تمام
تعارف
غزل343
نظم2
شعر246
ای-کتاب153
ٹاپ ٢٠ شاعری 20
تصویری شاعری 31
آڈیو 47
ویڈیو 46
مرثیہ34
قطعہ27
رباعی104
بلاگ8
دیگر
کلیات1896
قصیدہ8
نعت1
سلام7
منقبت15
مخمس4
رباعی مستزاد1
خود نوشت سوانح5
مثنوی37
واسوخت4
تضمین4
ترکیب بند2
میر تقی میر
غزل 343
نظم 2
اشعار 246
نازکی اس کے لب کی کیا کہئے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
تشریح
میر اپنی سہل شاعری میں کوئی ثانی نہیں رکھتے ہیں۔ جس سہولت سچائی اور آسانی کے ساتھ وہ مضامین کو بیان کرنے کی قدرت رکھتے ہیں اس کی مثال مشکل ہی سے ملتی ہے۔
اس شعر میں میر نے بڑی معصومیت اور سادگی کے ساتھ اپنے محبوب کے حسن کی تعریف بیان کی ہے۔ ظاہر ہے کہ حسن کی تعریف کے بیان میں محبوب کے ہونٹوں کا بیان بہت اہم شے ہے۔ میر اپنے محبوب کے ہونٹوں کی نازکی ملائمیت یا softness کو بیان کرتے ہوئے تشبیہ دیتے ہیں اور وہ تشبیہ گلاب کے پھول کی پنکھڑی سے دیتے ہیں۔ گلاب کی پنکھڑی بہت نازک ہوتی ہیں، بہت نرم ہوتی ہیں اتنی نرم اور اتنی نازک ہوتی ہیں کہ میر کو اپنے محبوب کے ہونٹوں کی بناوٹ بالکل گلاب کی پنکھڑی کی مانند نظر آتی ہے ۔petals of the rose انتہائی مناسب تشبیہ ہے، جو محبوب کے ہونٹوں کے لیے دی جاسکتی ہے اور میر نے اس مناسب ترین تشبیہ کا استعمال کر کے یہ ثابت کر دیا کہ اُپما کے چناؤ میں بھی ان کا کوئی بدل نہیں ہے ۔
آسان لفظوں میں کہا جائے تو بات صاف سمجھ میں آتی ہے کہ میر اپنے محبوب کے ہونٹوں کو گلاب کی پنکھڑی کی طرح محسوس کرتے ہیں اس کی نازکی کی یا اس کی ملائمیت یا softness کی وجہ سے اور اس طرح اس تشبیہ نے محبوب کے حسن کا بہترین نقشہ کھینچ دیا ہے۔
سہیل آزاد
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہ شیشہ گری کا
تشریح
اسی مضمون کو انہیں پیکروں کے ساتھ دیوان اوّل میں ایک جگہ اور لکھا ہے؎
ہر دم قدم کو اپنے رکھ احتیاط سے یاں
یہ کارگاہ ساری دکان شیشہ گر ہے
لیکن ’’لے سانس بھی آہستہ۔۔۔‘‘ بہت بہتر شعر ہے، کیونکہ اس میں ’’سانس‘‘ کا لفظ شیشہ گری سے خاص مناسبت رکھتا ہے۔ (پگھلے ہوئے شیشے کو نلکی کے سرے پر رکھ کر پھونکتے ہیں اور اس طرح اسے مختلف شکلیں دیتے ہیں۔) زور کی ہوا چلے تو شیشے کی چیزیں گر کر یا آپس میں ٹکرا کر ٹوٹ جاتی ہیں، اور آفاق کی کارگاہ شیشہ گری میں ایسے نازک کام ہوتے ہیں کہ تیز سانس بھی ان کے لئے زور کی ہوا کا حکم رکھتی ہے۔ ’’ہردم قدم کو اپنے‘‘ میں لفظ ’’دم‘‘ کے ذریعہ سانس کی طرف اشارہ کیا ہے، اور ’’دم قدم‘‘ میں بھی ایک لطف ہے، لیکن یہ دونوں چیزیں ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ کے برابر بلاغت کی حامل نہیں ہیں۔ شعر کا مفہوم یہ ہے کہ صاحب نظر کائنات کو دیکھتا ہے تو اس کی رنگا رنگی اور پیچ در پیچ نزاکت کو دیکھ کر حیرت میں آ جاتا ہے۔ ہر چیز انتظام سے چل رہی ہے، کہیں کوئی انتشار نہیں، معلوم ہوتا ہے کوئی بہت ہی نازک اور پیچیدہ کارخانہ ہے۔ صاحب نظر کو محسوس ہوتا ہے کہ اگر زور کی سانس بھی لی تو یہ سب درہم برہم ہوجائے گا۔ یا شاید یہ سب کچھ ایک خواب ہے، جو ذرا سے اشارے پر برہم اور منتشر ہوسکتا ہے۔ اقبال کا مندرجہ ذیل شعر میر کے شعر زیر بحث سے براہ راست مستعار معلوم ہوتا ہے۔ لیکن اقبال کا شعر غیر ضروری وضاحت اور خطابیہ انداز بیان کے باعث ناکام ٹھہرتا ہے؎
زندگی کی رہ میں چل لیکن ذرا بچ بچ کے چل
یہ سمجھ لے کوئی مینا خانہ باردوش ہے
(بانگ درا۔ حصہ سوم)
اقبال کے شعر پر قائم چاند پوری کے ایک شعر کا بھی پرتو نظر آتا ہے۔ ممکن ہے قائم نے بھی میر سے استفادہ کیا ہو، قائم؎
یہ دہر ہے کار گاہ مینا
جو پاؤں رکھے سویاں تو ڈر کر
میر کے شعرِ زیر بحث اور قائم کے مندرجہ بالا شعر پر میں نے ’’شعر غیر شعر اور نثر‘‘ میں بھی کچھ اظہار خیال کیا ہے۔ قائم نے ایک اور جگہ میرسے ملتا جلتا مضمون باندھا ہے؎
غافل قدم کو رکھیو اپنے سنبھال کر یاں
ہر سنگ رہگذر کا دکان شیشہ گر ہے
یہاں قائم کا خطابیہ لہجہ شعر کے زور میں مخل ہے اور مصرع ثانی کا انکشافی انداز بھی لفظ ’’غافل‘‘ کو سنبھالنے کے لئے ناکافی ہے۔
نثار احمد فاروقی نے یہ نکتہ پیدا کیا ہے کہ اگر اس شعر کو تصوف پر محمول کیا جائے تو اس میں ’’پاس انفاس‘‘ اور ’’ہوش دردم‘‘ کے اشارے دیکھے جا سکتے ہیں۔ لیکن یہ نکتہ دورازکار معلوم ہوتا ہے کیوں کہ پاس انفاس اور ہوش دردم صوفیانہ افکار و اعمال ہیں، ان کے حوالے سے آفاق کے کاموں کا نازک ہونا نہیں ثابت ہوتا۔
شمس الرحمن فاروقی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
تشریح
یہ میر تقی میر کے مشہور اشعار میں سے ایک ہے۔ اس شعر کی بنیاد ’’مت سہل ہمیں جانو‘‘ پر ہے۔ سہل کا مطلب آسان بھی ہے اور کم تر بھی۔ مگر اس شعر میں یہ لفظ کم تر کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ فلک کا مطلب آسمان ہے اور فلک کے پھرنے سے مراد گشت کرنے کا بھی ہیں اور مارا مارا پھرنے کے بھی۔ مگر اس شعر میں فلک کے پھرنے سے غالب مراد مارامارا پھرنے کے ہی ہیں۔ خاک کا مطلب زمین ہے اور خاک کا لفظ میر نے اس لئے استعمال کیا ہے کہ انسان کو خاک سے بنا ہوا یعنی خاکی کہا جاتا ہے۔
شعر میں خاص بات یہ کہ شاعر نے ’’فلک‘‘، ’’خاک‘‘ اور ’’انسان‘‘ کے الفاظ سے بہت کمال کا خیال پیش کیا ہے۔ شعر کے قریب کے معنی تو یہ ہوئے کہ اے انسان ! ہم جیسے لوگوں کو سہل مت سمجھو، ہم جیسے لوگ تب خاک سے پیدا ہوتے ہیں جب آسمان برسوں تک بھٹکتا ہے۔
لیکن شاعر اصل میں یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہم جیسے باکمال لوگ روز روز پیدا نہیں ہوتے بلکہ جب آسمان برسوں مارا مارا پھرتا ہے تب ہم جیسے لوگ پیدا ہوتے ہیں۔ اس لئے ہمیں کم تر یا کم مایہ مت جانو۔ یعنی جب آسمان برسوں تک ہم جیسے باکمال لوگوں کو پیدا کرنے کے لئے مارا مارا پھرتا ہے تب کہیں جا کر ہم خاک کے پردے سے پیدا ہوتے ہیں۔
اس شعر میں لفظ انسان سے دو مطلب برآمد ہوتے ہیں یعنی ایک یعنی باکمال، یا ہنر اور با صلاحیت آدمی۔ دوسرا انسانیت سے بھرپور آدمی۔
شفق سوپوری
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
میرؔ کے دین و مذہب کو اب پوچھتے کیا ہو ان نے تو
قشقہ کھینچا دیر میں بیٹھا کب کا ترک اسلام کیا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
مرثیہ 34
قطعہ 27
رباعی 104
کلیات 1896
کتاب 153
تصویری شاعری 31
جن کے لیے اپنے تو یوں جان نکلتے ہیں اس راہ میں وے جیسے انجان نکلتے ہیں کیا تیر_ستم اس کے سینے میں بھی ٹوٹے تھے جس زخم کو چیروں ہوں پیکان نکلتے ہیں مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں کس کا ہے قماش ایسا گودڑ بھرے ہیں سارے دیکھو نہ جو لوگوں کے دیوان نکلتے ہیں گہ لوہو ٹپکتا ہے گہ لخت_دل آنکھوں سے یا ٹکڑے جگر ہی کے ہر آن نکلتے ہیں کریے تو گلہ کس سے جیسی تھی ہمیں خواہش اب ویسے ہی یہ اپنے ارمان نکلتے ہیں جاگہ سے بھی جاتے ہو منہ سے بھی خشن ہو کر وے حرف نہیں ہیں جو شایان نکلتے ہیں سو کاہے کو اپنی تو جوگی کی سی پھیری ہے برسوں میں کبھو ایدھر ہم آن نکلتے ہیں ان آئینہ_رویوں کے کیا میرؔ بھی عاشق ہیں جب گھر سے نکلتے ہیں حیران نکلتے ہیں
کچھ کرو فکر مجھ دوانے کی دھوم ہے پھر بہار آنے کی دل کا اس کنج_لب سے دے ہے نشاں بات لگتی تو ہے ٹھکانے کی وہ جو پھرتا ہے مجھ سے دور ہی دور ہے یہ تقریب جی کے جانے کی تیز یوں ہی نہ تھی شب آتش_شوق تھی خبر گرم اس کے آنے کی خضر اس خط_سبز پر تو موا دھن ہے اب اپنے زہر کھانے کی دل_صد_چاک باب_زلف ہے لیک باؤ سی بندھ رہی ہے شانے کی کسو کم_ظرف نے لگائی آہ تجھ سے مے_خانے کے جلانے کی ورنہ اے شیخ_شہر واجب تھی جام_داری شراب_خانے کی جو ہے سو پائمال_غم ہے میرؔ چال بے_ڈول ہے زمانے کی