aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بکی

MORE BYراجندر سنگھ بیدی

    کہانی کی کہانی

    کلکتہ کے ایک سینما کی کھڑکی پر ٹکٹ فروخت کرتی ایک ایسی لڑکی کی کہانی جو زائد چونی لے کر نوجوانوں اور کنواروں کو لڑکیوں کی بغل والی سیٹ دیتی ہے۔ اس روز اس نے آخری ٹکٹ ایک کالے اور گنوار سے دکھتے لڑکے کو دیا تھا۔ شو کے بعد جب اس نے اس سے بات کی تو پتہ چلا کہ وہ کسی دیہات سے کلکتہ دیکھنے آیا ہے۔ بات چیت میں اسے احساس ہوتا ہے وہ واقعی کچھ بھی نہیں جانتا ہے۔ وہ اسے بتاتی ہے کہ کلکتہ ایک عورت کی طرح ہے اور وہ اسے سمجھانے کے لیے اپنے ساتھ لے جاتی ہے۔

    ’’16؟‘‘

    ’’جی آں۔۔۔ 16، تیسری قطار میں ۔‘‘ بکی نے ایک ہاتھ سے اپنے بالوں کو دباتے ہوئے کہا، ’’آپ کو زحمت اٹھانے کی نوبت ہی نہ آئے گی صاب، کنڈکٹر آپ کی مدد کرے گا۔‘‘

    ’’شکریہ، شکریہ‘‘ کہتے ہوئے نوجوان مسکرایا اور مسکراتے ہوئے اس نے ایک اور چونی کونٹر پر رکھ دی۔ چونی جیب میں ڈالتے ہوئے بکی نے آنکھیں بند کر لیں، جیسے اس کا دماغ بہت تھک گیا ہو۔ وہ دن بھر کلکتہ کی ایک بیمہ کمپنی میں ٹائپ کیا کرتی تھی اور رات کو اس عظیم الشان سینمامیں ٹکٹیں بیچا کرتی۔ تھوڑی سی تنخواہ کے علاوہ کسی رنگین مزاج نوجوان کے لیے کسی لڑکی کے پہلو میں سیٹ بک کر دینے کے عوض اسے چونی زیادہ ملتی تھی اور اس کی آمدنی پر ایک بڑا کنبہ پل رہا تھا۔ ایک بوڑھی ہٹیلی ماں تھی جو کھانا ملنے میں ذرا سی دیر ہو جانے پر اپنا منھ آپ ہی نوچ لیتی تھی۔ اس کے علاوہ ایک بیوہ بہن تھی، جسے اس کے خاوند نے بیوگی سے دو برس پہلے محض اس لیے چھوڑ دیا تھا کہ آگ جلانے سے پہلے وہ تمام گھر میں دھواں بھر دیتی تھی، اور پھر چھوٹے بھائی تھے اور بھانجے۔۔۔

    کچھ دیر بعد ممولے کی سی سبک رفتاری کے ساتھ وہی نوجوان کونٹر کی طرف آیا اور آتے ہی اس نے اپنی انگلیاں لکڑی کی کونٹر پر بجائیں اور بولا، ’’لیکن ما‘م۔۔۔ وہاں تو کوئی لڑکی نہیں۔‘‘

    بکی نے آنکھیں کھولتے ہوئے کہا، ’’کہیں باہر ہو گی صاب۔۔۔ اس نے مجھ سے ٹکٹ خریدا ہے۔ میں ڈرتی ہوں آپ کو انتظار کرنا پڑے گا۔‘‘

    ’’اوف!‘‘ نوجوان نے بیزاری سے کہا، ’’ہمیشہ ایسا ہی تو ہوتا ہے مس۔۔۔ مام، ۔ ہمیشہ ایسا ہی تو ہوتا ہے۔‘‘

    پھر وہ لڑکا کچھ دور جا کر ساگوان کے خوبصورت چوکھٹوں میں لگے ہوئے سلز کو دیکھنے لگا اور ایک اضطراب کے عالم میں اس نے ’آج شب کو‘ کے سرخ لیبل پھاڑنے شروع کر دیے۔ پھر بکی کے پاس لوٹتے ہوئے بولا، ’’مایوسی سے تو انتظار اچھا ہے۔‘‘

    بکی نے اس بے صبر نوجوان کی طرف دیکھ کر مسکرا دیا اور دل ہی دل میں اس کے خوبصورت بالوں کو سراہنے لگی۔ کتنے اچھے ہیں اس کے بال۔ دولت اور فکر میں گھرے ہوئے سیٹھوں کی طرح وہ گنجا نہیں۔ نہ ہی توندیلا ہے اور نہ دبلا۔ بس۔۔۔ ٹھیک ہے اور اس کے بال، دھان کے ان کھیتوں کی طرح ہیں جنھوں نے مون سون ہواؤں سے پورا فائدہ اٹھایا ہو۔ اس کی وضع قطع اور باتوں سے شراب کی بو آتی ہے، حالاں کہ شاید اس نے شراب نہیں پی۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ بہت ہی زیادہ جوان ہے۔ جیسے انگور پک جاتے ہیں تو ان سے شراب کی بو آنے لگتی ہے۔

    کچھ دیر بعد وہ لڑکا پردے اٹھا کربڑے غور سے سینما کی چھت کا معائنہ کرنے لگا۔ چھت میں مصنوعی ستارے چمک رہے تھے۔ وہ جانتا تھا کہ جب سینما میں روشنی گل ہو جائے گی، تو یہ ستارے اور زیادہ چمکنے لگیں گے اور بہت خوبصورت دکھائی دیں گے۔ چھت کی طرف نظریں اٹھانے سے آسمان کا دھوکا ہو گا اور وہ یقینا اس منظر کو پسند کرے گا اور اپنے ساتھ بیٹھی ہوئی لڑکی کو کہے گا۔۔۔ ستارے کتنے خوبصورت ہیں اور۔۔۔ اور یہ سچ ہے۔ کہ اس نے تاروں بھرے آسمان پر کبھی نگاہ بھی نہیں دوڑائی تھی اور نہ قدرت کے اس کلکتہ کو، جو کہ ہر روز رات کو آسمان پر دکھائی دیتا تھا، پسند کیا تھا۔ لیکن چھت پر چمکتے ہوئے ستاروں کو تو وہ اس لیے پسند کرتا تھا کہ ان پر سچ مچ کے ستاروں کا دھوکا ہوتا تھا اور انسان ہمیشہ اصلیت کی نسبت اس کے دھوکے کو پسند کرتا ہے۔

    پھر وہ نوجوان برآمدے میں ایک دیوار کے سہارے کھڑا ہو گیا۔ بکی کو یقین تھا کہ وہ اس بے فکرے نوجوان کو پسند نہیں کرسکتی، البتہ بڑی ہی آسانی سے نفرت کرسکتی ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ بہت رحم دل تھی اور شاید اسی لیے وہ اس کے متعلق اپنے تخیل کو محبت کی آلودگی سے علاحدہ رکھنا چاہتی تھی، وگرنہ اس کے لیے یہ کس قدر آسان تھا کہ شو کے شروع ہو جانے پر بکنگ آفس کے سامنے، ہاؤس فل کا بورڈ لگا کر اس نوجوان کے ساتھ کی کسی سیٹ پر خود جا بیٹھتی۔

    برآمدے کی دیوار پر نیا نیا پالش ہوا تھا، اس لیے نوجوان کے کپڑے کسی قدر آلودہ ہو گئے۔ لیکن پرے ہٹ کر اس نے پھر اپنی انگلی سے دیوار کو چھوا، گویا کپڑوں کے آلودہ ہو جانے سے اسے دیوار کے نئے پالش کیے جانے کا یقین ہی نہ آتا ہو۔ پھر اس نے آوارہ نگاہوں سے سینما کی گھڑی کی طرف دیکھا، جو کہ دائیں دیوار سے ہٹا کر منیجر کے کمرہ کے اوپر لگا دی گئی تھی۔ اس نے گھڑی کو اپنی اصلی جگہ پر دیکھ کر پھر اسی جگہ کو دیکھا، جہاں سے وہ اٹھا لی گئی تھی۔ بکی سوچنے لگی۔ انسان کی عادت بھی عجیب ہے۔ وہ جانتا ہے کہ ایک چیز اس جگہ سے ہٹا کر دوسری جگہ منتقل کر دی گئی ہے، لیکن نہ جانے وہ کیوں ایک بار پھر اس جگہ کو دیکھتا ہے جہاں سے وہ چیز اٹھا لی گئی ہو۔ گویا اس کا ادراک اس تبدیلی کو یک بیک قبول نہیں کرتا اور شاید اسی لیے اسے 24 پرگنہ کے دیہات میں گزارے ہوئے زندگی کے دن بار بار یاد آتے تھے۔ وہ دن، جب کہ وہ تہذیب سے دور، دادا کے ہاں آرام و سکون کی زندگی بسر کرتی تھی۔ لیکن اب۔۔۔ کلکتہ کے سے مہذب شہر میں زندگی کے معیار کو قائم رکھنے کے لیے اسے کیا کچھ کرنا پڑتا تھا۔

    بکی نے اپنے سامنے پڑے ہوئے سیٹوں کے پلین پر نظر دوڑانی شروع کی۔ آخر ایسے ہی بے صبر نوجوانوں کو کسی لڑکی کے پہلو میں جگہ دینے سے اسے چونی ملتی تھی۔ اس کی انگلی نقشے میں خالی نشستوں کے ساتھ ساتھ دوڑنے لگی۔ دور نوجوان کو بکی کے ناخنوں پر گلابی پالش چمکتا ہوا دکھائی دے رہا تھا اور وہ نوجوان گھور گھور کر اس چمکتے ہوئے پالش کو دیکھنے لگا، جیسے اسے ان کے پالش ہونے میں یقین نہ آتا ہو اور وہ ان ناخنوں کو چھو کر دیکھنا چاہتا ہو۔

    چھبیس۔۔۔ ستائیس۔۔۔ تیس۔ چوتھی قطار۔۔۔ بارہ۔۔۔

    بکی کی نگاہیں ایک سیٹ پر جا رکیں۔ وہ شاید اس سیٹ پر نشان لگانا بھول گئی تھی۔ اس سیٹ کے لیے بھی تو ایک لڑکی نے ٹکٹ خریدا تھا۔ وہ اس لڑکی کو جانتی بھی تو تھی۔۔۔ مسزدسوز ا۔۔۔ خاہ! اس کے ساتھ مسٹردسوزا نہیں تھے۔ وہ تھے یا نہیں تھے، بکی ہلکی ہلکی سر درد میں بالکل بھول چکی تھی۔ اسے تو ان کی شکل تک یاد نہ رہی تھی۔ بکی نے اپنے تھکے ہوئے دماغ پر زور ڈالنا شروع کیا حتیٰ کہ وہ اس چونی کو کوسنے لگی جو اسے اس کام کے لیے ملتی تھی۔

    ’’جنٹلمین‘‘ بکی نے اس نوجوان کو بلاتے ہوئے کہا، ’’میں نے آپ کی سیٹ چوتھی لائن میں تیرہ پر رکھی ہے اور بارہ پر مس دسوزا کی جگہ ہے اور بکی نے جان بوجھ کر مسز کو مس کہا۔ آخر قدرت نے عورت کے ماتھے پر تو ایسی تخصیص کا کوئی نشان نہیں رکھا، اور پھر بکی کو اپنی چونی عزیز تھی۔ اسے اپنی ماں سے بہت محبت تھی اور اپنی بہن پر اسے بہت ترس آتا تھا۔‘‘

    نوجوان نے اپنا ہیٹ اٹھاتے ہوئے کہا، ’’شکریہ‘‘ اور ہال کے اندر داخل ہو گیا۔

    بکی نے ایک سگریٹ سلگایا اور پھر پلین کا بغور مطالعہ کرنے لگی۔ جب وہ ایش ٹرے کو اپنے نزدیک سرکا رہی تھی تو ایک بدصورت سا لڑکا آیا اور اس کے پاس آ کر کھڑا ہو گیا۔ بکی غور سے اس کے چہرے کی طرف دیکھنے لگی۔ وہ ابھی کمسن تھا۔ اس کی مسیں بھیگ رہی تھیں اور اس کے چہرے سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ عورتوں کے متعلق کچھ نہیں جانتا، البتہ جاننا چاہتا تھا۔ ماں اور بہن کے علاوہ اس نے دنیا میں کوئی عورت نہیں دیکھی تھی۔ اور اس کے چہرے پر ہلکی ہلکی شرم کے پیچھے ایک شدید سا ڈر دکھائی دے رہا تھا، جو کہ اس کے چہرے کے بھدے نقوش کو اور بھدا بنا رہا تھا۔

    لڑکے نے ٹکٹ کے پیسوں کے علاوہ ایک اور چونی بکی کی طرف سرکا دی۔ بکی کا منھ کھلا رہ گیا، ’’تم چاہتے ہو۔۔۔‘‘ وہ بولی اور چونی کو ایک نظر سے دیکھتے ہوئے اس نے جیب میں رکھ لیا اور پھر اپنے سامنے پڑے ہوئے پلین پر جھک گئی۔ ہاؤس فل تھا۔ صرف سولہ نمبر کی نشست خالی تھی۔ وہی نشست جو اس نے خوبصورت نوجوان کے لیے پہلے بک کی تھی، لیکن ساتھ کی سیٹ میں لڑکی نہ ہونے سے خالی رہ گئی تھی۔ بکی نے سوچا اب وہ لڑکی ضرور آ بیٹھی ہو گی۔ کتنی خوبصورت تھی وہ لڑکی۔۔۔ وہ بلانڈ، اور اس کے بالوں کی لہریں یوں دکھائی دیتی تھیں، جیسے دھان کے کھیت پر سے ہوا سرسراتی ہوئی گزر رہی ہو۔ شاید اس نے بال کسی نوجوان کی توجہ کو کھینچنے کے لیے بنائے تھے۔ اس کے پہلو میں اس بے وقوف، بدصورت چھوکرے کو جگہ دینا، اس لڑکی کی توہین کرنا تھا اور یہ چھوکرا نوآموز ہی نہیں تھا، بلکہ بالکل دیہاتی تھا۔ 24 پرگنہ کی طرف کا رہنے والا ہی تو دکھائی دیتا تھا۔ اس کے چہرے سے صاف ظاہر تھا کہ نہ تو وہ چھت کے ستاروں کی تعریف سے سلسلہ کلام شروع کرسکتا ہے، اور نہ ہی اس لڑکی کے بالوں کو دھان کے کھیت سے تشبیہ دے سکتا ہے۔ وہ گدھا تو اصلی ستاروں کو پسند کرتا تھا اور کہیں سے دھان کاٹتا اٹھ کر کلکتہ چلا آیا تھا۔

    نوجوانوں کا ایک غول اس کی طرف بڑھا آ رہا تھا۔ لیکن سب نشستیں رک چکی تھیں۔ پلین سارے کا سارا بکی کے ہاتھ سے لگائے ہوئے نشانوں سے سرخ ہو رہا تھا۔ اس نے ہاتھ کے اشارے سے سب کو بتا دیا کہ اب اس درجہ میں کوئی جگہ نہیں ہے، اور وہ نوجوان اپنے اوور کوٹ تھامے اور پتلون کے پائنچے اٹھائے واپس چلے گئے۔

    آسمان سے ننھی ننھی بوندا باندی ہونے پر سینما کے برآمدے پناہ گاہ بن گئے تھے۔ اس کے بعد مون سون کے بڑے بڑے بارانی ریلے آنے لگے اور چند چھوکریاں اپنے گون سنبھالتی ہوئی سینما کی ایکزٹ کی طرف آ کھڑی ہوئیں۔ ان لڑکیوں کے ریلے دروازے کی طرف دھکیل دیے جاتے تھے اور ان بارانی ریلوں سے وہ ریلے زیادہ خوبصورت دکھائی دیتے تھے۔

    اس وقت بکی کے دل میں اس دیہاتی نوجوان کے لیے ایک عجیب، مادرانہ جذبہ پیدا ہوا۔ اس نے اپنے کمرے کے سامنے، ہاؤس فل کا تختہ لٹکا دیا اور خود کھڑکی بند کرتے ہوئے باہر نکل آئی۔ اس چھوکرے کے کانپتے ہوئے ہاتھوں میں ٹکٹ دے دیا اور پھر خود اسے کنڈکٹر تک لے گئی۔ مسلسل کانپتے رہنے سے اس چھوکرے کی بدصورتی کے حسن میں اور بھی اضافہ ہو گیا تھا۔ کنڈکٹر نے احتیاط سے اس نوجوان کو سولہ نمبر کی نشست پر بٹھا دیا۔ بکی دروازے میں کھڑی اس چھوکرے اور اس کی رفیقہ کی طرف دیکھتی رہی۔ بلانڈ نے گھبرا کر اپنے دائیں طرف دیکھا اور مضبوطی سے اپنی کرسی کی سلاخوں کو پکڑ لیا۔ اس لڑکی کو اپنی شام کے تباہ ہو جانے میں کوئی شک نہ رہا۔ بکی نے سوچا شاید وہ لڑکی بھی میری طرح ربط و حسن کی بجائے اپنی چونی یا دس کے نوٹ کو پسند کرتی ہو۔ اس کے بعد پردے چھٹ گئے اور سینما شروع ہوا۔ انگریزی فلم ’’میرا نام مجھ سے پہلے سفر کرتا ہے‘‘ شروع ہوئی اور گانا ایک دلفریب ٹیون پر گایا جانے لگا۔

    تاروں بھری رات کے نیچے

    بکی نے ایک گہرا، ٹھنڈا سانس لیا اور اپنے دل میں ٹیون کو گنگنانے لگی۔ تاروں بھری رات کے نیچے۔ لیکن ابھی دوسرے شو کا پلین بنانا تھا اور اسے تین ساڑھے تین روپے ہاتھ لگ چکے تھے۔ اب تو وہ بہت ہی تھک گئی تھی۔ اپنی آنکھوں کو شدت کی روشنی سے بچانے کے لیے اسے ہال کا اندھیرا پسند تھا۔ وہ سوچنے لگی۔ تاروں بھری رات کے نیچے کا دلفریب گانا سن کر اس بدصورت نوجوان کو کیا خوبصورت ستاروں سے بھرا ہوا آسمان یاد آئے گا، یا ہال کی چھت؟ یا خوبصورت نشستیں جہاں ہر روز ایک نیا تجربہ ہوتا ہے؟ اس کے بعد بکی باہر نکل آئی۔ کنڈکٹر جانتا تھا کہ بکی، اسی جگہ کھڑی ہو کر لمحہ دو لمحہ کے لیے پکچر دیکھا کرتی ہے اور پھر فورا ہی مضطرب ہو کر باہر نکل جاتی ہے۔ گویا پردۂ سیمیں پر کوئی بہت ہی خوفناک منظر دکھایا جا رہا ہو۔ حالاں کہ یہ بات نہ تھی۔ وہ سکون سے ایک گانا بھی نہیں سن سکتی تھی۔ اسے یوں محسوس ہوتا تھا، جیسے اس کے دل کا برتن چھوٹا ہے اور موسیقی کا ظرف بہت بڑا اور نغمہ اس کے چھوٹے سے دل میں نہیں سما سکتا۔ وہ اپنا چھلکتا ہوا دل لے کر باہر نکل آتی اور تاروں بھری رات کے نیچے 24 پرگنہ کے کسی گاؤں کے تالاب کا کنارہ اسے یاد آ جاتا، جہاں اس کی محبت پروان چڑھی اور لٹ گئی۔ جہاں سے ہندو عورتیں اپنا گھڑا بھر کر چلی آتی تھیں۔ اس سے زیادہ جگہ ان کے مٹکوں میں نہ تھی۔ اور اس مٹکے کے پانی سے وہ کھانا بھی بناتی تھیں اور چوکا بھی کرتیں۔ گائے کے گوبر کو مٹی میں ملا کر وہ چوکے کو بڑی صفائی سے پوتا کرتیں اور بکی کا جی بھی چاہتا تھا کہ ان بڑے بڑے شاندار ہوٹلوں کو چھوڑ کر کسی ایسے علاحدہ کونے میں صبر و سکون سے پڑ رہے اور ان ہی عورتوں کی طرح چارپائی پر لیٹ کر رات کو تاروں سے بھرے ہوئے آسمان کا تماشا دیکھا کرے۔

    وہ منیجر کے کمرہ کے پاس کھڑی ہو کر سگریٹ سلگانے لگی۔ کچھ دیر بعد ہال میں روشنی ہو گئی۔ ہاف ٹائم ہو چکا تھا۔ بکی نے پھر ایک دفعہ پردوں کے پیچھے سے سولہ اور اس کے ساتھ کی نشست کی طرف دیکھا۔ وہ لڑکا اور لڑکی ایک دوسرے کے لیے ویسے ہی اجنبی تھے اور اپنی اپنی جگہ پر سمٹ کر بیٹھے تھے۔ اگر وہ چھوکرا طریقے سے اس خوبصورت ٹیون کی تعریف کر دیتا تو کتنی اچھی بات ہوتی۔ لیکن وہ تو گم صم بیٹھا تھا۔

    اب ہاف ٹائم میں وہ کوئی بات شروع کرسکتا تھا۔ لیکن وہ باہر چلا آیا۔ اس کا چہرہ بہت اترا ہوا تھا۔ وہ بار بار آنکھیں جھپکتا تھا اور اپنے لبوں پر بے تحاشہ زبان پھیرتا اور ان سب حرکتوں سے وہ بالکل ایک اجڈ دیہاتی معلوم ہوتا تھا۔

    ’’ہلو مس۔۔۔ مام‘‘ اس نے باہر نکل کر ڈرتے ہوئے کہا۔

    ’’بکی نے مسکراتے ہوئے اس کی طرف دیکھا اور بولی، ’’ہلو۔۔۔ بوائے، انجائیڈ آلرائیٹ (کہو، خوب لطف رہا نا؟)‘‘

    اس لڑکے نے ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں جواب دیا، ’’مام۔۔۔ میں تو کلکتہ دیکھنا چاہتا ہوں اور۔۔۔ اور۔۔۔‘‘ اس کے بعد وہ ہکلانے لگا۔ ’’میرا چچا کدار پور میں دکان کرتا ہے۔‘‘

    بکی کا جی چاہا کہ وہ صاف گوئی سے کام لیتی ہوئی کہہ دے کہ کلکتہ بالکل اس ہال کی چھت کاسا ہے۔ لیکن اس نوجوان نے چھت کو بغور دیکھا بھی نہیں تھا اور بکی بھی یک لخت پریشان اور اداس ہو گئی۔ اس کے سر میں زیادہ درد ہونے لگا۔ وہ اس دیہاتی نوجوان کو پسند کرنے لگی تھی۔ وہ بہت رحم دل تھی۔ اس کے بعد جب شو ختم ہوا تو بکی نے منیجر سے چھٹی لے لی۔ اس وقت وہ دیہاتی، بدصورت نوجوان باہر آیا۔ بکی اس کے قریب چلی گئی، بولی۔

    ’’ہلو بوائے۔ تم کہاں کا رہنے والا ہے؟‘‘

    ’’ہرش پور۔ 24 پرگنہ کا۔‘‘

    ’’میں جانتی ہوں ہرش پور میں ایک دفعہ مسٹر رے کے ہاں ایک ماہ ٹھہری تھی۔‘‘

    ’’رے؟ ہاں ہاں ’’لڑکے کا چہرہ چمک اٹھا‘‘ میں رے کو جانتا ہوں وہ ہمیں پڑھاتے رہے ہیں۔‘‘

    اس کے بعد کچھ دیر تک خاموشی رہی۔ پھر وہ لڑکا بولا، ’’آپ اتنی مہربان ہیں۔ کیا میں آپ کا نام جان سکتا ہوں؟‘‘

    ’’نلنی‘‘ بکی بولی، ’’لیکن یہاں سب لوگ مجھے مارگریٹ کہتے ہیں۔ مسٹر رے کا بڑا بھائی میرا باپ تھا۔ اسے مرے ہوئے دس برس ہو چکے ہیں۔ انھوں نے ایک اینگلوانڈین لڑکی سے شادی کی۔ وہ لڑکی میری ماں ہے اور کیا تم کلکتہ دیکھنا چاہتا ہے؟‘‘

    چھوکرے نے سر ہلا دیا۔ مارگریٹ بولی، ’’چلو ہم کافی کی ایک پیالی پئیں گے۔‘‘

    اور وہ دونوں ’فرپو‘ کی طرف چل دیے۔ ہوٹل کے دروازے پر دو بڑے بڑے دودھیا بلب دور سے چاند کی مانند دکھائی دیتے تھے۔ مارگریٹ نے ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ’’دور سے اصلی چاند کا دھوکا ہوتا ہے۔‘‘ نوجوان نے فورا ہاں میں ہاں ملا دی۔ مارگریٹ ان بلبوں کی طرف اشارہ کر کے کہنا چاہتی تھی۔ بس کلکتہ ایسا ہی ہے۔

    پھر وہ ہوٹل میں داخل ہوئے اور کافی پینے لگے۔ اس نوجوان کے چہرے سے صاف ظاہر تھا کہ اسے کافی کا تلخ ذائقہ پسند نہیں۔ وہ گنوار شاید دودھ کے مٹکے چڑھا جاتا تھا۔ کافی کے بعد مارگریٹ نے کئی چیزوں کا آرڈر دیا۔ لڑکے کو ان میں سے کئی چیزوں کے نام نہ آتے۔ مارگریٹ پوچھتی،

    ’’یہ کیا ہے؟‘‘

    ’’نا معلوم‘‘

    ’’ساسیج۔۔۔ کہو ساسیج‘‘

    ’’ساسیج‘‘

    ’’یہ کیا ہے‘‘

    ’’نامعلوم‘‘

    کٹلٹس۔۔۔ کہو کٹلٹس‘‘

    ’’کٹلٹس‘‘

    کبھی وہ لڑکا معصومانہ انداز سے کچھ اور کہہ دیتا، تو مارگریٹ اسے درست کرتی۔ جیسے بچپن میں ماں بچے کو نئے نئے نام لینے سکھاتی ہے، اور جب وہ الٹا سیدھا نام لیتا ہے تو اسے درست کرتی ہے۔ کافی پینے اور کچھ کھا چکنے کے بعد مارگریٹ نے پیسے نکالنے کے لیے جیب میں ہاتھ ڈالا، لیکن اس لڑکے نے تھام لیا اور اپنی جیب سے پیسے نکال کر بل پر رکھ دیے۔ مارگریٹ کا خیال تھا کہ کلکتہ میں عورت کا بل ادا کرنے کا اخلاق اس نوجوان کو نہ آتا ہو گا، لیکن اس نے دیکھا کہ وہ اس بات سے تو واقف تھا۔ ایسے ہی جیسے سینما میں چونی زیادہ دے کر عورت کے ساتھ سیٹ بک کروا لینے کا طریقہ اسے کسی نے بتا دیا تھا۔ اسی طرح عورت کے ساتھ کافی پی کر یا کھانا کھا کر اس کے پیسے ادا کرنے کا اخلاق بھی کسی نے سکھا دیا ہو گا۔

    مارگریٹ نے بتایا۔ کلکتہ بہت مہذب ہو چکا ہے اور تہذیب بھی انگور کے دانوں کی طرح ہے۔ جب یہ بہت پک جاتی ہے تو اس سے شراب کی بو آنے لگتی ہے اور جب مارگریٹ کو پتہ چلا کہ وہ لڑکا عورت کے متعلق بالکل کچھ نہیں جانتا، تو اس نے نوجوان کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا،

    ’’بوائے، کیا تم آج شب میرے مہمان بنو گے؟ میں آج اپنی ماں کے پاس نہیں جاؤں گی۔ یہاں گھر سے علاحدہ میرے پاس ایک بہت اچھا فلیٹ ہے۔

    میں تمھیں بتا دوں گی عورت کیا چیز ہے۔ لیکن وہ عورت جس نے تمھیں سینما کے دروازے پر پایا، یا جسے تم نے 24 پرگنہ میں دیکھا، یہاں تم اسے نہیں پا سکو گے۔۔۔ ہاں، تم اس عورت کو دیکھ لو گے، وہ عورت جو کلکتہ ہے۔‘‘

    مأخذ:

    گرہن (Pg. 38)

    • مصنف: راجندر سنگھ بیدی
      • ناشر: مکتبہ اردو، لاہور
      • سن اشاعت: 1942

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے