سید محمد اشرف کے افسانے
آدمی
کھڑکی کے نیچے انہیں گزرتا ہوا دیکھتا رہا۔ پھر یکایک کھڑکی زور سے بندکی۔ مڑکر پنکھے کا بٹن آن کیا۔ پھرپنکھے کا بٹن آف کیا۔ میز کے پاس کرسی پہ ٹک کردھیمے سے بولا، ’’آج توکل سے بھی زیادہ ہیں۔ روز بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔‘‘ سرفرازنے ہتھیلیوں پرسے سر اٹھایا
قربانی کا جانور
ظفر بھونچکا بیٹھا تھا۔ عائشہ نے سویوں کا پیالہ ہاتھ میں دیتے ہوئے پوچھا، ’’پھر کیا کہا میڈم نے؟‘‘ ’’کہا کہ لڑکا ۱۴-۱۳سال کا ہو۔ کسی اچھے گھرکاہو، گھریلو کام کاج کا تھوڑا بہت تجربہ ہو۔ آنکھ نہ ملاتا ہو۔ صاف ستھرا رہتا ہو، تنخواہ زیادہ نہ مانگے۔ ناغہ
ڈار سے بچھڑے
شروع جنوری کے آسمان میں ٹکے ستاروں کی جگمگاہٹ کہرے کی موٹی تہہ میں کہیں کہیں جھلک رہی تھی۔ جیپ کی ہیڈ لائٹس کی دو موٹی موٹی متوازی لکیریں آگے بڑھ رہی تھیں۔ سڑک بالکل سنسان تھی۔ چاروں طرف سناٹا تھا۔ سناٹے کے علاوہ اور کوئی نہیں تھا، یا پھر جیپ کے انجن
لکڑبگھا رویا
کپتان پولس سے لکڑبگھا زندہ پکڑلانے کے اس کارنامے پرشاباشی اورانعام لینا ہے۔ اس خواہش کے نشے میں وہ ہجوم ایسا بے حواس ہوا کہ یہ بھی نہیں سوچا کہ ان کا بنگلہ آباد ی سے پرے جنگل کے راستے میں ہے اور جنگل دیکھ کر اس کی وحشت بھڑک بھی سکتی ہے۔ اور یہی ہوا۔
آخری بن باس
کانس کی جھاڑیوں کے درمیان کچے دگڑے پر یکے نے موڑ کاٹا، کالی ندی کے پل کو پارکیا اور پھر چار کوس کا راستہ اتنی تیزی سے پورا کیا کہ یکے میں بیٹھی اکلوتی سواری۔۔۔ بوڑھے سادھو جیسے آدمی کے ماتھے پر درد کی لکیریں اور گہری پڑگئیں۔ اب سامنے میدان کی سب سے
لکڑبگھا ہنسا
کھڑکی کے نیم تاریک شیشوں کے پرے بچی کھچی رات تیزاور سردہواؤں کے ساتھ بہتی رہی، کمرے کےاندربہت حبس تھا اور نیلے بلب کی مدھم روشنی بہت ہیبت ناک اورپراسرارمحسوس ہورہی تھی۔ منو بھیا کے علاوہ سب لوگ اپنے اپنے بستروں پر پڑے جاگ رہے تھے۔ سب کومعلوم تھا کہ
قدیم معبدوں کا محافظ
(نذر نیر مسعود) پرانی عبادت گاہوں میں جانا، ان کے درودیوار کو دیرتک دیکھتے رہنا اور ان کے اندرونی نیم تاریک نم حصوں میں پہنچ کر سونگھ سونگھ کر پرانے پن کومحسوس کرنا میرا بچپن کا مشغلہ ہے۔ ایسا میں جب کرتا ہوں جب غروب کا وقت ہوتا ہے اوراندھیرے
جنرل نالج سے باہر کا سوال
گول چبوترے پرکھڑے ہوکر چاروں راستےصاف نظرآتے ہیں، جن پر راہ گیر سواریاں اورخوانچے والے چلتے رہتے ہیں۔ چبوترے پرجو بوڑھا آدمی لیٹا ہے، اس کے کپڑے جگہ جگہ سے پھٹےہیں۔ کہیں کہیں پیوند بھی لگے ہیں۔ اس کی داڑھی بےتریب ہے اورچہرے پرلاتعداد شکنیں ہیں۔ آنکھوں
باد صبا کا انتظار
ڈاکٹر آبادی میں داخل ہوا۔ راستے کے دونوں جانب اونچے کشادہ چبوتروں کا سلسلہ اس عمار ت تک چلا گیا تھا جو ککیا اینٹ کی تھی جس پر چونے سے قلعی کی گئی تھی۔ چبوتروں پر انواع و اقسام کے سامان ایک ایسی ترتیب سے رکھے تھے کہ دیکھنے والوں کو معلوم کئے بغیر
آخری موڑ پر
خودغرضی، مفاد پرستی، سماجی بے حسی اور رشتوں کی ارزانی اس کہانی کا موضوع ہے۔ ایک بے اولاد بوڑھے کی جائداد کی وصیت کا بیع نامہ کرانے کے لئے اس کے تین بھتیجے اور بھتیجی ٹرین سے سفر کرتے ہیں۔ چچا کی دلی خواہش ہے کہ جب ان کا انتقال ہو تو ان کو باعزت طریقے سے ان کے آباء و اجداد کے ساتھ دفن کر دیا جائے۔ اسی ضمن میں مختلف مسافر جانوروں اور پرندوں کی دردمندی اور دکھ درد میں ان کی باہمی شرکت کا ذکر کرتے ہیں لیکن ان نوجوانوں کو اس قسم کا کوئی واقعہ یاد نہیں آتا۔ ٹرین سے اتر کر جب وہ بس میں سوار ہونے والے ہوتے ہیں تو ایک ٹرک ایک شخص کو روندتا ہوا گزر جاتا ہے۔ اس حادثہ کا بھی نوجوان ذرہ برابر نوٹس نہیں لیتے لیکن بوڑھا بریف کیس اور کمبل فرش پر ڈال کر بری طرح رونے لگتا ہے۔
لکڑبگھا چپ ہو گیا
کہانی انسان کی خود غرضی کی عبرت ناک داستان ہے۔ لکڑ بگھے کو علامت بنا کر انسان کی کمینگیوں کو نمایاں کیا گیا ہے۔ بارش میں بھیگتا ہوا ایک کمزور اور مفلوک الحال آدمی ٹرین کے مسافروں سے التجا کرتا ہے کہ اس کا بھائی سخت بیمار ہے وہ اس کے لئے خون کی بوتل لے جا رہا ہے، کوچ کا دروازہ کھول کر اس پر رحم کیا جائے۔ بڑی عمر کے لوگ تو کشمکش کی حالت میں رہتے ہیں لیکن ایک معصوم بچہ ہمدردی کے جذبات سے مغلوب ہو کر دروازہ کھول دیتا ہے۔کچھ دیر کے بعد دوسرا شخص بالکل اسی پریشانی کے عالم میں دروازہ کھولنے کے لئے گڑگڑاتا ہے لیکن پہلے والا شخص خود کو کمفرٹ زون میں محسوس کرتا ہے اور اس کی آہ و بکا سے اس کے کان پر جوں بھی نہیں رینگتی۔ وہ اپنے شانے سے اس کا ہاتھ ہٹا کر کھڑکی کا شیشہ گرا دیتا ہے۔ معصوم بچہ کو اس آدمی کی شکل لکڑ بگھے سے مشابہ معلوم ہوتی ہے۔
اندھا اونٹ
معاشی سطح پر تفریق کی وجہ سے پیدا ہونے والی حساسیت کی کہانی ہے۔ اکرم ثروت مند ہے اور یوسف کمزور۔ یوسف ہمیشہ اکرم کے معمولی معمولی کام کی تعریف کرتا ہے لیکن اکرم ہمیشہ اسے زک پہنچاتا ہے۔ تلاش معاش دونوں کو الگ کر دیتی ہے۔ ایک طویل مدت کے بعد کلرک اکرم کو جب اس کی رائٹنگ پر ٹوکا جاتا ہے تو وہ یوسف کو یاد کرتا ہے کہ وہ کس طرح اس کی رائٹنگ کی تعریفیں کیا کرتا تھا۔ دوسری طرف جب کشتی ران یوسف کو ایک سیاح انگریزی سے ناواقفیت کا طعنہ دیتا اور جاہل کہتا ہے تو وہ اپنے تعلیم یافتہ ہونے کی سند لینے گاؤں لوٹ آتا ہے۔ وہ دونوں جب ملتے ہیں تو اپنی عملی زندگی کی ناکامیوں کو شئیر کرتے ہیں۔ یوسف تو خیر بچپن سے صدمے برداشت کرنے کا عادی تھا لیکن اکرم کو اب جو صدمہ ہوا تو دونوں حساسیت اور بے بسی کی ایک سطح پر آ گئے۔ یوسف کہتا ہے کہ اندھا اونٹ مجھے پامال کر رہا ہے اور تمہیں بھی اس نے روند دیا ہے۔ اندھا اونٹ اس افسانے میں وقت کا استعارہ ہے۔
طوفان
یہ کہانی دم توڑتی ہوئی انسانیت کا نوحہ ہے۔ طوفان آنے کے بعد جہاں ایک جانب سرکاری ریلیف کی بندر بانٹ شروع ہو جاتی ہے وہیں دوسری طرف غیر سرکاری تنظیمیں بھی لاشوں اور یتیم بچوں کا سہارا لے کر اپنی اپنی دکان چمکاتی ہیں۔ آرادھنا ایک سادہ اور دردمند دل رکھنے والی عورت ہے۔ وہ ایک غیر سرکاری تنظیم میں شریک ہو کر رضاکارانہ طور پر پچاس بچوں کی ذمہ داری اپنے سر لیتی ہے۔ وہ اپنی ذہانت و محنت سے سارے یتیم بچوں کے چہروں پر مسکراہٹ لے آتی ہے۔ چندہ کے لئے جب گروپ فوٹو کھینچا جاتا ہے تو سارے بچے مسکراتے ہیں لیکن اسی بات پر ایک عہدہ دار چراغ پا ہو جاتا ہے کہ یہ بچے مسکرائے کیوں۔ اب کون اس کی تنظیم کو چندہ دے گا۔ وہ بچوں کو ڈانٹ کر دوبارہ گروپ فوٹو بنواتا ہے جس میں سارے بچے سہمے ہوئے کھڑے ہوتے ہیں۔ فوٹو کھنچوانے کے بعد ایک بچی پورنیما آرادھنا کے پاس آتی ہے اور معصومیت سے سوال کرتی ہے کہ آنٹی اب ہمیں مسکرانا ہے یا چپ رہنا ہے۔