aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

معاون اور میں

راجندر سنگھ بیدی

معاون اور میں

راجندر سنگھ بیدی

MORE BYراجندر سنگھ بیدی

    کہانی کی کہانی

    ایک خوددار معاون اور ایک احساس کمتری کے شکار آقا کی کہانی ہے۔ پتمبر کو نو زائدہ رسالہ کہانی کے ایڈیٹر نے اپنے معاون کے طور رکھا ہے۔ بہت جلد پتمبر اپی ذہانت و قابلیت سے کہانی کو مضبوط کر دیتا ہے لیکن ایڈیٹر ہمیشہ اس سے خائف رہتا ہے کہ کہیں پتمبر اس کو چھوڑ کر نہ چلا جائے، اسی لئے وہ کبھی پتمبر کی تعریف نہیں کرتا بلکہ ہمیشہ نقص نکالتا رہتا ہے اور کہتا رہتا ہے کہ تم خود اپنا کوئی کام کیوں نہیں کر لیتے۔ ایک دن جبکہ پتمبر دو دن کا بھوکا تھا اور اس کی بہن کافی بیمار تھی، ایڈیٹر نے اس سے آٹا اور گھی اپنے گھر پہنچانے کے لئے کہا لکن پتمبر نے ذاتی کام کرنے سے منع کر دیا اور دفتر سے چلا گیا۔ ایڈیٹر باجود کوشش کے اسے روک نہ سکا۔

    وہ گنتی میں پانچ تھے، پورے پانچ۔ زرد رو اور پژمردہ سے چھوکرے۔۔۔ یوں دکھائی دیتا تھا جیسے جان بخش ٹھنڈی ہوا کے ایک جھونکے اور روشنی کی ایک کرن کے لیے ترس گئے ہوں۔ ان کی آنکھیں دور تک اندر دھنس گئی تھیں اور روشنی کے انحراف پر کھڑے ہونے کی وجہ سے صرف چند تاریک سے گڑھے دکھائی دیتی تھیں۔ اس سے پہلے وہ جہاں کہیں بھی تھے، ان کے بشرے کہے دیتے تھے کہ لا انتہا کام اور فکر نے ان کی صحت کو غارت کر دیا تھا۔

    بائیں طرف سے چوتھے، چق کے قریب کھڑے ہوئے لڑکے کے چہرے پر کی آڑی ترچھی لکیروں میں مجھے خود اعتمادی کے آثار دکھائی دیے اور جہاں باقیوں کی نظریں ’’آقا‘‘ کی متجسس نگاہوں سے جھینپتی ہوئی، دفتر میں لٹکی ہوئی پرانی کنزلے ریڈ کراس کے پوسٹر پر جم رہی تھیں۔ وہاں وہ اپنا لاغر سا چہرہ اٹھا کر ایک پر تمکین نگاہ سے میری طرف دیکھتے رہنے کی جسارت کر رہا تھا۔ میں نے ایک چبھنے والی نگاہ سے اس کے مٹیالے سیاہ رنگ کی اچکن پر لگے ہوئے پیتل کے، زنگ آلودہ بٹنوں کو دیکھتے ہوئے پوچھا،

    ’’آپ کا کیا نام ہے؟‘‘

    ’’پتمبر لال۔‘‘

    ’’تعلیم‘‘؟

    ’’میٹرک پاس ہوں۔ ٹائپ جانتا ہوں۔ ساٹھ کی اسپیڈ ہے۔‘‘

    اس کی تعلیم اور ’’اسپیڈ‘‘ کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے میں نے پھر ایک نظر سے پتمبر لال کے پورے قد کو ماپا اور قدرے دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔

    ’’میرے خیال میں آپ نے پہلے بھی کہیں کام کیا ہو گا۔‘‘

    ’’اس سے پہلے میں تھوڑی سی مصوری اور پھر بلاک بنانے کا کام کرتا رہا ہوں۔ بلاک بناتے وقت جست پر شورے کا تیزاب لگایا جاتا ہے۔ تیزاب کے دھوئیں نے میرے پھیپھڑوں کو بہت نقصان پہنچایا۔ میں نے وہ کام چھوڑ دیا۔ ایک دو جگہ اور ملازمت کی اور پھر چھوڑ دی۔

    میں حیرانی سے ان پانچوں کے چہروں کی طرف دیکھنے لگا۔ ان میں سے کوئی بھی زمانہ کی دست برد سے نہیں بچا تھا۔ جیسا کہ مجھے بعد میں پتہ چلا، تیزاب کے دھوئیں نے نہ صرف اس کا بایاں پھیپھڑا چھلنی کر دیا تھا، بلکہ دنیا کی خوفناک ترین بیماری اسے لگا دی تھی۔ اس بیماری کا اخفا مصلحت تھی، اس لیے پتمبر لال نے حقیقت کو چھپائے رکھا۔ بہت کچھ استفسار کے بعد مجھے صرف یہ پتہ چلا کہ میرے مقابل کھڑا ہوا لڑکا ایک خود دار انسان ہے۔ کسی کی ناجائز بات کو نہیں مانتا۔ اس لیے دو تین جگہ، جہاں بھی اس نے کام کیا، اپنی خود داری کو ٹھیس لگنے سے، چھوڑ دیا۔ اب وہ عرصہ سے بیکار تھا۔

    یسوع کے وہ الفاظ ’’تو منصف مت بن کہ تیرا بھی انصاف کیا جائے گا‘‘ میرے کانوں میں گونج رہے تھے۔ جب کہ میں نے پر شکوہ الفاظ میں پتمبر لال کو کہا ’’آپ کی اچکن کے زنگ آلود بٹن آپ کی صفائی پسند طبیعت کے داد خواہ ہیں ۔معاف کیجیے، مجھے آپ کی ضرورت نہیں‘‘۔۔۔ اس کے بعد مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے میں نے پانچوں کو رخصت کر دیا۔

    وہ زینہ سے اترتے جاتے تھے اور ایک پرحسرت نگاہ سے میری طرف دیکھتے جاتے۔ پتمبر لال نے اپنا وہ چہرہ، جو میرے اظہار خیال کے بعد بہت ہی زرد ہو گیا تھا، اٹھاتے ہوئے ایک جگر سوز نگاہ سے میری طرف دیکھا۔ میرے دل میں ایک ٹیس سی اٹھی۔ شاید ایسی درد انگیز ٹیسیں بیسیوں ہی اٹھتیں اگر میں ذرا نمایاں طور پر اپنی ضرورت کا اعلان کرتا۔ اشتہار چھپوا کر اخباروں میں یا شہر کی مختلف گزر گاہوں پر لگاتا۔ میں نے تو قصدا خفی قلم سے لکھ کر اپنے دفتر کے دروازہ پر چسپاں کر دیا تھا کہ ضرورت ہے ایک محنتی اور قابل کلرک کی جو پندرہ روزہ رسالہ ’’کہانی‘‘ میں کام کرے۔ تنخواہ بلحاظ تجربہ و لیاقت۔

    نہ معلوم میرے جی میں کیا آئی کہ میں نے پتمبر لال کو واپس بلا لیا اور سترہ روپئے ماہانہ پر اسے ’’کہانی‘‘ میں بطور معاون کے لے لیا۔ چند دن کے تجربہ کے بعد میں نے دیکھا کہ پتمبر لال ان ملازموں میں سے تھا، جنھیں قدرت نے جبلی طور پر آزاد بنایا ہو، لیکن زمانہ کے زیر و زبر نے انھیں ’’عبد‘‘ بنا دیا ہو۔ اخلاق جلالی کے مدبر مصنف نے ایسے ملازموں سے اپنے بچوں کاسا سلوک روا رکھنے اور انھیں وہی پوشاک پہنانے کی ،جو کہ خود پہنی جائے، تلقین کی ہے۔ مگر میں اس وقت ان آقاؤں سے مختلف نظریہ رکھتا تھا۔حسب ہدایت مذکورہ مصنف مجھے پتمبر لال سے ایسا سلوک کرنا چاہیے تھا کہ وہ والہانہ خدمت کرتا۔ مگر میں نے ایسا سلوک نہ کیا ،بلکہ کبھی پتمبر لال کو یہ ذہن نشین نہ ہونے دیا کہ وہ ایک نہایت قابل معاون ہے۔ میں کام کے دوران میں اکثر یہ کہہ دیا کرتا کہ ایک معاون رکھ کر میں نے اپنے رسالے پر ،جو کہ عمر کی اولیں منازل طے کر رہا ہے، ایک ناقابل برداشت بوجھ ڈال دیا ہے۔

    جس روز بھی میں پتمبر لال سے ایسی باتیں کرتا، یا یوں قدرے درشت کلامی سے پیش آتا تو اس کا لازمی اثر یہ پڑتا کہ میرا معاون ایک نہ ٹوٹنے والی خاموشی اختیار کر لیتا۔ قلم کا ایک سرا منھ میں رکھ کر غیر حاضر دل سے کسی طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھتا اور سوچتا رہتا۔ جہاں اس سے پہلے وہ لطیف باتیں اور چست فقرے کہتے ہوئے خشک اور بے مزہ کام میں روح پھونک دیتا، وہاں وہ گھنٹوں خاموش رہتا۔ صرف بلانے سے بولتا اور اپنی خامشی میں کبھی کبھار ایک گہری سانس لیتا۔

    اس دن دفتر کی حالت بہت ابتر ہوتی فائلیں، الماری یا میز پر اوندھی سیدھی پڑی ہوتیں۔ شمالی دروازے سے جب ہوا کا تند سا جھونکا آتا تو کسی کھلی ہوئی فائل میں سے چند اوراق ’’رسیدیں‘‘ یا یادداشت کے کاغذ اڑ کر فرش پر منتشر ہو جاتے۔ خریداروں کے خطوط کچھ قلمدان کے نیچے، کچھ میز کی درازوں اور کچھ اشتہاری چربوں میں مل جاتے۔ مسودات بڑی بے ترتیبی سے رکھے ہوتے غم و غصہ سے کانپتے ہوئے پتمبر بابو کے کمزور ہاتھوں سے تھوڑی بہت سیاہی میز پوش پر گر کر آہستہ آہستہ پھیلنے لگتی۔ کرسیاں، جن پر افسانہ نویس آ کر بیٹھتے، عجب بے ڈھنگے طور پر پڑی ہوتیں۔ اپنے افسانے کی تعریف میں ایک آدھ کلمہ سننے کے عادی افسانہ نویس، دفتر کی خامشی کو دیکھتے اور اپنے شہوانی کانوں میں انگلیاں ٹھونس کر چل دیتے۔ پھر وہ مہینوں اپنے نادر افکار نہ بھیجتے۔ بعد میں مجھے ان کے سامنے گڑگڑانا ہوتا۔ بکھرے ہوئے ردی کاغذ جنھیں میرا صفائی معاون عام طور پر اٹھا کر ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا کرتا تھا، ویسے ہی بکھرے پڑے رہتے اور دفتر پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالنے سے یہی معلوم ہوتاجیسے اس دن ہم غیر معمولی طور پر مشغول رہے ہیں۔ گویا جذباتی ایڈیٹر کسی معرکۃ الآرا کہانی پانے پر میز کے ارد گرد ناچتا رہا ہے اور شاید جذبات سے مغلوب ہو کر کاغذوں، مسودوں، فائیلوں کو اٹھا اٹھا کر چھت کی طرف پھینکتا رہا ہے۔

    پتمبر لال کا اشتہار فراہم کرانے کا طریقہ بالکل نیا تھا۔ وہ مارکیٹنگ کے طریقے، اقتصادی حالات، مقامی باشندوں کی معاشرت اور ان کی خرچ کرنے کی اہلیت سے واقف تھا۔ نفسیات میں فطری طور پر دخل رکھنے کے سبب وہ ’’کہانی‘‘ کے سے گمنام اور نئے پرچے کے لیے اشتہار فراہم کرنے میں کامیاب ہو جاتا۔ بلاک بنانے اور چھاپہ خانہ میں کام کر چکنے کی وجہ سے وہ طباعت کے عمل اور انگریزی ٹائپ کے رخ کو بھی جانتا تھا۔ وہ اشتہار کو باقاعدہ دو یا تین حصوں میں تقسیم کیا کرتا۔ مصور کے حصہ کا کام وہ ایک خاص مصور کو دے کر دل پسند کام لینے کے علاوہ کمیشن بھی اینٹھا کرتا۔ ایک دفعہ تو اشتہاری مضمون اور تصویر کے پیٹنٹ کروانے کی سر درد بھی اس نے مول لے لی۔

    کسی دوست کی وساطت سے پچھلے ماہ اس نے چند ماہ کے لیے ریلوے کا مکمل صفحے کا اشتہار لا کر خاصی آمدنی پیدا کر دی تھی اور وہ آمدنی اوائل عمر میں ’’کہانی‘‘ کو ایک بہت بڑی مدد تھی۔ اس بات کی صداقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا تھا کہ پتمبر لال نے ’’کہانی‘‘ میں جان ڈال دی تھی۔ اس کی محنت ہی رسالہ کی کامیابی تھی۔ اس کے استعداد کی وجہ سے مجھے یہی کھٹکا لگا رہتا تھا کہ پتمبر لال کہیں دفتر چھوڑ کر ہی نہ چلا جائے۔ چونکہ وہ خود بھی لکھنا جانتا ہے اور اشتہار بھی فراہم کرسکتا ہے کہیں وہ اپنا ہی کوئی رسالہ نہ نکال لے۔ چنانچہ اسی خوف کے رد عمل نے مجھے پیش قدمی پر مجبور کر دیا۔ میں نے کہا، ’’بابو پتمبر لال ! تم اپنا ہی کام کیوں نہیں چلا لیتے۔۔۔ میں جانتا ہوں تم کام اچھی طرح سے نباہ سکتے ہو۔ معقول آمدنی کا ذریعہ پیدا کرسکتے ہو اور پھر۔۔۔ جب کہ تمھاری ساٹھ کی اسپیڈ ہے۔‘‘ پھر میں نے خود ہی کھسیانہ ہوتے ہوتے ہوئے کہا،’’اور۔۔۔ اور۔۔۔ مجھے ایک معاون کی ضرورت بھی تو نہیں رہی۔‘‘ پتمبر لال اس جملے کو متعدد بار سن کر تنگ آچکا تھا۔ اس لیے سٹپٹاتے ہوئے بولا،’’ضرورت نہیں۔ تو مجھے بار بار کیوں سناتے ہیں آپ؟ کیوں نہیں مجھے۔۔۔‘‘

    اور بغیر بات کو مکمل کیے پتمبر لال خاموش ہو گیا۔پھر اس نے اپنے سر کو ایک جھٹکا دیا۔ جیسے وہ تلخ حقائق سے دوچار ہونا تو کجا، اس کے تخیل سے بھی گھبراتا ہو۔ میں جو کہ دراصل اس کی علاحدگی کو بغیر اپنے آپ کو گزند پہنچائے گوارا نہیں کرسکتا تھا یوں کانپ اٹھا جیسے مجھ پر ایک لخت کسی نے سرد پانی انڈیل دیا ہو۔ میں نے اپنی بات کو بدلتے ہوئے کہا،’’آج کل تو ضرورت ہے۔ مگر مستقل طور پر تو نہیں۔ بابو۔ بابو ۔۔۔ میرا مطلب سمجھ گئے تم؟‘‘پھر مجھے یوں محسوس ہوا، گویا میری بات تشنۂ تکمیل ہے۔ کچھ دیر بعد میں نے اپنے آپ کو کہتے ہوئے پایا،’’میرا مطلب ہے، تم کیوں اپنا کام چلا کر ایک معقول آمدنی کا ذریعہ نہیں بنا لیتے؟‘‘ بظاہر میں نے وہی بات دہرائی تھی، لیکن اسے کہہ دینے سے میں نے دل پر سے ایک بوجھ سا اٹھا دیا تھا۔

    میرے معاون نے اپنا زرد اور فرط غم سے گرا ہوا چہرہ اوپر اٹھایا۔ اس نے کچھ کہنا چاہا مگر اسے کھانسی شروع ہو گئی اور ایک کانٹا سا اس کے گلے میں کھٹکنے لگا۔ اس نے منھ اور ناک پر رومال رکھ لیا، تاکہ ہوا مجھ تک چھن کر آئے۔ پانچ منٹ تک آہستہ آہستہ مگر لگاتار کھانستے رہنے سے بابو پتمبر لال کراہنے لگا۔ جب ذرا دم سیدھا ہوا تو اس نے بائیں ہاتھ سے چشمہ اٹھا کر پیشانی پر سرکا دیا اور میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہنے لگا، ’’لیکن کام کے لیے کچھ سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘

    ’’میں نے حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔ ’’تعجب ہے کہ تم اکیلی جان سترہ روپئے خرچ کر ڈالتے ہو۔‘‘

    ’’پتمبر لال نے بات کرنے کے لیے حلق میں کھٹکنے والے کانٹے کو انگوٹھے سے دبائے رکھا اور نتھنے پھلاتے ہوئے بولا۔

    ’’آپ کو کس نے بہکا دیا کہ میں اکیلا ہوں۔ میری ایک بہن ہے، شادی کے قابل، اور ایک بیوہ بوا ہمارے ساتھ رہتی ہے۔ گو ماں باپ مر چکے ہیں۔۔۔ اور جناب ! شاید آپ یہ نہیں جانتے کہ آٹھ آنے کا تو وہی پالش آتا ہے جو کہ اچکن پر لگے ہوئے بٹنوں میں چمک پیدا کرتا ہے۔‘‘

    اور اس بات کو سخت نفرت سے کہنے پر پتمبر لال ذرا بھی نہ جھجکا۔ اس کے بعد اس نے اپنا دبلا پتلا چہرہ دوسری جانب پھیر لیا۔ پہلو سے روشنی کے خلاف پتمبر بابو کی پروفائل بہت ہی مہیب دکھائی دیتی تھی۔ اس نے بات کیا کی، مجھے ایک چپت لگا دی، جس کے سہے بغیر چارہ نہ تھا اور ابھی تو اس نے ذاتی خرچ کی ایک مد ہی بتائی تھی اور پھر اس کی بہن جو اسکول میں پڑھتی تھی۔۔۔ اور بیوہ بوا۔۔۔

    میں نے دل میں خیال کیا کہ میں نے اس نوعمر چھوکرے سے بہت کچھ سیکھنا ہے۔اپنی تمام خود داری اور خود اعتمادی کے ساتھ وہ مجھ سے کہیں بڑا ہے۔ حق تو یہ ہے کہ میں اس کا نوکر معلوم ہوتا ہوں۔ اس کے انداز گفتگو پر مجھے غصہ محض اس لیے آیا کہ آخر میں آتا تھا۔

    اس کے بعد میں نے پتمبر بابو کو کچھ نہ کہنا چاہا، کیونکہ میں جانتا تھا کہ اس کے خلاف طبیعت کوئی بھی بات ہونے پر فضا مکدر ہو جائےگی اور میرے دل کا چین اور راحت چند گھنٹوں کے لیے بالکل فنا اور برباد ہو جائے گی۔ پتمبر لال کے تمام دن کبیدہ خاطر رہنے اور کام میں دلچسپی نہ لینے سے تمام فائلیں میز پر کھلی پڑی رہیں گی۔ وصول کرنے والے بل وصول شدہ بلوں میں پروئے جائیں گے۔ نئے آرڈروں والی چھٹیاں تعمیل شدہ آرڈروں کے ساتھ ردی کی ٹوکری میں جا پڑیں گی۔ لکیریں کھینچنے کے لیے فٹ رول، باوجود کوشش کے نہ مل سکے گا۔ ڈاک خانہ میں جانے والے وی۔ پی پیکٹ پر کوئی رقم اور فارم منی آرڈر پر مختلف رقم لکھے ہونے پر ڈاک خانے کا خبیث سب پوسٹ ماسٹر چپڑاسی کو تمام وی۔ پی واپس کر دے گا، تاکہ دفتر میں جا کر درست کرالی جائیں۔ ان تمام باتوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے میں نے چپ ہی مناسب سمجھی۔ یہ نہ صرف پتمبر لال کے لیے اچھا تھا، بلکہ میرے اپنے لیے بھی۔ محض ذاتی مفاد، خود غرضی سے میں خاموش رہا اور میں اتنی دیر چپ رہا کہ مجھے کھجلی ہونے لگی۔

    کچھ عرصہ بعد میں نے کہا۔ ’’بابو۔۔۔ جب تک میں نہ کہوں کہ منی آرڈر کے کوپنوں کا اندراج کرو، تب تک تم سوئے رہو گے۔ خودبخود نہ کرو گے کیا؟‘‘

    پتمبر لال نے جواب دینا چاہا، مگر اسے چھینک آ گئی اور پھر ہلکی ہلکی کھانسی شروع ہو گئی۔ پھر اس نے کچھ نہ کہا۔ وہ تو سانس لینے کے لیے تڑپ رہا تھا۔ بات کیا کرتا۔

    اس بار وہ ہفتہ بھر خاموش رہا۔

    پتمبر لال کی شخصیت نے ہی دراصل مجھ میں احساس ذات پیدا کر دیا تھا، ورنہ اس سے پہلے زندگی کی مختلف دوڑوں میں مجھے کئی ایک خوشگوار اور ناخوشگوار ملازموں سے پالا پڑا تھا، لیکن کسی کے سامنے مجھ میں آقا پن کی نمود اتنی شدت سے نہ ہوئی تھی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ میرا اپنا ہی احساس کمتری تھا جو بہروپیا بن کر مجھے ستاتا تھا۔

    کچہریوں کے اشتہار حاصل کرنے کے لیے میں نے پچھلے ماہ چند ایک اضلاع کا دورہ کیا تھا اور منصفوں کے سامنے اشتہار حاصل کرنے کے لیے گڑ گڑایا تھا۔ لیکن اب تک صرف دو اشتہار ملے تھے۔ ان میں سے ایک سینئر سب جج گورداس پور کا تھا،جو کہ شریف اور خلیق جج نے اسی وقت دے دیا تھا، اور دوسرا تحصیلدار صاحب موگا کا تھا جنھوں نے عنقریب ہی بھیجنے کا وعدہ دیا۔

    دسمبر کا آغاز تھا اور میں جانتا تھا کہ کرسمس کی گیارہ چھٹیاں ہو جانے پر ان سرپرستوں کی طرف سے پھر ہماری طرف کوئی بھی متوجہ نہ ہو گا، اس لیے میں کچھ گھبرا سا گیا۔

    ان دنوں پتمبر لال کچھ خوش تھا۔ میں نے احتیاطا چند دنوں سے اپنے آپ کو اس کے راستہ میں آنے سے باز رکھا۔ وہ کاغذ کو اوپر نیچے کرتا ہوا سیٹیاں بجاتا تھا۔ شاید اس لیے کہ ’’دتیا‘‘ کی لاٹری سے اسے تیس روپے آئے تھے۔ لیکن ساتھ ہی وہ اس بات کا معترف تھا کہ ان روپوں کے تصرف کے متعلق سینکڑوں خیالوں نے اس کے ذہن کو پریشان کر دیا تھا اور اس کی نیند چھین لی تھی۔ اگر کوئی بات صحیح معنوں میں اسے سکون دیتی تھی، تو وہ یہ کہ اس کی بہن اسکول سے نکلتے ہی ایک زنانہ صنعتی اسکول میں چھوٹی لڑکیوں کو سلائی اور کروشیا سکھانے پر نوکر ہو گئی تھی اور اس وجہ سے پتمبر بابو کی آمدنی میں معقول اضافہ ہو گیا تھا۔ اس کی خوشی کو دیکھ کر مجھے عدالتی اشتہاروں کا خیال بھی بھول گیا۔ میں نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔ ’’کیوں۔۔۔ کیا بات ہے بابو؟‘‘

    ’’نہیں۔۔۔ یونہی۔۔۔ ‘‘پتمبر نے گدگدی محسوس کرتے ہوئے کہا۔

    اس کے بعد پتمبر نے دو ایک چست باتیں کیں۔ میں نے خوش ہو کر کہا ’’یہ بہت اچھا ہوا جو تمھاری بہن صنعتی اسکول میں جانے لگی ہے۔ کیا مشاہرہ ملے گا؟‘‘ ایک پر غرور انداز سے پتمبر بولا ’’پچیس روپئے ماہانہ۔۔۔ مجھ سے بھی آٹھ روپئے زیادہ۔‘‘

    اس وقت مجھے یوں دکھائی دیا، گویا فضا میں ایک خلاسا پیدا ہو گیا ہے، جسے پر کرنے کی اشد ضرورت ہے اور کمرے کی تصویریں اور کنزلے اپنی اپنی جگہ سے ہٹ گئی ہیں اور میز پر پڑا قلمدان اپنی جگہ سے بہت دور سرک گیا ہے۔ فائلیں قدرے بے ترتیب رکھی ہوئی ہیں اور سب کچھ میرے ایک معمولی اشارے سے اپنی اپنی جگہ پر چلا جائے گا اور پھر میرے دل سے ایک بوجھ سا اتر جائے گا۔ چنانچہ میں نے اپنے کو کہتے ہوئے پایا، ’’اب تو تم اپنی مشترکہ آمدنی سے کوئی اخبار جاری کرسکتے ہو۔‘‘

    پتمبر لال نے ہنسنا بند کر دیا۔ وہ بہت رنجیدہ بھی نہ ہوا۔ گویا وہ میری ناقابل اصلاح طبیعت سے مانوس ہو چکا ہو۔ صرف چند ایک تیور اس کی پیشانی پر نمودار ہوئے اور وہ کھانستے ہوئے بولا، ’’کہاں؟۔۔۔ اس کی تنخواہ تو ہم اس کے بیاہ کے لیے اکٹھی کیا کریں کے۔‘‘

    پھر جیسے پتمبر کو کوئی بھولی بسری بات یاد آ گئی ہو۔ وہ کٹ کر اٹھا اور برآمدے میں جا کر اپنی خفگی کو سگرٹ کے دھوئیں سے پیدا ہوتے ہوئے حلقوں میں جذب کرنے لگا۔ اس کی میز پر بہت سے کاغذ بکھرے پڑے تھے، گویا وہ ابھی ابھی کچھ لکھتا رہا ہو۔ میں نے ڈرتے ڈرتے ایک سرسری نظر ان کاغذوں پر ڈالی اور مجھے یہ دیکھ کر کچھ حیرانی اور کچھ خوشی ہوئی کہ عدالتی اشتہاروں کی بات، جو چند دنوں سے مجھے سراسیمہ کر رہی تھی، پتمبر بھی اس کا حل سوچنے میں مصروف تھا۔ لیکن وہ چٹھیاں جو اس نے دلیری سے منصفوں کے نام لکھی تھیں، ان میں دوستانہ طریقہ تخاطب کو میں نے پسند نہ کیا۔ میں نے برآمدے سے پتمبر کو بلاتے ہوئے کہا۔

    ’’پتمبر بابو! دیکھو نا۔ منصف اور جج کا عہدہ بہت بڑا ہوتا ہے۔ ان سے ایسا دوستانہ تخاطب کچھ اچھا نہیں لگتا۔‘‘

    بابو اس انداز سے میری طرف دیکھنے لگا، گویا اس کے سامنے کوئی نپٹ گنوار کھڑا ہو، اور بولا۔

    ’’معلوم ہوتا ہے آپ کو اپنے پر کچھ بھی اعتماد نہیں ہے۔ آپ شاید یہ نہیں جانتے کہ جرنلزم کتنا ارفع پیشہ ہوتا ہے اور سماج کے کتنے بڑے بڑے ارکان اخبار والوں کے دست تعاون کے محتاج ہوتے ہیں اور پھر ایک دکاندار کی حیثیت سے تو یہ لوگ پاس بھی نہیں پھٹکنے دیتے۔ ان لوگوں کے سامنے ہمیں غلامانہ ذہنیت کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ ان لوگوں سے ایسے ہی تعلقات پیدا کرنے چاہئیں، گویا ہم رتبہ میں ان سے کسی طرح بھی کم نہیں۔‘‘

    ’’کچھ بھی ہو‘‘ میں نے اپنی بات کی رٹ لگاتے ہوئے کہا۔ ’’ میں اس طرز تخاطب کو پسند نہیں کرتا۔ اس کا نتیجہ بھی دیکھ لینا۔‘‘

    اس کے بعد میں نے کچھ کہنا چاہا، لیکن پتمبر کا چہرہ سنجیدگی اختیار کر گیا، اس لیے میں ڈر کر خاموش رہا۔ 26/دسمبر تک ہمیں چھ عدالتی اشتہار موصول ہو گئے۔

    تمام وہ لوگ جو کسی بھی مفاد کے لیے شب زندہ داری اختیار کرتے ہیں، ان کی بیویاں اعلانیہ طور پر انھیں کوسنے دیتی ہیں تا وقت کہ اپنی محنت کے اجر کا خوبصورت سا تخیل، جس میں خوبصورت ساڑھیاں بھی دکھائی دیں اور بچوں کے لیے گاڑی بھی، ان کے سامنے پیدا نہ کیا جائے۔ وہ شب زندہ داری سے متفق نہیں ہوتیں۔ میری بیوی کی ناراضگی کی ایک وجہ اور بھی تھی۔ میں اسے یہ بھی نہ بتا سکتا تھا کہ صبح فلاں سبزی پکائی جائے اور شام کو فلاں دال اور ہر ایسی بات پر اکثر گھر میں ناخوشگوار سی جھڑپ ہو جایا کرتی تھی۔ آج میں گھر سے ہی جھگڑ کر سونے کے لباس اور سلیپروں میں دفتر چلا آیا تھا اور روٹی بھی وہیں منگوا لی تھی۔ روٹی کھاتے وقت مجھے یہ خیال ستا رہا تھا کہ آٹا بھی ختم ہے اور گھی بھی۔ اور شام کو کیا سبزی پکائی جائے؟

    وائے قسمت آج پتمبر لال پھر خاموش تھا۔ نہ معلوم اس ذکی الحس شخص کے جذبات کو کس نے ٹھیس لگائی تھی۔ مجھے اچھی طرح علم ہے کہ کم از کم اس دن میں نے تو اسے کوئی رنجیدہ کرنے والی بات نہ کہی تھی۔ آج وہ گھر سے ہی ایسے آیا تھا۔ مجھے بعد میں پتہ چلا کہ پتمبر بابو کی بہن مسلسل بیماری کی وجہ سے صنعتی اسکول کی ملازمت سے علاحدہ کر دی گئی ہے۔ پتمبر کے پاس جو کچھ تھا، وہ سب کچھ دوا دارو پر ختم ہو گیا۔ اب اس کے پاس علاج معالجہ تو ایک طرف، پیٹ کی آگ خاموش کرنے کے لیے بھی کچھ نہ تھا، اور وہ دو دن سے بھوکا تھا۔ بعض وقت بدنصیب انسان کو قدرت محض اس لیے کچھ دیتی ہے تاکہ پھر اس سے چھین لے۔ قدرت اپنی حز نیہ تمثیل کومقام اوج تک پہنچانے کے بہت سے طریقے جانتی ہے۔

    اس دن بھی میں پتمبر لال سے خائف، ایک کونے میں دبکا ہوا بیٹھا رہا۔ پھر میں نے اپنے آپ سے کہا۔ ’’میں پتمبر لال سے اتنا خائف کیوں ہوں؟۔۔۔ آخر وہ میرا نوکر ہی ہے نا۔‘‘ اس کے بعد ایک زبردست رد عمل میں مَیں یہ بھی بھول گیا کہ پتمبر دو دن سے بھوکا ہے۔ میں نے مڑ کر کہا، ’’بابو۔۔۔ آج شام کو کچھ سبزی اور آٹا تو میرے گھر پہنچا آنا۔۔۔ پیسے میں دیتا ہوں۔‘‘

    اور میں نے اس کا جواب سنے بغیر پیسے میز پر رکھ دیے۔ میں نے یہ محسوس کیا کہ اگر پتمبر لال کی جگہ کوئی اور دفتر کا ملازم ہوتا، تو شاید میں اس سے یہ کام کبھی نہ کہتا ۔پتمبر لال حیرت سے میرے منھ کی طرف دیکھنے لگا۔ آہستہ آہستہ اس کا رنگ زرد ہونے لگا۔ شانے پھڑکنے لگے۔ وہ بولا ، ’’لیکن جناب۔۔۔ آپ نے دفتر کے کام کے لیے مجھے رکھا ہے۔ نہ کہ نج کے لیے۔ معاف کیجیے مجھ سے یہ کام نہ ہو سکے گا۔‘‘

    میں نے کہا، ’’کام صرف پندرہ منٹ کا تو ہے اور میں تمھیں دفتر کے وقت سے ایک گھنٹہ پہلے چھٹی دیتا ہوں۔

    ’’خواہ دو گھنٹہ کی چھٹی دیں، یا دفتر کے وقت کے دو گھنٹہ بعد تک بٹھائے رکھیں، لیکن یہ کام مجھ سے نہ ہو گا۔‘‘

    ’’آخر اس میں حرج بھی کیا ہے؟‘‘

    ’’دفتر کے کام اور نج کے کام میں بہت فرق ہے؟‘‘

    ’’فرق ہے‘‘! میں نے غصے میں کانپتے ہوئے کہا۔ ’’آپ جان بوجھ کر رزق کو دھکا دے رہے ہیں۔‘‘

    ’’بے شک‘‘ مجھے دلیرانہ جواب ملا۔‘‘

    ’’کل مہینہ ختم ہوتا ہے۔ براہ مہربانی اپنا بندوبست کر لیجیے۔‘‘

    اس وقت میری نظر ’’کہانی‘‘ کے تازہ ترین شمارے پر پڑی۔ اس میں آدھا ریڈنگ میٹر تھا اور آدھے اشتہارات اور یہ جو کچھ بھی تھا، پتمبر لال کی محنت کا نتیجہ تھا۔ مجھے یقین ہو گیا کہ اب کہانی کے رنڈاپے کے دن آ گئے۔

    اس وقت مجھے یہ خیال آیا کہ پتمبر لال کے سامنے اپنے رویہ پر اظہار معذرت کروں اور اسے کہہ دوں کہ وہ بات صبح کے ناخوشگوار واقع کی وجہ سے ہو گئی ہے لیکن۔۔۔ آقا۔۔۔ نوکر۔۔۔

    میں اس بات کو سوچتے ہوئے برآمدے میں چلا گیا۔ پیچھے سے میں نے قفل لگنے کی آواز سنی اور جب میں نے مڑ کر دیکھا تو مجھے چابی تالے کے قریب پڑی ہوئی دکھائی دی۔ اس وقت پتمبر بابو لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا بازار کی طرف ہو لیا۔

    اس وقت میں کنایتا بھی نوکری چھوڑنے کا خیال پتمبر کے ذہن میں پیدا نہیں کرنا چاہتا تھا۔ میں بآواز بلند پکارا۔

    ’’پتمبر۔۔۔ پتمبر بابو، چابی لینا بھول گئے تم۔‘‘

    پتمبر چلتا گیا۔ میں نے سوچا، کیوں نہ میں آقا پن کو ہمیشہ کے لیے پامال کر دوں۔ اسی سونے کے کپڑوں اور سلیپروں میں اس کے پیچھے دوڑ جاؤں اور گڑ گڑا کر معافی مانگ لوں۔ راستہ میں میرا سلیپر کیچڑ میں دھنس کر رہ جاتا ہے، تو رہ جائے۔ کسی کار کے پائدان سے ٹکرا کر پٹڑی پر اوندھا گر پڑتا ہوں اور میرا سر پھٹ جاتا ہے، تو پھٹ جائے۔ آخر آقا پن اس سے کم ذلیل ہونے پر تھوڑے ہی معدوم ہوتا ہے۔

    اور جب میں نے دوڑنا چاہا تو میرے پاؤں زمین میں گڑ گئے۔ موڑ پر پہنچتے ہوئے پتمبر نے صرف ایک دفعہ میری طرف دیکھا۔ گویا کہہ رہا ہو۔۔۔ ’’یہ ٹھیک ہے میں بھوکا مر رہا ہوں، لیکن اپنی جیب میں کسی کی چابی کا بوجھ مجھ سے بھی برداشت نہ ہو سکے گا۔‘‘

    مأخذ:

    گرہن (Pg. 199-216)

    • مصنف: راجندر سنگھ بیدی
      • ناشر: مکتبہ اردو، لاہور
      • سن اشاعت: 1942

    موضوعات

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے