عالیہ
”انٹرویو والے روزمیں ویٹنگ روم میں بے چینی سے اپنی باری کا انتظار کررہا تھا کہ دفعتاًایک طویل قامت اورقدرے پتلی جسامت والی ایک جوان خاتون جھٹ سے اندر آگئی اور میرے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گئی۔ اس نے نسبتاً چست لباس پہن رکھا تھا اور سفید رنگ کا پتلادوپٹہ گلے میں لٹکایا ہوا تھا۔ اس کے جوتے ارغوانی رنگ کے تھے اور اس کے ایک ہاتھ میں سفید ہینڈ بیگ اور دوسرے ہاتھ میں خاکستری رنگ کی ایک فائل تھی۔
میری دلچسپی اس خاتون میں کچھ ایسی بڑھی کہ میں انٹرویو کے متعلق سب کچھ بھول بھال گیا اور میں جو کرسی میں ڈھیلا بیٹھا تھا، تن کر اور ذرا آگے جھک کر بیٹھ گیا۔
اب جو میں نے غور کیا تو دیکھا کہ اس نے اپنے پتلے اور نازک ہونٹوں پر ہلکے رنگ کی سرخی لگائی ہوئی تھی اور اس کے کانوں میں چاندی کی دائرہ نما بڑی بڑی پتلی بالیاں تھیں۔
سچ پوچھو تو مجھے اس کے لباس، ہونٹوں کی سرخی، بالیوں اور جوتوں کے رنگ میں کوئی خاص ربط سمجھ میں نہیں آیا لیکن ان لڑکیوں کے فیشن وغیرہ۔۔۔ منیب بھائی تمھیں تو پتہ ہی ہے۔
خیر جس بات پر میں چونکا وہ یہ تھی کہ میری تیز نظروں کے باوجود اس نے میری طرف ذرہ برابر بھی توجہ نہ کی، بلکہ فائل کی ورق گردانی میں مصروف رہی۔ میں ابھی اس نظارے سے محظوظ ہی ہو رہا تھا کہ اتنے میں اردلی نے اس کا نام پکارا اور پشتو نما لہجے میں قدرے اونچی آواز میں کہا،
”عالیہ صیبہ (صاحبہ)!آپ انٹرویو کے لئے اندر آجاو۔“
وہ ایک شان استغنا سے اٹھی، بالوں میں جلدی جلدی ہاتھ پھیرا، گردن ہلائی اور پھر ایک چھوٹے بیضوی قسم کے دستی آئینے میں اپنی شکل دیکھی، ہونٹوں کی سرخی تازہ کی، ان کو ملایا اور ہلکی آواز کے ساتھ دائرے کی شکل میں منہ کھول کر دوبارہ اپنے پورے چہرے کو دیکھا اور اپنی توجہ بٹائے بغیر، فوراً انٹرویو والے کے کمرے کے اندر چلی گئی۔
منیب میرے بھائی! یہ سب کچھ اتنی سرعت سے ہوا کہ مجھے اس کے جانے کے بعد محسوس ہوا جیسے میں یکدم بے جان سا ہوگیا ہوں۔“
بات چل پڑی توعباس کچھ کھلا اور جہاں مجھے کچھ سننے کو ملا وہاں یہ بھی پتا چلا کہ اب وہ کراچی نہیں رہے گا کیونکہ بقول اس کے، اس نے اپنی ملازمت چھوڑ دی تھی یا بہت ممکن ہے کہ اس کی ملازمت کی معیاد ختم ہو چکی تھی۔ آج صبح صبح اس کا فون آیا اور اس نے ایک بہت ہی ضروری بات بتانے کے لئے مجھے اپنے فلیٹ پر بلایا۔
یہ بات وہ صرف مجھے ہی بتانا چاہتا تھا۔۔۔ وہ بھی رو بہ رو۔
جب میں اس سے ملا تو اس کی ہوائیاں اڑی ہوئی تھیں اور یوں مجھے معاملے کی نزاکت کا درست اندازہ لگانے میں زیادہ دیر نہیں لگی۔ کوئی تو بات تھی جس سبب عباس اس قدر پریشان تھا۔
یار اچھا ہوا آپ آگئے۔
اس نے قدرے دھیمی آواز میں کہا۔
میں نے دیکھا کہ اس کی مٹھیاں تقریباً بھنچی ہوئی تھیں، بالوں میں جیسے ہفتوں سے کنگھی نہیں ہوئی تھی۔۔۔ ایک آستین ادھ چڑھی۔۔۔ دوسری، بغیر بٹن کے۔۔۔ چہرے پر شدید تناو کے آثار۔۔۔ اور وہ اپنے فلیٹ کے نیم کھلے دروازے کے پیچھے مغموم صورت بنائے کھڑا تھا۔ دسمبر کے دنوں میں بھی اس کے ماتھے پر پسینے کے چھوٹے چھوٹے قطرے چمک رہے تھے۔
ارے بھائی کیا ہوا؟ اندر آنے بھی دو گے یا نہیں،
”یار آئی ایم رئیلی سوری، پتہ نہیں مجھے کیا ہو گیا ہے، آپ آئیں، اندر۔۔۔ آئیں پلیز۔“
اس نے ماتھے سے پسینہ پونچھا اور قدرے مدافعانہ انداز میں پیچھے ہٹ کر ایک طرف ہوگیا۔
راستہ ملا تو میں اندرآ گیا۔ مجھے یوں محسوس ہوا کہ جیسے وہ ہفتوں سے اس نیم تاریک فلیٹ میں بند تھا۔
پورا فلیٹ ایک قسم کی بے ترتیبی کی تصویرنظر آیا؛ ہر جگہ کتابیں، کچھ بند کچھ ادھ کھلی، بکھری پڑی تھیں۔ جوتے اِدھر اُدھراور کافی کے کئی بڑے مگ، کچھ اوندھے، کچھ سیدھے پڑے تھے۔
دروازے کی اوٹ میں مجھے ایک بند سوٹ کیس جبکہ بستر پر ایک ادھ کھلا بیگ اوندھا پڑا نظر آیاجس میں دو تین میلی کچیلی قمیضیں، شاید ایک پتلون اور کچھ گندی جرابیں ٹھنسی ہوئی تھیں۔ بیگ کے پاس ایک اور سفید بیڈ شیٹ بھی تہہ کرکے رکھی ہوئی تھی۔
”یار یہ آپ واپ کیا ہے؟ خیر تو ہے؟ کیا ہوا تمہیں، مجھے پہچانا بھی یا نہیں؟ منیب ہوں میں، منیب کاظمی، تمہارا دوست۔“
یہ کہتے ہوئے میں نے اسے کندھوں سے پکڑ کر بہت آرام سے جھنجھوڑا۔ اصل میں مجھے اس کے رسمی روئیے اور ایک طرح کی ہیجانی کیفیت سے شک سا ہوگیا کہ شاید اسے اندازہ ہی نہیں ہوا کہ میں کون ہوں ورنہ وہ اس طرح پر تکلف استقبال بھلا کیوں کرتا۔
”منیب، ہاں منیب، تمہیں ہی تو بلایا تھا میرے دوست۔۔۔ یار میں پشاور جارہا ہوں واپس۔۔۔ نہیں یار، میرا مطلب ہے لاہور۔۔۔ میں بھی کیا کہہ رہا ہوں۔“
اس نے ہذیانی سی کیفیت میں بالوں میں بایاں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا اور منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑایا جو میں ٹھیک طور پر سن نہیں پایا لیکن میں نے اس کے رویے سے یہ تاثر لیا کہ اس وقت اس کی ذہنی حالت ایسی نہیں تھی کہ اس سے سوال پوچھے جائیں یا میں کوئی تفتیشی رویہ اپناوں۔
جب کچھ نہ سوجھا تو میں نے آگے بڑھ کر اسے بے ساختہ گلے لگایا اور وہ رو دیا۔
مجھے سمجھ نہیں آیا کہ کیا کروں۔ عورتوں کو دلاسہ دینا ایک الگ بات ہے اور شاید مرد کے لئے فطری طور پر نسبتاً آسان بھی، لیکن مردوں کے ساتھ، اور وہ بھی وہ مرد، جس کے ساتھ اس قسم کا واسطہ پہلی بار پڑے، بڑا مشکل ہوتا ہے کہ بندہ کیا کہے اور کیا نہ کہے۔
خیر اس کی ڈھارس بندھائی اور اسے صوفے پر بٹھایا۔ کچھ سوچ کر کہ شاید اس طرح اسے کچھ زیادہ سکون ملے، اسے تقریبا کھینچ کر، صوفے پرلٹا کراس کی جرابیں اتاریں اور اس کے قمیص کے بٹن ڈھیلے کیئے اور اس کے لئے کافی بنائی۔ ہم دونوں کچھ دیر خاموش رہے اور جب اس کی طبعیت کچھ سنبھلی تو وہ اٹھ بیٹھا اور گلا کھنکار کے بھرائی ہوئی آواز میں بولنا شروع کیا۔
شروع میں اس کی باتیں بے ربط تھیں، خیالات منتشر تھے اور اس لئے اس نے پورا معاملہ بہت دِقت سے اور خاصہ وقت لے کر بیان کیا اور اسی وجہ سے میں کچھ اِختصار سے کام لوں گا تاکہ بے جا طوالت سے آپ کہیں بور نہ ہوجائیں۔
”منیب یار! میں بہت عجیب صورتحال سے گزرا ہوں، بیان نہیں کر سکتا کہ کہاں سے شروع کروں۔ جب میں پہلی بار کراچی نوکری کے لئے آیا تھا، تو میں کتنا خوش تھا لیکن شاید یہ میری زندگی کی سب سے بڑی غلطی تھی۔“
”ہاں تم تو کہہ رہے تھے کہ یہ تمھاری ڈریم جاب ہے، شکر کتنی لیں گے آپ؟“
میں نے۔“ آپ۔“ ذرا چبا کر کہہ تو دیا لیکن، فوراً خیال آیا کہ یہ وقت طنز کا ہر گز نہیں، لیکن تیِر کمان سے نکل چکا تھا تو اب کیا کرتا۔ اس نے اس طنز کو محسوس نہیں کیا،
”دو ٹھیک ہیں؟“
اس نے داہنے ہاتھ سے مگ اٹھایا، گرم کافی کی ایک چسکی لی اورسلسلہ کلام جوڑا،
”ہاں تم ٹھیک کہتے ہو، تھی تو ڈریم جاب لیکن۔۔۔ خیر۔۔۔ کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ میں بالکل شروع سے تمھیں سب کچھ بتا دوں تا کہ تمھیں اندازہ ہو کہ میری یہ ڈریم جاب کیسے میرے لئے سوہانِ روح بن گئی اور تمھیں عالیہ کے بارے میں بھی بتانا ہوگا جو میں تمھیں نہیں بتا سکا، یار بس زندگی بھی نا۔۔۔“
اس نے ایک لمبی سرد آہ بھری اور سر پیچھے کر لیا۔۔۔
”ہاں ہاں۔۔۔ ضرور۔۔۔ اطمینان سے۔۔۔ مجھے کوئی جلدی نہیں ہے۔“
میں نے انتہائی تاکید سے کہا کیونکہ اس کے بیان میں اب میری دلچسپی بہت بڑھ چکی تھی۔ میں نے سوچا بھلا یہ عالیہ کا کیا چکر ہے اور یہ ہے کون؟ مجھے منگھو پیرکالونی کی قدرے صاف رنگت والی ایک دبلی پتلی عالیہ کچھ کچھ یاد تھی جو بات کرتے ہوئے بار بار غیر ارادی طور پر اپنے ہونٹ کاٹتی رہتی تھی لیکن جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے اسے شادی کئے اور دوبئی گئے کئی سال ہوچکے تھے۔
بہر کیف میں نے غور سے عباس کی بات سننی شروع کی،
”یار اکاونٹنسی ختم کی تو لاہور میں کرنے کو کچھ بھی نہیں تھا۔ نوکری ملنا تو دور کی بات ہے کسی نے انٹرویو کے لئے بھی نہیں بلایا اوراسی طور پر جوتے چٹخاتے مہینوں پر مہینے گذر گئے۔ اس ناامیدی کی کیفیت میں فیصل آباد کے ایک وزیر کے بیٹے سے بات ہوئی تو وہ بہت ہنسا۔
”شاہ جی نوکری تے جان پچھان (پہچان)نال ملدی اے اور جان پچھان کا گر سیاست سے آتا ہے۔“
مسئلے کا حل تو وہ بتا گیا لیکن مدد کرنے میں البتہ اس نے پہل نہیں کی۔ مجھے بھی خجالت آڑے آئی کہ اب اس سے کیا مدد کا کہوں۔ یار اب تم ہی بتاوبھلا میں کہاں لوگوں کے دروں پہ ناصیہ فرسا رہوں یا سیاست میں کود کے ووٹوں کی گنتی پر لوگوں سے دست و گریباں ہوتا پھروں۔
میں نے کہا بھاڑ میں جائے ایسی نوکری اور گھر آکر، مستقبل سے مایوس، باہر جانے کی ٹھانی کہ یہی ایک قابل عمل راستہ نظر آیا۔ تمھیں تو یاد ہی ہوگا عارف، جو ہمیں قریشی صاحب کے ہاں ملا تھا۔۔۔ شادی کی تقریب میں۔
میں نے انکار میں سر ہلایا تو اس کی بے چینی اور بڑھی،
”یار وہ جو امریکہ چلا گیا۔۔۔ سیاسی پناہ کی درخواست جو دی تھی اس نے۔ تمھیں کیسے بھول سکتا ہے۔۔۔ یاروہ جس کے چچا زاد بھائی کو کراچی کے کسی ہنگامے میں گولی بھی لگی تھی۔۔۔ خیر وہ امریکہ کیا گیا اس کے تو دن ہی پھر گئے اور جب پہلی مرتبہ پاکستان واپس آیا تو اس نے مجھے بھی باہر جانے کا مشورہ دیا لیکن یہ ساری باتیں اس نے ایسے ٹیڑھے منہ والی انگریزی میں کیں کہ مجھے گِھن سی آئی پر اب جو سوچا تو اس کی بات میں وزن تھا۔“
مجھے عالیہ کے ذکر سے دلچسپی تھی سو میں نے اس کی بات کاٹی۔
”یار تم کسی عالیہ کا بھی ذکرکر رہے تھے، وہ کیا قصہ ہے؟“
”ہاں بتاتا ہوں لیکن پہلے تھوڑا پس منظر بتا دوں ورنہ تمھیں بات سمجھنے میں دقت ہوگی اور پھر پلٹ پلٹ کر کہانی دہرانی پڑے گی اور یوں میں اصل بات تسلسل سے سمجھا نہیں پاوں گا، ٹھیک ہے نا بھائی؟“
اس نے مصر ہوکے کہا اور میں نے اثبات میں سر ہلا کے کافی کا خالی مگ اس کے ہاتھ سے لے کر قالین پر پڑی کتاب پر رکھ دیا۔
”ہاں تو میں بتا رہا تھا کہ سخت ناامیدی کی حالت میں ایک نوکری کا اشتہار میری نظر سے گذرا۔ ایک بڑی فرم تھی کراچی والی اور انہیں ایک اکاونٹنٹ کی ضرورت تھی۔ یہ تو ٹھیک ہے، لیکن مسئلہ یہ تھا کہ نوکری کے پہلے تین سال کراچی میں گذارنے تھے، کچھ کام کے تجربے کے سلسلے میں اور اس دوران تنخواہ بھی کچھ کم تھی لیکن اندھا کیا چاہے، دو آنکھیں، میں نے ان کو فون کیا۔
تمھیں یقین نہیں آئے گا کہ فرم کے مالک نعمان خاں تھے جن کے والد صاحب دِلی میں نامی گرامی اکاونٹنٹ تھے۔ بڑے خاں صاحب تو اللہ بخشے گزر چکے تھے، لیکن ا ن کے بیٹے سے میرے والد صاحب کی کسی زمانے میں بڑی شناسائی رہی تھی اور یہاں مجھے اس وزیرزادے کی بات یاد آئی۔
اسی شام میں کچھ ہمت جمع کرکے والد صاحب کے پاس آیا۔
والد صاحب کو یہ بات حد درجہ ناگوار گزری اور وہ، جوداہنے ہاتھ میں اخبار پکڑے کرسی پر براجمان تھے، تلملائے، دو ایک بار کروٹ بدلی، اخبار ساتھ والی میز پر پٹخ کر بولے،
”برخوردارہم سادات ہیں، نجیب الطرفین ہیں، ہمارے پاس کھانے کو کچھ بھی نہ ہو، ہم بھوکے سوئیں یا بھلے سے مر بھی جائیں، صبر کرتے ہیں اوراس حد تک کہ بھوک مٹانے کے لئے صدقہ تک نہیں لیتے اگرچہ دیکھ لو میاں کہ یہی صدقہ تمام امت پر جائز ہے، ہم پر نہیں۔
اب تم برخوردار، عباس حسین نقوی، مجھے یعنی اطہر حسین نقوی کو اس بات کی ترغیب دے رہے ہوکہ میں تمھیں کسی کا حق دلوا دوں، تمھاری سفارش کروں؟ ارے میں کہتا ہوں تم یہ سب کچھ اپنے بل بوتے پر کیوں نہیں کرتے، اس میں کیا مضائقہ ہے کہ تم درخواست دے دو، ضابطے کی کاروائی ہو لینے دو، اگر تمھارے اندر لیاقت ہوگی تو تمہیں نوکری مل ہی جائے گی۔
اب بتاو اس پورے طریقہ کارمیں کہاں پیچیدگی ہے؟یہ سب کرنے میں کیا دِقت ہے؟ ہیں۔“
اس کے بعد وہ امام زین العابدین کے فقر اور شاید یزید کے ظلم کے قصے سناتے رہے۔ میں بس یہی کہتا رہا،
”ہاں ابو جان، آپ درست فرماتے ہیں، ٹھیک کہتے ہیں یہ نہیں ہونا چاہیئے تھا۔“
عباس کا لہجہ انتہائی طنزآمیز ہوگیا۔
”خیر میں نے ان سے بالکل بھی بحث نہیں کی کیونکہ ان کو اکثریہ دورہ پڑتا رہتا ہے اور یہ ان کا کافی پرانا مرض ہے لیکن جب موقع ہاتھ سے نکل جائے تو پھر ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں۔ میں نے وہاں سے ان کی بات سنی اور دوسرے کمرے میں آکر امی سے رازدارانہ لہجے میں بات کی۔“ دیکھو امی جان اس سے بھلی نوکری اور اچھا موقع ہاتھ نہیں آنے لگا اور دوسرا اس میں ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ میں تین سال بعد لاہور واپس آ سکوں گا اور پھرتمھارے لئے پیاری سی بہو بھی لا کے دوں گا، اور وہ بھی وہاں سے جہاں سے تم چاہو، یعنی تمھاری پوری مرضی، اب بولو، منظور ہے؟
امی نے سِرکتا دوپٹہ سنبھالا،
”ہے ہے میں کب کہتی ہوں تم غلط کہہ رہے ہو، میں وہی کروں گی جو تم چاہتے ہو لیکن دیکھ لیجیو بیٹا! نقوی صاحب اصولوں کے پکے ہیں، دِلی والے جو ہیں۔ اب کہنے کو تو میں کہہ دوں گی لیکن جو انہوں نے نہ کرنے کا تہیہ کر رکھا ہو تو مجھ سے نہ لڑیو۔۔۔ میری سنتا بھی کون ہے اس گھر میں۔“
شام کو امی نے بات کی، کچھ ان کے مابین حیل و حجت ہوئی، پھر اگلے دو دن گھر میں لوگ روکھے سے رہے اور تیسرے دن گھر کی حالت واپس لوٹ آئی۔ اس کے بعد پانچویں یا شاید چھٹے روز رجسٹرڈ خط کا ایک بھورا لفافہ ہمارے گھر آیا جس میں میرے انٹرویو کی نوید تھی۔
میں نے خوشی سے امی کا ماتھا چوم لیا،
”امی جان تم نا، بس اتنی خوبصورت ہو، میٹھی ہو، پیاری ہو۔۔۔“
”بس بس، منہ بند رکھیو اپنا۔ اچھا دھیان سے سنیو، سکینہ کے بارے میں کیا خیال ہے؟ تمھاری زینب آنٹی کی بیٹی؟ سعادت مند ہے، ایم اے پاس ہے، اپنی دیکھی بھالی ہے کہو تو بات پکی۔۔۔“
”امی جان تم بھی نا؟ جاب ہو لینے دو، کچھ دمڑیاں جوڑلوں اس کے بعد دیکھتے ہیں۔“
انٹریو والے دن میں نے نئے کپڑے پہنے اور امام ضامن ہاتھ میں لے کر دیکھا جو والدہ نے کراچی آنے سے پہلے باندھا تھا۔ میں نے ایک ایک کرکے ان تمام سوالوں کے جوابات دل میں دہرائے جونعمان صاحب کے منجھلے بیٹے عدیل خاں نے مجھے ایک دن پہلے فون پر بتا دئیے تھے۔
”میاں یہی سوال ہیں بس اگر ان کا جواب بِعینہ دو گے تو کچھ ہماری بھی عزت رہ جائے گی آپ کو تو پتا ہی ہے کہ آپ کے والد صاحب کو ہم ٹال نہیں سکتے لیکن کچھ دکھانا بھی تو ہوتا ہے کمپنی فرم والوں کو کہ ہم ہر ایرے غیرے کو اکاونٹنٹ نہیں رکھتے۔۔۔ ہاں براون جوتے پہن کر نہیں آجاناڈائریکٹر کو ان سے سخت نفرت ہے۔
آخر میں ایک بات اور بتا دوں، انٹرویو انگریزی میں ہوگا لیکن اگر اردو میں سوال پوچھیں تو ”ق۔“ کا تلفط درست رکھنا اور غَلطی نہ کہنا غَلَطی کہنا۔۔۔ معمولی باتیں ہیں لیکن آپ کہیں کہیں چوک جاتے ہیں۔۔۔ ورنہ صِدیقی صاحب۔۔۔ آپ کو تو پتہ ہی ہے، وہ بندے کو قابلیت سے زیادہ شین قاف پر پرکھتے ہیں۔“
یہ کہہ کر اس نے فون رکھ دیا،
جب وہ کمرے کے اندر چلی گئی تو اس کے ٹھاٹ باٹ دیکھ کے، میں نے سوچا کہ نوکری اسی ہی کی ہے اور سارا انٹرویو بس ایک ڈرامہ ہے اور تو اور مجھے کراچی اس لئے بلایا گیا ہے تاکہ اس کھیل میں کچھ رنگ حقیقت کا ہو۔ ڈرامے کا یہ غیر متوقع عروج مجھے بالکل پسند نہیں آیا۔
مجھے بے چینی سی ہوئی لیکن پھر سوچا مشیت ایزدی ہے بھائی، اللہ نے ہم سادات کو ان بے ایمان لوگوں کے ٹکڑوں پر پلنے سے بچائے رکھا جو انٹرویو بھی دکھاوے تک کا لیتے ہیں۔
میں نے کچھ دیر رکنے کا ارادہ کیا اور دل میں یہ باندھا کہ اگر وہ باہر آتی ہے اوراس کے چہرے پر خوشی کے آثار ہوں تو نوکری اس کو مل چکی ہوگی اور اگر ایسا ہواتو میں انٹرویو بھی نہیں دونگا۔ اس قسم کی خجالت اٹھانے سے بہتر ہے بندہ نوکری ہی نہ کرے اور ویسے بھی اب فاقوں کی نوبت تو نہیں آئی جو اس قسم کے ڈراموں کے لئے کراچی تک کا سفر کروں اور ذلیل ہوتا پھروں۔
آدھا گھنٹہ گزر گیا، خاتون وہاں سے باہر نہیں آئی اور پھر اردلی نے میرا نام پکارا اور اگلے لمحے میں پینل کے سامنے تھا۔ رسمی سا انٹرویو ہوا اور مجھ سے وہی سوال پوچھے گئے جو مجھے پہلے سے بتا دئیے گئے تھے۔ میں باہر آیا تو عدیل خاں نے مجھے تعیناتی کا خط تھما دیا، جو غالبا پہلے سے ہی ٹائپ ہو چکا تھا
”کمال کر دیا آپ نے عباس صاحب، کیا بات ہے آپ کی۔۔۔ سب اتنے متاثر ہوئے کہ آپ نے تنقید کی گنجائش ہی نہیں چھوڑی۔۔۔ واہ بھئی واہ۔۔۔ کیا سلیقے کی گفتگو کرتے ہیں آپ، کیا سلجھاو ہے آپ کے اٹھنے بیٹھنے میں۔
اب آپ ایسا کریں۔۔۔ یہاں۔۔۔ یہ نشان والی جگہ۔۔۔ ہاں یہاں پردستخط کیجئے اور آپ کی نوکری پکی، مبارک ہو۔“
اس نے ایک مجلد رجسٹر میرے سامنے رکھ دیا اور ساتھ ہی روشنائی والا ایک نہایت قیمتی قلم مجھے تھما کر وہ جگہ انگلی سے دکھائی جہاں مجھے دستخط ثبت کرنے تھے۔
میں خوشی سے پھولے نہ سمایا، یقین نہیں آیا کہ مجھے نوکری مل چکی تھی اور اس دیوانگی کی کفیت میں سید السادات ﷺ اور ان کی آل پر درود پڑھنابھی بھول گیا۔
باہر آکر پی۔ سی۔ او سے امی کو فون ملایا اور ان کو خوش خبری سنائی، انہوں نے ڈھیروں دعائیں دیں۔ میں نے والد صاحب کا پوچھا،
”وہ ابھی سو رہے ہیں، کہو تو جگا دوں انہیں؟“
میں نے ان کو جگانا مناسب نہیں سمجھا اور انہیں بتانے کا کام امی کے سپرد کیا اورخود کو ہواوں میں اڑتا محسوس کیا۔ میری ڈریم جاب میرے ہاتھ میں تھی، میں نے اپنے اندر ایک توانائی سی محسوس کی، چاروں طرف رنگ ہی رنگ نظر آئے اور ہر اندر جاتی سانس میں تازگی کا احساس ہوا جیسے بیروزگاری کوئی قفس ہو اور مجھے وہاں سے آزادی کا پروانہ مل گیا ہو۔
دس دن بعد نوکری جوائن کی۔ کام بس صرف اتنا تھا کہ کریم خاں، جو عدیل خاں صاحب کے بڑے بیٹے تھے اور اکاونٹنسی سیکھ رہے تھے، ان کے کاغذات کی جانچ پڑتال کروں، جہاں کمی بیشی ہو درست کروں، ان کی رہنمائی کروں اور مہینے کے پیسے کھرے کروں۔
اسی دن دوپہر کو وہ فوٹو سٹیٹ مشین کے ساتھ کھڑی نظر آئی۔
منیب میرے بھائی! میرے اندر ایک حرارت سی عود کر آئی اور میں جو تقریبا اسے اس کے متعلِقات سمیت بھول چکا تھا، یکدم اسے بہت اہم محسوس کرنے لگا۔ کسی بہانے سے اس کے پاس پہنچ کر سلام کیا،
”میرا نام عباس ہے۔ آپ کا انٹر ویو میرے ساتھ ہوا تھا، لیکن دیکھا آپ کو آج ہی ہے۔“
اس نے میرے لہجے میں شوخی محسوس کی لیکن بغیر کسی تاثر کے مجھ سے انتہائی روکھے لہجے میں کہا،
”عباس صاحب میرا نام عالیہ ہے۔ میری تعیناتی بھی آپ کے ساتھ ہی ہوئی تھی، بارہ اگست کو، اسی دن۔ آپ کو کچھ اور پوچھنا ہے مجھ سے؟“
”آپ کراچی کی ہیں؟ آپ کی اردو بڑی صاف ہے۔ میں لاہور سے آیا ہوں لیکن اصل میں میرے داداتقسیم کے بعد کراچی آکر آباد ہوئے تھے۔“
”میں کراچی کی نہیں ہوں، عباس صاحب!اور اگر آپ اجازت دیں تو میں چلوں۔“
یہ جانے کی اجازت سے زیادہ ایک حکم تھا اور اس کا لہجہ بدستور روکھا تھا اور چہرہ تاثرات سے یکسر عاری۔ و ہ اپنے آفس میں چلی گئی جو عدیل خاں کے دفتر کے بعد والے برآمدے میں تھا۔ روکھا لہجہ اپنی جگہ لیکن کوئی بات تو ایسی ضرور تھی کہ میرے لئے اس میں بہت کشش تھی۔ خیر چھٹی کے وقت وہ میرے پاس خود چل کر آئی۔
”عباس صاحب آپ سے ایک سلسلے میں مدد لینا چاہتی ہوں۔“
اسے میری ضرورت تھی، مجھے اور کیا چاہیے تھا، سو میں نے ہامی بھر لی۔ بات صرف اتنی تھی کہ میں اسے روزانہ کام کے بعد ا یمپریس مارکیٹ چھوڑ جایا کروں اور مجھے بھلا اس میں کیا تامل ہو سکتا تھا اگرچہ اسے وہاں چھوڑنے میں رضویہ سوسائٹی اورایم اے جناح روڈ کو عبور کر کے، میلوں لمبا راستہ اور ٹریفک کے گندے اور کثافت سے بھرے سمندر میں سے روزانہ گزرنا پڑتا تھا لیکن ایک جوان لڑکی کی رفاقت ساتھ ہو تو بندہ کیا نہیں کرتا، منیب!میری تو عقل گھاس چرنے چلی گئی تھی۔“
میں نے ابھی تک اس کہانی میں کوئی خاص بات نہیں دیکھی۔ دفتروں میں بے تحاشہ ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں، مرد لڑکیوں کی گھات میں رہا کرتے ہیں، گاڑیوں میں پھرا کرتے ہیں اور کچھ کا انجام منطقی طور پر شادیاں بھی ہو جایا کرتی ہیں لیکن عباس کی حالت دیکھ کر مجھے شک تھا کہ معاملہ صرف ایک جوان لڑکی کی رفاقت تک محدود نہیں بلکہ اس واقعے کا زاویہ کچھ زیادہ ہی ٹیڑھا ہے اور گمان غالب ہیابھی تک اس نے وہ تان ہی نہیں چھیڑی سو میں نے سر ہلا کے اس کی تائید کی تاکہ وہ معاملہ جلد ہی کھول دے۔
”ایسے کئی دن آئے جب مجھے اسے ایمپریس مارکیٹ سے اٹھا کر دفتر بھی لانا پڑا لیکن مجھے اس میں کوئی مضائقہ نظر نہیں آیا۔ ایک شام بولٹن مارکیٹ میں ایک بہت اچھی مہنگی گھڑی نظر سے گزری اور میں نے اسے عالیہ کے لئے لینے کا ارادہ کیا لیکن جب قیمت پوچھی تو چودہ طبق روشن ہوگئے۔
میں نے گھڑی خرید تو لی لیکن سوچا اور طبیعت کچھ بوجھل سی ہوئی کہ یہ میں کیا کر رہا ہوں، کس چکر میں ہوں۔ میں جو ایسے خاندان کا اکلوتا بیٹا ہوں جس کے پیسوں پر اس کے بوڑھے والدین کا حق ہے اسے میں ایک اجنبی خاتون پر دونوں ہاتھوں سے لٹا رہا ہوں جس سے میرا تعلق صرف اتنا ہے کہ صاحب میں اس کا ڈرائیور ہوں اور بس۔
خیر اس شام میں نے اس کے گھر کے پاس گاڑی روکی اور اس سے کہا کہ میں نے اس کے لئے ایک تحفہ خریدا ہے۔
اس نے آہستہ سے اپنا ہاتھ آگے کیا اور اپنی آستین تھوڑی سی کھِسکا لی جیسے اسے پہلے سے پتہ تھا کہ میں نے اس کے لئے گھڑی ہی لی ہے، مجھے یہ بات عجیب سی لگی۔“
یہ بتاتے ہوئے اس نے سر جھکا لیا،
”یار ایک آدمی کو یہاں سے ہوشیار ہونا چاہئے لیکن میں اندھا ہوگیا تھا، عقل کا اندھا۔ خیر جب میں نے اس کے ہاتھ پر گھڑی باندھی تو میرے رونگھٹے کھڑے ہو گئے، اس کا ہاتھ یخ سرد تھا جیسے برف کی ٹھنڈی سِل، یقین کر و منیب! جیسے وہ ایک بے جان۔۔۔ بے رمق۔۔۔ اب میں کیا کہوں۔ میں اگلے کئی روز دفتر نہ جاسکا، بہت زور کا بخار رہا۔“
اس مقام پر میں بھی چونکا لیکن اپنے اندرونی تاثرات چھپائے اور اس کی بپتاسنتا رہا،
”خیر جب میں دفتر واپس آیا تو وہ نظر نہیں آئی جس سے میں بے چین تو بہت ہوا لیکن اب کسی کو بتا بھی تو نہیں سکتا تھا تمہیں تو پتہ ہی ہے لوگ ایسی باتوں کا کیا سے کیا بنا دیتے ہیں۔ جب بات مہینے سے بھی اوپر ہوگئی تو میرا ماتھا ٹھنکا اور میں نے اردلی سے ذرا رازداری میں ڈرتے ڈرتے پوچھا،
”عالیہ صاحبہ سے ایک فائل منگوانی ہے، نظر نہیں ا ٓرہی ہیں، کیا چھٹی پر ہیں؟“
اس نے حیران نظروں سے میری طرف دیکھا،
”کون ساعالیہ صیبہ؟ آپ عائشہ صیبہ کا بات تو نہیں کرتا اے؟ وہ چٹی پر نہی اے، کہو تو۔۔۔؟“
مجھے جیسے کرنٹ لگا لیکن تمام تاثرات دل میں چھپائے میں اپنے ڈیسک پر آیا۔
یہ مجھے بعد میں پتہ چلا کہ جب تنخواہ کی جدولیں میری پاس آئیں تو اس میں عالیہ نامی کسی خاتون کا ذکر تک نہ تھا اور اب مجھے اپنے نفسیاتی مریض ہونے کا پورا یقین ہو چلا تھا۔ میں نے آفس کا ریکارڈ تفصیل سے چھان مارا اور منیب! تم یقین نہیں کروگے لیکن بارہ اگست کو صرف مجھے ہی نوکری دی گئی تھی۔
یہ سب دیکھ کر میں کچھ ڈرا اور مجھے کچھ عجیب بھی لگا لیکن کیا کرتا۔
ایک دن کچھ سوچ کر عدیل خاں صاحب کے دفتر کے ساتھ جڑا برآمدہ دیکھا لیکن وہاں صرف ایک پرانا سٹور روم تھا اور میں گو مگو کے عالم میں کافی دیر کھڑا تانے بانے سلجھاتا۔ پیچھے سے کسی نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا،
”عباس صیب آپ ٹیک تو اے؟“
”ہاں ہاں زمرد خان سب ٹھیک ہے، سب ٹھیک ہے۔“
اسی دن کام سے باہر نکلا تو عقب سے اس کی آواز سنائی دی،
”عباس صاحب آپ مجھے ایمپریس مارکیٹ چھوڑ آ ئیں گے؟
مجھے جھٹکا تو ضرور لگا لیکن اپنا خوف چھپا کر اسے قدرے غصے سے مخاطب کیا،
”عالیہ صاحبہ آپ کون ہیں، یہ سب کیا ہے اور آپ مجھ سے کیا چاہتی ہیں؟“
”آپ میرے وجود پر شک کر رہے ہیں؟ یہی ہے ناں؟، لیجئے میں آپ کا شک دور کیے دیتی ہوں۔“
اس نے ایک پھول بیچنے والے سے گیندے کے پھولوں کے دو ہار خریدے اور اسے پیسے دئے۔ اب ظاہر ہے اگر عالیہ میرے بیمار ذہن کا تخیل تھی تو وہ بھلا پھول والے سے کیونکر۔۔۔ لیکن یہ گتھی پوری طرح اب بھی نہیں سلجھی تھی۔
ہم دوبارہ گاڑی میں بیٹھے اور ایمپریس مارکیٹ تک کا سفر خوشگوار رہا اور یوں مہینے سے منقطع سلسلہ دوبارہ جڑ گیا۔ منیب اب میں تمہیں تفصیلات سے کیا بور کروں لیکن صنف نازک کی محض موجودگی ہی کافی نہ سلجھنے والی باتوں کے لئے دلیل ہوتی ہے اور جب مجھے یہ یقین ہو چلا کہ وہ درحقیقت میرا خواب نہیں تھی بلکہ اس کااپنا وجود بھی تھا تو ایک دن جذبات سے مغلوب ہو کر میں نے اس سے شادی کی درخواست ہی کر ڈالی تاکہ یہ معاملہ اپنے انجام کو جاپہنچے۔
”عباس صاحب آپ ایسی باتیں کیوں کر رہے ہیں جن کی آپ میں سکت نہیں۔“
اس نے قدرے ترش روئی سے کہا،
”میں سمجھانہیں، اس میں سکت والی بھلا کیا بات ہے؟“
”عباس صاحب آپ کیا چاہتے ہیں؟ شادی؟ جسمانی تعلق؟ لیکن کیاآپ نے مجھ سے پوچھا ہے میں کیا چاہتی ہوں؟ دیکھئے آپ برا نہ مانیں لیکن آپ ایک چھوٹے سے اکاونٹنٹ ہیں۔۔۔ چھوٹے سے دفتر میں۔ آپ بتائیں کیا اوقات ہے ایسے کام کی؟
مجھے غلط نہ سمجھیں لیکن پتہ ہے، مجھے کیا چاہیئے؟ مجھے چاہیے گھر، کیرئیر، نام، دولت، بڑا بنگلہ اور ہر طرح کی آسائش نہ کہ صرف ایک ڈیسک پر بیٹھ کر دستخط جو آپ کر رہے ہیں۔“
عام حالات میں ایسی سرزنش سے بھری گفتگو کو میں بدتمیزی یا یوں کہیئے اپنی توہین سمجھتا لیکن اس وقت یہ بات پتہ نہیں کیوں معقول نظر آئی، اور وہ ٹھیک ہی تو کہہ رہی تھی، دنیاداری بھی ضروری ہوتی ہے۔ مجھے اب بھی ہلکا سا شک تھا جو اس نے میری آنکھوں میں بھانپ لیا۔
”عباس صاحب آپ کو پہلے یقین کرنا پڑے گا کہ میں حقیقت ہوں، مجھے لگتا ہے آپ کوشک ہے کہ جیسے میں کوئی۔۔۔“
”نہیں نہیں ایسی کوئی بات نہیں، لیکن بس۔۔۔“ میں مِنمنایا۔
”آپ مجھے چھو کر دیکھیں۔۔۔ لیجئے۔۔۔ میرے ہاتھ تھامیں۔“
اس نے مجھے قدرے تحکمانہ لہجے میں مخاطب کیا،
’’اب جب میں نے اس کا داہنا ہاتھ چھوا، تو کچھ دیر بعد اس میں حرارت محسوس کی، میں نے اسے دیر تک ہاتھ میں رکھا۔۔۔ اطمینان کے بعد بھی۔۔۔ بہت دیر تک۔ مجھے ایک طرح کی طمانیت سی محسوس ہوئی اور اب مجھے جیسے ساری کڑیاں مل گئی تھیں، وہ حقیقت تھی، جیسے میرا وجود ویسے ہی اس کا وجود۔ ایمپریس مارکیٹ سے واپسی پر میں پر اطمینان، اور سرور سے بھرا گھر واپس آیا اور اپنے لئے کافی بنائی لیکن منیب پتہ ہے کیا ہوا۔“
اس نے بہت گہری آواز میں کہا،
”کیا ہوا؟“
”میں نے جیسے ہی گرم کافی کو چھوا وہ برف بن گئی اور میرا ہاتھ۔۔۔ منیب تمہیں یقین نہیں آئے گا۔۔۔ گویا منجمندتھا، برف کی مانند، سرد، یخ بستہ۔“
”ہیں؟“
میں اچھلا اور اب حیران ہونے کی باری میری تھی۔۔۔
”ہاں منیب! وہ میرے داہنے ہاتھ کی حرارت تھی جو اس کے سرد جسم میں منتقل ہوئی، اور اسے میں نے اس کے جسم کی گرمی گمان کیا۔ اصل میں اس کا ہاتھ بے جان تھا، پہلے کی طرح۔۔۔ اس کی اپنی کوئی حرارات نہیں تھی، وہ ایک سرد سِل کی مانند تھی، تمام جذبات سے عاری، بغیر کسی تپش کے، گویا مردہ جسم۔ اب مجھے سب سمجھ آگیا کہ اس کا ہینڈ بیگ سفید کیوں تھا، اس کے لباس اور جوتوں میں ربط کیوں نہیں تھا، اس کے لہجے میں روکھا پن کیوں تھا۔“
عباس کے لہجے میں شدیدافسوس کا عنصر تھا، بالکل ایک ہارے ہوئے جواری کی طرح لیکن اب کہانی میں میری توجہ بڑھنی شروع ہوئی، کہ بھلا یہ مافوق الفطرت قسم کی خاتون کون تھی؟ جو عباس کے بدن کی حرارت پر جی رہی تھی۔
”منیب اس کے بعد میں نے بہت محنت کی۔۔۔ بہت زیادہ۔۔۔ خوب کمایا۔ کام اتنا بڑھ گیا کہ گھر مہینوں فون بھی نہ کر سکا۔ ایک دن میری گاڑی نے سٹارٹ ہونے میں تاخیر کی جس سے اس کے چہرے پر ناگواری کے آثار ابھر آئے اور میں نے صرف اس کے لئے نئی گاڑی لی، برانڈ نیو، لیکن قسطوں پر اور پہلی بار میرے اکاونٹ میں پیسے نہ رہے سو میں نے اور ٹائم شروع کیا۔ اور یوں میرے بھائی ایک نئی مصیبت گلے پڑ گئی کہ جو کماتا تھا، سود خوربنکوں کے مہاجنوں کے جیبوں میں جاتا تھا۔
ایک دن لاہور سے فون آیا کہ والد صاحب نہیں رہے لیکن میرے پاس نہ تو وقت تھا اور نہ ہمت کہ وہاں جاتا بس ٹیلی فون پر والدہ کو تسلی دی اور انہیں سسکتا بلکتا چھوڑ کے ہیلو ہیلو کہہ کر، جیسے رابطے میں مسئلہ ہے، ٹیلی فون خود ہی بند کردیا۔
کام بہت بڑھ گیا تھا اور اتنا بڑھا کہ عید پر بھی نہ جاسکا اور پھر ماموں جان کا فون آیا کہ امی بھی فوت ہوچکیں ہیں۔ جنازہ تو خیر چھوڑیں میں تو چہلم پر بھی نہ جاسکا اور اگرچہ خود کو ملامت کیا لیکن عالیہ کو پانے کی جستجو اور اس سے جڑا سرور اتنا میٹھا تھا کہ رشتے ناطے پس منظر میں چلے گئے۔
منیب! آج میرے پاس کلفٹن میں دو بنگلے ہیں جو کرائے پر چڑھے ہوئے ہیں، اور میرا بہت پھیلا کاروبار ہے۔۔۔ اربوں کا۔ منیب میں نے اس عورت کو پانے کے لئے سب کچھ کیالیکن اس ظالم عورت نے مجھے چھوڑ دیا ہے، تنہا، یکسر تنہا۔ اس کے اندر ترس نام کو نہیں، ظالم ہے وہ۔“
پھر اس نے سوٹ کیس اور بیگ کی طرف اشارہ کیا،
”دیکھو اس نے میرا سوٹ کیس پیک کردیا ہے اور بیگ میرے کپڑوں سے بھر دیا ہے۔۔۔ میلے کچیلے کپڑوں سے۔۔۔ دھونے کی فرصت بھی نہ دی۔ وہ ایسا کیوں کر رہی ہے؟ میں نے اسے کیا نقصان دیا ہے؟ اس کو پوجنے کی حد تک چاہا ہے، اس کے لئے ماں باپ مذہب دھرم رشتے ناطے سب چھوڑ دئیے، میں نے اس کا پورا ساتھ نبھایا۔ میں اب بھی اس کے لئے مرتا ہوں، وہ میری کیوں نہیں ہوسکتی؟ بولو نا منیب کیوں نہیں؟ اس نے میری پچاس سال کی تپسیا کا کچھ بھی لحاظ نہ کیا، کچھ بھی نہیں، میرے رب میں کیا کروں؟ اے بو تراب ؓکچھ حوصلہ دے۔“
وہ روہانسا ہوگیا، بلک بلک کر رونے گا اور میں جو ابھی تک سر نیوہڑاے بیٹھا اس کی اور عالیہ کی بپتا سن رہا تھا، پچاس سال کے لفظ پر چونک پڑا اورمیں نے جب سر اٹھا کر دیکھا تو میرے پیروں تلے زمین نکل گئی۔
میں نے دیکھا کہ میرے سامنے عباس نہیں بلکہ ایک عمر رسیدہ شخص، نقاہت سے چور، صوفے پر پھولی سانسوں میں دھنسا بیٹھا تھا۔ اس کے تمام بال روئی کے گالوں کی طرح سفید تھے،، چہرہ جھریوں سے بھرا اور آنکھوں پر دبیز شیشوں کی عینک تھی جس کے اس پار اس کی بے پناہ ذہین آنکھوں کی پتلیوں کے گرد گہرے سفید دائرے اس کی گزری عمر کی چغلی کھا رہے تھے۔
اس کی انگلیوں کے تمام جوڑ گویا دونوں اطرف سے ابھر آئے تھے، اس کے دانت جھڑ چکے تھے اور داہنے ہاتھ میں ہلکا سا رعشہ تھا اور اس کی تقریبا لٹکتی جلد پر بیتی عمر کا اثر بالکل واضح لکھا تھا۔
اس غیر متوقع صورتحال سے دوچار میرا گلاخشک ہو گیا۔ دفعتا مجھے خیال آیا اور میں نے اپنی ہتھیلی کے ابھار کو دانتوں سے ہلکا سا کاٹا لیکن میں خواب نہیں دیکھ رہا تھا میرے سامنے حقیقتا ایک بوڑھآ ادمی بیٹھا تھا جو بس قریب المرگ تھا۔ اب جب اس کو غور سے دیکھا تو اس میں اور عباس میں بے پناہ مشابہت تھی۔
عباس کی کہانی میں میری دلچسپی یکدم ختم ہوگئی اور وہ اس لئے کیونکہ میرے اوپر خوف سا طاری ہوگیا۔ میں نے اس سے رخصت تک نہ لی اور بس آہستہ سے کھسکنے کی ٹھانی۔
نکلتے ہوئے دروازے کے قریب میز پر دو تصویریں پڑی نظر آئیں اور دونوں پر تاریخ ثبت تھی، ایک پچاس سال پرانی جس میں جوان عباس ایک خوبصورت جوان لڑکی کے ساتھ مہٹا پیلس کے سامنے کھڑا تھا۔ دوسری تصویر جو تین ہفتے پہلے لی گئی تھی، کو دیکھ کر تو میرے رونگھٹے کھڑے ہوگئے کہ بوڑھا عباس، جھکی کمر کے ساتھ اسی لڑکی کے ساتھ جو ابھی تک بالکل ویسے ہی جوان تھی، اور اسی ہی لباس میں ملبوس تھی، بنس روڈ پر فالودے والے کے پاس کھڑا تھا۔
ان دونوں تصویروں کے پیچھے لاتعداد تمغے، سرٹیفکیٹ اور اسناد تھے جوچیف اکاونٹنٹ عباس حسین نقوی کے نام کے تھے اور ایسی کئی اور تصویروں سے پورا فلیٹ بھرا ہوا تھا جہاں اسے بڑے ملکی اور بین الاقوامی لوگوں سے ایوارڈ مل رہے تھے۔
اب مجھے سب کچھ سمجھ آگیا، نہ تو عباس نے جاب چھوڑی تھی اور نہ وہ لاہور واپس جا رہا تھا بلکہ وہ تو ریٹائرہوچکا تھا، ایک بھر پور زندگی گزار کے، پورا کیریر طے کر کے، اپنی تمام صلاحیتیں بروئے کار لاکر ملک کا سب سے بڑا اکاونٹنٹ بن چکا تھا جس کی شہرت کا ڈنکا ہر جگہ بج رہا تھا اور یہ تصویریں، اسناد اور سر ٹیفکیٹ اس کا منہ بولتا ثبوت تھیں۔ تب مجھے یہ بات سمجھنے میں دیر نہ لگی کہ جوان جہاں عالیہ اس کو کیوں چھوڑ گئی، کڑیاں مل گئیں، اب میں اتنا بچہ بھی تو نہیں۔
وہاں سے نکلنے سے پہلے جب میں نے اس تہ شدہ سفید بیڈ شیٹ کی طرف دوبارہ دیکھا تو اس کے ساتھ دو لمبی اور پتلی سفید پٹیاں بھی نظر آئیں اور میری حالت غیر ہوگئی۔
وہ بیڈ شیٹ نہیں تھی بلکہ عباس کے رحلت کا لباس تھا اور اس کی اگلی منزل لاہور توہر گز نہیں تھی۔ نکلتے ہوئے میرے سامنے ایک قد آدم آئینہ آیا اور اگرچہ میں نے اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھ لئے، پھر بھی، انگلیوں کے بیچ رخنوں میں مجھے اپنی جگہ ایک سن رسیدہ آدمی دکھائی دیا۔
خیر میں اور کیا کہوں اتنا کچھ دیکھ کر میں بس وہاں رک نہ سکا۔ میں وہاں سے نکل کر سیدھااپنی جوان جہاں عظمی کے پاس چلا آیا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.