Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

انمول

شہناز رحمن

انمول

شہناز رحمن

MORE BYشہناز رحمن

    رہبر کے بار بار اصرار کر نے پر آج انمول کی ادھوری زندگی کے متعلق لکھنے بیٹھ ہی گئی!!

    حالانکہ انمول میری بہت اچھی دوست ہے لیکن میں بہت جلد باتیں بھول جاتی ہوں، اس لیے اس کہانی کو مکمل کرنے میں مجھے رہبر کی رہنمائی حاصل رہی ہے۔ اس بنیاد پر اگر اصل راوی رہبر کو ہی سمجھا جائے تو کو ئی مضائقہ نہیں۔ میں تو محض اپنی یاداشتوں کے سہارے انمول کو یاد رکھتی جو میرے ذہن میں بس اشارے کی صورت میں موجود ہیں۔ اس طرح وہ میرے افسانوں کی ایک کردار نہ بن پاتی۔

    انمول پچھلے کئی گھنٹوں سے موسلا دھار بارش کے مزے لے رہی تھی، مزے لے رہی تھی یا کسی جاں سوز واقعہ کو یاد کر رہی تھی یا کو ئی منصوبہ بنا رہی تھی یہ تو اس کا دل ہی جانے، لیکن بظاہر لگ یہی رہا تھا کہ وہ لطف اندوز ہو رہی ہے۔ کہا جا تا ہے کہ دل کا حال چہرے سے عیاں ہو جاتا ہے لیکن انمول کے چہرے میں یہی ایک کمی تھی کہ اس کا چہرہ دل کا حال بیاں نہ کرتا، ہزار کوشش کے باوجود اس چہرے کوہمیشہ ناکامی ہی ہاتھ آئی، اس دن بھی دل کا حال عیاں نہ کر سکا جب اس کی زندگی کاسب سے بڑا دن تھا۔ بارش کی بوندیں کھڑکی کے اوپر بنے چھجے سے ٹپک کر لمحہ لمحہ عجیب و غریب نقوش ابھار رہی تھیں۔ بچپن میں یہ منظر بڑا خوش کن ہوا کرتا تھا، ہم بچے چیخ اٹھتے تھے کہ یہ دیکھو! میری فلاں سہیلی کا چہرہ بن گیا تو کبھی گھوڑے اور بلیوں کی ڈھانچے بن جایا کرتے تھے۔ لیکن اس دن انمو ل ان بنتے نقوش سے یکایک گھبرا گئی گویا کسی خوف زدہ کر دینے والے نقش کو دیکھ لیا ہو۔

    اس کی یہ گھبرا ہٹ کب شروع ہوئی تھی اس کے متعلق تفصیل بعد میں آئےگی، پہلے یہ بتا نا ضروری ہے کہ انمول اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھی۔ بڑے ہی لاڈ پیار میں اس کی زندگی گزر رہی تھی۔ اچانک ایک روز افواہ اڑی کہ کالج کے کسی لڑکے سے اس کی لگ سٹ ہو گئی ہے۔ گویا اس نے کوئی جرم کر دیا ہو۔ اس کے بعد گھر کا بچہ بچہ اس سے کترانے لگا، جو چاہتا جب چا ہتا گھنٹے کی طرح ٹھوک بجا دیتا۔ گھنٹے کے بجائے جانے کا تو پھر بھی وقت متعین ہے لیکن انمول پر ڈانٹ پھٹکار پڑنے کا کو ئی وقت متعین نہ تھا۔ اس کی ماں انمول کے ساتھ اپنائے جانے والے اس رویے پر دل مسوس کر رہ جاتی۔ گھر والوں نے سوچا اس سے پہلے کہ عزت خاک میں ملے، کہیں اچھا رشتہ دیکھ کر شادی کر دی جائے۔ عموماً ایسے مواقع پر رگ حمیت بڑی تیزی سے پھڑک اٹھتی ہے ورنہ جھوٹ ،چوری، بے ایمانی، دروغ گوئی پر لوگوں کی غیرت بمشکل ہی بیدار ہوتی ہے۔

    انمول کا ساتھ دینے والا کوئی نہ تھا سوائے اس کی ماں کے، لیکن اس کا ہونا نہ ہونا برابر تھا۔ اگر کوئی بہن ہوتی تو اس معاملے میں شایدکھل کر اس کا ساتھ دیتی۔۔۔ انمول کے ساتھ ماں بھی لوگوں کے طعن و تشنیع کا شکار ہو رہی تھی۔ خاندان والے تربیت پر انگلیاں اٹھا رہے تھے۔

    ’’آخرکار دعا قبول ہو ہی گئی۔‘‘

    خدا خدا کر کے ایک معزز پڑھے لکھے اور مذہبی خانوادے سے انمول کا رشتہ آیا، اس کی ماں اور گھر کے تما م افراد نے یہ احتیاط روا رکھی کہ انمول زیادہ وقت ان کے ساتھ نہ گزار سکے۔ یہاں تک کہ ساتھ میں لنچ کے مختصر وقفے میں ان لوگوں نے جو چند سوالات کیے تھے، اس کے جوابات بھی اس کی ماں نے خود ہی دینے کی کوشش کی۔ بہر حال رشتہ پکا ہو گیا، پھر منگنی کی تاریخ متعین کی گئی، دو چار مہینے میں منگنی بھی ہو گئی، لڑکے کی بہنیں، ماں اور بھابھیاں انمول کی تعریفوں کے پل باندھتے نہیں تھکتیں، نام کا اثر ہے لڑکی پر، بالکل انمول ہی ہے، جیسے ہمارے سعد کو کم بولنے والیاں لڑکیاں پسند تھیں بالکل ویسی ہی ملی ہے، مسکراتی ہے تو جیسے لگتا ہے روشنی بکھیر رہی ہو۔

    منگنی میں بڑے تحائف دیے گئے۔ سعد کی بہنیں پھولے نہ سماتی تھیں، پہروں پہر بھائی کے کمرے میں بیٹھی انمو ل کے قصیدے پڑھتیں۔ مذہبی فتاوے سے مملو دل کو ذرا کشادہ کر تے ہوئے موجودہ چلن کے مطابق سعد نے سوچا انمول سے بات کی جائے، اس کی پسند و ناپسند کو سمجھا جائے، لیکن فون کرنے پر ناکامی اس کے ہاتھ آئی، یہ بات سعد کو ذرا ناگوار گزری مگردل ہی دل میں خوش بھی ہوا کہ وہ لڑکی جو اس کی بیوی ہوگی آج کے زمانے میں اتنی پاکیزہ ہے۔

    رہبر نے معذرت کرتے ہوئے بتا یا تھا کہ میرے نزدیک پاکیزگی کی علامتیں متعین نہیں اور مردوں سے بات نہ کرنے کو پاکیزگی کی دلیل ماننے کی احمقانہ بات مجھ سے ہضم نہیں ہوتی ہے۔ لیکن سعد کو ایسا کہتے ہوئے رہبر نے سنا تھا اس لیے مجھے بھی اس نے یہ بات بتا دی۔

    شادی اور منگنی کے درمیان، عید کے موقع پر سعد کی بہن اور بھابھی عیدی لے کر جب گئیں تو انھیں انمول کی ایک حرکت تھوڑی اٹ پٹی سی لگی تھی مگر انھوں نے اسے معصومیت پر محمول کیا اور پھر وہاں سے رخصت ہوتے ہوئے اتنی زیادہ رخصتی ملی کہ اس کی خوشی نے انمول کی حرکت کو ذہن سے محو کر دیا اور وہ سعد یا دوسرے گھر والوں کو بتانا بھول گئیں۔ اسی موقع پر شادی کی تاریخ بھی طے کر دی گئی جب کہ لڑکے والے تاخیر چاہتے تھے لیکن انمول کے گھر والوں نے کچھ مجبوریاں بتاکر عید کے ٹھیک دس دن بعد تاریخ متعین کر دی۔

    رہبر کو ان ساری کارگزاریوں پر بارہا اعتراض رہا لیکن پرائے لوگوں کی کون سنتا ہے اتنا ہی کیا کم تھاکہ اسے یہ حق حاصل تھاکہ اپنے مشورے پیش کر سکے۔

    انمول کی شادی والے دن اس کی ماں کے سر پر خطرہ کی گھنٹی لٹکی رہی کیوں کہ ایک دن پہلے اڑنے والی افواہ کے سچ ہو نے کا خطرہ تھا۔ اسی لیے طعام بعد نکاح کے بجائے بارات پہنچتے ہی چار چھ لوگوں کی موجودگی میں نکاح کر دیا گیا۔ سعد کے گھر والے یوں تو جہیز کے بڑے ہی مخالف تھے لیکن اس وقت انھوں نے تحفے کی قبولیت کے متعلق ’’تحفہ قبول

    کرنا چاہیے چاہے وہ ایک کھر ہی کیوں نہ ہو‘‘ کی حدیث سے جواز پیدا کر لیا۔ سارا محلہ جہیز بنام تحائف دیکھ کر عش عش کر رہا تھا۔

    انمول کا حجلہ عروسی بھی کیا قیامت کا تھا، دلہن بن کر وہ غضب ڈھا رہی تھی، اس کی نندیں کھچاک کھچاک تصویریں لے کر دوستوں کو شیئر کر رہی تھیں۔ سعد کو بھی دلہن کی تصویر بھیجی گئی۔ سنا ہے کہ اس دن سے پہلے اور پھر اس کے بعد، سعد نے کبھی کسی لڑکی کو منھ بھر نہیں سراہا۔ لیکن اسے کیا معلوم تھا کہ اس کی گھنیری پلکوں تلے اسے سایہ نصیب ہونے والا نہیں ہے۔

    رہبر کے مطابق، انمول نے بہت بڑی نا انصافی کی تھی۔ آگے کی کہانی بتاتے ہوئے غصہ کی جھلک اس کے چہرے پر صاف دیکھی جا سکتی تھی اور مجھے اس کی یہ غیر جانب داری پسند آئی۔

    رہبر نے بتایا کہ ولیمہ کے دن میں نے سعد کے چہرے پر جو تھکن، مایوسی اور زند گی سے چھٹکارا پانے کی جو چاہت دیکھی تھی، وہ ناقابل بیان ہے۔ مذہبی تو وہ تھا ہی۔ اسی لیے شاید گھر کے کسی بھی فرد سے سنہری رات میں نازل ہونے والے ناگہانی قہر کو اس نے بیان نہ کیا ہوگا تب ہی تو اس کی بھا بھیاں مسلسل چھیڑے جا رہی تھیں۔

    ولیمہ ختم ہو ا، سارے مہمان چلے گئے، انمول بھی شام تک گھر چلی آئی۔ رات بڑی دیر تک اس کے گھر پر ڈاکٹر اور دوسرے لوگوں کی آمدورفت رہی۔ میں گھبرا گیا کہ شاید وہ باتیں جو شاد ی سے پہلے سات پردوں میں رکھی گئی تھیں کہیں کھل تو نہیں گئیں۔ لیکن معاملہ خطرہ سے باہر تھا۔

    کہتے ہیں عشق اور مشک کتنا بھی چھپایا جائے اس کی خوشبو پھیل ہی جاتی ہے۔

    دوسرے پہر جب سعد انمول کو لے کر جا رہا تھا اس کے چہرے پر یہی بھیا نک خاموشی اور گھبراہٹ تھی۔

    گھر پہنچ کر انمول کھانا کھائے بغیر سو گئی، سب نے سوچا تھکی ہوگی اس لیے سونے دیا جائے، سعد کی بہنیں پھوپھیاں اور دوسری چچا زاد بہنیں دلہن سے بات کرنے کے لیے بے تاب تھیں لیکن وہ کمرے سے باہر نہیں نکلی، سعد کی پھوپھی کو دلہن کی یہ خاموشی دیکھ کر تشویش ہوئی، لیکن انھوں نے پھر سوچا شرما رہی ہوگی۔

    خلاف توقع وہ صبح میں خوف و دہشت کے عالم میں چیختی اور یہ کہتی ہوئی نکلی کہ ’’وہ دیکھو وہ آ رہا ہے‘‘ سعد کی بہنیں اور بھابھیوں نے مارے ڈر کے کنڈیاں چڑھالیں۔ دوائیاں جو اس کی ماں نے سعد کی بہن کویہ کہہ کر دی تھیں کہ ’’یہ طاقت کی دوائیاں ہیں اسے ضرور کھلاتی رہنا۔‘‘ فوراً دے دی گئیں ۔گھر والوں کو یہ بات بڑی عجیب لگ رہی تھی، ایک دوسرے سے کانا پھوسی کر تے پھر رہے تھے مگر کھلی زبان سے کچھ کہنے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی ۔لیکن جب سعد کی بہن کالج جانے لگی تو دوائیوں میں ناغہ اور انمول کی وہی حرکتیں شروع ہو گئیں۔ تب سعد نے اپنے بڑے بھائی کو انمول کے سارے پریسکرپشن اور دوائیاں دکھائیں۔ اس کے بعد گھر والوں پر جو بیتی اس صورتحال کو بلا مبالغہ ماتم سے تشبیہ دینی چاہیے۔ انمول کی ماں یہ بات ماننے کے لیے تیار ہی نہ تھی کہ اس کی بیٹی کا ذہنی توازن خراب ہے۔ ہفتوں تک دونوں خاندانوں میں چق چق ہوتی رہی۔

    جب بات بہت آگے بڑھ گئی، تب سعد نے اس رات کا حادثہ بیان کیا جسے بیان کرنا شر عاً مکروہ سمجھا جاتا ہے۔ بہ زبانی سعد کے ’’اس نے رو رو کر برا حال کر لیا اور اپنی تمام حرکتوں سے سے یہ ثابت کر دیا تھا کہ وہ ابنارمل ہے۔‘‘ اس نے اپنے تن سے زیورات اور کپڑے نوچ کر پھینک ڈالے تھے اور مجھے کمرے سے باہر دھکیلتے ہوئے کہا تھاتم مجھ سے دور رہو، مجھے ہاتھ نہ لگا نا، میری ماں کے پاس ایسی طاقت ہے کہ وہ سب کچھ دیکھ سکتی ہے، سعد نے سارے فقہی مسائل اسے سمجھا ڈالے کہ اب وہ اس کی امانت ہے اور باہم رشتہ بنانے سے کوئی چیز مانع نہیں اور رہی تمہاری ماں کی بات تو کوئی یہ طاقت نہیں رکھتا کہ غیب کی باتیں جان سکے یا دیکھ سکے ۔لیکن انمول نے حد کر دی۔

    اس وقت بارش کی بوندوں سے بنتے نقوش دیکھ کر جو گھبراہٹ انمول پر طاری ہے وہ اس دن سے شروع ہوئی تھی جب اس کے ما موں نے موسلا دھار بارش میں اس کے عاشق کو ادھ مرا کرکے پھینک دیا تھا۔ اس دن کے بعد اس کا کچھ اتاپتہ نہ ملاکہ وہ کہاں غائب ہو گیا، ایک لمبی غیاب کے بعد بھی انمول اسے بھلا نہ سکی تب اس کی ماں کو ایک ترکیب سوجھی اور اس نے یادداشت کمزور کرنے کے گنڈے پہنانے، ذہنی جھٹکے اور پاگل پن کے انجکشن لگوانے شروع کر دیئے۔ ڈاکٹر سے اس نے صرف اتنے انجکشن لگانے کو کہے کہ اس کا ذہن منتشر ہو سکے مگر ڈاکٹر۔۔۔

    گھر والوں کوسعد کی بہت فکر ہو رہی تھی، سعد کے چہرے پر چھائی ہوئی مردنی دیکھ کر وہ لوگ اچھے سے اچھے ڈاکٹر سے انمول کا علاج کروا رہے تھے لیکن وہ کسی طور سنبھلنے میں نہیں آ رہی تھی، دن بدن اس کی حالت ابتر ہوتی جا رہی تھی، دوسری طرف گاؤں محلے اور رشتہ داروں سے پوشیدہ بھی رکھنا تھا۔ بالآ خر سعد کے بڑے بھائیوں نے تنگ آکر طلاق کا مشورہ دیا لیکن سعد۔۔۔

    طلاق کے متعلق جب انمول سے بات کی گئی تو اس کا چہرہ کوئی تاثر عیاں نہ کر سکا۔ سعد کے ساتھ اس کا وہی اجنبیوں جیسا رویہ رہا، دل پر پتھر رکھ کر وہ اس عذاب کو جھیلنے کا حوصلہ پیدا کرنے کی کوشش کرتا رہا، مگر ایک دن انمول پر ہسٹیریائی کیفیت طاری ہوئی تو اس نے بہت سی اول فول باتیں بکنے کے ساتھ یہ بھی کہہ دیا کہ اس کی مرضی کے بغیر جبراً یہ شادی کی گئی ہے وہ تو کسی اور سے۔۔۔

    سعد اس حقیقت کو برداشت نہ کر سکا۔۔۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے