چنکارہ ہرن
دلچسپ معلومات
"انیس سو نناوے میں چنکارہ ہرن کا شکار جب بیک جبش قلم ممنوع قرار دیا جاتا ہے تو کراچی کے کچھ شکاریوں کو تشویش ہوتی ہے اور قانون کے احترام کا مسئلہ زیر بحث آتا ہے۔۔۔"
بارہ اکتوبر انیس سو نناوے۔۔ ملک کے سیاسی منظر نامے پر یکلخت کئی تبدیلیاں واقع ہوئیں۔ اس بات سے قطع نظر کہ ان تبدیلیوں کے سیاسی، معاشرتی اور معاشی وجوہات کیا تھے، ملک میں یہ تبدیلی ضرور آئی کہ ہر چیز کی اصلاح کے لئے ایک باقائدہ متوازی محکمہ وجود میں آگیاجیسے رجسٹریشن کے لئے نادرہ اور کرپشن کے لئے نیب ۔ اصل میں نئی حکومت پورے معاشرے کے بنیادی ڈھانچے کو درست خطوط پر استوار کرنا چاہتی تھی۔۔یوں کہیں تو بہتر ہوگا کہ وہ جملہ خرابیوں کو، جو بقول ان کے پچھلی حکومت کا وطیرہ رہی تھیں، جڑ سے اکھاڑنا چاہتی تھیں۔
ہمارے دوست نجم الدین کو اس اکھاڑ پچھاڑ میں بقائے چنکارہ ہرن کا محکمہ مل گیا لیکن مسئلہ یہ تھا کہ وہ اور ان کے پیشتر دوست اور ہمکار ،بشمول میں ،چنکارہ ہرن کے شکار کے از حد شوقین تھے۔
یہ نیا ادراہ بنانے کی کیا بھلا ضرورت ہے؟ اس کام کے لئے تو محکمہ جنگلی حیات ہے نا۔۔ نہیں؟
قبلہ نذیر احمد خاں آپ اتنے بھولے نہ بنیں ۔ محکمہ جنگلی حیات میں رشوت عروج پر ہے اور ہرن کی فلاح وبقا کا معاملہ ان کے لئے ثانوی حثیت رکھتا ہے۔اعداد و شمار سے یہ واضح ہے کہ ہرن کی تعداد بتدریج زوال کا شکار ہے اور اس ابتر حالات میں مجھے یہ اضافی چارج دیا گیا ہے کہ چنکارہ ہرن کی گھٹتی تعداد کو کم کروں اور ہر حالت میں اس نایاب ہرن کو بچاوں۔
پھر انتہائی تاسف سے کہا
اصل میں پاکستان کے ہر محکمے میں رشوت عروج پر ہے، کیا عدالتیں، کیا پولیس اور کیا محکمہ جنگلی حیات، کوئی ایک ہو تو بتاوں
پھر جلالی انداز اختیار کیا
اب یہ جنگلی طریقےنہیں چلیں گے۔۔سب کو تیر کی طرح سیدھا ہونا پڑے گا۔۔ اب سب سے پہلے پاکستان ہوگا۔۔ بہت ہوچکا۔۔ انف از انف
اس طرح آپ کوبھی سیدھا ہونا پڑے گا۔۔ تیر کی طرح؟
ہاں مجھے بھی
اس نے انتہائی سنجیدہ لہجہ اپنایا اور کپ میں باقی کافی گردن پیچھے کر کے انڈیلی اور چلے گئے
ہماری شکاری پارٹی جس میں نوید صاحب، شمس الدین صدیقی صاحب، جاوید خان صاحب، جلیل علی گردیزی صاحب اورتسنیم نورانی صاحب شامل تھے سخت بے چین تھے۔ انہوں نے تہنیتی لہجہ اپنایا اور پوچھا کہ کل تک شکار کےازحد شوقین نجم الدین کو کیا ہوگیا ہے جو ٹس سے مس نہیں ہوتے۔
ہمارے خیال میں اب ہمیں بندوقیں ایک طرف رکھنی چاہیں۔۔ کونے میں ۔۔ اور چوڑیاں۔۔ چوڑیاں سمجھتے ہیں آپ۔۔اب وہ پہن لینی چاہیئں
ارے آپ اتنے اضطراب کا شکار کیوں ہیں۔۔ تھوڑا حوصلہ کریں ہر مسئلے کا حل ہوتا ہے۔
شام کو نجم الدین صاحب نے مجھے بتایا
چنکارہ ہرن صرف چارممالک میں پایا جاتا ہے، بھارت افغانستان، ایران اور ہمارے عزیز ملک پاکستان میں۔ یہ ہمارا قومی شناخت بنے گا انشاء اللہ۔ اسے بچانا ہم سب پر فرض ہے۔
وہ پتہ نہیں کیا کیا بتاتے رہے ۔۔ ہرن کی جسامت۔۔ دوربین نگاہیں۔۔ کھردرے سینگ۔۔ہرن کے
بچوں کی نمو کی شرح رفتار لیکن اب آپ سے کیا چھپانا چنکارہ ہرن کھانے میں بے حد لذیز ہوتا ہے خصوصا اس کے کباب ۔ اب یہ بات میری سمجھ سے بالاتر تھی کہ اس کے شکار سے بھلا اس کے بقا کو کیا مسئلہ در پیش تھا۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ آغا طالش مرحوم سے، جو شکا رکے از حد شوقین تھے، کسی نے پوچھا کہ طالش صاحب آپ شکار کو ترک کیوں نہیں دیتے اس سے جنگلی حیات کو نقصان پہنچتا ہے۔ آپ ایک جانور مارتے ہیں تو بڑی ہی منطقی بات ہے کہ ایک جانور کم ہوتا ہے۔۔ اب یہ حساب کا آسان قائدہ ہے۔۔آپ شکار کرتے جائیں اور یوں ایک ایک جانور کم ہوتے ہوتے ناپید ہوجائیں گے۔۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ جانور ختم۔۔ اور آپ کا شکار بھی ختم۔
انہوں نے توجہ سے بات سنی۔۔کچھ وقفے کے بعد فرمایا
آپ کے قصائی روزانہ گائے بیل کاٹتے ہیں ۔۔ مسلسل۔۔ کیا ان کی تعداد میں کمی واقع ہوئی؟ کیا وہ ختم ہوگئے ہیں؟
جہاں تک میرا خیال ہے لوگوں سے کام نکلوانے کا بہترین طریقہ ہی یہی ہے کہ ان کے ساتھ ود طرفہ مکالمے والا انداز اختیار کیا جائے اور مدلل بات کی جائے۔ دلیل چاہے وزنی ہو یا غیر وزنی، اگر استقامت سے پیش کی جائے تو مشل سے مشکل کام بھی نکل سکتے ہیں۔
مجھے آغا طالش مرحوم کی یہ دلیل خاصی وزنی نظر آئی لیکن جب میں نے یہی دلیل نجم الدین صاحب کے سامنے رکھی تو انہوں نے نفی میں سر ہلایا
طالش صاحب مرحوم میرے لئے قابل احترام ہیں لیکن معذرت۔۔یہ دلیل بودی ہے۔۔ اس میں
جان ہی نہیں۔۔ اب دیکھیں ایک طرف بیل گائے اور دوسری طرف ہر ن ۔۔ غور کریں ان کی شرح نمو میں کتنا فرق ہے؟۔۔ بس یہی اس بات کا جواب ہے۔۔ قبلہ نذیر احمد خاں صاحب اب یہ بات تو آپ کو سمجھ آ ہی گئی ہوگی کہ ہرن کے بقا کے معالے پر اس کا اطلاق کیوں نہیں
میں نے ان کی بات غور سے سنی اور مجھے ان کی یہ بات بڑی بے ربط لگی کیونکہ اس میں وزن نام کو نہیں تھا لیکن میں نے ایک طرح سے جیسے اس کی بات کو سراہا اور ان کی تائید میں کچھ کلمات کہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ میں شروع میں انہیں یہ تاثر دینا چاہتا تھا کہ وہ بے وزنی بات نہیں کرتے۔ میں یہ بھی نہیں چاہتا تھا کہ وہ بحث کرتے کرتے کج بحثی پر اتر آئیں اور یوں دورویہ مکالمے کا معاملہ پس پشت چلا جائےاور شکار کے تمام راستے مسدود ہو جائیں۔
اگلے دن ہاکس بے میں ان سے ملاقات ہوئی ۔مجھے ان کی عادتوں کا علم تھا سو میں نے طے شدہ پلان کے مطابق ان کو اچھے والے درامد شدہ چپس کا پیکٹ لے کے دیا جو انہیں بہت پسند تھا۔ سمندر کے مٹیالے ساحل پر چلتے ہوئے انہوں نے پیکٹ ختم کرکے وہیں سمندر میں پھینک دیا۔ میں نے ہرنوں کے شکار کا مسئلہ تو نہیں چھیڑا لیکن انتہائی محتاط انداز سے انہیں بتایا
نورانی صاحب بتا رہے تھے اسی ہاکس بے میں سبز سمندری کچھوے عجیب حالت میں ہیں۔۔ آئے دن عوام ماحولیاتی آلودگی خصوصا پلاسٹک سے ا ن کی نسل کو تباہ کر رہے ہیں۔۔ لیکن ان کی بقائے نسل کا کوئی مسئلہ ابھی تک سامنے نہیں آیا۔۔ آپ کا کیا خیال ہے؟
میں نے یہ بات ایسے لہجے میں کی کہ ان کو محسوس نہ ہو کہ میں ان پر چوٹ کر رہا ہوں۔ انہوں نے میری طرف مفکرانہ انداز میں دیکھا
ماحولیاتی آلودگی ایک ڈرامہ ہے۔۔ ہر نوع کا چھوٹا بڑا جانور آخر کار ایک توازن میں آجاتا ہے۔۔ جتنا مرتا ہے یا مارا جاتا ہے اتنی ہی اس کی شرح نمو بڑھتی ہے۔۔ اور اس کا اطلاق کچھوں پر بھی ہوتا ہے۔۔ اصل میں شجر کاری،روئیدگی سبزہ ، صاف ہوا اور نکھرا شفاف سمندر۔۔ یہ ساری باتیں ہوائی ہیں ۔۔ زبانی جمع خرچ۔۔ سخت گرمی میں ایرکنڈیشن لگائے بند کمروں میں ٹھٹھرتے لوگوں کی باتیں۔
شرح نمو سے متعلق میرا نکتہ ان پر بلاواسطہ مبرہن ہوچکا تھا اس لئے میں نے اس مسئلے کو ایک اور انداز سے چھیڑا
نجم الدین صاحب کیا فلسفہ ہے۔۔ آپ کی یہ جہت مجھ سے ہمیشہ پوشیدہ رہی ہے۔۔بقائے حیات حیوانات پرآپ کا تجزیہ قابل ستائش ہے اور مجھے پکا یقین ہے کہ اس کا اطلاق تو چنکارہ رن پر بھی ہوتا ہوگا۔۔ نہیں ؟ اب میرا شکار کا ارادہ تو بالکل نہیں۔۔ اور نہ ہی ایسے کسی کام کے لئے لائسنس کی استدعا کر رہا ہوں ۔۔ ظاہر ہے میں آپ کی نوکری تو نہیں خراب کرنا چاہتا۔۔ لیکن۔۔
میں نے دیکھا کہ اپنی تعریف سن کے وہ پھول گئے
ہاں وہ آپ کی بات صحیح ہے ۔۔ لیکن مجھے غلط نہ سمجھیں یہ نوکری کا مسئلہ بالکل نہیں ۔۔ مجھے دلی طور پر ہرن کا شکارظلم لگتا ہے۔۔ کبھی آپ نے دیکھا ہے نذیرصاحب ۔۔ جب ہرن کو گردن میں گولی لگتی ہے۔۔ اس کے آنسو۔۔ گردن سے رستا خون۔۔اور۔۔ اس کی آنکھوں میں تمام جہان کا کرب جیسے سمٹ کر آجاتا ہے۔۔ حزن سے بھری یہ تصویر اس قدر دکھ دیتی ہے مجھے کہ میں اس مسئلے میں چنکارہ ہرن کے شکار کو استثنا دینا چاہتا ہوں۔۔ بس یہی بات ہے
میں گھر آگیا تو بیگم نے حسب عادت منہ بنایا ہوا تھا
ایک ہفتہ ہوگیا ہے۔۔نوید بھائی شکار کے لائسنس کا پوچھ رہے تھے۔۔ آپ نے اگر کام نہیں کرنا ہے تو ان کو صاف بتا دیں۔۔ یوں لٹکا کر رکھنا ٹھیک نہیں؟۔ اپنی بہن کے لئے مالم جبہ میں کمرہ تو ایک دن میں بک کیا اور میرے بھائی کے لئے پس و پیش۔۔خیر میرے ساتھ تو آپ کا جو سلوک ہے سو ہے۔۔ میں برداشت کرلیتی ہوں اب میں اپنے میکے جا کر کس منہ سے۔۔
روزینہ بیگم کمرہ بک کرنا اور شکار کا لائسنس لینا ۔۔ زمین و آسمان کا فرق ہے اس میں۔ بس کچھ ہی دنوں کی بات ہے۔۔ اجازت مل جائے گی۔۔ شکار شروع ہوجائے گا
اگلے دن صبح ہی صبح نجمی صاحب کا فون آگیا اور میں جھٹ سے ان کے گھر پہنچ گیا۔ ان کے پاس ، ان کے بقول وہ کارتوس آ چکے تھے جس سے اگر کسی جانور کو کھوپڑی میں مارا جائے تو اس کو درد نہیں ہونا چاہیئے۔ انہوں نے مجھے مسکراتے ہوئے ایک لمبوترا کارتوس دکھایا
یہ کارتوس سر کے اندر پھٹ کر دماغ کی لسی بنا دیتاہے۔۔ درد کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا
دو دن بعد میں اور نجم الدین صاحب ،جو سیڈل کلب کے ممبر بھی تھے، نشانہ بازی کی مشق کر رہے تھے۔ میں نے انہیں اشاروں کنائیوں میں ان نئے کارتوسوں کا بتایا تو انہوں نے بڑی دلچسپی لی۔
اچھا امریکہ سے آئے ہیں؟۔ ویسے کمال ہے۔۔ امریکیوں کی ہر بات نرالی ہوتی ہے۔۔ یعنی آپ جانور کا شکار کرتے ہیں اور ان کو درد بھی نہیں ہوتا۔۔ کمال ہے
ہاں نجم الدین صاحب۔۔ درد نام کو نہیں۔۔ جیسے آپ اسی کارتوس سے چنکارہ ہرن کو ماریں۔۔ اس کی کھوپڑی کے اندر کارتوس پھٹ جائے۔۔ اس کی آنکھیں باہر نکل آئیں گی۔۔ درد اورحزن کا جو ذکر آپ نے کیا تھا۔۔ بیچارے ہرن کو اس سے نہ گذرنا پڑے۔۔ایک تیر سے دو شکار۔۔ بس آپ برین مصالحہ نہیں کھا سکیں گے
انہوں نے میرا پوشیدہ پیغام پڑھ لیا اور نفی میں سر پلاتے ہوئے کہا
وہ سب ٹھیک ہے لیکن پتا ہے کیا ہے۔۔ چنکارہ ہرن ہمارے ملکی وقار کا مسئلہ ہے۔ میں نے سنا ہے کہ بین الاقوامی اتحاد برائے تحفظ قدرت چنکارہ ہرن کو اپنےسرخ جدول میں ڈالنا چاہتی ہے۔۔ یہ بات اس لئے بتائی کہ بھارت اس ہرن کے تحفظ کے لئے سینکچوری بنانے پر تلا ہواہے اور ہم اس ہرن کی نسل مٹانے پر۔۔ قومی حمیت کا تقاضہ ہے یہ۔۔ باقی مجھے خود شکار کرنے کا شوق ہے اور شکار میں فی نفسہ اتنی قباحت نہیں ویسے۔۔ اگر یہی کارتوس استعمال کریں
ان کے استدلال در استدلال سے میں یہ سمجھا کہ وہ میرے چکمے میں اتنی آسانی سے نہیں آنے والے۔ میں نے آئندہ چند دن سوچا ۔۔ راستہ مسدود دیکھا لیکن پھر جیسے اس کا علاج قدرت نے خود ہی فراہم کر دیا۔
ہوا یوں کہ نئی حکومت نے کرپشن مٹانے کے لئے نیب کے ساتھ ساتھ کچھ ذیلی کمیٹیاں بنائیں اور جب ہر محکمے کے کھاتے کھولے گئے تو اس کی لپیٹ میں نجم الدین صاحب کے برادر نسبتی بھی آگئے۔ موصوف ایک سرکاری ادارے میں انیس گریڈ افسر تھے اور ان پر ٹھیک ٹھاک غبن کی انکوائری کا معاملہ کھلنے لگا۔
یہ سب مجھے یہ ایسے پتا چلا کہ نجم الدین صاحب نے میری بیگم کے موبائل پر رنگ کیا۔ وہ سخت گھبرائے ہوئے تھے۔
نذیر صاحب ایک مسئلہ آن پڑا ہے۔۔ شدید قسم کا۔۔ قبلہ توفیق میاں کو تو آپ جانتے ہی ہیں۔۔ نوشابہ کا چھوٹا بھائی۔۔ اس پر ان کا ڈائرکٹر غبن کا مقدمہ بنانا چاہتا ہے۔۔ تیس کروڑ کا معاملہ ہے۔۔ یہ نہیں علم کہ اس میں صداقت کتنی ہے۔۔ لیکن بالفرض اگر حساب کتاب میں چوک ہو بھی گئی ہے تو وہ پچھلی حکومت کے کھاتے میں ڈالی جا سکتی ہے۔۔ یا اگر بہت ہی ذیادہ مسئلہ ہو تو رقم واپس بھی کی جاسکتی ہے۔۔ پورے تیس کے تیس۔ میرے علم میں ہے کہا آپ ن صاحب کو جانتے ہیں۔۔
میں نے دیکھا کہ اب وہ میرے دام میں آ چکے تھے۔ میں نے پہلے کلمے ان کی تائید میں کہے
ہاں اتنی رقم کی تو بھول چوک ہو سکتی ہے۔۔ہنہ۔۔ نجم الدین صاحبن صاحب کو تو میں آسانی سے ملا سکتا ہوں۔۔ میرا جاننے والا ہے۔۔ اسے کوشش کرکےسمجھا سکتا ہوں لیکن آڈٹ سیکشن کا کیا کریں۔۔ اصل مسئلہ تو وہاں ہے۔
اس کی آپ فکر نہ کریں آڈٹ سیکشن میں میرا ایک جونئیر ہے۔۔عاصم نعمانی۔۔ وہ کاغذات میں الٹ پھیر سے رقم کی ترسیل اور واپس ترسیل ٹھیک کردے گا۔۔ سرا کام بیک ڈیٹڈ ہوگا اور کسی کو شک بھی نہین ہوگا۔۔ بس توفیق میاں کا نام نہیں آنا چاہئے۔۔ خاندان کے وقار کا مسئلہ ہے
میں نے انہیں اطمینان دلایا اور ان کے کہنے پر آئی آئی چندریگر روڈ گیا اور ن سےسے ملا جو اصل میں میرا سینئر تھا لیکن عہدے میں مجھ سے کم تر۔ان کے بارے میں ایک مزے بات بتاتا چلوں اور وہ یہ کہ ان کی زبان میں لکنت تو نہیں تھی لیکن لہجے میں ایک بنیادی کجی سی تھی۔۔ ش کو ہمیشہ س تلفظ کرتا تھا ۔ اس نے پوری بات سنی اور کہا
دیکھئے آج کل یہ معاملہ دبانا مسکل ہے۔۔ فوجی حکومت میں کرید ذیادہ ہوتی ہے۔۔ بےسک آپ رقم واپس بھی کر دیں آڈٹ والے یہ رسک نہیں لیں ۔۔ خوامخواہ میں مسکل میں نہ پھنس جاوں
میں نے انہیں آڈٹ ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے تسلی دی اور یوں یہ معاملہ ایک چٹکی میں باہمی افہام و تفہیم سے حل ہوگیا۔ شام کو میں نے نجم الدین صاحب کو خوشخبری سنائی۔ وہ خوشی سے پھولے نہ سمائے اور وہیں میں نے ان سے یہ بات انتہائی لاپرواہی سے ،جیسے ضمنی بات ہو، کہی
نجم الدین صاحب خاندان کے وقار پر تب انچ آتی ہے جب پتہ چلتا ہے۔۔ جب معاملات سامنے ہی نہیں آتے۔۔ پتہ ہی نہیں چلتا۔۔ رازداری رکھی جاتی ہے تو یوں سمجھیں کچھ ہوا ہی نہیں
میں نے ان کی آنکھوں میں دیکھا
جیسے آپ چنکارہ ہرن ہی کو لیں ہندوستان کے چنکارہ ہرن کے اعداد و شمار کاغذوں پر ہوتے ہیں۔۔ اب اگر یوں کیا جائے کہ ہمارے کاغذات پر بھی اعداد و شمار درست ہوں ۔۔ تو ملکی وقار کا کیا سوال کیسے اٹھے؟ اب جب یوں ہوں تو اس تناظر میں شکار ہویا نہ ہو۔۔ ہرن مریں یا نہ مریں۔۔ایک ہی بات بن جاتی ہے۔۔ نہیں؟
نہیں نذیر صاحب ۔۔ سب باتیں اپنی جگہ درست لیکن ۔۔ یہ قانون کے احترام کا سوال ہے۔۔ ملکی آئین کا سوال ہے۔۔آپ سمجھنے کی کوشش کریں۔
نما الدین صاحب ۔۔آپ بھی کمال کرتے ہیں ۔۔ قلیل تعداد ۔۔پچاس، دس یا اس سے بھی کم ۔۔ دیکھیں اگر قلیل تعداد میں شکار ہو۔۔ میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ میں کرنے والا ہوں۔۔ میں بھلا آپ کو بتائے بغیر یہ کیوں کرنے لگا۔
یہ بتا کر میں نے چائے کی پیالی ان کی طرف کھسکائی
تو اگر قلیل تعداد میں شکار ہو۔۔ کسی کو کچھ بھی خبر بھی نہ ہو۔۔زارداری ہو ۔۔یوں ہو تو قانون کی بے احترامی کاسوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔۔ قانون کی بےحترامی تو تب ہو جب آڈٹ دیپارٹمنٹ والے مسئلہ اٹھائیں۔۔ وہاں میرے ایک جونئیر ہیں جو کاغذات میں ہرن کی تعداد، شرح نمو وغیرہ درست رکھیں گے بلکہ ہندوستان سے کہیں بہتر رکھیں گے
وہ تو ٹھیک ہے لیکن جب آپ ہرنی کا شکار کریں گے تو ۔۔ دیکھیں ناں اس کے بچوں کے دودھ کا کیا ہوگا؟ دوسرے اس کے نر کا کیا بنے کا۔۔ وہ جنسی اختلاط سے محروم رہے گا۔۔ بے راہ روی۔۔ ہرنوں کے اجتماعی قبیلے کی حمیت۔۔ ان کی نفسیاتی صحت پر اثر۔۔ بے ماں کے ہرنی کےبچے۔ ۔یہ سب بہت پیچیدہ باتیں ہیں۔۔ میں اس معاملے میں بالکل کچھ نہیں کر سکتا۔
قبلہ نجم الدین صاحب آپ جانتے ہیں بلکہ خود بھی مشاق شکاری ہیں۔ہمارے پاس امریکی دوربینیں ہیں ۔ ہم ان ہرنیوں کو ماریں گے ہی نہیں جن کے شیر خوار بچے ہوں۔ جہاں تک جنسی اختلاط کی بات ہے۔۔۔ یہ معاملہ سال میں ایک بار ہوتا ہے۔۔ وہ دو مہینے ہم بالکل شکار نہیں کریں گے۔۔ مکمل اجتناب۔۔ رہی بات نفسیاتی اثر کی۔۔ قلیل تعداد میں شکار سے کچھ نہیں ہوتا۔
نذیر صاحب یہ بھی دیکھیں چیف ایگزیگٹیو قبلہ مشرف صاحب کرپشن کے معاملے میں بہت سنجیدہ ہیں۔۔یوں شکار کا لائسنس دینا ان کی حکم عدولی کے زمرے میں آتا ہے۔۔ ان کا میرے اوپر اعتماد ہے۔۔۔ میں ان کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچانا چاہتا۔۔ میری نوکری کا معاملہ ہے ورنہ مجھے ہرن سے کیا لینا دینا؟ بھاڑ میں جائیں ہرن اور اس کے بچے۔
میں نے معاملہ وہیں چھوڑ دیا۔ اصل میں میں نے یہ دیکھ لیا تھا کہ وہ کونے میں پھنس چکے تھے اور اب بس ایک ہی دن کی بات تھی۔ میں گھر آیا اور بیگم کو یہ خوشخبری سنا دی کہ اجازت مل گئی ہے اور وہ اپنے بھائی کو یہ بتا دے کہ وہ اگلے ہفتے شکار کے جب چاہے چولستان چلا جائے ۔۔لائسنس البتہ نہیں ملے گا لیکن شکار کا مسئلہ نہیں ۔۔وہ شکار کر سکتا ہے۔۔ایک بات کا خیال البتہ رکھے کہ دودھ پلاتے ہرنیوں کو نہ مارے۔۔ اکا دکا کی خیر ہے۔۔بس اختیاط سے کام لے۔
بیگم نے اس کے باوجود منہ بنایا
پورے تین ہفتے لگے ہیں اس مسئلے میں۔۔ آپ کو جب بھی جائز ناجائز کام ہوتا ہے وہ بیچارہ ایک دن میں کر کے دے دیتا ہے۔۔ میری وجہ سے۔۔ اور پھر بھی میرا سار خاندان نکما ہے۔۔ جیسے آپ کی ماں کہا کرتی تھیں۔
اگلے دن شام کو میں نے نجم الدین صاحب کو گھر کھانے پر بلایا۔ ضیافت میں من جملہ کھانوں کےبیگم نے تازہ شکار کئے ہوئےچنکارہ ہرن کے کباب اور سندھی بریانی بنائی ہوئی تھی جس میں مرچیں ضرورت سے ذیادہ تھیں۔ کچھ کباب اور کچھ مرچوں والی بریانی کھاتے ۔۔سوں سوں کرتے ہوئے نجم الدین صاحب نے امپورٹڈ برانڈ کی وہسکی کی چسکی لی اور ترنگ میں آگئے ۔
نذیر یار شکار کی قباحتیں اپنی جگہ لیکن ویسے ہرن کے کباب کمال کے ہوتے ہیں اور وہ بھی بھابھی کے ہاتھ کے بنے
میں نے لوہا گرم دیکھا۔
کباب تو تب ملیں جب شکار ہو۔۔ یہ پچاس ۔۔ بیس۔۔ دس یا پانچ ہرنوں کی بات نہیں۔۔ صرف ایک ہرن کی بات ہے۔۔تازہ ہرن ۔۔ صرف ایک ہرن ۔۔ اس میں شرح نمو ، ہرن پر ظلم، ملکی وقار، قانون کا احترام، چھوٹے ہرنوں کے دودھ کے مسائل، مرد ہرنوں کی جنسی بےراہ روی، ہرنوں کے قبیلے کی اجتماعی نفسیات والے تمام مسائل کا احاطہ بخوبی ہوجاتا ہے اور سب سے اہم جب یہ کام رازداری میں ہو تو آپ پر چیف ایگزیگٹیوکا اعتمادقائم رہے گا اور آپ کی نوکری بھی برقرار رہے گی
انہوں نے کچھ دیر سوچا اور دانتوں میں خلال کرتے ہوئے کہا
اچھا تو پھر ایک ہی ہو
پھر کروٹ بدلی اور سر کجھایا
دیکھ لیں نذیر بھائی یہ اجازت نہ میں نے تمہیں دی ہے اور نہ ہی یہ بات میرے علم میں ہے
میرے چہرے پر بشاشت چھا گئی۔
اگلے دن میں نے نوید صاحب، شمس الدین صدیقی صاحب، خان صاحب، جلیل صاحب اور نورانی صاحب۔۔ سب کو یہ خوشخبر ی سنائی
ایک ہرن تک معاملہ حل ہوچکا ہےاب انشاء اللہ کچھ ہی دنوں کی بات ہے۔۔ دس۔۔ پچاس اور پھر جیسے تھا ہوجائے گا۔۔ میں نے بتایا تھا نا ہر مسئلے کا ایک حل ہوتا ہے۔۔ پلاننگ کرنی ہوتی ہے۔اور پلاننگ میں جبڑوں کو ہلانا پڑتا ہے۔
' 'استقامت سے اور درست طریقے پر
نورانی صاحب نے لقمہ دیا اور سب ہنسنے لگے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.