آصف فرخی کے اقوال
زندگی اتنی آسان نہیں جتنا کھیتوں سے گزرنا۔ اور کہانیاں کہنا بھی اتنا آسان نہیں جیسے دھوپ میں کھیلتے بچے۔
کہانی کبھی حاصل ہوتی ہے، کبھی حاصل کی جاتی ہے، کبھی سڑک پر پڑے ہوئے ہیرے کی طرح مل جاتی ہے۔
پرانے زمانے میں دستور تھا کہ کارواں کے پیچھے ایک آدمی چلتا تھا جس کے ذمے یہ دیکھنا بھالنا تھا کہ قافلے والوں کی کوئی چیز گری رہ جائے یا قافلے سے کوئی بچھڑ جائے تو یہ اٹھاتا جائے۔ میں اردو افسانے میں یہی کام رہا ہوں۔ سڑک کے کنارے بیٹھ کر کوڑیوں کے مول ہیرے بیچتا ہوں اور آتش فشاں پر گلاب اگاتا ہوں۔
فکشن کی معنویت کا بڑا حصہ تو ان رشتوں میں ہوتا ہے جو مصنف کو اشیاء کے درمیان نظر آتے ہیں۔