ‘‘ پر فاتحہ پڑھ کر منہ پر ہاتھ پھیر لیتے۔
میر سوز اتنے بھی کم عیار نہیں تھے کہ انہیں ’’میرومرزارفیع و خواجہ میر‘‘ کا قرب حاصل نہیں ہوسکتا۔؎
کیا رہا ہے مشاعرے میں اب
لوگ کچھ جمع آن ہوتے ہیں
میرومرزا رفیع وخواجہ میر
کتنے اک یہ جوان ہوتے ہیں
(میر تقی میرؔ)
یہ امر تحقیق طلب ہے کہ سوز کی جو غزل میں اب درج کررہا ہوں وہ انہوں نے میر کے منقولہ بالا اشعار کے بعد کہی ہے یا اس سے قبل۔ مگر اتنا ضرور ہے کہ کسر نفسی کے پردے میں دراصل سوز نے بے اعتنائی کا گلا کیا ہے۔ اس پوری غزل کا لہجہ شکایتی ہے؎
صاحبو! تم سے راست کہتا ہوں
شاعری سے مجھے ہے کیا نسبت
یار آپس میں بیٹھتے تھے کبھی
دل خوشی کو وہ بولتے تھے جگت
میں انھوں میں تھا سب کا چہتایا
وہ دلاتے مجھے بہت غیرت
کہ تجھے بات بھی نہیں آتی
کیوں کہ بر آئے تجھ سے یہ صحبت
یا تو ہم سے کیا کرو باتیں
یا ہمیں جانتے ہو بے غیرت
تب سے میں ناچار ہوکے کرنے لگا
انھیں باتوں کو بیت کی صورت
بسکہ موزون تھے وہ صاحب لوگ
مجھ کو بھی اتنی ہوگئی قدرت
کہ لگا کرنے بات کو موزوں
شاعری میں ملی مجھے شرکت
ورنہ میں اور شاعری توبہ
یہ بھی سب صاحبوں کی ہے دولت
’’صاحب‘‘ سے سوز کی کیا مراد ہے یہ بات عام آدمی کو بھی سمجھ آئے گی۔ اتنا ہی نہیں بلکہ طنز کی لطیف کیفیت کو بھی محسوس کیا جاسکتا ہے۔
قصّہ یہ ہے کہ اردوکے بیشتر ناقدین نے یا تو اوروں کے مفروضوں یا پھر اپنے مفروضوں میں پناہ لے کر اپنی تساہل پسندی کو چھپایا۔ اب ذرا غور فرمائیے؎
سوراخ ایک ہو تو اسے بند کیجیے
دل تو تمام خانۂ زنبور ہوگیا
روئے گا عشق مجھ کو سر خاک ڈال اپنے
مرنے کا میرے تجھ کو کاہے کو غم رہے گا
سحر رکھ تیغ کاندھے پر جو وہ دامن کشاں نکلا
لبِ ہر زخم سے اس وقت شور الاماں نکلا
یہ تینوں شعر میں نے سرسری طور پر دیوانِ سوز سے نکالے۔ ممکن ہے آپ میرے خیال سے اتفاق نہیں کریں گے کہ پہلے دو اشعار کیفیت کے اعتبار سے میرؔ سے کچھ کم نہیں۔ تیسرے شعر کا مزاج غالب کے شاعرانہ مزاج سے ملتا ہے۔
میری مراد سوز کی شاعرانہ اہمیت کو اجاگر کرکے انہیں قربِ میر و سودا کے اعزاز سے سرفراز کرنا نہیں ہے بلکہ میرا کام شعر کی تشریح کرنا ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ میرے موضوع کی مناسبت سے سوز کے دیوان میں صرف ایک ہی شعر برآمد ہوا۔ ہوسکتا ہے اور بھی اشعار ہوں جن پر میری نظر نہیں پڑی۔
زیرِ نظر شعر کی لغات پر غور کرتے ہیں:
طنبور یا تنبور: ہندوستانی موسیقی میں تان پورے کو کہتے ہیں۔ اسے طنبورا یا تنبورا بھی کہتے ہیں۔ مگر ہمارے شاعروں نے جس طنبورے کا ذکر کیا ہے وہ چغانہ کی طرح کا ایک تار دار ساز ہے اور اسے ستار کی طرح مضراب سے بجایا جاتا ہے۔ تنبوریا طنبور ایک آلۂ تال کو بھی کہتے ہیں۔ یہ فرانس کا قدیم آلۂ تال ہے۔ غالباً وہیں سے عرب پہنچا ہو۔ یہ ایک قسم کا گول دف ہوتا ہے اور اس کے حاشیے پر جھنجھنانے والے دھاتی پترے بھی لٹکے ہوتے ہیں۔ اسے خنجری بھی کہتے ہیں۔
بسنت: ایک راگنی جو دھنا سری اور کانہرا سے مرکب ہے۔ اس کے گانے بجانے کا وقت صبح ہے۔
شعر میں دو کیفیات موجود ہیں۔ ایک ثقیل اور دوسری لطیف۔ طنبور کے مقابلے میں ڈھول ایک قسم کی ناگورا کیفیت کو جنم دیتا ہے۔ جبکہ غنچوں کے چٹکنے اور راگ بسنت سے ایک خوشگوار تاثر پیدا ہوتا ہے۔ شعر میں کئی کردار موجود ہیں۔ متکلم، مطرب اور بلبلیں۔مگر سارا ماجرا غنچوں کے چٹکنے کا ہے۔ شاعروں کے مطابق جب غنچے چٹکتے ہیں تو ایک آواز خوشنما پیدا ہوتی ہے۔ یہی خوشنما آواز بلبلوں کو بہاریہ نغمہ چھیڑنے کی ترغیب دیتی ہے۔ اسماعیل میرٹھی نے کیا خوب کہا ہے؎
جب غنچہ کو واشد ہوئی تحریک صبا سے
بلبل سے عجب کیا جو کرے نغمہ سرائی
اس محفل راگ و رنگ میں متکلم بھی موجود ہے جو مطرب کو بلبلوں کا ہم ساز و ہم آواز ہونے کی ترغیب دے رہا ہے۔ مگرمطرب کے پاس تال دینے کے لئے ڈھولک ہی ہے۔ اور چونکہ وہ غنچوں کے چٹکنے اور بلبل کی نغمہ ریزی کی نزاکت اور لطافت سے واقف ہے اس لئے اسے ڈھولک بجانے میں تامل ہے۔ مگر متکلم کا اضطراب بھی دیکھنے کی چیز ہے کہ وہ بخوبی واقف ہے کہ غنچوں کے چٹکنے اور بلبلوں کی نغمہ سرائی کا وقفہ بہت مختصر ہے۔یاد رکھیں کہ راگ بسنت کے گانے بجانے کا وقت صبح ہے۔ اس لئے بیتابی میں مطرب سے طنبور کے بجائے ڈھولک سے ہی کام لینے پر اصرار کرتا ہے۔ اس میں ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ جب غنچے چٹکتے ہیں تو جو آواز نکلتی ہے وہ اس آواز کے مماثل ہوتی ہے جو دہکتے انگاروں پر جلتے ہوئے اسپند کے دانوں سے آتی ہے۔ بالکل جیسے انگلیوں کے چٹخنے سے آتی ہے۔ اس آواز میں سُر کی کیفیت نہیں ہوتی بلکہ اسے تال کی آواز سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ اب جبکہ کلیوں نے تال بجائی اور اس تال پر بلبلوں نے بسنت راگنی چھیڑی تو مطرب کے نغمے میں بلبلوں کے نغموں جیسی مٹھاس تو ہے مگر تال دینے کے لئے طنبور جو کہ نہایت لطیف آلۂ تال ہے، نہیں ہے اسی لئے اسے راگ اور رنگ کی اس محفل میں شامل ہونے میں تامل ہے۔
شعرمیں غضب کے سمعی،شامی، بصری اور حرکی پیکر موجود ہیں۔ ’’غنچوں کے چٹکنے‘‘ اور ’’بلبل کے بسنت گانے‘‘ میں جو منظر نگاری ہے وہ کمال تو ہے ہی مگر ’’ڈھولک ہی اٹھا لا‘‘ میں جو ولولہ خیزی ہے اس کا بھی جواب نہیں۔
شفق سوپوری