سر سید احمد خاں کے اقوال
میں اپنی زبان سے وہ مراد لیتا ہوں جو کسی ملک میں اس طرح پر مستعمل ہو کہ ہر شخص اس کو سمجھتا ہو اور وہ اس میں بات چیت کرتا ہو۔ خواہ وہ اس ملک کی اصلی زبان ہو یا نہ ہو اور اسی زبان پر میں ورنیکلر کے لفظ کا استعمال کرتا ہوں۔
(تقریر بنارس، ۲۰ ستمبر 1867ء)
بے علمی مفلسی کی ماں ہے۔ جس قوم میں علم و ہنر نہیں رہتا وہاں مفلسی آتی ہے اور جب مفلسی آتی ہے تو ہزاروں جرموں کے سرزد ہونے کا باعث ہوتی ہے۔
(تقریر جلسۂ عظیم آباد پٹنہ، 26 مئی)
بڑے بڑے حکیم اور عالم ، ولی و ابدال، نیک و عقلمند، بہادر و نامور ایک گنوار آدمی کی سی صورت میں چھپے ہوئے ہوتے ہیں مگر ان کی یہ تمام خوبیاں عمدہ تعلیم کے ذریعے سے ظاہر ہوتی ہیں۔
(تہذیب الاخلاق بابت یکم شوال 1289 ہجری)
ہمارے کلام میں وہ الفاظ جو مہذبانہ گفتگو میں ہوتے ہیں، نہایت کم مستعمل ہیں اور اس لیے اس کی اصلاح کی بہت ضرورت ہے۔
لہجہ: اس کو بھی تہذیب میں بڑا دخل ہے۔ اکھڑ لہجہ اس قسم کی آواز جس سے شبہ ہو کہ آدمی بولتے ہیں یا جانور لڑتے ہیں، ناشایستہ ہونے کی نشانی ہے۔
سب سے بڑا عیب ہم میں خود غرضی کا ہے اور یہی مقدم سبب قومی ذلت اور نامہذب ہونے کا ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کو ضرور ہے کہ رفاہ عام کا جوش دل میں پیدا کریں اور یقین جانیں کہ خود غرضی سے تمام قوم کی اور اس کے ساتھ اپنی بھی بربادی ہوگی۔
رایوں کے بند رہنے سے تمام انسانوں کی حق تلفی ہوتی ہے اور کل انسانوں کو نقصان پہنچتا ہے اور نہ صرف موجود انسانوں کو، بلکہ اُن کو بھی جو آئندہ پیدا ہوں گے۔
ہم لوگ آپس میں کسی کو ہندو، کسی کو مسلمان کہیں مگر غیر ملک میں ہم سب نیٹو (Native) یعنی ہندوستانی کہلائے جاتے ہیں۔ غیر ملک والے خدابخش اور گنگا رام دونوں کو ہندوستانی کہتے ہیں۔
(تقریر سر سید، جو انجمن اسلامیہ، امرتسر کے ایڈریس کے جواب میں 26 جنوری 1884ء کو کی گئی)