Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

روغنی پتلے

ممتاز مفتی

روغنی پتلے

ممتاز مفتی

MORE BYممتاز مفتی

    کہانی کی کہانی

    ’’قوم پرستی جیسے مدعے پر بات کرتی کہانی، جو شاپنگ آرکیڈ میں رکھے رنگین بتوں کے گرد گھومتی ہے۔ جن کے آس پاس سارا دن طرح طرح کے فیشن پرست لوگ اور نوجوان لڑکے لڑکیاں گھومتے رہتے ہیں۔ مگر رات ہوتے ہی وہ بت آپس میں گفتگو کرتے ہوئے موجودہ حالات پر اپنی رائے ظاہر کرتے ہیں۔ صبح میں آرکیڈ کا مالک آتا ہے اور وہ کاریگروں کو پورے شاپنگ سینٹر اور تمام بتوں کو پاکستانی رنگ میں رنگنے کا حکم سناتا ہے۔‘‘

    شہر کا الیٹ شاپنگ سنٹر۔۔۔ جس کی دیواریں، شلف، الماریاں بلور کی بنی ہوئی ہیں۔ جس کا بنا سجا فیکیڈ جلتے بجھتے رنگ دار سائز سے مزین ہے۔ جس کے کاؤنٹرز مختلف رنگوں کے گلو کلرز پینٹس کی دھاریوں سے سجے ہوئے ہیں اور شلف دیدہ زیب سامان سے لدے ہیں جس کے کاؤنٹروں پر سمارٹ متبسم لڑکیاں اور لڑکے یوں ایستادہ ہیں جیسے وہ بھی پلاسٹک کے پتلے ہوں، جوان کے اردگرد یہاں وہاں سارے ہال میں جگہ جگہ رنگا رنگ لباس پہنے کھڑے ہیں۔۔۔ ہال فیشن آرکیڈ سے کون واقف نہیں۔

    چاہے انہیں کچھ نہ خریدنا ہو، لوگ کسی نہ کسی بہانے فیشن آرکیڈ کا پھیرا ضرور لگاتے ہیں۔ وہاں گھومتے پھرتے نظر آنا ایک حیثیت پیدا کر دیتا ہے۔ کچھ پاش چیزوں اور نئے ڈیزائنوں کو دیکھنے آتے ہیں تاکہ محفلوں میں لیٹسٹ فیشن کی بات کر کے اپ ٹو ڈیٹ ہونے کا رعب جما سکیں۔ نوجوان آرکیڈ میں گھومنے پھرنے والیوں کو نگاہوں سے ٹٹولنے آتے ہیں۔ غنڈے سیل گرلز سے اٹاسٹا لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لڑکیاں اپنی نمائش کے لیے آتی ہیں۔ بوڑھے خالی آنکھیں سینکتے ہیں۔ گھاگ بیگمات گرین یوتھ کی ٹوہ میں آتی ہیں۔ وہ صرف فیشن آرکیڈ ہی نہیں، رومان آرکیڈ بھی ہے، کیوں نہ ہو۔ آج محبت بھی تو فیشن ہی ہے۔

    کون سی چیز ہے جو فیشن آرکیڈ مہیا نہیں کرتا۔ زربفت سے گاڑھے تک۔ موسٹ ماڈرن گیجٹس سے سوئی سلائی تک، سی تھرو سے رنگین مالاؤں تک۔ سب کچھ وہاں موجود ہے۔ لوگ گھوم گھام کر تھک جاتے ہیں تو آرکیڈ کے ریستوران میں کافی کا پیالہ لے کر بیٹھ جاتے ہیں۔

    فیشن آرکیڈ کی اہمیت کا یہ عالم ہے کہ فارن ڈگنیٹریز نے خرید و فروخت کرنی ہو تو انہیں خاص انتظامات کے تحت آرکیڈ میں لایا جاتا ہے۔ آرکیڈ ہال میں جگہ جگہ روغنی پتلے طرح طرح کا لباس پہنے کھڑے ہیں۔ چہروں پر جوانی کی سرخی جھلملا رہی ہے۔ آنکھوں میں دعوت بھری چمک ہے۔ ہونٹوں پر رضامندی بھرا تبسم کھدا ہے۔ جسم کے پیچ و خم ہر لحظہ یوں ابھرتے سمٹتے محسوس ہوتے ہیں جیسے سپردگی کے لیے بے تاب ہوں۔ اگرچہ ڈمی پتلے پلاسٹک کے جمود میں مقید ہیں مگر صناع نے انہیں ایسی کاریگری سے بنایا ہے کہ ان کے بند بند میں حرکت کی الیوژن لہریں لے رہی ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے وہ رواں دواں ہوں۔

    سی تھرو لباس والی پتلی کو دیکھو تو ایسے لگتا ہے جیسے وہ ابھی اپنی برہنہ ٹانگ اٹھا کر کہے گی، ’’ہئے مجھے سنبھالو۔ میں گری جا رہی ہوں۔‘‘ اور جیکٹ والا اپنی عینک اتار کر مونچھوں کو لٹکاتے ہوئے چل پڑے گا۔ ’’ہولڈ آن ڈارلنگ میری گود میں گرنا۔‘‘

    آرکیڈ میں بہت سی پتلیاں پوز بنائے کھڑی ہیں۔ منی سکرٹ والی، ساڑھی والی، بیدنگ کاسٹیوم والی، میکسی والی، سی تھرو لباس والی، لٹکتے بالوں والی، پتلون والی، ننگے پاؤں والی، ہپن، ٹوکرا بالوں والی، انگلی سے لگے بچے والی۔ ان کے ساتھ ساتھ پتلے کھڑے ہیں۔ شکاری جیکٹ والا، دانشور، موٹر سائیکل والا، بلیک سوٹ، اچکن، ہپی، کرتے پاجامے والا، سٹوڈنٹ، ڈینڈی، مصور۔ آرکیڈ بال کے اوپر دیوار کے ساتھ ساتھ ایک گیلری چلی گئی ہے۔ جہاں نظروں سے اوجھل دکان کا کاٹھ کباڑ پڑا ہے۔ پرانی میزیں کرسیاں، شلف اور پتلے جن کا رنگ و روغن اکھڑ چکا ہے۔ رات کا وقت ہے۔ آرکیڈ بند ہو چکا ہے۔ ہال میں سات آٹھ بتیاں روشن ہیں، شیشے کی دیواروں کی وجہ سے ہال جگمگ کر رہا ہے۔ گھڑی نے دو بجائے۔ سارے ہال میں حرکت کی ایک لہر دوڑ گئی۔ پتلیوں نے آنکھیں کھول دیں۔ پتلیوں کی لمبی لمبی پلکیں یوں چلنے لگیں جیسے پنکھیاں چل رہی ہوں۔

    سی تھرو نے انگڑائی لی۔

    منی سکرٹ والی نے اپنی ٹانگ اٹھائی۔

    جیکٹ والے دانشور نے اپنا قلم جیب میں ٹانگا۔ عینک صاف کی اور سی تھرو کی طرف بھوکی نظروں سے دیکھنے لگا۔

    موٹر سائیکل والے نے پیچھے بیٹھی لٹکتے بالوں والی پر گلیڈ آئی چمکائی۔ لٹکتے ہوئے بالوں والی سے چھینٹے اڑنے لگے۔

    ’’مائی گاڈ۔‘‘ سی تھرو چلائی، ’’یہ دیکھو، اس نے اپنی ٹانگ لہرائی۔ میری ٹانگ پر نیلی رگیں ابھر آئی ہیں کھڑے کھڑے۔‘‘

    ’’کیوں نہ ہو، بلیو بلڈ ہے۔‘‘ بلیک سوٹ مسکرایا۔

    دور سے ایک آواز آئی، ’’ساغر کو مرے ہاتھ سے لینا کہ چلی میں۔‘‘ سب لوگ بکس کے پاس کھڑی پتلون والی کی طرف دیکھنے لگے۔

    ’’تیرے ہاتھ تو خالی ہیں۔ کہاں ہے ساغر؟‘‘ کرتے پاجامے والے نے پوچھا۔

    ’’اندھے وہ تو خود ساغر ہے، دکھتا نہیں تجھے۔‘‘ جین والا ہنسا۔

    ’’میں تو بور ہو گئی ہوں۔‘‘ منی سکرٹ والی نے آنکھیں گھما کر کہا۔

    ’’کیوں مذاق کرتی ہو؟‘‘ موٹر سائیکل والے نے گلیڈ آئی چمکائی۔

    ’’تم تو سراپا حرکت ہو۔ تمہاری تو بوٹی بوٹی تھرکتی ہے۔ تم کیسے بور ہو سکتی ہو؟‘‘

    ’’کیوں بناتے ہو اسے، اس کے جسم پر بوٹی ہی نہیں، تھرکے گی کہاں سے۔‘‘ دور کونے میں کھڑے اچکن والے نے کہا۔

    ’’ہاں!‘‘ پہلوان نما کرتے والے نے سر اثبات میں ہلایا، ’’وہ تو مٹیار کا زمانہ تھا جب بوٹی بوٹی تھرکا کرتی تھی۔ اب تو کاٹھ ہی کاٹھ رہ گیا ہے۔‘‘

    ’’شٹ اپ۔‘‘ جین والے نے آنکھیں دکھائیں۔ ’’اپنے دقیانوسی رجعت پسند خیالات سے فیشن آرکیڈ کی فضا کو متعفن نہ کرو۔‘‘

    ’’ابے مسٹر اچکن۔‘‘ سٹوڈنٹ چلایا، ’’ذرا آئینہ دیکھو۔ یوں لگتے ہو جیسے سارنگی پر غلاف چڑھا ہو۔‘‘

    ’’یہ مسٹر اچکن تو خالص ہسٹری ہے ہسٹری۔ اسے تو میوزیم میں ہونا چاہئے۔‘‘

    ’’انٹیکس میوزیم میں۔‘‘ جیکٹ والے نے قہقہہ لگایا۔

    ’’بالکل، ان روایتی لوگوں کو جینے کا کوئی حق نہیں۔‘‘

    ’’یہ لوگ زندگی کو کیا جانیں۔‘‘

    ’’ہپو کریٹس۔‘‘ ہر طرف سے آوازیں آنے لگیں۔

    ’’اگنور ہم، ہٹاؤ۔۔۔ کوئی اور بات کرو۔‘‘ سی تھرو آنکھیں گھما کر بولی۔

    ’’ہاؤ کین دی اگنور ہم؟ یہ لوگ ہمارے راستے کی رکاوٹ ہیں۔‘‘

    ’’نان سنس۔ ہمارے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں بن سکتا۔ وی آر آل فار پروگرس موومنٹ۔‘‘ جیکٹ والا چلا کر بولا۔

    ’’ہیر ہیر۔‘‘ تالیوں سے ہال گونجنے لگا۔

    ’’ہا ہا ہا ہا‘‘ اوپر گیلری میں کوئی قہقہہ مار کر ہنسا۔ اس کی آواز کھرج تھی۔ انداز والہانہ تھا۔ تالیاں رک گئیں۔ ہال میں خاموشی چھا گئی۔ پھر سرگوشیاں ابھریں۔

    ’’کون ہے یہ؟‘‘

    ’’کون ہنس رہا ہے؟‘‘

    ’’پتا نہیں، اوپر سے آواز آ رہی ہے۔‘‘

    ’’ہئے میں تو ڈر گئی۔ کتنی ہورس آواز ہے۔‘‘

    قہقہہ رک گیا، پھر قدموں کی آواز سنائی دی۔۔۔ ٹھک ٹھک ٹھک ٹھک۔

    ’’کوئی چل رہا ہے اوپر۔‘‘

    ’’ہئے میری تو جان نکلی جا رہی ہے۔‘‘

    ’’پتہ نہیں کون ہے۔‘‘ منی اسکرٹ والی بولی۔

    ’’ڈونٹ فیئر ڈارلنگ۔ آئی ایم ہیر بائی یور سائیڈ۔‘‘

    ’’وہ دیکھو۔۔۔ وہ۔‘‘ ٹوکرا بالوں والی نے اوپر کی طرف اشارہ کیا۔

    ’’اوپر۔۔۔ گیلری کے جنگلے پر۔‘‘ ساڑھی والی ڈر کر بولی۔ سب کی نگاہیں اوپر جنگلے کی طرف اٹھ گئیں۔ گیلری کی ریلنگ سے ایک بڑا سا بھیانک چہرہ جھانک رہا تھا۔

    ’’توبہ ہے۔ اف۔۔۔ ہائے۔۔۔‘‘ پتلیوں نے شور مچا دیا۔

    ’’کون ہے تو؟‘‘ موٹر سائیکل والا اپنا سائیلنسر نکال کر غرایا۔

    ’’میں وہ ہوں جو ایک رو زمشہدی لنگی باندھے وہاں کھڑا تھا۔ جہاں آج تو کھڑا ہے۔‘‘

    ’’اس کی آواز اتنی بھدی کیوں ہے؟‘‘ سی تھرو نے سینہ سنبھالا۔

    ’’کہاں سے بول رہا ہے یہ؟‘‘ پتلون والی نے پوچھا۔

    ’’میں وہاں سے بول رہا ہوں جہاں بہت جلد تم پھینکی جانے والی ہو۔‘‘ لنگی والا کہنے لگا۔

    پتلیوں کا رنگ زرد پڑ گیا۔ ان کے منہ سے چیخیں سی نکلیں، ’’نو نو۔۔۔ نو نو۔۔۔ نیور۔ مائی گاڈ۔ ہئے اللہ۔‘‘ وہ سب سہم کر پیچھے ہٹ گئیں۔

    ’’ڈونٹ مائنڈ ہم ڈارلنگ۔‘‘ جین والا بولا، ’’یہ تو پٹا ہوا مہرہ ہے۔ پٹے ہوئے مہرے سے کیا ڈرنا۔‘‘

    ’’دیٹس اٹ دیٹس اٹ دے بلانگ ٹو دی پاسٹ۔‘‘

    ’’یہ اب بھی ماضی میں رہتے ہیں اور ہم کو ماضی کی طرف گھسیٹنا چاہتے ہیں۔‘‘ جیکٹ والا حقارت سے بولا۔

    ’’بڑے میاں سلام۔‘‘ جیکٹ والے نے ماتھے پر ہاتھ مار کر طنزیہ سلام کیا۔ ’’ماضی پرستی کا دور ختم ہوا۔ حضت اب جدیدیت کا زمانہ ہے۔‘‘

    گیلری میں اوندھا پڑا ہوا رومی ٹوپی والا لنگڑا سوٹی پکڑ کر اٹھ بیٹھا۔

    ’’احمق ہیں یہ جدیدیت کے دیوانے۔ اتنا بھی نہیں جانتے کہ اس دنیا میں نہ قدیم ہے نہ جدید۔ جو آج جدید ہے وہ کل قدیم ہو جائے گا۔‘‘

    ’’یہ ظاہر کے دیوانے کیا سمجھیں گے۔‘‘ مشہدی لنگی والے نے قہقہہ لگایا۔ ’’کہ دور ایک گھومتا ہوا چکر ہے جو آج اوپر ہے، کل نیچے چلا جائے گا۔ جو آج نیچے ہے، کل اوپر آ جائے گا۔‘‘

    جین والے نے اپنی پتلون جھاڑی، ’’ان کباڑ خانوں والوں کی باتیں نہ سنو۔ یہ بے چارے کیا جانیں جدیدیت کو۔‘‘

    ’’جدیدیت کے دیوانے۔ آج تیری پتلون کے پائنچے کھلے ہیں۔ کل تنگ ہو جائیں گے۔ پرسوں پھر کھل جائیں گے۔ یہی ہے نا تیری جدیدیت۔‘‘ رومی ٹوپی والے نے قہقہہ لگایا۔

    ’’ذرا اس کی جین کی طرف دیکھو۔‘‘ لنگی والا بولا، ’’نیلی پتلون پر سرخ ٹلی لگی ہوئی ہے۔۔۔ ہاہا۔ ہاہا۔‘‘ وہ قہقہہ مار کر ہنسنے لگا۔

    ’’احمق! یہ ٹلی نہیں۔ پچ ہے پچ۔ پچ فیشن ہے۔ پچ لگی جین کی قیمت عام پتلون سے دگنی ہوتی ہے۔ تجھے کچھ پتا بھی ہے۔‘‘

    ’’پیوند کبھی غربت کا نشان تھا۔ پیوند لگے کپڑوں والے سے لوگ یوں گھن کھاتے تھے جیسے کوڑھی ہو۔ آج تم اس پیوند کی نمائش پر فخر محسوس کر رہے ہو۔‘‘ مشہدی لنگی والا ہنسنے لگا۔ ’’تم عجیب تماشا ہو۔‘‘

    رومی ٹوپی والے نے قہقہہ لگایا، ’’دور جدید کے تخیل کا فقدان ملاحظہ ہو۔ پیوند کو فیشن بنا بیٹھے ہیں۔ ہی ہی ہی ہی۔۔۔‘‘

    ’’سارا کریڈٹ ہمیں جاتا ہے۔‘‘ ہپی نے سر اٹھا کر کہا۔

    ’’ہائیں۔۔۔ یہ کیا کہہ رہی ہے؟‘‘ پتلون والی نے پوچھا۔

    ’’لو!‘‘ سی تھرو زیر لب گنگنائی۔ ’’چھلنی بی بولی۔‘‘

    ’’ہاں!‘‘ ہپی نے سینے پر ہاتھ مارا۔ ’’سارا کریڈٹ ہمیں جاتا ہے۔‘‘

    ’’تعفن کا کریڈٹ غلاظت کا کریڈٹ اور کون سا۔‘‘ بیدنگ کاسٹیوم والی بولی۔ ساڑھی والی نے ناک چڑھائی۔

    ہپی نے قہقہہ لگایا، ’’جدیدیت کے ذہنی تعفن کو دور کرنے کا کریڈٹ۔ جدیدیت کے بت توڑنے کا کریڈٹ۔ جھوٹی قدروں کو پاؤں تلے روندنے کے لیے ہمیں غلاظت کو اپنانا پڑا۔‘‘

    سپورٹس گرل نے بیڈ منٹن ریکٹ کو گھما کر دانت نکالے۔

    ’’ڈینٹل کریم کا اشتہار کسے دکھا رہی ہو؟‘‘ ہپی ہنسا، ’’ہم نے دور حاضرہ کے سب سے بڑے بت دولت کو پاش پاش کر دیا۔ ہم نے جھوٹے رکھ رکھاؤ کا بت ریزہ ریزہ کر کے رکھ دیا۔ ہم نے ماڈرن ایج کے واحد دل بہلاوے سمال کمفرٹس کی نفی کر دی۔ ہم نے مغربی تہذیب کا جنازہ نکال دیا۔‘‘

    ’’یہ بے چارے کیا جانیں۔‘‘ ہپن بولی، ’’ظاہریت کے متوالے۔۔۔ جب کوئی تہذیب متعفن ہو جاتی ہے تو اسے مسمار کرنے کے لئے مجاہد بھیج دیے جاتے ہیں۔ ہم وہ مجاہد ہیں۔‘‘

    ’’تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی۔‘‘ رومی ٹوپی والے نے قہقہہ لگایا۔

    ’’بالکل درست۔‘‘ لنگی والا چلایا، ’’یہ ٹرانزیشنل دور ہے۔ جب ایک شو ختم ہو جاتا ہے تو دوسرے شو کے واسطے ہال صاف کرنے کے لیے جمعدار آ جاتے ہیں۔ یہ جمعداروں کا دور ہے۔‘‘

    ’’سلی فول۔‘‘ سی تھرو ہنسی۔ ’’یہ تو رومانس کا دور ہے۔‘‘

    ’’رومانس!‘‘ گیلری کے کاٹھ کباڑ سے ایک مجنوں صفت دیوانہ لپک کر ریلنگ پر آ کھڑا ہوا۔ ’’تم کیا جانو، رومان کیا ہوتا ہے۔۔۔ تمہارے دور نے تو عشق کا گلا گھونٹ دیا۔ عاشق کو ٹھنڈا کر کے رکھ دیا۔ محبوب سے محبوبیت چھین کر اسے رنڈی بنا دیا۔ عریانی کو رومان نہیں کہتے بی بی۔‘‘

    ’’ہالڈر ڈیش۔‘‘

    ’’نان سینس۔‘‘

    رومی ٹوپی والے نے ایک لمبی آہ بھری، ’’دوستو ہمارے زمانے میں عورت کا نقاب سرک جاتا تھا تو گال دیکھ کر مرد میں تحریک پیدا ہوتی تھی لیکن اب ننگے پنڈوں کی یلغار نے مردانہ حس کو کند کر دیا ہے۔ تمہارے دور نے مرد کو نامرد اور عورت کو بانجھ کر کے رکھ دیا ہے۔‘‘

    جیکٹ والا آگے بڑھا۔ اس نے قلم جیب میں ڈالا۔ عینک اتاری۔ ’’ہم جنس کے متوالے نہیں۔ ہم جنس کی دلیل میں ڈوبے ہوئے نہیں ہیں۔ دور حاضر میں سب سے اہم ترین مسئلہ اقتصادیات کا ہے۔ تم حالات حاضرہ سے چشم پوشی کرتے ہو۔ ہم تمہاری طرح حالات حاضرہ سے آنکھیں نہیں چراتے۔ ہم ترقی پسند لوگ ہیں۔‘‘

    ’’حالات حاضرہ۔‘‘ رومی ٹوپی والے نے قہقہہ لگایا۔ ’’تمہارے نزدیک حالات حاضرہ روٹی، کپڑا اور مکان ہیں۔ ہمارے نزدیک سب سے بڑا مسئلہ انا کا ہے۔ سلف کا ’’میں‘‘ کا۔‘‘

    ’’روٹی کپڑے والو ہماری طرف دیکھو۔‘‘ ہپن چلائی۔ ’’جو ملتا ہے، کھا لیتے ہیں۔ جہاں بیٹھ جاتے ہیں، وہی ٹھکانہ بن جاتا ہے۔ جو میسر آتا ہے، پہن لیتے ہیں۔ کہاں ہیں وہ مسئلے جنہیں تم اہرام مصر بنائے بیٹھے ہو۔‘‘

    ’’اونہوں انہیں کچھ نہ کہو۔ یہ تو فارن خیالات کی ایڈ کے بل بوتے پر کھڑے ہیں۔ انہیں کوئی کچھ نہیں کہہ سکا۔‘‘ رومی ٹوپی والا بولا۔

    ’’کل جب روٹی، کپڑا اور مکان کا مسئلہ حل ہو جائے گا، پھر تمہارے پلے کیا رہ جائے گا۔ بتاؤ۔‘‘ ہپن بولی۔

    ’’یہ تو حرکت کے متوالے ہیں، منزل کے نہیں، انہیں صرف چلنے کا شوق ہے، پہنچنے کا نہیں۔‘‘ مشہدی لنگی والے نے منہ بنایا۔

    ’’بکو نہیں، ہمارے راستے میں جو شخص روڑے اٹکائے گا، اس پر رجعت پسندی کا لیبل لگا دیا جائے گا۔‘‘

    ہپی قہقہہ مار کر ہنسا، ’’سو واٹ۔۔۔ ہم ہیپوں پر رجعت پسندی کا لیبل لگاؤ۔ بے شک لگاؤ، ہم نے کیپٹل ازم کی بنیادیں کھوکھلی کر دی ہیں۔ ہم نے اقتدار پسندی کا تمسخر اڑایا ہے۔ ہم میں اور ان گوریلوں میں کیا فرق ہے جو سرمایہ داری کے خلاف جان کی بازی لگائے بیٹھے ہیں۔‘‘

    ’’صرف یہی کہ طریق کار مختلف ہے۔‘‘ ہپن نے لقمہ دیا۔

    ہال پر سناٹا چھا گیا۔

    سی تھرو اپنے جسم کے پیچ و خم کا جائزہ لے رہی تھی۔ ساڑھی والی اپنا پلو سنبھال رہی تھی۔ لٹکے بالوں والی منہ میں انگلی ڈالے کھڑی تھی۔ پتلون والی کا چہرہ حقارت سے چقندر بنا ہوا تھا۔ ’’کتابوں میں تو یہ بات کہیں نظر سے نہیں گزری۔‘‘

    مجنوں نما نے قہقہہ لگایا، ’’خود کو زندگی کے متوالے گرداننے والے کتابوں کی بیساکھیوں کے سہارے کے بغیر چل نہیں سکتے۔ زندگی کتابوں سے اخذ نہیں کی جاتی مسٹر۔ زندگی حال ہے۔۔۔ کسی صاحب حال سے پوچھو۔‘‘

    ’’جو قیل و قال کے دیوانے ہیں، انہیں حال کا کیا پتہ؟‘‘ لنگی والا بولا۔

    ’’انہیں اتنا نہیں پتا کہ حال پر قیل و قال نہیں ہو سکتا۔ حال کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ حال سب سے بڑی حقیقت ہے۔‘‘

    ہال پر خاموشی چھا گئی۔

    پھر دور سے ایک سرگوشی ابھری، ’’ میں کہاں آ پھنسی ہوں۔‘‘ بچے کو انگلی لگائے کھڑی ماں گنگنا رہی تھی۔ ’’یہ دور ماں کا دور نہیں۔ یہ تو عورت کا دور ہے۔ میں کہاں آ پھنسی ہوں۔‘‘

    ’’عورت کا نہیں بی بی۔‘‘ پہلوان کرتے والے نے سر ہلا کر کہا، ’’یہ تو لڑکی کا دور ہے۔ انہیں کیا پتہ کہ عورت کسے کہتے ہیں۔ بال سفید ہو جاتے ہیں، پھر بھی یہ لڑکیاں ہی بنی رہتی ہیں۔‘‘

    ’’خاموش۔‘‘ آرکیڈ کی فرنٹ رو میں کھڑی ٹوکرا بالوں والی بولی، ’’سنو سنو! یہ کیسی آواز ہے؟‘‘

    ’’کون سی آواز؟‘‘

    ’’کدھر ہے آواز؟‘‘

    ’’چپ!‘‘ موٹر سائیکل والا چلایا، ’’یہ تو ٹیلی فون کی گھنٹی بج رہی ہے۔‘‘

    ’’یہ آواز تو باہر سے آ رہی ہے۔‘‘ منی سکرٹ والی نے کہا۔

    جیکٹ والے نے عینک صاف کی اور باہر دیکھنے لگا۔

    ’’ہئے اللہ۔‘‘ سی تھرو بولی، ’’یہ آواز تو ایمرجنسی فون بوتھ سے آ رہی ہے۔ وہ جو باہر پور ٹیکو میں ہے۔‘‘

    ’’خاموش۔‘‘ شکاری ڈانٹ کر بولا۔ ’’سب اپنی اپنی جگہ کھڑے ہو جاؤ۔۔۔ وہ آ رہا ہے۔‘‘

    ’’کون آ رہا ہے؟‘‘ سی تھرو نے زیر لب پوچھا۔

    ’’چوکیدار۔‘‘

    ’’چوکیدار۔‘‘ پتلیاں سہم کر پیچھے ہٹ گئیں۔ پتلے باہر جھانکنے لگے۔

    سامنے ایک اونچا لمبا، جہلمی جوان خاکی وردی پہنے سر پر پگڑی لپیٹے ہاتھ میں سونٹا اٹھائے بوتھ کی طرف بھاگا آ رہا تھا۔

    ’’بالکل اجڈ نظر آتا ہے۔‘‘ پتلون والی نے حقارت سے ہونٹ نکالے۔

    ’’گاکی، کروڈ، ان کوتھ۔‘‘ ٹوکرا بالوں والی دانت بھینچ کر بولی۔

    ’’میرے بدن پر تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اسے دیکھ کر۔‘‘ سی تھرو نے کہا۔

    چوکیدار نے سونٹا باہر کھڑا کیا اور خود جلدی سے بوتھ میں داخل ہو گیا۔ اس نے ٹیلی فون کا چونگا اٹھایا اور فون پر باتیں کرنے لگا۔ اس کے ہونٹ ہل رہے تھے لیکن بات سنائی نہیں دے رہی تھی۔ چند ایک منٹ کے بعد وہ بوتھ سے باہر نکلا اور حسب معمول ہال کا چکر لگانے کی بجائے ہال کی طرف پیٹھ کر کے کھڑا ہو کر سڑک کی طرف دیکھنے لگا۔

    ’’ضرور کوئی ایمرجنسی ہے۔‘‘ شکاری نے چھائے ہوئے سکوت کو توڑا۔

    گیلری میں رومی ٹوپی والا ہنسا، ’’ایمرجنسی۔۔۔ یہ دور تو بذات خود ایک سٹیٹ آف ایمرجنسی ہے۔‘‘

    ’’ایک ابال ہے۔ بے مقصد ابال۔‘‘ لنگی والے نے قہقہہ لگایا۔

    منی سکرٹ والی نے لمبی لمبی پلکیں جھپکا کر اوپر دیکھا۔

    ’’اگنور ہم مائی ڈیئر۔‘‘ موٹر سائیکل والے نے سائیلنسر فٹ کر کے کہا۔

    ’’میں کہتا ہوں، ضرور یہ کسی کے انتظار میں کھڑا ہے۔ ضرور کوئی آنے والا ہے۔‘‘

    سٹوڈنٹ زیر لب بولا،

    ’’چوکیدار کو دیکھ کر میری روح خشک ہو جاتی ہے۔‘‘ سی تھرو نے ہونٹوں پر زبان پھیری۔

    لنگی والے نے مسکرا کر پوچھا، ’’بی بی کیا تیرے اندر روح بھی ہے۔ ہوتی تو سی تھرو نہ ہوتی۔‘‘

    ’’کتنی ڈراؤنی شکل ہے چوکیدار کی۔‘‘ پتلون والی، لنگی والے کے سوال کو دبانے کے لیے بولی۔

    رومی ٹوپی والا ہنسنے لگا، ’’کتنی عجیب بات ہے اپنوں کو دیکھ کر ڈر کر سہم جاتی ہیں۔ بیگانوں کو دیکھ کر ایٹ ہوم محسوس کرتی ہیں۔‘‘

    ’’شٹ اپ۔‘‘ پتلون والی ڈانٹ کر بولی، ’’ یو۔۔۔ ان کلچرڈ۔۔۔ ان کوتھ۔۔۔ سیوج۔‘‘

    ’’ول سیڈ۔‘‘