Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اجنبی ملاقاتی

محمد ہمایوں

اجنبی ملاقاتی

محمد ہمایوں

MORE BYمحمد ہمایوں

    میں گھر آیا تو نیلوفر نے گھبرائے ہوئے لہجے میں کہا

    ”جلدی کریں امی آپ کا انتظار کر رہی ہیں، بہت ضروری بات کرنا چاہتی ہیں آ پ سے، پلیز جلدی کریں۔“

    اس کی سانسیں پھولی ہوئی تھیں۔ میں نے جلدی سے موٹر سائیکل اندر کھینچ کر پانی کی ٹینکی کے ساتھ کھڑی کی اور قدرے دوڑ کر امی کے کمرے میں گیا

    امی جائے نماز پر آنکھیں بند کئے بیٹھی کچھ وِرد کررہی تھیں اور ان کی حالت غیر تھی۔

    میں نے سلام کیا اورامی نے اٹھنا چاہا لیکن میں نے ہاتھ کے اشارے سے ان کو منع کیا

    ”امی آپ آرام سے بیٹھی رہیں۔، نیلو بتا رہی تھیں آپ مجھ سے کوئی بہت ضروری با ت کرنا چاہتی ہیں۔“

    اتنے میں نیلوفر اندر آگئی،

    ”بیٹا دلہن سے پوچھیو، میرے تو حواس ٹھکانے نہیں رہے، ہائے اللہ رحم۔“

    میں نے مڑ کر نیلوفر کی طرف دیکھا،

    ”ہاں نیلو کیا بات ہے، تم ہی کچھ بتاو۔“

    ”بات یہ ہے کہ آپ کے آ نے سے کوئی تیس منٹ پہلے کسی نے بیل بجائی اور جب میں باہر گئی تو جوان سال مرد کو دیکھا جس نے سفید سی گول ٹوپی پہنی ہوئی تھی اور وہ شلوار قمیص میں ملبوس تھا۔ مجھے لگاکہ کوئی چندے والا آیا ہے لیکن پھر سوچا یہ حضرات تو تین چار کے جوڑوں میں آتے ہیں۔۔۔“

    ”نیلو یار افسانے چھوڑو، مطلب کی بات کرو، سفید ٹوپی شلوار قمیص!!سہراب گوٹھ جاو سوفیصد لوگوں نے پہنی ہوتی ہے، بات کیا ہے اِس میں اچنبھے کی؟ کیا وجہ ہے کہ آپ دونوں بلاوجہ ہلکان ہورہے ہیں؟“

    میں نے قدرے جھنجھلا کر لیکن لہجہ پر سکون رکھ کر اس سے پوچھا،

    ”دیکھیں نا ں امی مجھے ڈانٹ رہے ہیں۔“

    اور پھر اس نے رونا شروع کیا جسے دیکھ کرامی کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے۔

    اِس نئی مصیبت سے دوچار میں نے ان دونوں کو تسلی دینی شروع کی جس کا اثر الٹا ہوا اور آخر میں مجھے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگنا پڑی۔

    ”ہاں چندے والا آدمی تھا پھر، آگے کیا ہوا؟“

    نیلوفر نے ہِچکیاں لینی شروع کیں۔

    ”اس نے میرا، امی کا اور آپ کا نام لکھا، سر ہلا کے پوچھا کہ صرف تین ہی لوگ ہیں ادھر؟ میں نے کہا ہاں۔ پھر جب میں نے پوچھا کہ آپ کیوں ہمارے نام لکھ رہے ہیں؟ تو اس نے کہا آپ کو بتا دیا جائے گا، اور پھر نا ں۔۔۔“

    ”اُف آپ دونوں بھی، قسم سے، بھئی ہوگا کوئی سرکاری محکمے کا آدمی، مردم شماری والا، سادہ لباس میں کوئی اہل کار، کوئی اشتہار بانٹنے والا، چندے والا۔ اسی حلیئے والے بھانت بھانت کے لوگ ہیں کراچی میں۔۔۔ اب ایک مسئلہ تھوڑی ہے اِس ملک میں۔۔۔ اورپھر کراچی! یہاں کوئی دہشت گردوں کو ڈھونڈ رہا ہے تو کوئی افغان مہاجرین کی ٹوہ میں ہے اور کوئی کسی سیاسی جماعت والوں کے تعاقب میں اور کوئی کرپشن والوں کے پیچھے، میں سمجھا پتا نہیں کون سا آسمان ٹوٹ پڑا۔“

    پھر میں نے نیلو فر کی طرف تنی بھنووں سے دیکھا،

    ”اور نیلو! امی تو اعصابی مریضہ ہیں، گھبرا جاتی ہیں تمہیں تو علم ہی ہے اِن باتوں کا۔ تم تو ٹھیک ٹھاک ہو، باحواس ہو، تمہارا یہ رونا دھونا؟ تم بھی قسم سے نا۔“

    ”آپ کوئی بات سنجیدہ ہی نہیں سمجھتے۔۔۔ میری سنتے ہی نہیں، دیکھیں امی!میں کہتی تھی کہ یہ میری ہر بات سنی ان سنی کر دیتے ہوتے ہیں۔ اِتنی ہی بری لگتی ہیں میری باتیں تو اِن سے کہہ دیجئے کر لیں دوسری شادی کر لیں۔۔۔ میں کچھ بھی نہیں کہوں گی۔۔۔ روز روز کی جھنجھٹ سے توجان چھوٹے گی اِن کی۔۔۔ خوش رہیں گے یہ۔“

    ”اچھا بابا میں دیکھتا ہوں، کسی سے پوچھتا ہوں، میرا دوست جواد کام کرتا ہے انکم ٹیکس آفس میں، اس کی پہنچ ہے بڑے لوگوں تک۔ آپ اللہ پر بھروسہ رکھیں، تھوڑا اطمینان رکھیں، کچھ کرتا ہوں میں۔ اب ٹھیک ہے؟“

    میری اِس بات سے ان کو تسلی تو خیر کیا ہوتی دونوں نے ایک دم چپ سادھ لی۔

    میں نے انتظار کیا اور جب ان کی حالت قدرے بہتر ہوئی تو مجھے کھانے کوکچھ ملا۔ میں نے جلدی جلدی کھانا کھایا، لیکن پھر یاد آیا کہ اِس سارے ہنگامے میں مغرب کی نماز تو بیچ میں ہی رہ گئی، سو عشا کے ساتھ ملا کر پڑھی اور بستر پر لیٹ کر آفس کے آڈٹ کے پلان کے بارے میں سوچنے لگا جس کے بارے میں زیدی صاحب نے خاصی تاکید کی تھی۔

    اتنے میں نیلو فر کمرے میں آگئی تو میں نے پوچھا،

    ”امی سو گئیں؟“

    ”یہ سونے والے حالات ہیں؟ دیکھا نہیں آپ نے کیا حالت تھی امی کی؟ میں تو سمجھی جان ہی نکل جائے گی ان کی۔ اللہ حفاظت میں رکھے ان کو اور ان کا سایہ ہمارے سر پر قائم رہے۔“

    ”یار تم ہر بات الٹا کر میرے اِس منہ پر مل کیوں دیتی ہو؟ سوال پوچھاہے امی سو گئیں، جواب میں کہو ہاں یا نہیں، اب چبھتا ہوا جواب دینا ضروری ہے؟“

    ”اچھا ٹھیک ہے جتنا بھی ڈانٹنا ہے اآج ہی ڈانٹ لیجیئے، کسی اور سے شادی کی ہوتی تو آپ کو تِگنی کا ناچ نچا دیتی۔“

    اس کے لہجے سے روکھا پن جھلکنے لگا اور پھر آنکھیں بند کر کے دونوں ہاتھوں سے سر تھام لیا

    ”ہائے میرا تو سر پھٹا جا رہا ہے۔“

    ”اچھا اب یہ ناٹک چھوڑو، اِدھر آجاوپلیز۔“

    اس کا کچھ اثر نہ ہوا اور اس کا اترا چہرا برقرار رہا تو میں نے کہا

    ”اچھا بابا، یہ کان پکڑتا ہوں، اب اِدھر آو، پلیز۔“

    اس پر وہ پہلے میرے پہلو میں آئی اور پھر میرے سینے پر سر رکھ کرسسکیاں لیتی رہی اور اس کے آنسو میرے کھلے گریباں سے جھانکتے سینے پر گرنے لگے۔

    مجھے کچھ کھٹکا سا ہوا کہ نیلوفر بھلا کیوں اس قدر پریشانی میں ہے پر میں نے صبر کیا اور جب اس کی حالت تھوڑی سنبھلی تو میں نے انتہائی آرام سے اور دھیمے لہجے میں پوچھا

    ”نیلو جان مجھے پوری بات تفصیل سے بتاو کیا ہوا؟“

    اِس کے بعد اس نے جو بتایا اس سے مجھے بھی پریشانی ہوئی،

    ”نعیم کوئی چار ایک بجے کا وقت تھا میں کچن میں دودھ ابال رہی تھی لیکن ایک تونگوڑی لوڈ شیڈنگ اور اوپر سے گیس کا پریشر انتہائی کم تھا اِس لئے مجھے اِس سے شدید الجھن ہو رہی تھی اور پھر مجھے جیسے گھٹن سی محسوس ہوئی۔ میں نے سوچا میں کچن سے باہر نکلوں، کچھ تازہ ہوا میں سانس لوں تو طبیعت شاید کچھ بہتر ہو۔ خیر میں کچن سے نکلی تو بجلی آگئی، اور پھرنا ں نعیم کوئی بہت ہی بیتابی سے گھنٹی بجانے لگا۔

    مجھے عجیب سا لگا، اس قدر تواتر سے بھلا کون گھنٹی بجاتا ہے، میں دودھ بھول کے کمرے میں بھاگ کے گئی، دوپٹہ لیا اور جلدی سے گیٹ کی طرف دوڑی۔ میں سمجھی پتہ نہیں کسی کو کیا ایمرجنسی پیش آگئی ہے۔ خیر، جب میں گیٹ کے قریب پہنچی تو گھنٹی بجانے والے نے ہاتھ روک لیا اور پھر اس نے پہلے گیٹ کھٹکھٹایا لیکن پھر یکایک زور زور سے ہلانا شرع کیا۔

    میں ڈر گئی پتہ نہیں کون ہے لیکن پھر بھی احتیاط کے ساتھ گیٹ کی درز سے دیکھا تو مجھے شلوار قمیص میں ملبوس ایک نوجوان نظر آیا۔ مجھے سمجھ نہیں آئی کہ کیا کروں۔ دروازے کے اس طرف ایک اجنبی تھا اور دوسری طرف کچن میں دودھ ابل رہا تھا۔ میں نے کچھ سوچ کر اور آڑ لے کر دروازہ ہلکا سا کھول دیا اور اس سے پوچھا،

    ”جی فرمائیے، کیا کام ہے؟“

    اس نے انتہائی بھاری آواز میں اور قدرے گرجدار لہجے میں پوچھا،

    ”اِس گھر میں جتنے بھی لوگ رہتے ہیں ان کے نام بتائیں۔“

    میرے منہ سے نہ جانے بے اختیار کیوں نکلا،

    ”نعیم علی، مسز نیلوفر علی اور مسزراشدہ علی۔“

    ”صرف تین؟“

    اس نے ایسے پوچھا جیسے اسے شک سا ہو،

    ”ہاں صرف تین، لیکن کیوں؟“

    لیکن اس نے میرے کیوں کا جواب نہیں دیا۔

    پھر نعیم اس نے ناں وہ نام ایک رجسٹر نما کتاب میں کچی پنسل سے لکھے۔۔۔“

    ”کچی پنسل؟ کیا تمھیں یقین ہے؟“

    ”ہاں نعیم کچی پنسل؟“

    ”ہوں، یہ عجیب بات ہے سرکاری آدمی کچی پنسل سے بھلا کیوں لکھنے لگا۔۔۔ اگر وہ سرکاری آدمی ہی تھا اور سرکاری ہی کام سے آیا تھا۔۔۔ بات سمجھ میں نہیں آئی۔۔۔ خیر اس کا حلیہ دوبارہ بتاو۔“

    اِس پر نیلو فر نے لمبی سانس لی، کچھ سوچا جیسے ذہن پر پر زور دے کر بتا نا چاہتی ہو،

    ”وہ لگ بھگ بیس بائیس سال کا ہوگا اور اس نے سفید سی گول ٹوپی پہنی ہوئی تھی۔۔۔ ہو بہو ایسی جیسے چندے والے لونڈے پہنتے ہیں۔ اس کی آنکھیں گہری سبز تھیں، تیل لگے بال، سلیقے سے کٹے ہوئے تھے، اس کی رنگت کافی صاف تھی لیکن لہجہ پٹھانوں والا نہیں تھا۔

    اس کی قمیص میں داہنی طرف ایک ہی جیب تھی جس کے کونے پر ایک چھوٹا سا کالا اور مستطیل نما ٹکرا تھا اور اس پر بونینزا لکھا ہوا تھا، جیسے درزی عام طور پر جیب کے ساتھ سی دیتے ہوتے ہیں۔ ہاں اس کی قمیص میں سائیڈ جیب بھی تھی کیونکہ اس نے پنسل وہاں سے نکالی تھی۔

    پہلے مجھے یہ لگا کہ کوئی چندے والا ہی ہے لیکن پھر شک ہوا کوئی بھتہ مانگنے والا تو نہیں آیا۔ آپ کو تو یاد ہی ہوگا گلستان جوہر میں خدیجہ آنٹی کے ہاں اِسی طرح مدرسے کے طلبا والالباس پہنے تین آدمی آئے تھے۔ پہلے انہوں نے بدتمیزی سے بات کی تو آنٹی نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا لیکن پھر انہوں نے آنٹی پر پستول تان لیا، ان سے بھتہ مانگا اور نہ دینے پر جان سے مارنے کی دھمکی دی توآنٹی کی تو جان ہی نکل گئی۔ وہ تو اچھا ہوشاہد ا نکل نے رینجرز کے ذمہ داروں کو فون کیا تو ہی بلا ٹلی ورنہ ان کی تو جان پر ہی بن گئی تھی۔“

    پھر اس نے تہنیتی لہجہ اپنایا،

    ”میں نے آپ کو دو تین رِنگ کئے لیکن آپ نے حسب عادت میرا فون اٹھایا ہی نہیں سو پھر سوچا جب آپ آئیں گے تو ہی کچھ لائحہ عمل کے بارے میں سوچیں گے۔“

    ”پھر کیا ہوا؟“

    ”پھر کیا ہونا تھا، نام لکھے، اپنی موٹر سائیکل سٹارٹ کی، یہ جا وہ جا، تیر ہوگیا وہ اور پھر گلی میں سناٹا چھا گیا۔ اس وقت دھیان میں ہی نہیں رہاورنہ اس خبیث کا نمبر نوٹ کر لیتی۔۔۔ خیر۔“

    ”تو اس نے کسی اور گھر جا کر یہ سوال نہیں کئے، صرف ہمارے گھر آیا تھا۔“

    میں نے خود کلامی کے انداز میں کہا جسے میری بیوی سوال سمجھ بیٹھی۔

    ”ہاں وہ صرف ہمارے ہی گھر آیا اور چلا گیا۔ میں نے پڑوسن کی بڑی بیٹی ندرت سے پوچھا تو اس نے قطعاً لاعلمی کا اظہار کیا بلکہ اس نے تو کسی موٹر سائیکل کی آواز بھی نہیں سنی جس سے مجھے حیرت تو ہوئی لیکن پھر یاد آیا حمیدہ آپا نے بتایا تھا کہ اس لونڈیا کی سماعت قدرے کمزور ہے جبھی تو اس کی شادی نہیں ہو رہی۔

    خیر میں گھبرا کرامی کے پاس آگئی اور پھرامی نے اتنا رونا دھو نا مچا دیا کہ بتا نہیں سکتی۔ سچ پوچھو نعیم مجھے تو بہت ڈر لگ رہا ہے، کچھ دن آپ آفس نہ ہی جائیں تو بہتر ہے، کیا پتاوہ کل دوبارہ آجائے۔ میری تو ڈر کے مارے جان ہی نکل رہی ہے، ہائے اللہ کیا مصیبت ہے۔“

    میں سوچوں میں گم ہوگیا اور نیلوفر تھوڑی دیر مجھ سے لپٹے میرے سینے پر سر رکھے رہی اور پھر مجھے یوں لگا کہ گویا وہ سو گئی ہے سو میں نے بھی بتی گل کردی اور کروٹ بدل کر خدا جانے کب سو گیا۔

    صبح میں نے جواد کا موبائل ملایا لیکن اس پر پہلے سے ریکارڈ شدہ میسیج آرہا تھا، شاید بند ہوگا یا بیڑی ڈھل چکی تھی۔ مجھ سے صبر نہ ہوسکا اور لینڈ لائن سے انکم ٹیکس آفس فون کیا اور جوادکو ساری بات بتائی جس پر اس نے خاصی حیرت کا اظہار کیا

    ”یار کراچی میں اپریشن کے بعد بقول حکومت کے یہ بھتے وغیرہ کے واقعات، لگتا ہے کہ تقریباً ختم ہوچکے ہیں لیکن میرا خیال ہے یہ بات صرف میڈیا کی حد تک ہے۔ پچھلے دنوں فاروق بھائی بتا رہے تھے کہ پس منظر میں کچھ نہ کچھ جرائم پیشہ سیل ہیں جو اب بھی کسی درجے میں فعال ہیں۔ یہ کچی پنسل والا معاملہ عجیب ہے لیکن اتنے اچنبھے والی بات بھی نہیں۔ وہ ایسے کہ فرض کرو وہ کوئی سرکاری محکمے کا آدمی ہے یا اگر جرائم پیشہ بھی ہے اور اس کے پاس قلم نہ ہووہ تو کچی پنسل سے ہی لکھے گا جو بہر حال یاداشت سے تو بہتر ہے، کیوں جی؟“

    بات میں وزن تھا سو میں نے ”ہوں۔“ کہہ کر خاموشی اختیار کی اور اس نے بات جاری رکھی،

    ”میں دیکھتا ہوں لیکن ایک بات کا خیال رکھو پولیس وغیرہ کو توبا لکل ہی نہ بتاووہ اِس قسم کے معاملات سے الٹا فائدہ اٹھانے کی کرتے ہیں، تمہیں تو پتہ ہی ہے پولیس کے طریقہ کار کا، لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں۔ پچھلے سے پچھلے اگست گولی مارمیں نوید بھائی کا بیٹا اغوا ہوگیا تھا اور وہ پہنچ گئے پولیس میں رپورٹ لکھوانے۔ پولیس والے رپورٹ تو خیر کیا لکھتے، سالوں نے ان کو اٹھا کر تھانے میں بند کر دیا اور کہا،

    ”کہاں چھپا رکھا ہے بندے کو صاف صاف بتاو، اگلوانا ہمیں آتا ہے۔“

    ”نہیں نہیں جوجی! میں بھلا کیوں پولیس کو بتاوں گا، مجھے علم ہے، مفت میں پیچیدگی میں اضافہ ہوگا۔ تم بس کچھ پتہ کرو، مطلب پتہ کرواو، یہی کافی ہے۔“

    میں گھر واپس آیا تو ماحول میں ابھی تک تناو تھا اورامی پریشان تھیں۔

    ”میں نے کہا تھا یہاں نہ آئیو، اِس کمبخت منحوس جگہ میں، ارے اِس سے تو وہ بلدیہ ٹاون ہزار درجے بہترتھا اور وہ یونیورسٹی روڈ کے پاس والا گھر، جوتوفیق میاں کی خوشدامن نے لے لیا، وہ لیتے تو یہ مصیبت تو نہ آتی سر پر۔ چار سال ہوگئے ہیں یہاں ایک دن بھی چین سے نہیں گذارا۔ ایک آدمی ڈھنگ کا نہیں دیکھا میں نے یہاں۔ جب دیکھوکم بخت محلے کے یہ اوباش لونڈے سارا دن کیرکٹ (کرکٹ) کھیلتے ہیں، یہ آوٹ، وہ کیچ، یہ چھکا۔۔۔ نگوڑے جانہار چیخ چیخ کے آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں اور ان کی غلیظ گیند آئے دن ہمارے برآمدے میں آتی رہتی ہے ایک لمحہ چین نہیں، موئے لفنگے کہیں کے۔

    اور اس دن دیکھو بھلا کیا کیا ان خبیثوں نے، مولوی صاحب کی سفید قمیص کو کیچڑ بھری گیند سے پلید کرواچھوڑا، سلیقہ تو نام کو نہیں ان میں، کوئی ایک بات ہو تو کہوں۔ میری مانیو یہاں سے واپس ناظم آباد چلتے ہیں میرا تو جی گھٹ رہیا ہے اِدھر۔“

    پھر دعا کے انداز میں ہاتھ اٹھائے،

    ”ہاے اللہ، میرے رب، ان بدبختوں کے ہاتھ پیر توڑیو ان کو بھی تو مزہ آجائے، جہنم بنا رکھا ہے اس جگہ کو ان بے مروت اور بے قاعدہ لوگوں نے، پتہ نہیں کہا ں کہاں سے آگئے ہیں ہماری زندگیوں میں زہر گھولنے۔“

    پھر جیسے کچھ یاد آیا،

    ”دلہن اری او دلہن میری پریشر والی دوائیاں لیتی آنا اس ہنگامے میں صبح کی خوراک بھول گئی ہوں، خدا جانے حافظے کو کیا ہو گیا ہے، لگتا ہے نسیان ہوگیا ہے مجھے۔“

    ”امی میں نے جواد سے بات کی تو اس نے کافی تسلی دی۔ پہلے کی بات اور تھی لیکن اب آرمی اور رینجر کے آپریشن کے بعد اس قسم کے واقعات ختم ہوچکے ہی۔ جوادکا یہ بھی خیال ہے کہ یہ ضرورکوئی سادہ لباس والا آدمی تھا جوہو نہ ہو ہماری حفاظت کے لئے یہ سب کچھ کر رہا تھا، آخر حکومت ہاتھ پہ ہاتھ دھر کے تو نہیں بیٹھ سکتی، لوگوں کی امن وامان کی ذمہ داری ہے ان کے کندھوں پر۔“

    میں نے اِن تسلی آمیز جملوں کا اثر دیکھنے کے لئے امی کی طرف دیکھا اور عین اسی وقت نیلو فر ان کی دوائی بھی لے کے آگئی اور گمان غالب ہے اس نے پوری بات سن لی تھی،

    ”وہ تو ٹھیک ہے ہماری حفاظت کرے لیکن پورے محلے میں صرف ہماری ہی کیوں؟ اور یہ کچی پنسل سے لکھنا؟ یہ بات سچ پوچھئے تو مجھے کاٹتی ہے۔۔۔ دیکھ لیں نعیم آج یا کل۔۔۔ ضروردال میں کچھ کالا ہے۔“

    اس نے امی کو دوائیں پکڑائیں اور امی سر پکڑ کر بیٹھ گئیں اور ہائے اللہ ہائے اللہ کرنا شروع ہوگئیں۔ میں نے کہا تو کچھ نہیں لیکن اپنی پوری محنت یوں اکارت جاتی دیکھ کر نیلو فر کی طرف انتہائی غصے سے دیکھا اور دانت پیستے ہوئے، مٹھیاں بھینچ کر اسے اشاروں کنایوں میں بتا یا کہ یہ وقت اِس قسم کے اِستدلال کا نہیں تھا لیکن وہ تِیر داغ چکی تھی اب کیا ہو سکتا تھا۔

    میں اٹھ کر اپنے کمرے میں آگیا کہ جواد کا فون آیا۔ اس نے بتایا کہ کل ہمیں سِول لائنز جانا ہوگا۔

    سِول لائنز میں ہیڈ کوارٹر کی اجلی اور سفید عمارت بڑی شاندار تھی اور صرف یہ دیکھ کر مجھے تسلی سی ہوگئی کہ میرامسئلہ بس حل ہی ہوگیا ہے۔ کرنل صاحب کے حوالدارنے ہم دونوں کو برامدے میں ایک چھوٹے سے بغلی کمرے میں بٹھایا، چائے اور بسکٹ سے تواضع کی اور پھر کرنل صاحب سے فون پر بات کی اور کچھ دیر تک یس سر یس سرکہتا رہا۔

    ”یہ کرنل صاحب عہدے کے لحاظ سے پکے کرنل ہیں۔“

    ”پکا؟ پکے سے کیا مراد ہے تمہاری جوجی؟“

    ”ارے یار ان کے کالر دیکھنا اس پر ایک سرخ پٹی سی لگی ہوگی اور یہ جو حوالدار ہے نا، دیکھواس کے کندھوں پر رینجر لکھا ہوا ہے، یہ ان کے کندھوں پر نہیں ہوگا۔ بڑا افسر ہے یہ۔“

    اتنے میں حوالدار نے ہمیں ساتھ چلنے کو کہا اور پھر میں اور جواد کرنل صاحب کے کمرے کے سامنے کھڑے ہوگئے۔ دروازہ چوڑا تھا اور اس کے ساتھ کرنل صاحب کے نام کی تختی لگی تھی جس پر کالے پس منظر میں انگریزی میں ان کا نام کسی چمکیلی دھات سے لکھا ہوا تھا۔

    ان کے حوالدار نے آفس کے سامنے آئینے میں اپنی ٹوپی کا ٹیڑھا پن اور وردی کی سلوٹیں درست کیں اور دروازہ ہلکے دباو سے کھول کر ہمیں اندر آنے کا شارہ کیا۔

    کمرے میں سامنے بابائے قوم کی بڑی تصویر تھی جن کی آنکھوں کی چمک سے میرا دل ان کی تعظیم سے لبریز ہوگیا۔ سامنے ایک بڑی میز کے پیچھے، جس پر دبیز شفاف شیشہ اور اس کے نیچے ہرے رنگ کا کپڑا تھا اور جس پر دو قلم، کچھ فایلیں اور دستاویزات سلیقے اور ترتیب سے رکھے تھے، کرنل صاحب ایک چوبی کرسی پر جس کے چرمی غلاف تھے، اجلی اور کلف والی وردی پہنے، براجمان تھے۔

    حوالدار نے ایک چست قِسم کا سلیوٹ کیا۔ مجھے تو فوجی ضابطوں کا کچھ نہیں پتہ تھا لیکن حوالدار کی تقلید میں میں نے بھی ہاتھ اٹھا کر سلام کیا جس پر انہوں نے ہمیں ہاتھ کے اشارے سے بیٹھنے کو کہا۔ میں نے پوری سرگزشت ایک ہی سانس میں سنا ڈالی۔

    ”ہوں، ویسے تو گھبرانے کی بات نہیں۔ لیکن۔ یہ کوئی ہندوستانی یا اسرائیلی جاسوس ہو سکتا ہے، جو تمھاری ٹوہ میں ہے اور میرے خیال میں یہ کافی پریشان کن بات ہے۔ دو قومی نظرئیے کے سب سے بڑے دشمن یہی دو لوگ ہیں، بھیس بدل کر آتے ہیں، چھپ کے وار کرتے ہیں۔“

    اگلے آدھے گھنٹے ہم وہاں بیٹھے کرنل صاحب کے قصے سنتے رہے کہ کیسے انہوں نے ایک ہندوستانی جاسوس کو پکڑا تھا جو بہاول نگر کے آس پاس کے گاوں میں مسجد کا اِما م تھا لیکن جب طِبی معا ئنہ کیا گیاتو پوری بات کھلی۔

    ہم آخر کار وہاں سے نکل آئے۔

    ”جوجی یار کرنل صاحب بھی کمال کرتے ہیں ویسے۔ میرا، امی اور میری بیگم کا نام جان کر ہندوستان پاکستان پر بھلاکیا عسکری فوقیت حاصل کرے گا؟اور یہ ا سرائیلی جاسوس والی بات۔۔۔، اس کا تو جواب ہی نہیں۔ بھلا یہ کیا بات ہوئی اسرائیلی جاسوس کراچی کی گلیوں میں کھلے بندوں پھر رہے ہیں اور شفاف اردو میں لوگوں سے ہمکلام ہیں، واہ واہ۔“

    میں دوسرے دن شام کو جوادسے پارک میں ملا اور ہم نے پورے معاملے کا از سر نو جائزہ لیا،

    ”بھائی ایک آدمی، شلوار قمیص میں ملبوس۔۔۔ عام سا آدمی۔۔۔ میرے گھر والوں کے نام لکھ کے لے گیا ہے، اور کرنل صاحب انہیں ہندوستانی اور اسرائیلی جاسوس بنا بیٹھے۔ حد ہوتی ہے، اب کسی اور سے پوچھیں گے تو وہ کہے گا علاقہ غیر کا بردہ فروش ہے، کوئی کہے گا یہ میری بوری کا ناپ لینے آیا تھا۔ مجھے کوئی پرواہ نہیں کہ وہ کون ہے بھائی، مسئلہ یہ ہے وہ چاہتا کیا ہے۔“

    ”یار میں نے کب کہا کہ میں نے اسے ہندوستانی یا اسرائیلی جاسوس بنایا ہے، کرنل صاحب کا خیال ہے یہ اور غصہ تم میرے اوپر ہو رہے ہو؟ ارے بھائی تیرے بھلے ہی کی بات کی ہے انہوں نے۔ وہ شریف آدمی ہیں اور یہاں پوسٹنگ سے پہلے سادی لباس والے ڈیپارٹمنٹ میں تعینات تھے۔۔۔ تجربہ کار آدمی ہیں۔۔۔ اس قسم کے لاتعداد واقعات سے ان کا سابقہ پڑا ہوگا۔“

    ”سوری جوجی، یارسمجھا کرو یار میرے گھر میں دو انتہائی حساس قسم کی خواتین ہیں جن کا کام کسی بھی معاملے کا منفی ترین پہلو دیکھنا ہوتاہے۔ میں پریشان ضرورہوں لیکن آپ پر غصّے نہیں ہوں۔ یار سمجھا کرو یار۔ میرا خیال ہے کہ یہ معاملہ سلجھانا کرنل صاحب کے بس کی بات نہیں اور اگر آپ کو بھی یہی لگتا ہے، تو کیوں نا کسی اور کے پاس چلیں جس کو کچھ ذرابہترآ ئیڈیا ہو، کیا خیال ہے؟“

    ”ہوں، میرے خیال میں انوار صاحب سے بات کرتے ہیں وہ پراپرٹی ڈیلر ہے اور۔۔۔“

    ”رہنے ہی دو یار اِن پراپرٹی ڈیلروں کو، پتا ہے کیا، خوامخوہ مفت میں تشہیر ہوجائے گی۔۔۔ ہر قماش کے لوگ اِن کے ہاں آکر بیٹھتے ہیں اور ایک بات جو شاید کچھ ہے بھی نہیں گلے کی ہڈی بن جائے گی، نہ اگلی جائے نہ نِگلی جائے۔“

    ”یار میں آپ کا نام تھوڑی لوں گا، کسی فرضی نجمی صاحب کا نام لے دوں گا، جو گلستان جوہر میں رہتا ہے اور نیوی میں سول ملازم ہے، کیا خیال ہے؟“

    اس نے ستائش طلب نظروں سے میری طرف دیکھا،

    ”نہیں یار گلستان جوہر کا نام نہ ہی لو تو بہتر ہے وہاں میرے سسرال والے رہتے ہیں، ایسا کرو کہہ دو لانڈھی کا کوئی آدمی ہے اور نجمی نہ کہو، غلام نبی یا اس طرح کا کوئی عام سا نام لے دو۔“

    ”نہیں یار لانڈھی کا ایک آدمی ہمارے دفترمیں کام کرتا ہے اس کو کیوں پھنساتے ہو؟ دوسری بات یہ کہ غلام نبی، غلام علی اس قسم کے نام تو ذیادہ تر پٹھانوں اور پنجابیوں کے ہوتے ہیں۔ وہ سمجھ جائے گا کہ یہ جھوٹ موٹ کا کوئی نام ہے، آخر کووہ برسوں سے اس کاروبار میں ہے، اڑتی چڑیا کے پر گِن لیتا ہوتا ہے، تدبیر کے ناخن لو، میرا خیال ہے کچھ اور سوچنا پڑے گا۔“

    ہم تھوڑی دیر سر جوڑے بیٹھے رہے اور کراچی، جو بالفعل ایک بڑا شہر ہے اس میں ایک جگہ اور ایک نسبتاً بے ضرر قسم کے نام کو ڈھونڈتے رہے جس کو سن کر وہ پراپرٹی ڈیلر نہ تو چونکے اور نہ ہی اسے ہم سے یا ہمارے کسی جاننے والے کے ساتھ جوڑ سکے۔۔۔ سانپ بھی مرے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ آخر کار، باہمی مشاورت سے ہمارا اتفاق انچولی کے ایک فرضی سلیم صدیقی پر ہوگیا جو کے -الیکٹرک میں کام کرتا ہے اور اس کے ساتھ اس قسم کا ملتا جلتا واقعہ پیش آیا ہے۔ اب جب یہ طے ہوگیا تو گویا سر سے ایک بڑا بوجھ اتر گیا اور میں گھر آگیا۔

    ”بیٹا بڑی دیر کردی، خیریت تو تھی مجھے تو ہول آرہے تھے اور دلہن سے بھی نہیں بولا جا رہا۔“

    ”امی، میں اسی مسئلے میں ہی سارا دن پڑا رہا۔ ایک بریگیڈیر صاحب سے بھی ملاقات کی۔ اول تو انہوں نے کافی تسلی دی اور کہا کوئی غلط فہمی ہوئی ہوگی کسی کو، کیونکہ اب حالات پوری طرح قابو میں ہیں اور یہ بھی کہاکہ اگر خدا نخواستہ کوئی جرائم پیشہ لوگ ہوئے تو وہ ان کو سیدھا کرنے میں ایک منٹ سے بھی زیادہ نہیں لگائیں گے۔“

    میں نے ان کی انکھوں میں دیکھتے ہوئے بات جاری رکھی،

    ”امی وہ کافی شریف اور بردبار قسم کے آدمی تھے او ر انہوں نے تو بلکہ یہاں تک کہہ دیا کہ وہ دو ایک سپاہیوں کو گھر پر پہرے پر مامور کرتے ہیں تاکہ ان کے رعب سے وہ دوبارہ پاس بھی نہ پھٹکے۔ وہ تو اس بات پر مصر تھے لیکن میں نے سوچا اس طرح تو تماشہ لگ جائے اور پھر بھلا آپ کس کس کوکیا کیا بتاتی پھریں گی کہ گھر پر کیوں پہرا ہے، سو میں نے اس با ت سے معذرت کر لی۔“

    میں نے پیچدہ قسم کی ایک کہانی گھڑ کرامی کو سنا تو دی اور میرے اس تخیلاتی قسم کے جھوٹ سے امی کی کچھ ڈھارس بھی بندھی لیکن مجھے صاف نظر آگیا کہ نیلوفر کو اس کہانی پر ہلکا بھی اعتبار نہیں آیا۔

    جب میں کمرے میں آیا تو اس نے دروازہ بند کرکے میری آنکھوں میں اپنی آنکھیں گاڑدیں

    ”یہ کون سے بریگیڈئیر صاحب ہیں جو آپ پر اتنے مہربان ہیں؟ جھوٹ بولا ہے ناں آپ نے؟“

    ”یار نیلو!سمجھا کرو میں اب امی سے کیا کہتا، تم ہی بتاؤ، امی کا تو تمہیں پتہ ہی ہے، ہر بات سے کتنی پریشان ہوجاتی ہیں کیا سے کیا بنا لیتی ہیں اور اگر اس جھوٹی تسلی سے ان کو تسکین پہنچتی ہے تو اِس میں حرج ہی کیا ہے؟میری جان یقین کرو اِس پورے معاملے میں کوئی خطرے والی بات نہیں ہے۔ میں نے اور جواد نے مکمل تسلی کر لی ہے۔۔۔ سارا دن اِسی تسلی ہی کے لئے تو جوتیاں چٹخاتے پھرے ہیں۔“

    نیلوفر نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں اور ایک ایک لفظ چبا چبا کرپوچھا،

    ”اور یہ بات آپ بالکل ٹھیک اور سچ بتا رہے ہیں؟“

    ”سو فیصدی میری جان سو فیصدی، بس؟ یا اب قسم بھی کھا لوں؟“

    میں اگلے دن جواد سے ملا تو اس نے، جو تھوڑی بہت پیش رفت ہوئی تھی، بتائی،

    ”انوار صاحب نے بتایا کہ ایسے واقعات آئے دن ہوتے رہتے ہیں اور یہ بھتے والے لوگ نہیں لگتے بلکہ پلاٹ یاگھر کے قبضے کے چکر میں ہیں، یہ بات البتہ ان کو سمجھ نہیں آئی کہ اس قبیل کا ایک بے ضرر قسم کا آدمی اس وضع قطع میں صرف موٹر سا یئکل لے کر ایسا کیوں کرنے لگا، یہ لوگ عموما تین یا چار لوگوں کے جھتے میں آتے ہیں؟“

    ”یار جوجی مسئلہ تو جوں کا توں رہا، یہ تو میرے خیال میں ہم شاید انوار صاحب سے ملے بغیر بھی اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ یہ بھتہ مانگنے والوں کا آدمی نہیں لگتا، مجھے تو لگتا ہے ہم اس مسئلے کے غیر ضروری جزئیات کے گرد ہی طواف کر رہے ہیں اور ابھی تک جتنی بھی تلاوت ان کرنل صاحب اور تمہارے انوار صاحب نے مل کر کی ہے لگتا ہے انہوں نے جھک ہی مارا ہے، نہیں؟“

    میں نے اپنی جھنجھلاہٹ چھپا کر لیکن ہلکے پھلکے طنزیہ انداز میں جواد کو اپنا تبصرہ بتایا،

    ”یار کوئی نہیں بند کرنے والا تجھے بوری میں، حوصلہ کرو میں کوئی نہ کوئی پتاکر کے تمہیں بتا ہی دوں گا۔ اچھا یہ بتاو آنٹی کا کیا حال ہے؟“

    ”امی ٹھیک ہیں، میں نے کچھ بونگی سی تسلی ان کو دے دی اور کل سے انہوں درود پاک کی تسبیح بھی شروع کی ہے تو کچھ پر سکون ہیں اور کچھ آرام بھی کیا رات کو، لیکن یار بیگم سے کچھ نہیں چھپا سکا اور اس نے اپنی امی کو بھی بتا دیا ہے اور خالہ نے رو رو کر اپنا حال برا کر دیا ہے۔ اب ان کو سمجھا سمجھا کر تھک گیا ہوں کہ سب ٹھیک ہے لیکن بندہ کیا کرے، ان خواتین کا تو تمھیں پتہ ہی ہے۔“

    پھر میں نے کچھ دیر رک کر چہرے پر مسکراہٹ سجائی،

    ”پھر کیا کریں، معاملہ رفع دفع سمجھیں؟ ویسے بھی وہ آدمی دوبارہ پلٹ کر نہیں آیا۔ خلش سی رہی کہ بھلا کون تھا وہ، اور اس کو کیا کرید تھی ہمارے گھر کے مکینوں کی، نام لکھ کے چلا گیا، عجیب بات ہے، نہیں؟ حد ہوتی ہے۔“

    جواد نے کچھ دیر اپنی داڑھی کھجائی اور جیسے خودکلامی کرنے لگا،

    ”یار ایک اور آدمی ہے جو مدد دے سکتا ہے لیکن اِس کے لئے مجھے اپنے سسرال بات کرنی پڑے گی۔ وہ آدمی سیاستدان ہے اور اس کا پس منظر یہ ہے کہ وہ بہت عرصے تک ایک مشہور پارٹی میں رہا لیکن جب اس پارٹی کی قائد ایک حادثے میں اس دنیا سے چلی گئیں تو اس کے پارٹی والوں کے ساتھ شدید اختلافات پیدا ہوگئے اور گو اب عملی سیاست ترک کردی ہے لیکن اب بھی سندھ میں ہاری سے لیکر وڈیروں اور کلرکوں سے لیکر گورنر تک اس کی پہنچ ہے، تم کہو تو بات کر سکتاہوں، آدمی رازداری رکھے گا لیکن اس میں ایک قباحت ہے۔“

    میں چونکا،

    ”قباحت؟ ہیں، بھلا کیا؟“

    ”یار ان کو بات پوری بتانی پڑے گی، تمھارا نام پتہ سب کچھ صحیح صحیح، ان سے آپ کچھ چھپا نہیں سکتے۔ سیاستدانوں کا ایک مزاج ہوتا ہے، جس سے آپ اختلاف کر سکتے ہیں، درست، لیکن وہ اگر کسی چیز کے حل کا ارادہ کرلیں اور مدد پر آمادہ ہوجائیں تو پوری بات سننا پسند کرتے ہیں اور جھوٹ خواہ خود کتنا بولیں، ان معاملات میں صرف سچ سننا پسند کرتے ہیں، اب یہ نہ پوچھنا ایسا وہ کیوں کرتے ہیں۔“

    میں نے نہ نفی میں اور نہ اثبات میں سر ہلایا صرف ہونٹ سکیڑے،

    ”جوجی! تمہارا بہت ہی شکریہ لیکن یار میں یہ بات سوچ کر ہی بتاں گا۔ میں نے تمام عمر دفتر سے گھر اور گھر سے دفتروالا کام کیا ہے اور کبھی بھی کسی سیاسی جماعت سے ہلکی سی بھی وابستگی نہیں رکھی اگرچہ میرے والد صاحب جماعت میں کافی سر گرم تھے لیکن انہوں نے مجھے ان کاموں سے دور رکھا۔ مجھے ایک بات کا پتہ ہے، سیاستدانوں سے کام کروا کے ان کے کام کرنے پڑتے ہیں اور یہ مجھ سے نہیں ہوگا۔ سچ پوچھیں مجھے کراہت سی آتی ہے لیکن تمہارا بہت بہت شکریہ کہ تم نے میرے لئے اتنی تگ و دو کی۔“

    شام کو گھر آیا تو خالہ اور خالو آئے ہوئے تھے اور مجھے اندر آتا دیکھ کر خالہ جان اٹھیں میری بلائیں لیں اور پھر تحکمانہ لہجے میں اپنا فیصلہ سنایا،

    ”بس بہت ہو چکا، دنیا میں ایک ہی بہن ہے میری جو اللہ بخشے ہماری والدہ کے انتقال کے بعد میرے لئے تو بس میرا سب کچھ ہے۔ میں اب آپ لوگوں کو یہاں نہیں رہنے دوں گی، کسی بھی قیمت پر۔ یہ کوئی جگہ ہے رہنے کی جو تم اپنی جورو کے کہنے پر اِدھر چلے آئے۔ جرائم پیشہ لوگوں کا گڑھ ہے، بس میں اب ایک بھی نہیں چلنے دونگی تم اور میری بیٹی جاتے ہو یا نہیں میں راشدہ آپا کو ساتھ لے کے جا رہی ہوں۔“

    انہوں نے با آواز بلند کچھ فیصلے سنائے اور پھر بات جاری رکھی،

    ”گلستان جوہر پر امن ہے، دیکھا نہیں جب ان کی بہن خدیجہ کے ہاں لوگ آئے تھے تو کیسے رینجرز والوں نے ان بدمعاشوں کو گھسیٹ کے اس نگوڑی ویڈیو گیم کی دکان سے نکالا تھا، اور دو دن حوالات میں رکھا تو ان کے ہوش ٹھکانے آگئے، یہاں کون ہے خبر گیری کرنے والا؟“

    جب ان کا جوش خطابت کچھ ٹھنڈا ہوا تو میں نے اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیری،

    ”خالہ جان، یہ اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے، میں نے تسلی کر لی ہے۔ رہی بات جانے کی تو مجھے اعتراض کوئی نہیں، آپ آج کہیں ہم چلے جاتے ہیں لیکن مجھے کچھ دن دیکھنے دیں اگربالفرض معاملہ آ پ ہی آپ دب جاتا ہے تو پھر ضرورت کیا ہے کہیں جانے کی؟آپ بس کچھ دن انتطار کریں، استدعا ہے میری۔“

    پھر میں نے نیلو فر کی طرف دیکھا،

    ”یہ تواضح کی ہے تم نے خالہ جان کی؟ خالی چائے؟ بسکٹ لے آو اور وہ جو ختائیاں منیر صاحب کے ہاں سے آئی تھیں وہ کہاں ہیں؟ لے آو، خالہ جان آپ تسلی رکھیں، بیٹھیں، پلیز۔“

    ”نیلم بیٹا! ابو کو کوئی بھی میٹھی چیز نہیں دینا، منع کیا گیا ہے لیکن سنتے کہاں ہیں، خوب بد پرہیزی کی انہوں نے نسیمہ کی بیٹی کی شادی میں۔۔۔ میٹھا دیکھ کر یہ رک نہیں سکتے۔۔۔ شوگر کا ذرا بھی خیال نہیں۔ عمر بڑھتی ہے تو عقل بڑھتی ہے اور ایک یہ ہیں، نہ ہی پوچھیئے۔“

    خالو جز بز ہوئے لیکن کچھ بولے نہیں اور نیلو فر ہلکی سی مسکرائی۔

    میں نے سوچا اب اِس مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل نکالنا ہی پڑے گا اور یوں میں نے ثانیوں میں سیاستدان والی بات پر دوبارہ غور کیا،

    اگلے دن، میں اور جواد اس سیاستدان، جن کا نام میں صیغہ راز میں رکھنا پسند کروں گا، کے بنگلے پر گئے اور گیٹ پر مامور چوکیدار کو جواد کے سسر کا تعارفی کارڈ تھما دیا۔ چونکہ بات پہلے ہوچکی تھی تو جب سکراٹری سے انٹر کام پر بات ہوئی تو انہوں نے ہمیں سیدھا ڈراینگ روم میں بلایا۔

    میں نے ڈراینگ روم پر ایک اچٹتی سی نظر ڈالی جس میں ایک دبیز قالین اور دس ایک صوفہ سیٹ تھے جس میں آپ بیٹھیں تو دھنس جائیں۔ ہر طرف چمکدار ولائتی فرنیچر تھا اور ٹیبل اور دیواروں پر جا بجا ان کی سابقہ لیڈر صاحبہ کی تصویریں لگی ہوئی تھیں۔

    پانچ منٹ بعد وہ صاحب تشریف لائے اور ہم نے اٹھ کر ان کا استقبال کیا۔ انہوں نے ہمیں ہاتھ کے اشارے سے دوبارہ بیٹھنے کو کہا اور ٹھنڈا گرم پوچھا۔ میں نے دیکھا کہ انہوں نے سفید شلوار قمیص، سندھی ٹوپی اور اجرک پہنی ہوئی تھی اور ان کی انگلیوں میں قیمتی پتھروں کی متعدد انگوٹھیاں تھیں۔ درمیانے قد، پکی عمراور بڑی بڑی مونچھیں والے اس سیاستدان کے داہنے گال پر ایک بڑا تل تھا۔ ہماری پوری بات تسلی سے سنی۔۔۔ پھر فون پر کسی سے انتہائی آہستہ آواز میں بات کرکے ہماری طرف متوجہ ہوئے۔

    ”سائیں یہ نہ تو ڈاکو لگتے ہیں اور نہ ہی بھتے والے، مجھے پکا یقین ہے یہ مخالف پارٹی کا بندہ تھا، یہ سیاسی چال ہے۔ سراسیمگی پھیلانا، لوگوں کو ڈرانا دھمکاناخوف پھیلانا اِنہی کا کام ہے۔ چونکہ اب اِن کو الیکشن میں ہماری حکومت کے آنے کا خوف ہے تو آپ جیسے نوجوان جو سیاست میں تبدیلی لانا چاہتے ہیں، مخالف پارٹیاں اِن کو اِن ہتھڈن وں سے دبانا چاہتی ہے، گلا دبانا چاہتی ہے اِن کا۔۔۔ تاکہ اِس ملک میں سچ کا بول بالا نہ ہو، لیکن آپ گھبرائیں ناں جیت ہمیشہ سچ کی ہوتی ہے، ہمارے سجادہ نشین پیر سائیں کا قول ہے، حق آیا اور باطل مٹ گیا، بے شک باطل مٹنے ہی والا تھا۔۔“

    وہ پتا نہیں کیا کیا کہتے رہے لیکن قران کی اس بے حرمتی پر میں کڑھنے لگا اور پھر جب ہم ان کے بنگلے سے باہر آئے تو میں نے جواد کی طرف دیکھا جو نظریں جھکائے ٹیکسی میں میرے ساتھ پچھلی سیٹ پر بیٹھا تھا۔ میں نے کچھ سوچ کر تحمل سے کام لیا،

    ”یار مجھے سیاسی آدمی بنانے والی بات قابل معافی ہے لیکن اس چغدنے قران کی آیت کو پیر کا کلام بتا کر جو گستاخی کی یہ اس نے کچھ اچھا نہیں کیا۔۔۔ بد تمیز جاہل آدمی۔۔۔ اس بیہودہ شخص کو پتہ بھی تھا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے؟ شربت وغیرہ تو نہیں پی رکھی تھی اس نے؟ یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ اس کا اختلاف کیا تھا اپنی پارٹی والوں سے؟“

    ”یار مجھے بڑی شرمندگی ہے اس پورے سین سے لیکن انکل نے بتایا تھا کہ یہ صاحب کوئی بھی مدد کر سکتے ہیں۔ مجھے نہیں پتہ تھا کہ وہ اس قسم کی بیہودہ گفتگو کریں گے اگرچہ ان کے سیکرٹر ی کو تاکید سے بتا دیا تھا کہ آپ غیر سیاسی آدمی ہیں۔ بس یار ہماری ضرورت ہے اس لئے ہر کوچے کی خاک چھان رہے ہیں ہم۔؟“

    ”نہیں میرے یار تیرے خلوص میں کوئی کمی نہیں بس حالات ہی ایسے ہیں کہ ڈور کا سرا ہی نہیں مل رہا ورنہ مسئلہ سادہ ہے، تم گھر جاو آج کی بھاگ دوڑ سے کافی تھکن ہوئی ہوگی میرے یار کو۔ تم سمجھا کرو یار مجھے اپنی پروا نہیں لیکن ان دونوں کا یار، بس سمجھا کرو۔ اورپھر اس مسئلے کی لپیٹ میں تم بھی مفت میں آگئے ہیں، آئی ایم رئیلی سوری۔“

    جواد نے میری آنکھوں میں نمی دیکھ لی اور تسلی آمیز لہجہ اپنایا،

    ”نہیں یار مجھے کوئی دِقت نہیں ہوئی، نعیم تم آرام کرو، ویک اینڈ کے بعد بات ہوگی لیکن اب میرا خیال ہے پولیس کو بتانا ہی پڑے گا۔“

    میں گھر آگیا اور نیلو فر نے دروازہ کھولا۔ میں نے نفی میں ہلکا سر ہلا کے اس کو بتایا اور اس کے چہرے پرپژمردگی سی چھاگئی لیکن پھر، تاکہ امی کو پتہ نہ چلے، مسکرا کر میر استقبال کیا او رامی جوسلام پھیر ہی رہی تھیں مجھے بہت پر سکون نظر آئیں۔

    میں ان کے سامنے گیا، جوتے اتارے اور ان کے زانو کے مقابل زانو رکھ کر جائے نماز پر بیٹھ گیا اور ان کے ہاتھ چومے۔ انہوں نے میری بلائیں لیں اورپاک کلام کا وِرد کر کے میرے اوپر پھونک دیا تو کچھ طمانیت سی ملی۔ ابھی ہم بیٹھے چائے پی ہی رہے تھے کہ سامنے والے گھر کا دروازہ کوئی زور زور سے کھٹکھٹانے لگا جیسے بھونچال آیا ہو۔ میں نے نیلو فر کی طرف دیکھا اور اس نے اٹھ کر درز میں سے دیکھا اور پھر اس کے چہرے کا رنگ فق ہوگیا۔ اس نے خوف سے لرزتے ہوئے گیٹ کی طرف اشارہ کیا،

    ”ن۔۔۔ ن۔۔۔ نعیم۔۔۔ وہی۔“

    میں اٹھا اور دوڑ کر دروازے کی طرف لپکا اور گیٹ کھول کر دیکھا۔ دوسری طرف والے گھر کے عین سامنے ایک بایئس تئیس سالہ آدمی رجسٹر نما کتاب میں کچھ لکھ رہا تھا اور علی میاں، جو مرتضی صاحب کا منجھلا لونڈا تھا، اسے کچھ لکھوا رہا تھا۔

    کچھ لکھ کر اس نے رجسٹر بند کیا، مڑا اور اپنی موٹر سائیکل کی طرف بڑھنے لگا۔

    مجھے ایک لمحے کے لئے کچھ سمجھ میں نہیں آیا لیکن پھر جیسے میرے اندر بجلی سی کوند گئی اور میں نے اسے للکارا،

    ”سنیئے آپ رکیں، بات کرنی ہے آپ سے، آپ سن رہے ہیں؟“

    اس نے میری طرف دیکھا اور اس کا حلیہ ہو بہو وہی تھا جو نیلوفر نے بتایا تھا لیکن اس نے میری بلند آواز کو بھی نظر انداز کردیا، موٹر سائیکل پر بیٹھا، کک دی اور اچھل کر گلی کے موڑ تک پہنچ کر مڑنے لگا۔ مجھے فورا خیال آیا کہ موٹر سائیکل کا نمبر نوٹ کروں لیکن عجلت میں صرف کے -ایم-ڈی اور شاید کچھ انیس یا شاید انتیس لکھا نظر آیا لیکن بعد کا نمبر میں نوٹ نہ کر سکا۔

    میں نے گھر آکرامی اور نیلو فر کو تسلی دی اور انہیں بتایا کہ پریشانی کی بات نہیں پولیو ویکسین والا آدمی تھااور پھر موٹر سائیکل نکالی اور اس کا پیچھا کرنے کی ٹھانی۔

    ویک اینڈ کے بھیڑ میں بھلا وہ مجھے کیا نظر آتا۔ میں یہ جانتے ہوئے بھی دو گھنٹے مارا مار پھرتا رہا۔

    گلی میں واپس آیا تو مرتضی صاحب کے گھر کے اندر کہرام مچا ہوا تھا۔

    مجھے تشویش ہوئی، میں نے موٹر سائیکل گلی ہی میں پارک کی اور بھاگ کر ان کے گھر کے اندر گیا تو دیکھا کہ خواتین ایک دوسرے سے لپٹ کے رو رہی تھیں۔ مجھے یہ سمجھنے میں ذیادہ دیر نہ لگی کہ مرتضی صاحب گزر چکے تھے۔

    میں نے ان کے بڑے بیٹے کو گلے لگایا، تسلی دی اور پھر یکدم مجھے کچھ یاد آیا،

    ”علی کدھر ہے؟“

    اس نے علی کو بلا بھیجا۔ رو رو کے اس کی بھی حالت خراب تھی۔

    میں نے اس سے تعزیت کی، تسلی دی اور پھر جیسے بات بدلنے کے لئے پوچھا،

    ”علی آپ کو کچھ یاد ہے عصر اور مغرب کے بیچ یہاں ایک آدمی آیا تھا آج۔۔۔ موٹر سائیکل والا، اس کا کیا کام تھا آپ سے؟“

    ”نعیم بھائی اس نے گھر کے لوگوں کے نام پوچھے پھر میرا، شبیر بھائی، رضا، سکینہ اورامی کا نام کچی پنسل سے لکھا اور ابو کا نام سرخ روشنائی سے لکھا اور پھر مجھے یوں لگا جیسے اس نے ابو کے نام کو کاٹ دیا ہے، بس اتنا یاد ہے، مجھے، لیکن نعیم بھائی آپ یہ کیوں پوچھ رہے ہیں؟“

    میں نے کہا کچھ نہیں لیکن فیصلہ کیا کہ میں اور جواد سوموار کو تھانے جا کر پولیس کو پوری بات تفصیل سے بتائیں گے۔

    میں گھر آگیا تو دیکھا کہ نیلوفر کا خوف جا چکا تھا اورامی سو چکی تھیں۔

    رات کو نیلو فر کمرے میں داخل ہوئیں تو اس کے ہاتھ میں دودھ کا گلاس تھا اور مجھ سے شوخی سے پوچھا،

    ”کیسی لگ رہی ہوں میں؟“

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے