آفس کی گیارہ منزل عمارت کے سامنے آتے ہی اسے محسوس ہوا جیسے آنتوں میں کچھ چل رہا ہو۔ جیسے کوئی چوہیا دھیرے دھیرے آنتوں کو کتر رہی ہو۔
منھ اور زبان کڑوے ذائقے سے بھر گئے اور پیٹ میں کوئی شے دوڑتی ہوئی محسوس ہوئی۔ پھر جسم کے تمام مسامات کھلتے چلے گئے اور ٹھنڈی یخ کردینے والی لہر اندر تک رینگ گئی، تو زرد رنگ کے پانی کی سخت کڑوی قَے ابل ابل کر باہر آنے لگی۔
جی بھرکر اوک لینے کے بعد اس نے کانپتے گھٹنوں کے سہارے کھڑے ہوکر آس پاس سرد تازہ پانی کے لئے نظریں دوڑائیں۔۔۔ حبس چاروں طرف پھیل رہا تھا۔ سانس گھٹ رہی تھی۔ ایسے میں ہوا کے لئے بےچارگی سے ہاتھ پیر ہلانا بھی فضول لگ رہا تھا۔ کڑوا ذائقہ تا دیر اس کے ساتھ رہا اور وہ متوحش دعائے سبا سب کی اولیں سطروں کا ورد کرتا ہوا آفس میں داخل ہو گیا۔
فائل نمبر ۷۹؍۱۰؍۳ کا ریمائنڈر پنڈنگ رسیٹ کا چارٹ، فسادات کی رپورٹ کا پروفارما، نیلم کے خط کا جواب، ابا کو خط اور منی آرڈر۔۔۔ مجھے اب خالی پیٹ کبھی نہ رہنا چاہئے۔ ایمی بیاسس۔ شاید چائے سگریٹ پھر بڑھ گئی ہے۔
سب نے اسے رحم آمیز نظروں سے دیکھا۔ دو چار بڑھ کر اس کے نزدیک آئے۔ کچھ نے اپنی بے رحم مسکراہٹ چھپائی۔۔۔ جلن پورے جسم میں پھیلتی جارہی تھی۔۔۔ فمِ معدہ پر ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے روپیہ کا جلتا ہوا سکہ چپکا دیا گیا ہو اور جس کا کھنچاؤ اور چبھن دونوں پھیپھڑوں کو جکڑے لے رہی ہو۔ گھٹن اور تیز ہو گئی تو وہ گھبراکر اٹھ بیٹھا۔
خلوئے معدہ۔ ایمی بیاسس شدید ایمی بیاسس۔
اس نے کمرہ میں ٹہلنا چاہا۔ زور سے ٹھٹھا مارکر ہنسنا چاہا لیکن تھرتھراکر رہ گیا۔ اس کو محسوس ہوا جیسے پھر کوئی شے تیزی سے آنتو، پھیپھڑوں اور سینے کو کتر رہی ہے۔ اس نے چاہا کہ وہ چیخ چیخ کر کہے کہ میری آنتوں میں ایمی بیاسس نہیں۔ کوئی جان دار شے۔ کوئی کیڑا۔ چلتی پھرتی رسولی، یا کینسر۔ (یا کچھ اور۔۔۔؟)
اس نے جھک جھک کر ہر ایک کا پیٹ اور آنتیں کرید کر دیکھیں۔ ہر جگہ کوئی نامعلوم شے رینگتی نظر آئی۔ اس کا دل چاہا کہ سب کو خبردار کر دے کہ تمہارے ساتھ تمہاری آنتوں میں بہت سے متحرک وجود ہیں۔ وہ اپنا اپنا آذوقہ تمہارے جسم سے حاصل کر رہے ہیں اور تم جو کچھ کر رہے ہو، یعنی تمہارا ہر فعل تمہارے لیے نہ ہوکر دراصل ان کے لئے ہو رہا ہے۔ ایمی بیاسس کہاں نہیں ہے۔ کیکڑا آہستہ آہستہ چلتا ہوا اپنے نیچے پھیلاتا جا رہا ہے۔ رسولی کب پھوٹےگی کہ جلن سارے جسم میں پھیلتی جا رہی ہے۔
ابا کے بائیں بازو پر رسولی ہے جو روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔ تکن دادا امریکہ سے آئے تھے تو آپریشن کو کہہ رہے تھے۔ ابھی ابا کا خط آیا ہے کہ میں بھائیوں کی ذمہ داری صحیح طریقہ سے نہیں پوری کر رہا ہوں۔۔۔
گھر کے اگلے حصے کو گرا دیا گیا ہے۔ اس کی دیواروں میں سے کئی من دیمکیں نکلی ہیں۔ جیسے سگوا آم کے گرنے پر اس کے تنے میں سے نکلی تھیں۔ لجلجی، غلیظ دیمکیں۔ اب کی برسات میں سیپیاں پیشاب کہاں کریں گی۔ سنڈاس سے سفید کیڑے ابل ابل کر طہارت کے لوٹے میں آجاتے ہیں اور لوٹے سے دال کا پانی انڈیلتے وقت دال میں اور دال سے۔۔۔
بچپن میں میرے پیٹ سے سفید کیڑے بھی تو نکلے تھے۔۔۔ دادی نے ککروندے کا عرق۔۔۔ تو کیا اب بھی سفید کیڑے۔۔۔؟
اس کا سارا جسم تیز ٹھنڈی سنسنی میں ڈوبنے لگا۔ مسامات نے پھر اپنا منھ کھول دیا۔۔۔ زور کڑوی قے کا ایک چلو اگلتے ہی اس کے گھٹنے تھرتھرانے لگے۔ اس نے گھر سے آئے خطوں کو کھول کر پڑھنے کی ناکام کوشش کی، لیکن اس کے ساتھ اسے آفس سے لے کر نکل آئے۔
میوکس بھی ہے (CYST) بھی آنتوں میں خراش بھی پڑ چکی ہے۔ ایمی بیاسس شدید ایمی بیاسس۔ لگاتار کئی کٹورہ پانی پینے کے بعد اسے لگا کہ اب اس کی پیاس کبھی نہ بجھ سکےگی۔ اسے علئی دادا یاد آئے۔ ان کی پیاس کبھی نہ بجھتی تھی۔ کیوں کہ انہوں نے عاشورہ کے دن ٹھنڈا پانی پی لیا تھا۔
وہ پانی پیتے پیتے تھک کر لیٹا تو محسوس ہوا جیسے کچھ جان دار چیزیں اس کی آنتوں میں غڑاپ غڑاپ تیر رہی ہیں اور پیٹ کے کناروں میں کانٹے سے چبھ رہے ہیں۔۔۔ جلتا ہوا سکہ پھر فم معدہ پر چمک رہا ہے۔۔۔ اس نے گھبراکر چاروں طرف دیکھا اور قمیص اتار کر آئینہ کے سامنے جا کھڑا ہوا۔۔۔ پیٹ پر دباؤ ڈال ڈال کر آئینہ میں دیکھا۔ اچانک جب بہت تیز مروڑ اٹھتی تو وہ باتھ روم میں گھس گیا۔ وہاں سے نکلا تو سارا چہرہ اور جسم ٹھنڈے پسینے میں بھیگے ہوئے تھے۔
دیواروں پر ایک بنسواڑی کا جنگل دکھائی دیا۔ گول مٹول سا جس میں ایک گھوڑا دوڑ رہا تھا۔ جہاں گھنا کانٹوں دار جنگل آتا وہ گھوڑا ایک چوہا بن جاتا اور کانٹے دار جھاڑیوں میں سے اچکتا، کودتا، بھاگتا رہتا۔۔۔ وہاں سے نکلتے ہی پھر گھوڑا بن جاتا۔ دوڑے دوڑتے اس کے جسم سے پسینہ ٹپکنے لگتا۔ ہاں جہاں وہ پسینہ گرتا وہاں وہاں آبلہ بن جاتا۔ پھر وہ آبلہ پھوٹ کر زخم بن کر رسنے لگتا۔۔۔ گھوڑے کے منھ سے بھی سفید سفید پھین نکل کر زمین پر گرتا جہاں سے ایک چوہا پیدا ہوکر دوڑنے لگتا۔۔۔ اس طرح سارا جنگل چوہوں اور آبلوں سے بھر گیا۔۔۔
گھبراکر آئینہ کے سامنے کھڑے ہوکر اس نے قمیص الٹ دی اور گھو گھور کر اپنا پیٹ دیکھنے لگا۔
اس کا دل پھر تیزی سے دھڑک اٹھا۔۔۔ فسادات کی رپورٹ کا پروفارما۔ آفس کی مکروہ، اندر دھنسی ہوئی چمکیلی دو آنکھیں، چند استہزائیں، مسکراہٹیں اور کراہیت۔
ارد گرد پھیلی مکروہ، نیلی مفاہمت، لادا ہوا احساسِ فرض اور بےوقعتی سے پیدا شدہ شدید نفرت اور بےبسی۔ اس کا جی چاہا کہ چیخ چیخ کر روتا ہوا، کپڑے پھاڑ کر بالوں کو نوچتا سڑکوں پر نکل جائے۔ کیچڑ میں لت پت ہوکر اپنی ہی بوٹیاں نمکین آنسوؤں سے نگلتا چلا جائے۔ نگلتا چلا جائے۔۔۔
کمرہ کی دیواریں پھیلنے لگیں۔ فائلوں کا انبار لگتا گیا۔ وہ خوف زدہ کانپتا ہوا دیوار کی طرف سمٹنے لگا۔ پھر چاروں طرف مسمار دیواروں کے ملبے سے اڑی ہوئی گرد جمنے لگی اور اس میں دیمکوں کی قطاریں سلسلہ در سلسلہ اس کی طرف بڑھنے لگیں۔ دیمکوں کے بازوؤں پر رسولیاں تھیں اور آنکھوں میں کئی ہزار سال کی محرومی اور چڑچڑاپن (اماں۔۔۔کاش میں کبھی صحت مند حالت میں تمہارے ساتھ رہ سکتا۔) نامعلوم خوف اسے جکڑے رہا اور اس کا جسم پسینہ میں نہاتا رہا۔۔۔ اس نے دیوار کی جڑ میں کچھ کیچوے دیکھے۔ اسے محسوس ہوا جیسے کوئی لجلجی جان دار شے پیٹ میں کلبلا رہی ہے اور رینگ رینگ کر کھردری آنتوں پر پھس رہی ہے۔ پیٹ کی دیوار آہستہ آہستہ پھولتی پھیلتی جا رہی ہے۔
دیواروں پر چاروں طرف ہزاروں مٹ میلے، ہلکے زرد، لمبے، نیم مُردہ کیچوے چپکے ہوئے تھے، دیواریں چھلنی ہوئی جا رہی تھیں، جیسے انھیں لونا لگ گیا ہو۔جب کبھی یہ ختم ہوں گے تو دیوار کس قدر مکروہ، لچکیلے، جالی دار خانوں سے بھری ہوگی؟ اس نے دیوار کو دیکھا اور پھپھک کر روڑا۔۔۔ میں کب کسی کے لئے کارآمد رہا ہوں۔ میں نحس تاریخ اور نحس گھڑی کی پیدائش، ساری زندگی مجھے غم و آلام کا شکار رہنا ہے۔ (اماں! تمہیں میرے وجود کے علاوہ میری زبان سے بھی دکھ پہنچے ہیں اور تم بلک بلک کر روئی ہو۔ میری ماں ہونے کے باوجود) اچانک وہ گھبراکر اٹھ بیٹھا پھر گھور گھورکر سارے کمرہ کو دیکھا۔ قمیص کا دامن اٹھایا اور اپنے پھولتے، بڑھتے پیٹ کو سہلانے لگا۔
اس نے دیکھا کہ وہی گھوڑا تڑاخ تڑاخ جنگل اور پہاڑی میں دوڑ رہا ہے۔ جہاں جہاں کانٹے دار جھاڑیاں ہوتیں وہاں وہ چوہا بن کر پھدک کر نکل جاتا اور جہاں دلدل آتی تھی۔۔۔ وہاں وہ کیچوہ بن کر رینگ کر باہر نکل آتا۔
اس نے آئینہ کے سامنے جاکر دیکھا۔ پیٹ کا ورم بہت بڑھ گیا تھا۔ جلن اور شدید امتلائی کیفیت کے دوران وہ جھک کر دیوار کے کونے میں جمع ترش، نمکین مٹی چاٹنے لگا۔ پھر مٹی کے پکے ہوئے ٹکڑوں کو تلاش کر کے چبانے لگا۔
تھوڑی دیر بعد وہ تیز جلن اور امتلائی، کیفیت کے دوران ہی آفس پہنچ گیا اور ایک ساتھی کو بلاکر اس کے سامنے قمیص اٹھاکر کھڑا ہو گیا۔
’’میرا پیٹ تمہیں کچھ پھولا ہوا تو نہیں لگتا۔۔۔؟‘‘
دوست نے اس کی اندر دھنسی ہوئی آنکھوں اور چہرے کی خشکی اور مردنی کی طرف غور سے دیکھتے ہوئے نفی میں گردن ہلائی تو اس نے قمیص گراکر اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔
’’میرے پیٹ میں گھوڑا پرورش پا رہا ہے۔ کبھی وہ چوہا بن جاتا ہے کبھی کیچوا۔ کبھی پورے پیٹ میں دوڑتا ہے، لیکن جب معدہ خالی ہوتا ہے تو وہ آنتوں کو چبانے لگتا ہے۔‘‘
’’گھوڑا۔۔۔؟‘‘ دوست نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔
’’ہاں۔ گھوڑا۔۔۔ تم نہیں سمجھ سکتے۔ کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ میں بھی کسی سے نہیں بتانا چاہتا۔ سب مجھے بہلاتے تھے۔ نہ ایمی بیاسس ہے نہ سفید کیڑے نہ سیکم کینسر۔ نہ پرانی پیچش اورنہ ہی کیچوا۔۔۔ دراصل میرے پیٹ میں گھوڑا ہے جو کبھی چوہا بن جاتا ہے کبھی بالکل کیچوا۔۔۔ پھر گھوڑا بن کر تڑاخ تڑاخ سارے پیٹ میں دوڑتا ہے۔ فرفر کی آواز نکالتا ہے۔ ہنہناتا ہے۔ اس کے منھ سے سفید سفید پھین نکل نکل کر ٹپکتا رہتا۔۔۔
’’تم نے دیکھا نہیں کہ میرا پیٹ بڑھتا جا رہا ہے۔ اب تو مجھے اٹھنے بیٹھنے اور آب دست لینے میں بھی دقّت ہوتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ اب مجھے احتیاط و پرہیز بھی کرنا چاہئے،‘‘ اس نے کنپٹیوں سے پسینہ خشک کرکے کہا۔ ’’کیا تمہیں پتہ ہے کہ گھوڑا کب پیدا ہوتا ہے؟ یعنی کتنے مہینے میں؟ میرا مطلب ہے گھوڑا۔‘‘
جواب کا انتظار کئے بغیر وہ ملٹری ریس کورس کی طرف چل پڑا جہاں ملٹری والوں کے گھوڑے مشق کیا کرتے تھے۔ پھروہاں سے واپس میں تانگے میں جتے ہوئے گھوڑوں کی غور سے دیکھتا ہوا مستقر پر لَوٹ آیا۔ اسٹو پر چائے کا پانی جب سنسنانے لگا تو چاروں طرف پھر گھوڑوں کے دوڑنے کی آواز گونجنے لگی۔ کڑبڑ۔ کڑبڑ۔۔۔ پھر آواز تیز سے تیز تر ہوتی گئی اور سارا کمرہ دوڑتے گھوڑوں کی ٹاپوں سے گونجنے لگا۔ کڑبڑ۔ کڑبڑ۔ کڑبڑ۔کڑبڑ۔
ساری رات دیواروں پر گھوڑے دوڑتے رہے اور گہری گہری سانسیں لیتا رہا۔ تھوڑی دیر بعد اس کا باپ مونڈھوں پر سے پھٹی شیوانی پہنے نظر آیا۔ تمباکو اور چھالیے کی تیز بو میں لپٹا ہوا بہت بوڑھا سا۔ اچانک اس نے چونک کر ان کے تمام خط جواب دینے کے لئے نکالنے چاہے تو تکیہ کے نیچے انگلیاں ان تعویذوں سے ٹکرا گئیں جو اس کی ماں نے آسیب دور کرنے کے لئے اس کے سرہانے اور کمرہ کے ہر کونے میں رکھ دیے تھے۔ اسے محسوس ہوا جیسے ماں اسے چھو رہی ہے۔ اس کی ناک، آنکھ اور کان کی لَو میں مس کر رہی ہے اور بہت سنبھال کر پھونک مار رہی ہے کہ پھونک کے ساتھ اس کا ڈھیلا مصنوعی دانت بھی نہ گر پڑے۔
بالکل بغل سے کوئی سواری گزری تو وہ چونک اٹھا۔۔۔ گھوڑا؟ پھر بہت دیر تک سواری کی آواز، گھوڑے کی ٹاپ کی طرح اس کے دل میں دھمک پیدا کرتی رہی۔ قدم اچانک وزنی ہونے لگے اور پیر کانپنے لگے تو وہ ٹھہر گیا۔ بالکل اس کے سامنے سڑک کے اس پار جانوروں کو پانی پلانے کا سرکاری حوض تھا، جہاں کچھ تانگے والے کھڑے نگاہیں نیچی کیے اپنے گھوڑوں کو پانی پلا رہے تھے۔ اس کے سینے اور آنتوں میں بڑی تیز جلن اٹھی اور محسوس ہوا جیسے کڑوا دھواں سا کچھ اٹھ کر حلق کی طرف سے ہوتا ہوا کان، ناک اور منھ سے باہر آ رہا ہو۔ اس نے محسوس کیا کہ وہ انھیں گھوڑوں کے ساتھ لائن میں کھڑا حوض میں منھ ڈالے سیر ہوکر پانی پی رہا ہے۔ پھر انہیں گھوڑوں کی طرح درمیان میں گردن اٹھا اٹھاکر فرفر کی آوازیں نکال کر چھینٹیں اڑا رہا ہے۔
رات میں اس کی چیخ سن کر سارا گھر دھڑا دھڑاتا ہوا اس کے کمرہ میں گھس گیا۔ وہ کمرہ کے ایک کونے میں کھڑا خوف زدہ سرخ چڑھی ہوئی آنکھوں سے بستر کو گھور رہا تھا۔ سب نے اس کی کمزوری، پتلی رانوں اور پھولتے ہوئے، پیٹ کوغور سے دیکھا ماں بولی، ’’اب اسے اپنے ساتھ سلایا کیجئے۔‘‘ باپ نے خاموشی سے بازو پکڑ کر اسے پھر بستر پر بٹھایا۔
بوڑھے خبیث سے نفسیاتی معالج نے پوچھا، ’’کیا آپ کو گھوڑے بہت پسند تھے؟‘‘
’’جی نہیں۔‘‘
’’کیا آپ کو گھوڑوں سے نفرت ہے؟‘‘
’’کیا آپ پہلے کبھی گھوڑے سے گرے ہیں، آپ کو چوٹ آئی ہے؟‘‘
’’جی نہیں۔‘‘
’’کیا آپ پہلے بھی خواب میں گھوڑے دیکھتے تھے؟‘‘
’’جی نہیں۔‘‘
’’کیا آپ کے ارد گرد کوئی ایسا آدمی ہے جس کی شکل دیکھ کر آپ کو گھوڑا یاد آئے اور آپ اس شخص سے نفرت یا محبت محسوس کرتے ہوں؟‘‘
’’جی نہیں۔‘‘
’’کیا آپ محسوس کرتے ہیں کہ آپ کے پیٹ میں واقعی گھوڑا ہے اور وہ اصلی گھوڑے جیسا ہی جسیم اور تنومند ہے؟‘‘
’’جی ہاں۔‘‘
’’وہ گھوڑا چلتا بھی ہے۔ اس سے آپ کو پریشانی ہوتی ہے؟‘‘
’’جی ہاں۔‘‘
’’یہ گھوڑا ہنہناتا ہے، بانچھوں سے فرفر کرتا ہے۔ پھر آپ کی آنتیں چبانے لگتا ہے اور آپ کو قے آ جاتی ہے؟‘‘
’’جی ہاں۔‘‘
’’آپ اس سے نفرت یا خوف محسوس کرتے ہیں؟‘‘
’’جی نہیں۔‘‘
سناٹی رات میں اس کا جی چاہا کہ خوب زور زور سے ہنہنائے اور فرفر کی آوازیں نکالے، یہ نہ سہی تو کم سے کم آئینہ کے سامنے کھڑا ہوکر اپنی قمیص اتارکر جی بھر کراپنا پیٹ دیکھے اور سہلائے۔ لیکن کمرہ میں باپ کی موجودگی کے باعث وہ ساری رات دبے پاؤں ٹہلتا رہا۔ گئی رات میں کوئی بھیانک خواب دیکھ کر اس کا باپ روتا ہوا اٹھ بیٹھا تو اس نے دیکھا کہ وہ سارے کمرے میں چاروں ہاتھ پاؤں کے بل ٹہل رہا ہے۔
’’کیا بات ہے؟ کیا پھر تکلیف ہو رہی ہے؟‘‘ باپ نے گھبراکر پوچھا۔
وہ چونک اٹھا۔۔۔ ’’گھوڑا۔۔۔؟‘‘
’’پاگل ہو تم بالکل پاگل۔ موت بھی نہیں آتی ہمیں کہ نجات ملے،‘‘ اس کا باپ چیخ اٹھا اور ڈاکٹر دندناتا ہوا اس کے کمرے میں گھس آیا۔
’’نہیں کچھ نہیں۔۔۔کوئی ابنارملسی نہیں۔ یہ سب کچھ آپ کا وہم ہے۔ بھلا آدمی کے پیٹ میں گھوڑا۔۔۔؟ سب کچھ بالکل ٹھیک ہے۔‘‘
’’ڈاکٹر صاحب۔۔۔‘‘ اس نے کن انکھیوں سے باپ کی طرف دیکھتے ہوئے دبے، لیکن سخت لہجے میں کہا۔۔۔ ’’میرے پیٹ میں ہے گھوڑا۔۔۔ میں اسے دیکھتا ہوں محسوس کرتا ہوں۔۔۔ وہ ہنہناتا ہے۔ بانچھوں سے فرفر کی آواز نکالتا ہے اور سارے پیٹ میں دوڑتا ہے۔ میں اس کے سفید پھین کو جگہ جگہ ٹپکتے ہوئے بھی محسوس کرتا ہوں۔۔۔ میں ابھی اس پر قابو نہیں پا سکا ہوں اور وہ میرے اشارے ابھی نہیں سمجھ سکا ہے۔‘‘
معالج باپ سے کانا پھوسی کرنے لگا۔ کوئی مرض نہیں۔ صرف وہم۔شدید وہم۔ اب صرف ایک علاج ہے۔ ان کا آپریشن کیا جائے اور ایک گھوڑا سامنے لاکھڑا کر دیا جائے کہ واقعی یہ تمہارے پیٹ سے نکلا ہے۔ پھر یہ مطمئن ہو جائیں گے۔ باقاعدہ آپریشن کا پورا اہتمام کرنا ہوگا۔ ورنہ انہیں احساس ہو سکتا ہے کہ ہم انہیں بےوقوف بنا رہے ہیں۔ یہ بھی ضرور کرنا ہے کہ ایک گھوڑے کا انتظام ہم پہلے سے ہی کر لیں۔۔۔‘‘ ڈاکٹر بڑبڑاتا ہوا نکل گیا۔۔۔
’’ہونہہ، آدمی کے پیٹ میں گھوڑا۔۔۔ سخت پریشان کن معاملہ۔۔۔‘‘
تمام دن وہ امتلائی کیفیت میں مبتلا پیٹ سہلاتا رہا۔ جب مروڑ زیادہ ہونے لگی تو باتھ روم میں گھس کر بیٹھ جاتا۔
دوسری صبح اسے اسپتال میں داخل کر دیا گیا۔ جہاں سرور کے عالم میں وہ مسکراتا رہا۔ سارے دن اس کو طرح طرح کی دوائیں اور مکسچر استعمال کرائے گئے۔ انجکشن دیے گئے۔ خون کا معائنہ ہوا۔ پھر رات میں فلمی رسائل کی ورق گردانی کرتا ہوا وہ اطمینان سے گہری نیند سو گیا۔
صبح سویرے ہی اس کی ماں اور چھوٹے بھائی اسے دیکھنے اسپتال آئے تو وہ دیر تک ہنس ہنس کر (ان کی توقع کے خلاف) باتیں کرتا رہا۔ ماں حسرت ناک انداز میں اسے دیکھتی اور ناک، کان، رخسار اور لب چھوتی رہی۔ اسے بار بار محسوس ہوتا کہ کوئی گولا سا اٹھ کر اس کے حلق تک آکر رہ جاتا ہے لیکن وہ برداشت کرتا رہا۔
دن میں کئی بار اس کے باپ نے آکر اسے تسلی دی۔ نفسیاتی معالج اور ڈاکٹر مہروترا نے بھی ہمت بندھائی۔۔۔ نرسیں تو صبح سے ہی اس کی تیمار داری میں مصروف رہیں۔ جب اسے آپریشن ٹیبل پر لے جانے کے لئے اسٹریچر پر لٹایا گیا تب بھی وہ مسکراتا رہا۔ اس کی ماں، بھائی کونے میں کھڑے سسکیاں لیتے رہے۔ دھیرے قدم چلتے ہوئے وہ اسٹریچر کے پیچھے پیچھے اسے آپریشن روم تک چھوڑنے آئے۔ ماں نے جلدی جلدی کچھ دعائیں پڑھ کر دم کیا۔ باپ اس کا بازو تھام کر تسلی دینے لگا۔
سفید پوش کمرہ میں داخل ہوتے ہی اس کی آنکھوں نے ایک لمحہ میں سارا منظر دیکھ لیا۔ آپریشن ٹیبل کی چاروں طرف چھوٹی بڑی میزوں پر مختلف اوزار رکھے تھے۔ پاس ہی آکسیجن اور گلوکوز کا اسٹنڈ رکھا تھا۔ ایک میز پر ہیٹر دہک رہا تھا۔ جس پر اسٹیل کے برتن میں سے پانی ابلنے کی آواز آ رہی تھی۔ کڑبڑ کڑبڑ۔ پاس ہی نفسیاتی معالج، ڈاکٹر مہروترا اور نرسیں بھی کھڑی تھیں۔ اسے اسٹریچر سے اتار کر بستر پر لٹا دیا گیا۔ نرسوں نے دروازہ پہلے ہی بند کر دیا تھا۔
جب دروازہ بند ہوا تو باہر کھڑے باپ کا چہرہ سیاہ پڑ گیا۔ ماں تو پیٹ پر ہاتھ رکھ کر وہیں زمین پر دھپ سے بیٹھ گئی۔ چھوٹے بھائی لان میں کھڑے توانا، مشکی رنگ کے گھوڑے کی حفاظت کر رہے تھے۔
نفسیاتی معالج نے ایک کھڑکی کھول کر باپ کو کچھ اشارہ کیا تو وہ لپک کر گھوڑے کے پاس گیا اور بچوں کو ڈانٹ کر گھوڑے کے پاس سے ہٹا دیا۔
ماحول پرعجیب سی مضحکہ خیز دہشت طاری تھی کہ اچانک آپریشن روم سے بہت سی زنانہ، مردانہ چیخوں کی آواز ابھری۔ ابھی ان چیخوں کی بازگشت بھی ختم نہ ہوئی تھی کہ آپریشن روم کا دروازہ زور دار آواز کے ساتھ کھل گیا۔
سب سے پہلے نفسیاتی معالج اور ڈاکٹر مہروترا برآمدے کی سیڑھی سے ٹکرائے، پھر ان کے پیچھے نرسیں چیخ مارتی ہوئی آنکھیں پھلانگ پھلانک کر آگے نکل گئیں۔ ایک دو تو لڑکھڑاکر وہیں ڈھیر ہو گئیں لیکن ان کے سنبھلنے کا انتظار کیے بغیر اس کا باپ باہر لان میں کھڑے گھوڑے کی لگام چھوڑ کر کمرے میں گھس گیا۔
سامنے آپریشن ٹیبل پر اس کا لہولہان پیٹ کھلا ہوا تھا۔ چاروں طرف خون بہہ رہا تھا اور خون میں سرخ تربتر ایک توانا گھوڑے کا لمبوتراسر اس کے پیٹ میں سے جھانک رہا تھا۔ بھنچے ہوئے دانتوں کی قطاریں کھلی بانچھوں سے باہر نکل آ رہی تھیں۔
گھوڑا ذرا سا گردن گھمائے اپنی زردی مائل آنکھوں سے باپ کو گھور رہا تھا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.