آنکھوں پر ۳ اعشاریہ ۵ اور ۳ اعشاریہ ۷ نمبر کے موٹے شیشوں اور موٹی کمانی کا چشمہ لگائے، دھوئیں کی بے بٹی رسّی کو تھامے، عزیز اپارٹمنٹ کی سات منزلہ عمارت کے ایک نیم آراستہ فلیٹ میں پروفیسر سلامت علی خاموش بیٹھے تھے۔ ادھر کچھ عرصہ سے وہ محسوس کر رہے تھے کہ ان کے چشمے کا نمبر بدل گیا ہے۔ لیکن آنکھوں کے کئی ماہر ڈاکٹروں نے بار بار مختلف دواؤں اور آلات سے ان کی آنکھیں چیک کرنے کے بعد انہیں یقین دلانے کی ناکام کوشش کی تھی کہ ان کے چشمے کے نمبروں میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے اور لگاتار کئی سال سے بصارت کا زوال رک چکا ہے۔ انہیں اس پر خوش ہونا چاہئے تھا۔ لیکن پروفیسر سلامت علی کو چاروں طرف کچے انڈے کی سفیدی جیسی دھند میں دھوئیں کی بےبٹی رسی دکھائی دیتی رہی۔ دنیا اور اس کے مناظر اچانک دھندلا گئے ہوں یا کچے انڈے کی سفیدی میں لتھڑ گئے ہوں یہ ممکن نہ تھا ان کا نیم منطقی دماغ انہیں ہاں۔ نہیں۔ صاف اور دھندلے کے تذبذب میں مبتلا کئے رہا اور کھڑکی کے باہر یا کمرے کے اندر کا ہر منظر انہیں شبہات میں مبتلا کر دیتا۔
اس وقت بھی اس گوپال۔ پٹھا بھی سیتارمیا اور تارا چند پر پھڑپھڑاتے ہوئے ان کے سامنے سے گزرتے جا رہے تھے۔ آوازیں چاروں طرف سے ابل ابل کر گتھم گتھا ہو رہی تھیں۔ تیز تیز لہجہ میں باتیں ہو رہی تھیں۔ تقریریں، مباحثے، لوگ چیخ رہے تھے۔ بیچ بیچ میں لگتا جیسے جانوروں کے ریوڑ مغرب کا وقت ہوتے ہی چیخنے اور ڈکرانے لگے ہوں۔ بھینس، گائے، بکریاں اور مرغیاں۔۔۔ چاروں طرف آوازوں کا شور تھا اور دھندلے مناظر کا اژدھام۔ کسی ایک پر بھی ان کی گرفت مضبوط نہیں ہو پاتی تھی۔ آوازیں اور مناظر ایک دوسرے میں گڈمڈ ہوئے تھے۔ انہوں نے ہاتھ بڑھاکر، روک کر کچھ پوچھنا چاہا تو وہ انگلیوں کی درازوں سے چیختے نکل بھاگے۔
پیرا ماؤنسٹسی انڈر ڈلہوزی۔ رکی۔ چیخ کر کچھ کہا اور پٹ پٹ پلک جھپکاتی جھپاک سے گزر گئی۔ ان کے دونوں بازوؤں میں ہلکی سی حرکت ہوئی۔ انہوں نے اپنی تھوڑی دونوں ہتھیلیوں پر جمالی اور سوچنے لگے۔ لیکن سوچ بار بار پھسل جاتی۔
گھوڑا پیدل کے ہاتھوں مارا گیا، اونٹ کو ہاتھی کھا گیا اور ہاتھی۔۔۔؟ شاہ گھبرایا چاروں طرف کھلے میدان میں اپنے آپ کو دیکھنے لگا۔ گھمسان کا رن پڑا۔۔۔ ایسی تباہی، اتنی خونریزی۔۔۔؟ مہرے کٹ کٹ کر ڈبے میں گرتے رہے۔ ساری بساط پر انتشار تھا۔
’’اسے دوران جنگ ہاتھی سے اترکر گھوڑے کی پشت پر نہ آنا چاہئے تھا۔‘‘ سب شور مچار رہے تھے۔ چیخ رہے تھے اور بیچ بیچ میں جانوروں کے ریوڑ ڈکار رہے تھے۔
انہوں نے ٹھٹھک کر اس شور پر غور کرنا چاہا تو اچانک سارا شور معدوم ہو گیا۔ کوئی ہلکی سی بھی آواز نہیں رہ گئی۔ آوازوں سے ان کا سارا رشتہ منقطع ہو گیا۔ دھیرے دھیرے سا منے کے تمام مناظر بھی معدوم ہونے لگے۔ آوازیں چھوٹے چھوٹے دھبوں میں تبدیل ہونے لگیں۔ وہ دھبے آسمان بنے اور آسمان پر سفید، اودے اور کالے بادلوں کی ٹکڑیاں بن کر تیرنے لگے۔ پانی کے لکھو کھا چھوٹے بڑے بلبلے ساری فضا میں تیرنے لگے اور ابل ابل کر اوپر نیچے، آگے پیچھے آنے جانے لگے۔
وہ بلبلے تو تتلیوں کے پر بنے، سارا آسمان، ساری خلا پروں کے ہزارہا رنگوں سے بھر گئی۔ شوخ، ہلکے، بہت ہلکے، چھینٹ دار تتلیوں کے پرچاروں طرف سے امڈ امڈ کر تمام مناظر کو ڈھانپنے لگے۔ چھوٹے چھوٹے پتنگے نما دائرے چاروں طرف اپنے ہلکے ہلکے پر لہرانے لگے تو سارا نوزائیدہ دھند نما آسمان ان سے ڈھک کر ہلنے لگا۔ بہت دیر تک بلبلے، بادل کے ٹکڑے، تتلیوں کے پر اور پتنگے نما دائرے آپس میں گتھم گتھا ہوتے رہے۔ پھرگھمسان کا بےآواز رن پڑا۔
عزیز اپارٹمنٹ کے بالکل پیچھے، دوکانوں کے سامنے ایک تیز چیخ کے ساتھ سارا شور واپسی آ گیا، بچ گیا، بچ گیا۔ شکر ہے کہ بالکل محفوظ ہے۔
پروفیسر سلامت علی دیوار کی طرف منھ کئے بڑبڑاتے رہے، پھر تیزی سے عمارت کے زینے اترنے لگا۔
زینے پر دو آدمی تیزی سے اوپر آ رہے تھے۔ پھولتی ہوئی سانسوں کے درمیان ایک نے دوسرے سے کہا، ’’خود پر قابو پانے کی کوشش کرو۔ ہش! ہوش میں آؤ۔ کوئی آ رہا ہے۔ وہ ہمیں خوفزدہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ اس خوف زدگی کے عالم میں وہ ہمارا شکار کر لیں۔‘‘
دوسرے نے پھولتی ہوئی سانسوں میں پہلے کی بات کاٹ دی۔
’’لیکن ہمیں شہر کی بدلتی ہوئی صورتحال سے باخبر تو رہنا چاہئے، اپنے دفاع کے لئے۔ کہیں ایسا نہ ہو۔۔۔‘‘
پروفیسر سلامت علی نے ان کی ایک جھلک دیکھی تھی۔ کون تھے وہ کون تھے، یہ دونوں شہر کے کس ہیجان کی بات کر رہے تھے۔ کون خوف زدگی کے عالم میں ان کا شکار کر لےگا۔ کس منزل پر رہتے ہیں یہ دونوں؟ آواز کچھ شناسا سی ہے۔ میرے دونوں پڑوسی۔۔۔؟ داہنے اور بائیں فلیٹ والے۔۔۔ انصار الحق اور چودھری نعیم؟
تارا بائی اینڈ ہرٹائمس۔۔۔
یہ کیا ہوا، کیا ہو رہا ہے۔ عین پولیس اسٹیشن کے سامنے یہ ہنگامہ۔ انہوں نےدھو ئیں کی ڈوری کا سرا پکڑنے کی کوشش کی اور دو چار لوگوں کے بازو جھنجھوڑ کر سوالات کئے۔
چلو اوپر چلو۔۔۔ جلدی کرو، کسی نے ان کا بازو پکڑ کر کھینچا۔ پھر بازو چھوڑ کر آگے بڑھ گیا۔
سامنے سڑک کی دوسری طرف عین پولیس اسٹیشن کے سامنے ایک سرمئی رنگ کی قیاٹ کار کھڑی تھی۔ جس کا اوپری حصہ اور کچھ پچھلا حصہ ہی نظر آ رہا تھا، کار کے گرد جمع لوگ چیخ رہے تھے اور چوک کے عین بیچ عجب اضطراب تھا۔
’’مارو۔۔۔ مار ڈالو سالے کو۔۔۔‘‘ مجمع بڑھتا جا رہا تھا۔ شور بہت تیز ہو گیا تھا کہ ایک پولیس کا نسٹبل مجمع کی طرف بڑھا اور دونوں ہاتھ ہلاہلاکر چیخنے لگا۔ اس نے مجمع میں گھس جانا چاہا لیکن مشتعل ہجوم نے اسے پولیس اسٹیشن کی طرف واپس دھکیل دیا۔ کچھ لوگ مجمع چیر کر اندر جانا چاہتے تھے اور کچھ لوگ ہاتھوں سے جگہ بناتے باہر کی طرف نکلے۔ ان کی سانسیں پھولی ہوئی تھیں اور لباس پر جگہ جگہ دھبے لگے تھے۔
پروفیسر سلامت علی نے بڑھ کر ایک سے پوچھا، کیوں۔۔۔ بات کیا ہے؟
’’یہ۔۔۔ یہ کار والا،‘‘ اس نے انگلی سے اشارہ کیا۔۔۔ ’’خونچہ والی کے چھوٹے سے بچے کو کچل کر بھاگ رہا تھا۔‘‘
’’بچہ۔۔۔؟‘‘ وہ اس کے پیچھے لپکتے ہوئے بولے۔۔۔’’ بچہ کہاں ہے۔۔۔؟‘‘
’’بچہ۔۔۔ ختم ہو گیا۔ سارا بھیجہ پھٹ کر بہہ گیا۔ زمین پر صرف خون ہی خون پھیلا ہے۔۔۔‘‘ کہتا ہو ا وہ شخص فٹ پاتھ پر چڑھ گیا۔
پروفیسر تیزی سے مجمع کی طرف واپس آئے اور پیروں کے درمیان سے جھک جھک کر دیکھنے لگے۔ زمین پر صرف جوتے اور پیر ہی نظر آ رہے تھے۔ اٹھتے، پیچھے ہٹتے اور گرتے ہوئے۔
کانسٹبل ایک اور کانسٹبل کو ساتھ لے کر پھر نمودار ہوا اور دونوں چیخنے لگے۔ ارے چاپ۔۔۔ چوپ راؤ سالو۔۔۔ چوک کے عین بیچ دھما چوکڑی مچار رکھی ہے۔ صاحب کی کار سے الگ ہٹ کر مارا ماری کرو۔ اندر بہوت ارجنٹ میٹنگ ہو رہی ہے۔ شہر میں ہنگامہ کا خطرہ ہے۔
سپاہیوں کی آواز سے مجمع میں اتھل پتھل مچ گئی۔ لوگ آگے پیچھے ہوئے اور دوکاندار جلدی جلدی دوکانوں کے شٹر گرانے لگے۔ پھر دانت نکالے بدحواس اور تجسس میں مجمع کی طرف دوڑے۔ اندر گھسنے میں ناکام ہوکر اینڈیوں کے بل اچکنے لگے۔
بہت سے سائیکل سواردوسری طرف کے فٹ پاتھ سے لگ کر کھڑے ہوئے تھے۔ وہ اچک کر سائیکل کی گدیوں پر بیٹھ گئے اور مجمع کے درمیان کے منظر پر آنکھیں دوڑانے لگے۔
بچہ۔۔۔ پروفیسر نے پھر جھک کر دیکھا۔ ٹانگیں اور جوتے آگے پیچھے ہورہے تھے اور شفاف سڑک پر کہیں بھی خون کا دھبہ نہ تھا۔
کچھ لوگ مجمع سے باہر نکلے تو منتظر کھڑے لوگوں نے لپک کر ان کی جگہ سنبھال لی۔ مجمع میں پھر ہلچل ہوئی۔۔۔ لوگ تیزی سے ایک طرف جھپٹے اور چیخنے لگے۔
’’اندھیر ہے۔۔۔ دن دہاڑے ڈاکہ۔۔۔ اور پولیس تماشا دیکھتی رہ گئی۔‘‘
’’ڈاکہ۔۔۔؟‘‘ پروفیسر ادھر لپکے۔
’’ارے ہاں۔ بےچارہ سرمئی کار والا جیسے ہی کار سے اترا۔ اس نے کھڑاک سے چاقو اس کے سینہ پر رکھ دیا۔۔۔ وہ تو کار والے کی چیخ پر لوگ اس پر ٹوٹ پڑے ورنہ۔۔۔‘‘
پروفیسر نے جلدی سے اپنے چشمے کے شیشے صاف کئے، پیشانی پر آئے ہوئے پسینہ کو رومال سے تھپتھپایا اور بڑھتی ہوئی دل کی دھڑکنوں پر قابو پانے کے لئے زور زور سے مٹھیاں بھیچنے لگے۔ پھر ان کی نظر مجمع کے درمیان کھڑے انصار الحق پر پڑی تو وہ اس کی طرف لپکے۔
’’تم۔۔۔ تم لوگ تو ابھی زینوں پر باتیں کرتے جا رہے تھے؟ چودھری نعیم کہاں ہیں؟‘‘
انصارالحق نے ان کا بازو پکڑ لیا۔۔۔ ’’چودھری نعیم مار کھانے والوں میں ہے۔‘‘
’’مار کھانے والوں میں۔۔۔؟‘‘ پروفیسر نے چونک کر پوچھا۔ ’’اور تم کہاں تھے؟‘‘
’’میں۔۔۔ میں مارنے والوں میں۔۔۔؟‘‘
’’کیا مطلب۔۔۔؟‘‘ پروفیسر نے دھوئیں کی بےبٹی رسی کو پکڑنا چانا۔
’’مطلب یہی کہ درمیان کی کوئی صورت نہیں ہے۔ یا تو مار کھانے والا بن جائیے۔ یا مارنے والا۔ درمیان کا کوئی معاملہ قابل قبول نہیں ہے۔‘‘
بڑھتے ہوئے شور کا ایک زبردست ریلا آیا اور انصار الحق ان کا بازو چھوڑ کر مجمع میں غائب ہو گیا۔ انہوں نے ایک اونچی سی جگہ تلاش کر کے مجمع میں دیکھنے کی کوشش کی۔ پھر اتر کر بےچینی سے دونوں ہاتھ ملتے ہوئے جھک کر ٹانگوں کے نیچے دیکھنا چاہا۔۔۔ ٹانگیں اور جوتے آگے پیچھے ہوتے رہے۔ شور بپھرا ہوا تھا۔ کچھ لوگ تیزی سے ان کے پاس سے گھبرائے ہوئے گزرے۔
’’سالے۔۔۔ چھوٹا آدمی یہی کرے تو ابھی بند کر دیا جائے۔ کار میں گھو میں گے اور منشیات کا کاروبار کریں گے۔‘‘
سخت اعصابی تناؤ میں ان کے دانت باہر نکل آئے۔ تجسس میں وہ سرمئی کار کی طرف بڑھے جسے مجمع چاروں طرف سے گھیرے ہوئے تھا۔ کچھ اور لوگ بھی کار کے بند شیشوں سے اندر جھانکنے کی کوشش کر رہے تھے۔
ان کے کان کے پاس کوئی بڑبڑایا۔ چہ چہ۔۔۔ نہ جانے کس کا گناہ ہے۔
’’سالے نے کار کا شیشہ بھی بند کر رکھا ہے۔ کیا پتہ زندہ ہے یا۔‘‘
انہوں نے غور سے کار کی نشستوں پر نظر جمائی لیکن وہاں کچھ نظر نہ آیا اتنے میں مجمع سے آواز آئی۔
’’زندہ ہے۔ زندہ ہے۔ مارو سالے کو جب تک ختم نہ ہو جائے۔ کیا سمجھ کر ہاتھ لگایا تھا۔‘‘
انہوں نے پلٹ کر دیکھا۔۔۔ انصار الحق مجمع میں گھس رہا تھا۔ اسی شور میں انہوں نے لپک کر انصار الحق کو پیچھے سے پکڑ لیا۔
’’رک جاؤ۔ دماغ خراب ہوا ہے۔ بلا کا شور ہے۔ تم ان معاملات میں ناتجربہ کار ہو۔‘‘ انصار الحق نے زور سے ان کا ہاتھ جھٹک دیا۔ اس کے چہرے سے لگ رہا تھا جیسے تمام شہر کے امن و امان کی ذمہ داری اس کے سر آن پڑی ہو۔
’’ہوش میں رہو۔ تم ہمیں مستقل خوفزدہ کرنے کی کوشش کر رہے ہو۔‘‘ وہ پروفیسر کا ہاتھ جھٹکتا ہوا مجمع میں داخل ہو گیا اور مجمع نے نعرہ لگایا۔
’’نادر شاہی۔ نہیں چلےگی۔ بد کرداری۔ نہیں چلےگی۔ مزدور یونین۔‘‘
’’زندہ باد۔ کام گاروں کی مانگیں۔ پوری ہوں۔ لاٹھی ڈنڈا۔۔۔‘‘ انہوں نے گھبراکر مجمع میں نظر ڈالی۔ انصار الحق اکیلا مار کھا رہا تھا۔ جوتے اور ٹانگیں اوپر نیچے، آگے پیچھے ہو رہی تھیں۔ چاروں طرف شور تھا۔ انہوں نے متلاشی نظروں سے مجمع کو دیکھا اور چودھری نعیم پر نظر پڑتے ہی اس کی طرف لپکے۔
’’پیچھے ہٹو۔ جلدی کرو۔ وہاں انصار الحق اکیلا مار کھا رہا ہے۔‘‘
چودھری نعیم نے جلدی سے ہلتے ہوئے مجمع پر نظر ڈالی اور سانسوں پر قابو پانے کی کوشش کرتا ہوا ادھر دوڑا پڑا۔ پروفیسر نے پیچھے سے آواز دی۔
’’رکو۔۔۔ رک جاؤ!‘‘ پھر بدحواسی میں چیخنے لگے۔
’’مجمع بےقابو ہے۔ بچہ کچلا گیا ہے۔ ارجنٹ میٹنگ ہو رہی ہے۔ شہر میں ہنگامہ کا اندیشہ ہے۔ کسی نے سرمئی کار والے کو لوٹ لیا ہے۔ وہ منشیات کا بیوپاری ہے۔ کار میں نوزائیدہ بچہ ہے۔ کار والے نے کسی لڑکی کو چھیڑا ہے۔ یہ سب مزدور یونین کے لوگ ہیں۔ انصار الحق مار کھا رہا ہے۔‘‘
مجمع میں پھر شور اٹھا۔ کانسٹبل مجمع میں پھنسا ہوا تھا۔ وہ انصار الحق کو دونوں ہاتھوں سے اٹھانے اور سنبھالنے کی کوشش کر رہا تھا۔ انصار الحق کے چہرے پر نیلے نیلے ورم ابھر آئے تھے اور لباس چاک ہو رہا تھا۔ مجمع میں پھر اتھل پتھل مچی اور لوگوں نے کانسٹبل کو گھیر لیا۔ پھر آواز آئی۔
’’پولیس شاہی۔ مردہ باد۔ ہمارا آدمی چھوڑا جائے۔‘‘ مجمع نے انصار الحق کو کانسٹبل سے چھین لینا چاہا اور کانسٹبل اسے باہر نکال لے جانے کی کوشش میں لگا رہا۔ اتنے ہی میں فٹ پاتھ سے کچھ پتھر آکر مجمع میں گرے اور سائیکل والے تیزی سے آگے بڑھ گئے، دوکانوں کے شٹر شور مچاتے ہوئے نیچے گرنے لگے۔
پروفیسر سلامت علی نے چشمے کے شیشے صاف کئے، کچھ پیچھے ہٹے اور جھک کر نیچے سڑک پر دیکھنے لگے۔ انصار الحق کی پتلون کی مہریاں زمین پر لٹک رہی تھیں۔ اور مجمع چیخے جا رہا تھا۔
’’ہمارا ساتھی چھوڑا جائے۔ پولیس شاہی نہیں چلےگی۔‘‘ اتنی دیر میں چودھری نعیم مجمع کو چیرکر اندر گھس چکا تھا۔
’’کیا بات ہے، کیا بات ہے، اسے کیوں پکڑ رکھا ہے۔ یہ۔ یہ تو انصار الحق ہے۔‘‘ سرمئی کار کے پاس ہلچل مچی اور دونوں سپاہی لپک کرفٹ پاتھ پر چڑھ گئے۔ مجمع پھر چیخا۔
’’یہ دوسرا حمایتی آیا ہے۔ پکڑ لو سالے کو۔ پولیس کا چمچہ ہے۔‘‘
پروفیسر نے سرمئی کار کے پیچھے دیکھا۔ انصار الحق فٹ پاتھ پر کانسٹبل کے پاس لیٹا ہوا اکھڑی سانسیں لے رہا تھا اور چودھری نعیم مار کھا رہا تھا۔ ٹانگیں اوپر نیچے، آگے پیچھے ہو رہی تھیں۔
’’انقلاب۔ زندہ باد۔ ان۔قلاب۔ زندہ باد۔‘‘
چودھری نعیم اپنے کو بچاتے ہوئے چیخ رہا تھا، بات کیا ہے۔ بات کیا ہے۔ میں۔ میں دوسرا آدمی ہوں۔ سنو بات۔
پروفیسر آہستہ آہستہ کار کے بالکل پاس پہنچ گئے۔ سرمئی کار کے تمام شیشے ٹوٹ چکے تھے۔ ہیڈ لائٹ بھی چکنا چور تھی اور چودھری نعیم کے پتلون کی مہریاں زمین پر گھسٹ رہی تھیں۔
بھانت بھانت کے لوگ چوک میں جمع ہورہے تھے اور پھر وہ سب کے سب لہریں لیتے ہوئے شہر کی ایک سمت بڑھنے لگے۔
پروفیسر نے پھولتی ہوئی سانسوں کے درمیان ایک اونچی سی جگہ سے انصار الحق اور چودھری نعیم کو تلاش کرنے کی کوشش کی۔
وہ ناتجربہ کار ہیں۔ دونوں ناتجربہ کار ہیں۔ انہوں نے سرد و گرم چکھا ہی نہیں ہے۔ وہ تیزی سے دوڑتے ہوئے گلیوں میں سے ہوکر لہریں لیتے ہوئے مجمع سے کئی فرلانگ، آگے ایک خالی تراہے پر آکر کھڑے ہوگئے۔ پہلے پھولتی ہوئی سانسوں پر قابو پانے کے لئے گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر کچھ دیر جھکے رہے، پھر دونوں ہاتھ پوری چوڑائی میں پھیلاکر سڑک کے عین درمیان آ کھڑے ہوئے۔ پھر کچھ داہنی طرف ہٹے اور ممکنہ حد تک دونوں بازو تانے رہے۔ پھر بائیں طرف جھپٹے اور دونوں ہاتھ پھیلاکر دور سامنے نظر ڈالی۔ مجمع ابھی نظر نہیں آ رہا تھا۔ وہ پھر بیچ سڑک پر آ گئے اور ہاتھوں کو لکڑی کی طرح تان کر زور زور سے چیخنے لگے۔ لیکن کوئی لفظ واضح نہ تھا۔۔۔
دور سے متحرک، بپھرا ہوا مجمع نظر آیا۔ انہوں نے پھیلے ہوئے ہاتھوں کو سمیٹ کر رومال سے چشمہ کے شیشے صاف کئے، چہرہ اور گردن کا پسینہ خشک کیا پھر جیب سے سگریٹ نکال کر سلگائی اور سڑک سے فٹ پاتھ پر آ گئے اور مٹھیاں بھیجنے لگے۔
ان کا چہرہ سرخ ہو چکا تھا اور سانس رکنے لگی تھی۔ سارا منظر انڈے کی سفیدی میں لتھڑ کر دھندلا گیا تھا۔ زمین آسمان کالے، اودے بادلوں کے دھبوں میں بھر گئے اور تیلیوں کے پر برسنے لگے۔ پتنگے نما دائرے اور لہریں آپس میں گتھم گتھا ہونے لگیں۔ گھمسان کا بےآواز رن پڑا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.