سردیوں کی تعطیلات کی وجہ سے کچھ مہمان میری طرف آ رہے تھے۔۔۔ مہمانوں کی تواضح میں کسی قسم کی کمی نہ رہ جائے اس بات کا میں خاص خیال رکھتی تھی۔ اس مقصد کے لئے میں دو تین دن پہلے ہی تیاری شروع کر دیتی اور ہر معمولی سی بات کا بھی خیال رکھتی۔ میری اتنی محنت کا نتیجہ یہ تھا کہ میرے ہاتھ کے بنے ہوئے کھانے کافی پسند کئے جاتے جن میں حلیم سرفہرست ہے۔ پچھلے کچھ دنوں سے ایشین سٹور جانے کا پروگرام تھا مگر احسن کی چھٹی ہی نہیں آ رہی تھی۔ آگے اتنی چھٹیاں آ رہی تھیں۔ آج نہ جاتی تو کافی مسئلہ ہو جاتا۔
اپنی دانست میں ساری خریداری مکمل تھی، لیکن جب دیکھا تو ڈبے میں چٹکی بھر ہلدی بھی نہ تھی۔ ابھی کچھ وقت تھا اس لئے احسن سے کہا، ہلدی ادرک اور کچھ چیزیں اور لے آتے ہیں۔ ایشین سٹور گھر سے دور تھا۔ آج ان کی چھٹی تھی تو آرام سے جا سکتے ہیں۔ لیکن بھلا ہو میچ کا کہ آج ہی زبردست میچ آ رہا تھا۔
اور یہ تو سپورٹس کے دیوانے ہیں۔ سب سے بڑھ کر فٹ بال کے، انکے شوق کا یہ عالم ہے کہ ایسے میں انکا بس نہیں چلتا کہ آنکھیں ٹی وی کے ساتھ چپکا کے سارے کام نمٹا لیں۔
میر ا بھی کوئی اتنا قصور نہیں تھا۔ جب مجھے کہیں جانا ہوتا توکہتے ہیں کہ ٹھہر جاؤ کٹھے ہی چلتے ہیں اورجب میں ان سے ایک سے دوسری بار چلنے کے لئے کہتی ہوں، تو کہتے ہیں، ایک تو تم ہمیشہ ہتھیلی پر تیل جمانا چاہتی ہو۔ (اب میں یہ نہیں کہہ سکتی کہ انہیں واقعی درست محاورے کا نہیں پتہ تھا یا وہ یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ میں ہتھیلی پر سرسوں جمانے والے لوگوں سے بھی زیادہ جلد باز ہوں، کہ سیدھے تیل ہی جمانا چاہتی ہوں۔) بہرحال جو بھی تھا میں نے تو ان کے منہ سے اپنے لئے ہمیشہ یہی محاورہ سنا تھا۔ میں جتنا وقت کی پابند تھی یہ اس معاملے میں اتنے ہی لاپرواہ۔ لیکن یہاں ایسی کوئی گنجائش ہی نہیں۔ کہ اگر آپ کو دیرہو رہی ہو تو آپکا انتظار کیا جائےگا۔ ٹرین اپنے وقت پر چل پڑےگی اور دکان اپنے وقت سے ایک منٹ بھی اوپر نہیں کھلی رہےگی۔
آج ہفتہ تھا اور تیئیس دسمبر بھی تھی۔ اس کا مطلب یہ کہ نہ صرف چوبیس کو اتوار کی وجہ سے دکانیں بند ہوتیں بلکہ پچیس اور چھبیس دسمبر کرسمس کی چھٹیوں کی وجہ سے بھی سب بند رہتا اور ہفتے کو ایشین سٹور صرف چار بجے تک کھلے رہتے۔ اس لئے آج نہ جا پانے کا مطلب اگلے تین دن کچھ بھی نہ خریدا جا سکتا تھا۔۔۔ اور یہ تصور ہی میرے لئے محال تھا۔
’’احسن چلیں بھی اب، نہیں تو پھر میں اکیلی ہی چلی جاتی ہوں۔‘‘ اب مجھے واقعی الجھن شروع ہو چکی تھی کیونکہ احسن تو ونٹر سپورٹس بھی اسی انہماک سے دیکھ رہے تھے جیسے فٹ بال کا ورلڈ کپ جس کے لئے پورا جرمنی ہی دیوانہ تھا۔
’’تم ایسے کرو تیار ہو جاؤ بس پندرہ منٹ کا میچ رہ گیا ہے۔ میں نے کچھ بھی نہیں کرنا ایسے ہی جانا ہے۔‘‘ بالآخر انہوں نے ٹی وی پر سے نظریں ہٹائے بغیر جواب عنایت کر ہی دیا۔
میرے سر پر پرسوں کی دعوت سوار تھی۔ میں کچھ دوسرے کام نمٹانے لگ گئی۔
تیں بجنے والے تھے۔ میں دوبارہ کمرے میں آئی تو میچ ختم ہو چکا تھا اور احسن کشن سر کے نیچے رکھے صوفہ پر ہی آڑھے ترچھے لیٹے خراٹے لے رہے تھے۔ میں نے ہلکی سی آواز دی تو۔۔۔ ’’ہوں ہوں‘‘ کی آواز نکالی اور پھر سے خراٹوں کا پروگرام، جاری ہو گیا۔ مجھے سخت کوفت ہوئی۔
’’احسن آپ پھر سو گئے ہیں۔ اب بتائیں ایشین شاپ سے سامان لانا ہے وہ کب لائیں گے؟ دکان بند ہو جائےگی اور ہلدی نہ ہوئی تو۔۔۔ مجھے پھر ہلدی کی فکر نے گھیرا۔‘‘
’’ تم بھی کمال کرتی ہو۔ الیونتھ آور ( hour eleventh) میں ہی تمہیں ہر چیز یاد آتی ہے۔‘‘ نیند میں انکا غصہ عروج پر ہوتا۔
’’حد ہو گئی،۔۔۔ میں نے کل آپ سے کہا تھا تب آپ نے کہا کل چلیں گے اور آج آپ کہہ رہے ہیں کہ میں آپکو ہر بات دیر سے بتاتی ہوں۔ اب بتائیں پھر پرسوں دعوت میں پزا سرو کروں گی؟‘‘
’’اچھا دیکھو وقت کیا ہوا ہے؟ ساڑھے تین تک بھی پہنچ جائیں تو ٹھیک ہے۔نیند اڑ چکی تھی اس لئے لہجہ بھی نرم ہو گیا۔‘‘
’’پہنچ تو جائیں گے، لیکن بس بھاگم بھاگ ہی سب لینا ہوگا۔‘‘ میں نے سوچا لیکن اب بحث کا بھی وقت نہیں بچا تھا سو میں خاموشی سے تیار ہونے لگی اور جب نکلے تو گاڑی نے ہی چلنے سے انکار کر دیا۔ تین دن سے مسلسل برف باری ہو رہی رہی تھی۔ اب گاڑی کو تو جو بھی مسئلہ تھا، میرا اسوقت بس نہیں چل رہا تھا کہ اڑ کر پہنچ جاؤں۔
’’احسن آپ مکینک کا انتظار کریں، میں اب جارہی ہوں۔ جو بہت ضروری ایک دو چیزیں ہیں وہ تو لے آؤں۔‘‘ سخت پریشانی میں یہی حل نظر آیا۔
گاڑی پر جانا تھا اس لئے دستانے بھی نہیں پہنے، بس سٹاپ کی طرف چلتے ہوئے جب ہاتھ ٹھنڈے ہونے لگے، خیال آیا کہ ابھی پاس ہی ہوں گھر جا کے دستانے لے آؤں۔ پھر گھڑی پر نظر ڈالی، اتنا وقت نہیں بچا تھا۔ اب لانگ کوٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈال کر ہی گزارہ کرنا تھا۔ اصل پتہ تو واپسی پر چلتا جب ہاتھ میں شاپنگ بیگز پکڑ کے چلنا پڑتا۔ یہی تانے بانے بنتی جب بس سٹاپ پر پہنچی تو بس کسی روٹھی ہوئی محبوبہ کی طرح منہ موڑ کر جا رہی تھی۔ اگلی بس آدھے گھنٹے میں آتی۔ جہاں ہم رہتے تھے عام دنوں میں بس ہر پندرہ منٹ بعد آتی ہے۔ مگر ہفتہ اتوار کو آدھے گھنٹے بعد آتی تھی۔
اتنی سردی میں آدھا گھنٹہ بس کے انتظار کا تصور بھی جان لیوا تھا۔ مگر اب مجبوری تھی۔وہاں بنے بینچ پر بیٹھ کر انتظار کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ وقت کا حساب لگایا تو بس چلنے اور پیدل راستہ طے کرنے کے بعد مشکل سے پانچ دس منٹ ہی ملتے جن میں جو لے سکتی تھی لے لیتی۔خیر اب اس سب میں سے گزرنا ہی تھا سو بیٹھ گئی۔
منفی پانچ درجہ حرارت اس پر یخ بستہ ہوا سے یوں لگ رہا تھا کہ ہڈیوں میں خون بھی منجمد ہو رہا ہے۔ بس خراماں خراماں چلتی ہوئی آئی۔میں شکر کا کلمہ پڑھتی بس میں سوار ہوئی اندر چلنے والے ہیٹرز نے زندگی کا احساس بخشا۔مگر یہ کیا بس جس طرح آہستہ چلتی آئی تھی اسی رفتار سے چل رہی تھی۔وجہ وہی سڑکوں پر جمی ہوئی برف، ویک اینڈ کی وجہ سے سڑکوں پر رش کم ہونے کے باعث برف پگھلنے کی بجائے جم گئی تھی اور گاڑیوں کے پھسلنے کا خطرہ ہونے کی وجہ سے بہت کم رفتار تھی۔جس سٹاپ پر بس رکتی وہاں بسوں کی دیرہونے پر معذرت کے اعلان کئے جا رہے تھے۔
اور جب میں پاکستانی شاپ پر پہنچی تو چار بج کر پانچ منٹ ہو چکے تھے اور دکان کا بند شٹر میرا منہ چڑا رہا تھا۔اتنی سردی میں اتنا سفر وہ بھی لاحاصل، ایک دم سے بہت تھکن اور مایوسی کا احساس ہوا۔ اب پھر سے وہی بس کا انتظار اور واپسی کا سفر۔ اوپر سے یہ کوفت کہ اب کیا کروں گی؟ ادرک تو کسی نہ کسی جرمن شاپ سے مل ہی جاتا لیکن ہلدی کا ملنا کاردارد ہی تھا۔ کیونکہ نہ تو کسی دکان سے ملتی نہ ہی ارد گرد کوئی پاکستانی انڈین گھر ایسا تھا جہاں سے مانگ کے ہی گزارہ کر لیتی۔
تھکن سے چور گھر پہنچی سارے مسئلے نمٹا کر کچن میں آئی تو ہلدی کے خالی ڈبے پر نظر پڑی۔
’’ہلدی لے لو۔۔۔ ہلدی۔۔۔‘‘ کانوں میں کوئی پندرہ بیس برس پہلے کی بازگشت گونجی۔
’’اماں تم پھر آ گئی ہو؟ تم سے کہا بھی تھا کہ ہم نے جو پچھلی بار تم سے پانچ روپے کی ہلدی خریدی تھی، ہماری تو ابھی وہی ختم نہیں ہوئی۔‘‘ سخت گرمی میں جب ہم سب اپنے اپنے کمروں میں آرام کر رہے تھے۔ ہلدی والی مائی کی آواز نے ماحول کا سارا مزہ خراب کر دیا تھا، ایک تو میں پھیری والوں سے ویسے ہی بہت چڑھتی تھی۔ اوپر سے یہ ہلدی والی، جان ہی نہیں چھوڑتی تھی۔ پچھلی بار میں نے اس سے اکٹھی ہی پانچ روپے کی ہلدی خرید لی تھی اور ہلدی والی اماں کو بڑے واضح الفاظ میں بتا دیا تھا کہ اتنی ہلدی ہمارے پورے سال کے لئے کافی ہوگی۔ اس لئے کم از کم اب ہمارا دروازہ نہ بجانا۔ مگر ابھی تین ہفتے بھی نہ گزرے تھے کہ وہ پھر آ دھمکی تھی۔
’’لے، لے دھیئے بالکل تازہ پسی ہوئی اے۔‘‘اماں نے اصرا ر کیا۔
’’اماں! کہا تو ہے کہ نہیں چاہیئے کیوں ضد کرتی ہو؟‘‘ ایک گرمی، اوپر سے نیند غصہ تو آنا ہی تھا۔
’’چل دو روپے دی لے، لے فیر نئی آواں گی۔‘‘ (چلو دو روپے کی لے لو پھر نہیں آؤں گی)
’’دو روپے کی تو کیا دو پیسے کی بھی نہیں لینی، اماں! جا کر کسی اور کا دروازہ بجاؤ ہمیں معاف کرو۔‘‘میں نے جان چھڑانے والے انداز میں کہا۔
’’لے اے کیہ گل ہوئی؟’’ معاف کرو ‘‘میں کوئی فقیرنی آں؟ گلی گلی ہلدی ویچ کے محنت کر کے روٹی کھانی آں۔‘‘ (لو یہ کیا بات ہوئی ؟ ’’معاف کرو‘‘ میں کوئی فقیرنی ہوں؟ گلی گلی ہلدی بیچ کہ محنت کر کے روٹی کھاتی ہوں۔) اماں نے سرخ سرخ آنکھوں سے مجھے گھورا۔
’’ماما مائی تو مائینڈ کر گئی۔‘‘ میں نے پیچھے کھڑی ماما سے کہا جوہماری آوازیں سن کر دروازے پر آ گئی تھیں۔
’’ایسے نہیں کہتے بیٹا وہ ٹھیک ہی تو کہہ رہی ہے۔ اتنی گرمی میں گلی گلی پھر کہ روزی کما رہی ہے۔ ایسے لوگوں کا احترام کرنا چاہیئے۔ اماں ابھی آپ جائیں، جب ہمیں چاہیئے ہوگی ہم آپ سے ہی خریدیں گے۔‘‘ مامانے پہلے تو مجھے سرزنش کی۔ پھر اماں سے نرمی سے کہا۔
’’ماما آپ کو نہیں پتہ یہ پیچھا نہیں چھوڑےگی۔‘‘ مجھے اس کے بیٹھنے کے انداز پر بھی غصہ آ رہا تھا۔ اپنی ٹوکری زمین پر رکھے پاس ہی پھسکڑا مار کر بیٹھی، اپنے صافے کی ایک تہہ کھول کر اس سے خود کو پنکھا جھل رہی تھی۔ جیسے اسے بڑی فرصت ہو اور اس کے ساتھ ہم سب بھی فارغ بیٹھے ہوں۔
’’کیا کرے بےچاری؟ چیز بھی ایسی بیچتی ہے کہ جو ہر گھر کی ضرورت تو ہے مگر ایک دفعہ زیادہ خرید لیں تو کافی دیر تک دوبارہ ضرورت ہی نہیں پڑتی اور بغیر چیز بیچے پیسے نہیں لےگی، بڑی خود دار عورت ہے۔‘‘ ماما دل کی بہت اچھی تھیں۔ انہیں ہمیشہ ایسے لوگوں پر بہت ترس آتا تھا۔
’’اماں تم کوئی ایسی چیز کیوں نہیں بیچتیں جو لوگ تم سے روز کے روز خرید سکیں؟‘‘ میرے دل میں بھی ماما کی بات سے تھوڑی نرمی پیدا ہوئی۔
’’پتر کیہہ کراں ہور کجھ تے آؤندا وی نئی، تے اے ہلدی دی تے گرمیاں، سردیاں لوڑ پیندی اے۔ہن جان پچھان وی لگ گئی اے تے کم چل جاؤندا اے۔‘‘ (بیٹا کیا کروں اور کچھ کرنا نہیں آتا اور ہلدی کی گرمیوں سردیوں میں ضرورت رہتی ہے۔ اب جان پہچان بھی ہو گئی ہے تو کام چل جاتا ہے۔) اماں کو میرے نرم لہجے سے ڈھارس ہوئی تو تفصیل سے جواب دیا۔
’’ماما! اسے کچھ پیسے دے کہ جان چھڑائیں۔‘‘ میں نے پیچھے کھڑی ماما سے آہستہ سے کہا مگر اس نے سن لیا۔
’’نہ بھئی نہ! اے گل نہ کریں۔ سودا لوگے تے پیسے لاؤں گی۔ حرام نہیں کھانا۔ ہالے ہڈاں وچ جان ہیگی اے۔ (نہ بھئی نہ یہ بات نہ کرنا سودا خریدو گے تو پیسے لوں گی۔ حرام نہیں کھانا، ابھی ہڈیوں، میں جان باقی ہے۔)‘‘
’’تے جا فیر اماں کدھرے ہور پاسے جا، ساڈا سر نہ کھا۔‘‘ (تو جاؤ اماں پھر کہیں اور جاؤ ہمارا سر نہ کھاؤ )مجھے اس کی اکڑ پر غصہ آیا تو ساری تمیز بالائے طاق رکھ دی۔
’’جانی آں جانی آں اوکھی کیوں ہونی ایں؟ میں کوئی بھک نہیں منگدی۔ یاد کریں گی کدی۔( جاتی ہوں، جاتی ہوں غصہ کیوں کرتی ہو۔ میں کوئی بھیک نہیں مانگتی۔ یاد کروگی کبھی۔) اماں نے صافہ لپیٹ کہ سر پر رکھا۔ اس پر ٹوکری رکھی اور تن فن کرتی چلی گئی۔میں بھی سر جھٹک کر اندر آ گئی۔ نیند تو اڑ ہی چکی تھی۔اے سی کے آگے کتاب لے کر پڑھنے بیٹھ گئی۔ اب یہ واقعات معمول کا حصہ تھے ان پر کیا غور کرنا۔‘‘
رات کو بھائیجان گھر آئے میں نے مزے لے لے کر سارا واقعہ انہیں بتایا۔
’’اچھا ہوا میں گھر پر نہیں تھا، ورنہ مائی کو پچھلی بار کی طرح مزہ چکھاتا۔‘‘ بھائی جان نے ساری بات سن کر کہا۔
’’میں تو پچھلی بار گھر پر نہیں تھی، مگر صوفیہ نے بتایا تھا کہ آپ نے اسکی ٹھیک ٹھاک بےعزتی کی تھی۔‘‘ میں نے بھائی کے آگے کٹے ہوئے آموں کی پلیٹ رکھتے ہوئے کہا۔
’’تو اور کیا جان ہی نہیں چھوڑ رہی تھی بس دھکے دے کر نکالنے کی کسر ہی رہ گئی تھی۔ سمجھتی ہے کہ اسکی ہلدی سے زیادہ اچھی ہلدی پوری دنیا میں کہیں نہیں پائی جاتی۔بحث کرتی جاتی ہے لے لو، لے۔ بندہ پوچھے نہیں لینی تو کوئی زبردستی ہے کیا؟‘‘ بھائی آموں کے ساتھ ساتھ بات کا بھی مزہ لے رہے تھے۔
’’بڑی ہی لیچڑ مائی ہے آج بھی بڑی مشکل سے نکلی اور جاتے ہوئے کہہ رہی تھی یاد کرو گی کبھی،ہاہاہا۔ بڑی مادھوری ڈکشٹ ہے جسے یاد کروں گی۔‘‘ میں نے بات کرتے ہوئے قہقہہ لگایا۔
’’بیٹا ایسے نہیں کہتے۔اس عمر میں گھر گھر جا کر محنت کرتی ہے۔ایسے لوگوں کا مذاق نہیں اڑانا چاہیئے۔ پتہ نہیں کتنی مجبور ہو۔ ایسے لوگوں کو اپنی عزت کی بہت پرواہ ہوتی ہے۔‘‘ ماما کے لہجے میں اس کے لئے ہمدردی تھی۔
’’اب ایسے لوگوں کی کیا عزت کی جائے؟‘‘ میں نے استہزائیہ انداز میں پوچھا۔
’’امیر کی سب ہی عزت کرتے ہیں۔ ایسے ہی لوگ تو عزت کے بھوکے ہوتے ہیں۔ جن کی کوئی عزت نہیں کرتا۔ کیا تھا اگر دو روپے کی ہلدی لے ہی لیتے۔ پڑی رہتی وہ کون سا خراب ہونے والی چیز تھی۔پھر کام آجاتی اس کا مان بھی رہ جاتا۔‘‘
’’چھوڑیں بھی ماما، آج لے لیتے کل پھر آ جاتی۔ اچھا ہے ایک ہی بار میں جان چھوٹ گئی اب نہیں آئےگی کبھی۔‘‘ مجھے ماما کے دل کا پتہ تھا اس لئے ہلکے پھلکے انداز میں کہا۔
’’نہیں میں تو یہ سمجھا رہی ہوں کہ سائل کے بارے میں بھی حکم ہے کہ اگر اسے کچھ نہیں بھی دینا تب بھی اس سے نرمی سے بات کی جائے۔ وہ اپنی ذات کو کس قدر گراکر دست سوال دراز کرتا ہے۔ یہ تو پھر محنت کر کے رزق کما رہی ہے اور بھی قابل احترام ہے۔‘‘ ماما نے رسان سے کہا۔
’’ماما آپ بھی کیا انیس سو بیس کی باتیں لے کر بیٹھ گئی ہیں۔‘‘ بھائی جان نے ہنس کر کہا۔
’’ہاں بیٹے نئی نسل کو تو احترام کے ہجے بھی نہیں آتے۔‘‘ ماما یہ کہہ کر اٹھ گئیں اور ہم دونوں بہن بھائی ایک دوسرے کو دیکھ کر ہنس پڑے۔
پھر کافی دن گزر گئے۔ اتنی فرصت کس کے پاس تھی کہ اماں ہلدی والی کے بارے میں سوچتا کہ وہ دوبارہ آئی یا نہیں۔
تقریباََ پانچ سال بعد وہ مجھے گلی میں سے گزرتی نظر آئی۔ میں اوپر اپنے گھر کی بالکونی میں کھڑی تھی۔ یونہی بلا ارادہ اسے دیکھے گئی۔ وہ کافی ضعیف ہوچکی تھی اور آواز میں وہ پہلے والا کرارا پن بھی نہیں رہا تھا۔جب وہ ’’ہلدی لے لو۔۔۔ہلدی‘‘ کہتی تھی تو آخر میں ہلدی کو خوب کھینچ کر لمبا کہتی تھی اور اس کی آواز دور تک جاتی تھی۔ مگر اب اس کی آواز پر نقاہت غالب آ چکی تھی۔ اس نے ساری گلی کے دروازوں پر دستک دی کسی نے اس سے کچھ خریدا کسی نے نہیں۔ اس نے بھی ضد نہیں کی۔ ہمارے گھر کو چھوڑ کر دائیں اور بائیں دونوں گھروں کے دروازے کھٹکھٹائے۔ ماما صیحح کہتی تھیں وہ بہت خود دار عورت تھی۔ کہ گلی میں بنے سب سے خوبصورت اور خوشحال نظر آنے والے گھر پر اس نے ایک نظر ڈالنا بھی پسند نہیں کیا تھا۔
کچھ عرصہ بعد پتہ چلا ہلدی والی اماں فوت ہو گئی ہے۔ ایک ہمسائی نے آکر بتایا تھا اور ساتھ ہی یہ بھی کہ اس کے چار جوان بیٹے تھے۔ جو کہ سب کے سب کویت میں تھے۔ اماں نے اپنی تمام جمع پونجی دیکر ایک بیٹے کو کویت بھیجا اور اس نے باقی سب کو بلوانے کے انتظام کئے۔
اس کے بعد وہ اپنے بیوی، بچوں اور خوشحال زندگی میں مصروف ہو گئے۔ وہ ماں جسکی وجہ سے آج وہ اس مقام تک پہنچے تھے۔ ان کے لئے ایک عضوِمعطل کی طرح ہو گئی اورپلٹ کر پوچھا بھی نہیں کہ وہ ماں جو کہ خود الف بے بھی پڑھنا نہیں جانتی تھی، کن مشقتوں سے گزر کر اس نے اپنے بیٹوں کو کسی قابل بنایا تھا۔ کس حال میں اپنی زندگی بسر کر رہی ہے۔
ماما نے کتنا ٹھیک کہا تھا کہ اس نسل کو احترام کے ہجے بھی نہیں معلوم۔جس ماں نے چار بیٹوں کو جنم دیا، کاندھا دینے کے وقت ایک بیٹا بھی اسکے پاس نہ تھا اور اماں اتنی خود دار تھی کہ اپنے کفن دفن کے لئے بھی کمیٹی ڈال کر ہمسائی کے پاس رکھ چھوڑی تھی۔ کہ مرنے پر بھی لوگوں کا تو کیا سگی اولاد کا بھی احسان نہ لینا پڑے۔
’’اور آج ہلدی کے خالی ڈبے کو دیکھ کر بے ساختہ اس کی یاد آ گئی۔ تب میرے لئے دو روپے کی ہلدی خریدنا بھی کارمحال ہو گیا تھا۔ جو کہ وہ موسم کی تمام تر سختیاں برداشت کر کہ مجھ تک لائی تھی۔ جس طرح سے میں شدید سردی میں گھر سے نکلی، اتنی دور کا سفر کر کے بھی خالی ہاتھ ہی لوٹی۔ آج اندازہ ہوا تھا کہ بعض اوقات کچھ معمولی چیزیں بھی کتنی اہم ہو جاتی ہیں۔ اماں ہلدی والی نے کس دل سے کہا تھا یاد کروگی کبھی‘‘ کس موقع پر اس کی یاد آئی کہ دنیا کی ہر نعمت پاس ہے روپے پیسے کی فراوانی ہے مگر ڈبے میں دو روپے کی ہلدی نہیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.