شکر ہے! کل رات بھر لائٹ غائب نہیں ہوئی۔ پنکھا چلتا رہا تو مچھروں سے نجا ت ملی۔ مدت بعد پوری رات سونا نصیب ہوا تھا، ورنہ ہر رات وہی مسئلہ تھا، ایک تو لائٹ غائب، مچھروں کی یلغار اور پھر آس پڑوس کے جنریٹر اپنی خوفناک آو از کے ساتھ چالو ہو جاتے ہیں۔ ہمارے پڑوس والے گھر میں تو شاید جنریٹر بالکل ہمارے آنگن کی دیوار کے پاس لگا ہوا ہے۔ آواز کے ساتھ ساتھ اس کا دھواں بھی ہمارے نصیب میں ہے۔
بہر حال! آج صبح بہت پیاری لگ رہی تھی۔ پوری رات کی نیندبھی کیا نعمت ہے۔ لیکن آج صبح مجھ سے اک غلطی ہو گئی۔ میں نے بےدھیانی میں اپنے کمرے کی باغیچے کے رخ والی کھڑکی کھول دی۔ وہ اپنا منحوس وجود لئے بیگ صاحب کے مکان کے سامنے اپنی پوری سفاکی سے موجود تھا۔
لاحول ولاقوۃ! میں نے جلدی سے کھڑکی بند کر دی اور مسہری کے سرہانے تکیے کے سہارے ٹیک لگاکر سامنے دیوار پر لگی خوبصورت لینڈ اسکیپ کی پینٹنگ پر نظر یں جما دیں۔ یہ پینٹنگ میں نے وہاں جان بوجھ کر لگائی تھی تاکہ صبح جب آنکھ کھلے تو سب سے پہلے اس خوبصورت منظر پر نظر پڑے۔ خزاں کے موسم کی عکاسی کرتی یہ بہت خوبصورت پینٹنگ تھی جس میں چنار کے درخت نارنجی اور سرخ پتوں سے بوجھل گم سم کھڑے تھے اور نیچے ایک پہاڑی نالہ خاموشی سے بہہ رہا تھا۔ میں اس منظر میں گم ہو جانا چاہتا تھا جو یوں تو میری دسترس سے باہر تھا لیکن اس دنیامیں کہیں نہ کہیں موجود ضرور ہوگا، کم سے کم میری نظروں کے سامنے اور میرے تخیل میں تو اس لمحے موجود ہے۔۔۔ لیکن موجود تو کوڑے کا وہ ڈھیر بھی ہے جو بند کھڑکی سے گزر کر میرے اور اس حسین پینٹنگ کے درمیان حائل ہو گیا ہے، وہ کوڑے کا ا ونچا ڈھیر عین میرے بیڈروم کی کھڑکی کے سامنے ہے۔
مجھے کھڑکی پر غصہ آنے لگا۔ کیا اس کھڑکی کا اس رخ پر کھلنا ضروری تھا۔
مجھے یاد ہے میرے ابو نے مکان میں اوپر کی منزل پر یہ کمرہ خاص طور پر اپنے لئے بنوایا تھا تا کہ و ہ سکون سے پڑھ لکھ سکیں۔ اک سادہ سا ہوا دار کمرہ جس میں چاروں طرف کھڑکیاں تھیں۔ پہلے مکان کے اطراف دور دور تک خالی میدان تھا، پچھوا ڑے کی کھڑکی سے دور بنی ‘’نیاز منزل’‘ آم کے باغ میں سے جھانکتی تھی۔ کچی، سنسان سڑک کے آخر میں جج بشیر کی کوٹھی اور اس سے ذرا فاصلے پر تھی ’’امیر منزل‘‘۔ درختوں میں چھپی یہ کوٹھیاں کسی واٹر کلر پینٹنگ کا دھندلا سا منظر معلوم ہوتی تھیں۔۔۔ مجھے یادہے کہ ابو کے پڑھنے کی میزعین اسی کھڑکی کے نیچے ہوتی تھی۔ وہ ہمیشہ کھڑکیا ں کھول کر سوتے تھے، بند کمروں سے ابّو کو وحشت ہوتی تھی۔ چند برس پہلے تک میرا بھی یہی حال تھا، جب تک یہ بھیانک کوڑے کا ڈھیر میرے گھر کے سامنے نمودار نہیں ہوا تھا۔
ہمارے گھر کے اطراف نئے مکانوں کا سلسلہ شروع ہوا تو پھر رک نہیں پایا۔ دیکھتے دیکھتے خالی میدان مکانوں سے بھر گیا۔۔۔ مجھے پھر غصہ آنے لگا، آخر بیگ صاحب کو یہاں مکان بنوانے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ رہتے تو ہیں نہیں کبھی اس مکان میں۔۔۔ گورنمنٹ کی نوکر ی سے ریٹائر ہونے کے بعد سب مسلمانوں کو علی گڑھ آنے کی ہی کیوں سوجھتی ہے۔۔۔مکان مکمل ہونے سے پہلے ہی ان کی بیوی چل بسیں لہٰذا بیگ صاحب بمشکل چند مہینے یہاں رہے ورنہ کبھی مہینوں کے لئے بیٹے کے پاس چلے جاتے ہیں یا بیٹی سے ملنے روانہ ہو جاتے ہیں۔۔۔ ایک تو نہ جانے کیسا بےہنگم مکان بنوایا ہے، ایک مستطیل ڈبہ جیسا مکان جس کے سامنے ایک تکونہ زمین کا ٹکڑا دیوار سے گھیر دیا گیا ہے۔ شاید تکونہ لان بنوانے کا ارادہ ہو۔ اس تکونے بے تکے لان میں ایک لوہے کا پھاٹک بھی ہے جس میں ہمیشہ اک موٹا سا زنگ آلود تالا پڑا رہتا ہے۔ جب کبھی بیگ صاحب گھر میں مقیم ہوتے ہیں تو آمدورفت صحن کے پچھلے دورازے سے ہوتی ہے۔ ویسے بھی ان کے یہاں آتا جاتا ہی کون ہے۔
اب ہمارامحلہ ‘’سرسید نگر’‘ کہلاتا ہے۔ ہر خالی پلاٹ پر مکان بن چکے ہیں اور جب گھروں کا کوڑا پھینکنے کے لئے کوئی جگہ بچی تو بیگ صاحب کا تکونہ لان دھیر ے دھیرے اجتماعی کوڑے دان بنتا گیا۔ بیگ صاحب کی غیرموجودگی محلے والوں کے لئے نعمت ثابت ہوئی۔ پچھلے سال وہ چند ہفتوں کے لئے وہ بیٹے کے پاس سے آئے تھے تو اپنے گھر کے سامنے کوڑے کا یہ ڈھیر دیکھ کر خوب واویلا مچائی۔ محلے کے معتبر لوگوں سے ملے، مگر ان کی سنتا کون ہے۔ اکیلے، ضعیف آدمی جو ٹھیرے۔
مجھے خود پر غصہ آنے لگا، ارے پروفیسر ثاقب! تم سمجھتے کیا ہو خود کو۔۔۔ لوگوں نے آپ سے میونسپل کمیٹی کا الیکشن لڑنے کے لئے کہا تو آپ غصہ ہو گئے۔
میں ان لونڈوں لپاڑوں کے مقابلے الیکشن لڑوں۔ لاؤڈاسپیکر پر اعلان ہوگا۔ ثاقب صاحب کا نشان ’’سائیکل’‘ ہے سائیکل کو کامیاب بنائیے اور اگر بفرض محال میں الکشن جیت بھی گیا تو وہاں میونسپل کمیٹی میں بنیئے اور ٹھیکیداروں کے ساتھ سرکھپاؤں گا۔ لاحول ولا قوۃ۔
ٹھیک ہے پروفیسر صاحب۔۔۔ میں نے خود کہا، تو اب مارےئے جھک بند کھڑکی کے پیچھے۔ یا یونیورسٹی میں ان لڑکے لڑکیوں کو اردو ادب پڑھائیے جنھیں کم نمبروں کی وجہ سے کسی اور مضمون میں ایم۔ اے۔ کرنے کے لئے داخلہ نہیں مل سکا۔ آپ کو کیا غرض اپنے اطراف پھیلے کوڑے کی ڈھیریوں سے۔ کھلی ہوئی نالیوں سے۔ آپ تو انٹلیکچو ئل ہیں۔۔۔
میں خود سے الجھتا ہوا نیچے اتر آیا۔ برآمدے میں چائے کی ٹرے میرا انتظار کر رہی تھی۔ میری پسندیدہ گرین لیبل چائے کی خوشبو، میری مخصوص نازک چینی کی پیالیاں، امی کے ہاتھ کی کڑھی ہوئی ٹی کوزی، یہ مانوس چیزیں دیکھ کر میرے دل کو ذرا قرار آ گیا۔ میں اپنی چائے کی پیالی اور اخبار لے کر لان میں نکل آیا۔ آج اتوار کا دن تھا، سڑک پر ٹریفک کی آواز بھی کم تھی۔ ستمبر کی یہ صبح کافی پر سکون لگ رہی تھی۔۔۔ کیاریوں میں لگے پھول، ہموار گھاس، دیوار پر چڑھی بوگن ویلیاکی بیلیں، یہ تومیری دسترس میں ہیں۔۔۔ پچھلے کئی برسوں سے میں اپنا زیادہ تر وقت اسی لان کی دیکھ بھال میں صرف کرتا ہوں۔ ایک پارٹ ٹائم مالی بھی آتا ہے۔ صبح شام میں اسی لان میں ٹہلتا ہوں۔ گھر کے باہر ٹہلنے کی اب کوئی جگہ بھی تو نہیں ہے۔ جاؤں تو جاؤں کہاں۔
مجھے ابو کی یاد آنے لگی۔ وہ بتاتے تھے کہ سستے زمانے میں انھوں نے تین ہزار گززمین لے کر ڈال لی تھی۔ جب یہ جگہ بالکل ویرانہ تھی۔ یونیورسٹی کے اطراف میں آبادی تھی ہی نہیں۔ اسی لئے یہ زمین ڈیڑھ روپئے گز مل گئی تھی، ابو کے وسائل محدودتھے، یونیورسٹی کے استاد کو تنخواہ ہی کتنی ملتی تھی اس زمانے میں۔زمین تو ابو نے خریدلی تھی لیکن مکان بنانے کیلئے یونیورسٹی سے قرض لینا پڑا تھا۔۔۔ انھوں نے اک چھوٹا سا، ہوادار، سادہ سا مکان بنایا تھا۔ سامنے کی خالی زمین پر ابوّ نے گل مہر، نیم، املتاس وغیرہ کے درخت لگا دیئے تھے۔ یہ درخت ہم بہن بھائیوں کے ساتھ ہی پل کر جوان ہوئے تھے۔ اب یہ پورے معتبر درخت ہو گئے ہیں اور اب میرے سر کے آدھے سے زیادہ بال بھی تو سفید ہو گئے ہیں۔۔۔ میں نے خالی زمین کے ایک چھوٹے سے حصّے کو مہندی کی باڑھ لگاکر ایک لان کا روپ دے دیا تھا۔ باقی حصہ یوں ہی پڑا رہتا تھا۔ نیم،املتاس اور گل مہر کے درختوں کے نیچے محلے کے بچے آکر کھیل لیا کرتے ہیں۔ تین ہزار گززمین کے اطراف چہار دیواری بنوانا میرے مالی وسائل میں ممکن نہیں تھا اس لئے میں نے لوہے کے کانٹے دارتاروں کی باڑھ لگوا دی تھی اور ایک چھوٹا سا لکڑی کا پھاٹک بھی لگوا دیا تھا جو میرے اور باہر کی دنیا کے درمیاں حدبندی کرتا تھا۔ محلے کے بچوں نے کانٹے دار تاروں کو موڑکر اپنے آنے جانے کا راستہ خود بنا لیا تھا میں ان بچوں کے مداخلت کونظر انداز کر دیتا ہوں۔۔۔ آخر یہ بچیّ اب کھیلیں تو کہاں کھیلیں۔۔۔ میری بیگم اکثر غصہ ہو جاتی ہیں کہ کیا مصیبت ہے، ہمار ا ہی گھر رہ گیا ہے چوپال بننے کے لئے۔
مجھے یاد ہے! بچپن میں ہم لوگ دن کا زیادہ حصّہ گھر کے باہر ہی گذارا کر تے تھے۔۔۔ گلی ڈنڈا، کرکٹ، پتنگ بازی، درختوں پر چڑھنا، چاندنی راتوں میں آنکھ مچولی، کیا کیا نہیں ہوتا تھا۔ ہمارے بچپن میں ہی تھوڑی تھوڑی دور پر اکا دکا کو ٹھیاں بننا شروع ہو گئیں تھیں، سڑک تب بھی کچی ہی تھی۔ خوب دھول اڑا کرتی تھی ،درختوں کے نیچے باجی ہنڈکلیا پکاتی تھیں۔ میری بیٹی تو شاید جانتی بھی نہیں ہنڈ کلیا کیا ہوتی ہے، اس کا زیادہ تروقت تو انٹرنٹ اور ٹی۔ وی۔ کے سامنے گذرتا ہے۔
مجھے بے اختیار باجی یاد آنے لگی۔۔۔ تین سال ہو گئے ان سے ملے ہوئے۔ پچھلی بار جب وہ چھ سال بعد امریکہ سے آئی تھیں تو انہیں اپنے شہر کا بدلا ہوا نقشہ سے دیکھ کر کیسا شاک لگا تھا۔ مکان ہی مکان۔ آبادی ہی آبادی۔ ہر طرف شاپنگ سینٹر، نالیاں،کیچڑ۔ وہ ’’امیر منزل‘‘ کے سامنے لگے پرانے پیپل کے درخت کو ڈھونڈ رہی تھیں جس کی نیچے سے گذرتے ہوئے بچپن میں وہ ڈرا کرتی تھیں کیونکہ سنتے تھے کہ پیپل پر چڑیل اورپچھل پیریاں رہتی ہیں۔ باجی ’’امیر منزل‘‘ والے نواب صاحب کی پوتی کے ساتھ کھیلنے جاتی تھیں جو ان کی ہم جماعت تھی۔
آج کتنے دن کے بعد ’’امیر منزل’‘ والے نواب صاحب یاد آگئے۔ ان کی پر رعب شکل، وضع قطع ،گرج دار آواز، بڑی بڑی مونچھیں اور ان کے پورٹیکو میں کھڑی پرانی فورڈ جو کبھی چلتی نہیں تھی، ان کے گول ڈرائنگ روم میں سجی تلواریں، قالین اور شیر کاسر ہمارے لئے افسانوی چیزیں تھیں۔ نواب صاحب کا پوتا جب چھٹیوں میں دہرہ دون کے اسکول سے آتاتھا تو ہم لوگ اس کے ساتھ ’’کاوبؤائے‘‘ کا کھیل کھیلتے تھے، وہ بھی سنا ہے اب امریکہ میں آباد ہے۔
ہاں۔۔۔ تو جب باجی پچھلی بار امریکہ سے آئی تھیں تو پوچھ رہی تھیں۔
بھیا مکانوں اور دکانوں کے اس جنگل میں وہ گھنا پیپل کا پیڑ نظر نہیں آتا جو ’’امیر منزل‘‘ کے گیٹ کے پاس تھا۔
’’تم پیپل کا پیڑ ڈھونڈرہی ہو باجی’‘ میں نے آہستہ سے کہا تھا۔۔۔ ’’امیر منزل ہی اب کہاں ہے’‘۔
’’امیر منزل کہاں گئی’‘؟
میں نے سامنے لگے ہوئے بورڈ کی طرف اشارہ کیا تھا جس پر ‘’امیر منزل بلڈنگ کا مپلیکس’‘ کا بورڈ لگا ہوا تھا اور نیچے زیر تعمیر فلیٹوں کا نقشہ بنا ہوا تھا۔ امیر منزل ختم ہو چکی تھی۔ فلیٹوں کی بنیادیں کھد چکی تھیں اور چاروں طرف لوہے کے سرئیے، اینٹیں اور مزدوروں کی جھگیاں بکھری ہوئی تھیں۔ سیکڑوں کی تعداد میں بہاری مزدور آکر ہمارے شہر میں بس گئے ہیں۔
باجی کے چہرے کی وحشت مجھے آج تک یاد ہے۔ میں باجی کو کیا بتاتا کہ پورے تین مہینے یونیورسٹی آتے جاتے میں نے ’’امیر منزل’‘ کو کیسے آہستہ آہستہ معدوم ہوتے دیکھا ہے۔ آخیر میں ڈرائنگ روم والا پتھر کا آتشدان توڑنے میں سنا ہے مزدوروں کو بہت مشکل ہوئی تھی۔۔۔ وہی آتشدان جس کے اوپر لگا شیر کا سر دیکھ کر ہم بچپن میں ڈر جاتے تھے۔
مجھے خیال آیا کہ پچھلے ہفتے باجی کا خط آیا ہے امریکہ سے، کہ وہ اس سال دسمبر میں ہندوستان آئیں گی۔۔۔ اور اس با ر عین ہمارے گھر کے سامنے یہ تکونہ، بےہودہ کوڑے دان ان کا استقبال کرےگا۔ بلا ارادہ میر ی نظریں سڑک کی طرف اٹھ گئیں۔ سڑک کے پار کوڑے کا ڈھیر اب جاگ گیا ہوگا۔ میں نے اپنے گھر اور سڑک کے درمیان بوگن ویلیا کی بیلیں ایک لوہے کے جنگلے پر چڑھاکر پھولوں کی اک دیوار سی بنا دی تھی تاکہ صبح و شام ٹہلتے وقت اس دیوار کے پیچھے جو بھی ہو رہا ہو وہ میر ی نظروں سے اوجھل رہے۔ بیل میں گہرے عنابی پھول شبنم میں ڈوبے ابھی جاگ ہی رہے تھے۔ اف۔۔۔ وہ کوڑے کا ڈھیر بھی اب جاگ گیا ہوگا۔ جھگّیوں میں رہنے والے مزدوروں کے بچے اس ڈھیر پر سے پلاسٹک کی تھیلیاں چن رہے ہونگے۔۔۔ مجھے خیال آیا۔
مجھے اس خیال نے پھر اک بار بے چین کر دیا۔۔۔ یہ بدتمیز، اڑیل، بد وضع پلاسٹک کی تھیلیاں ہر جگہ موجود ہیں آج کل، دکانوں میں، سڑکوں پر، گھروں میں ہر جگہ موجود ہیں یہ۔۔۔ میں دوکاندار سے الجھ پڑتا ہوں کہ کیوں اتنی زیادہ پولی تھین کی تھیلیاں برباد کرتے ہو۔۔۔ میری بیگم کہتی ہیں کی میں جھکی ہو گیا ہوں، وہ کہتی ہیں کہ اگر میرا بس چلے تو میں ان کے ہاتھ میں گنوارو، پرانے فیشن کا کپڑے کا تھیلا دے کر شاپنگ کرنے بھیج دوں۔۔۔ ہاں اگر میرابس چلے تو۔۔۔ وہ کہتی ہیں کہ آپ نے کیا ٹھیکہ لے رکھا ہے ہر مسئلے کا۔۔۔ ٹھیک ہی تو کہتی ہیں بیگم۔
میرے پھاٹک کے سامنے اک نئی، لال رنگ کی ماروتی زین کار آکر رک گئی اور اس میں سے ٹھیکے دار سمیع اللہ صاحب اور ان کے سا تھ ایک صاحب سفید چمکیلے سوٹ میں ملبوس اترے۔
’’اسلام علیکم ڈاکٹر صاحب‘‘ سمیع اللہ نے دور سے آواز لگائی۔
‘’چہل قدمی ہو رہی ہے باغیچے میں، بہت ٹھیک ٹھاک جگہ بنائی ہے آپ نے‘‘ انھوں نے قریب آکر کہا۔
میرے لان کی تعریف ’’ٹھیک ٹھاک’‘ کہہ کرٹھیکے دار سمیع اللہ ہی کر سکتے ہیں۔ میں نے سوچا۔
’’آپ سے ملئیے آپ ہیں عبدالباری صاحب’’ سمیع اللہ نے دوسرے حضرت کا تعارف کرایا۔ ’’برسوں سے دبئی میں ہیں یہاں آکر سیٹل ہونے کا ارادہ ہے۔۔۔بڑی پارٹی ہیں’‘۔
عبدالباری صاحب نے انگوٹھیوں سے مزین ہاتھ بڑھاکر مصافحہ کیا۔ میں نے اندر چل کر بیٹھنے کے لئے کہا تو وہ بولے۔
‘‘یہیں باہر بیٹھتے ہیں اچھی جگہ ہے’‘۔
‘‘شکریہ’‘ میں خوش ہو گیا۔ ‘’یہ دیکھئے میں نے گلاب کی اک خاص ورائٹی منگواکر لگائی ہے۔ باغبانی اور باغیچہ ہی اب میری زندگی ہے‘‘۔ میں نے کہا۔
عبدالباری صاحب نے لان میں پڑی بیدکی کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
’’صاحب یہی تو بات ہے۔ آپ تو سمجھئے سونے کی کان پر بیٹھے ہیں’‘
میں اس جملے کے کاروباری پن میں ہی الجھا ہوا تھا اور وہ کہے جا رہے تھے۔
’’آجکل آپ کے علاقے میں زمین تو سونے کے بھاؤ ہے یہی زمانہ ہے لوگ اپنی قسمتیں بنا رہے ہیں’‘۔
’’کس کی؟‘‘ میں چپ نہ رہ سکا ’’اپنی قسمت یا زمین کی قسمت’‘۔
’’ہا، ہا، ہا!’‘ قہقہ لگاتے ہوئے باری صاحب بولے۔
’’خوب! آپ ادبی لو گ بھی بات کو کیا سے کیا بنا دیتے ہیں’‘۔
’’ڈاکٹر صاحب’‘ سمیع اللہ ذرا سر گوشی کے لہجے میں جھک کر بولے۔
’’آپ تو سمجھئے لکھ پتی ہیں۔ اس علاقے میں جس کے پاس زمین ہے وہ تو سونے کی کان پر بیٹھا ہوا ہے۔ اتنی بہت سی فالتو زمین پڑی ہے آپ کے گھر کے اطراف۔ عبدالباری صاحب مارکیٹ سے زیادہ دام دینے کو تیار ہیں کیونکہ موقع کی زمین ہے’‘۔
مجھے یقین سا نہیں آیا سمیع اللہ یوں بے دھڑک سودے کی بات کر ڈالیں گے میں نے غصہ ضبط کرنے کی کوشش کرتے ہوئے نارمل آواز میں پوچھا۔
’’گویا آپ میرا گھر خریدنے آئے ہیں’‘۔
باری صاحب فوراََ بولے۔
’’ہاں اگر زمین کے ساتھ اپنا مکان بھی فروخت کرنا چاہیں تو واہ! واہ۔۔۔ بلکہ یہی بہتر ہوگا، میں اس کے بدلے بلڈنگ کا مپلکس میں آپ کو بہترین فلیٹ دوں گا۔۔۔ آپ نے تو میرے دل کی بات کہہ دی۔ ‘‘
’’تشریف لے جائیے’‘ غصے کے مارے میرے منھ سے الفاظ نہیں نکل رہے تھے۔
’’آپ دونوں کی ہمت کیسے ہوئی میرے گھر کے دام لگانے کی’‘۔
عبدالباری صاحب سے کرسی سے اٹھتے ہوئے کہا۔ ’’صاحب ہم تو آپ کے بھلے کی بات کررہے تھے۔ مارکیٹ سے ڈبل پیسے دے دیں گے۔‘‘
سمیع اللہ نے عبد الباری کا ہاتھ پکڑا اور کار کی طرف چل پڑے عبدالباری کی آواز میرے کانوں میں آئی۔
’’یہی تو وجہ ہے ہماری قوم ترقی نہیں کرتی’‘۔
’’اجی چھوڑئیے’‘ یہ ٹھیکیدار سمیع اللہ کی آواز تھی۔
‘’دبائے بیٹھے رہیں اپنی زمین ڈاکٹر صاحب۔ سامنے والا تکونہ کوڑے دان تو اب بھر چکا ہے اور شاید بیگ صاحب نے یہ جگہ بیچ بھی دی ہے۔ کوڑے دان کے لئے اب ڈاکٹر صاحب کے ہی احاطے کی باری ہے اور کوئی خالی جگہ تو بچی نہیں آس پاس‘‘۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.