aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ایک امریکن لیڈی کی سرگزشت

سدرشن

ایک امریکن لیڈی کی سرگزشت

سدرشن

MORE BYسدرشن

    کہانی کی کہانی

    یہ امریکہ کی ایک مشہور ایکٹریس کی کہانی ہے، جسے ایک ہندوستانی سے محبت ہو جاتی ہے۔ مگر جب اسے اس ہندوستانی کی اصلیت پتہ چلتی ہے تو اس کی پوری زندگی ہی بدل جاتی ہے۔ وہ اپنی ساری دولت ہندوستان میں تعلیم کے فروغ کے لیے وقف کر دیتی ہے اور یہیں اپنی آخری سانسیں لیتی ہے۔

    میں ان خوش قسمت عورتوں میں سے تھی جو اپنے آپ پر خود رشک کرتی ہیں۔ صحت، دولت اور حسن یہ تین چیزیں ہیں جن کو دنیا کے بیش بہا عطیے سمجھا جاتا ہے۔ مجھے یہ تینوں نعمتیں میسر تھیں اور اتنا ہی نہیں میری شہرت کے ڈنکے امریکہ کے ایک کونے سے لے کر دوسرے کونے تک بج رہے تھے۔ میں امریکہ کی سب سے باکمال ایکٹرس تھی۔ اخبارات کے کالم میری تعریف و ثنا میں سیاہ ہوتے تھے۔ لوگ میرا نام سن کر جوش مسرت سے جھومنے لگتے تھے۔ یونیورسل تھیئٹریکل کمپنی کے ڈائرکٹر میرے پارٹ پر لٹو تھے۔ میں جب اسٹیج پر جاتی تو لوگ پھولوں اور گلدستوں سے مجھے لاد دیتے تھے اور اس کے بعد بت بہ دیوار بن جاتے تھے۔ میں جب بولتی تو ان پر جذبے کا عالم طاری ہو جاتا تھا۔ میری ایک ایک ادا میرے قدموں کی ایک ایک حرکت، میری تقریر کا ایک ایک لفظ حاضرین کے دلوں میں ہلچل مچا دیتا تھا۔ وہ میری طرف اس طرح حریص نگاہوں سے دیکھتے تھے جس طرح بچہ چاند کو دیکھتا ہے۔ اس قدر دانی سے مجھ پر از خود رفتگی کا عالم چھا جاتا اور میرا دل خوشی سے اس طرح جھومنے لگتا۔ جیسے پھول کا پتہ ہوا میں کانپتا ہے۔

    جب میں نے اول اول یونیورسل کمپنی کی ملازمت اختیار کی۔ اس وقت اس کی خاص شہرت نہ تھی لیکن میری شرکت نے اس میں نئی زندگی ڈال دی اور اسے ملک کی ممتاز ترین کمپنیوں کی صف میں لا کھڑا کیا۔ اس کے بعد جوں جوں دن گزرتے گئے۔ میری شہرت اور دلعزیزی میں اضافہ ہوتا گیا۔ یہاں تک کہ امریکہ کے مشہور ترین روزانہ اخبار آبزرور نے میرے متعلق ایک مبسوط مضمون لکھا اور مجھے دنیائے ناٹک کا ایک نیا ستارہ کے لقب سے یاد کیا۔ اتنا ہی نہیں، اس نے میرے متعدد فوٹو شائع کئے اور میرے آرٹ پر نہائت حوصلہ افزا ریمارک دیئے۔

    اس مضمون کا نکلنا تھا کہ میری شہرت کو چار پر لگ گئے۔ یونیورسل کمپنی اب امریکہ کی سب سے بڑی کمپنی تھی۔ اس میں تماشائیوں کا ہجوم رہتا تھا۔ اکثر لوگوں کو ٹکٹ نہ ملنے کے باعث مایوس ہو کر واپس لوٹنا پڑتا تھا۔ اس وقت ان کے چہرے پر پژمردہ ہوتے تھے۔ حسرت کی زندہ تصویر، ڈائرکٹر کے حوصلے بڑھے ہوئے تھے۔ اس نے ٹکٹ بڑھا دیا لیکن تماشائیوں میں پھر بھی کمی نہ ہوئی۔ ہماری آمدنی دن بدن بڑھتی گئی۔ یہاں تک کہ کمپنی کی شہرت کے لئے امریکہ ناکافی ثابت ہوا۔ ایک دن میں نے ہنستے ہنستے پروپرائٹر کمپنی سے کہا، ’’کیوں نہ یوروپ کو چلے چلیں، وہاں بھی قدردانوں کی کمی نہیں۔‘‘

    پروپرائٹر نے میری طرف اس اندازے سے دیکھا گویا میں نے کوئی انجیل کی آیت پڑھ دی ہو اور کہا، ’’ضرور چلنا چاہئے۔‘‘

    اس کے ایک ہفتہ بعد ہماری کمپنی یوروپ کو روانہ ہوئی۔

    ساحل انگلستان پر قدم رکھنے کے ساتھ ہی مجھے بادۂ غرور کا نشہ سا محسوس ہوا۔ یہ میرا پہلا سفر تھا۔ اس سے پیشتر میں کبھی امریکہ سے باہر نہ آئی تھی لیکن انگلستان پہنچ کر معلوم ہوا کہ میری بوئے شہرت مجھ سے پہلے وہاں پہنچ چکی ہے۔ ساحل پر کئی اخبارات کے رپورٹر موجود تھے جو مجھ سے انٹرویو کے لئے وقت مقرر کرنے آئے تھے۔ ان میں بعض اپنے ہمراہ کیمرے بھی لیتے آئے تھے تاکہ میرا فوٹو اپنے اخبار میں دے سکیں۔ وہ رقیبانہ جوش انہماک سے مجھ پر ٹوٹ پرے۔ اس سے میں گھبرا گئی لیکن اس گھبراہٹ میں روحانی کیف و ذہنی سرور کی پرلطف آمیزش تھی جس طرح انسان بعض وقت انتہائی خوشی کے موقعہ پرونے لگتا ہے۔ اسی طرح میں اس قدر دانی کے جوش کو نہ سہار سکی۔ گھبرا کر پرے ہٹ گئی اور ایکٹریسوں کی سی ادا کے ساتھ بولی ’’میں اس وقت کسی کو فوٹو نہ دوں گی۔ میری طبیعت مطمئن نہیں۔ کل صبح گرانڈ ہوٹل میں آؤ۔ وہاں میں تمہیں وقت دے سکوں گی۔‘‘

    دوسرے دن اخبارات میرے ذکر سے بھرے ہونے تھے۔ کسی نے مجھے قاف کی پری لکھا۔ کسی نے آسمانی حور، کسی نے میرے صاف رنگ کی تعریف کی، کسی نے نقش و نگار کی، بعض اخبارات نے تو یہاں تک لکھ دیا کہ مس میرین دنیاوی مخلوق معلوم نہیں ہوتی۔ اسے دیکھ کر انسان سناٹے میں آ جاتا ہے۔ ایک اخبار نے لکھا مس میرین اپنی روزمرہ کی زندگی میں بھی ایکٹ کرتی ہے۔ اسے دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے گویا ایکٹ کرنا اس کی فطرت میں سما گیا ہے۔ اس کی آنکھیں دیکھ کر یہ پیش گوئی کی جا سکتی ہے کہ اسے قدرت نے اسٹیج پر حکومت کرنے کے لئے پیدا کیا ہے۔ ایک دوسرے اخبار نے لکھا مس میرین دنیا بھر کی ممتاز ایکٹرس ہے۔ جس کے تماشے یقیناً انگلستان کی دنیائے ناٹک میں کئی نئے رموز داخل کرنے کا موجب ہوں گے۔

    میں ان نوٹوں کو پڑھ کر ہنستی تھی۔

    آخر کھیل شروع ہوئے میں مبالغہ نہیں کرتی، لوگوں نے ہماری امیدوں سے بڑھ کر قدردانی کی۔ رات کو ایسا معلوم ہوتا تھا گویا سارا شہر تھیئٹر ہال میں امڈ آنے کو ہے۔ جب میں اسٹیج پر آتی تو لوگ دیوانہ وار تالیاں پیٹ کر میرا استقبال کرتے۔ ساتھ ہی اسٹیج پھلوں اور گلدستوں سے بھرجاتا لیکن یہ قدر دانی محض پھولوں تک محدود نہ تھی۔ ان کے ساتھ نوٹ بندھے ہوئے ہوتے تھے۔ اس وقت مجھے معلوم ہوا کہ حسن کمال میں کیسا جادو ہے۔ چند دنوں میں ہی میرے قدر دانوں کا حلقہ بہت وسیع ہو گیا۔ ان میں ایک ہندوستانی نوجوان پورن چند خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ میں نے خوب صورت سے خوبصورت امریکن دیکھے ہیں لیکن ایسی دلکش ایسی دلفریب تصویر ایک ہی بار دیکھی اور صفحہ دل پر نقش ہو گئی۔ وہ شکل و صورت سے کوئی شاہزادہ معلوم ہوتا تھا۔ میں نے کئی کروڑپتی دیکھے ہیں۔ جو آن کی آن میں ہزاروں روپے خرچ کر ڈالتے ہیں لیکن ان کی بات بات سے تصنع کی بو آتی ہے مگر پورن چند کی شاہ دلی میں اوچھا پن نہ تھا۔ وہ ناٹک میں میری طرف کوئی نوٹ نہ پھینکتے تھے۔ انہیں گلدستہ یا ایک پھول تک پھینکنے میں بھی عار تھا۔ وہ جب ہوٹل میں میرے پاس آتے۔ تب بھی اپنی امارت کی نمائش نہ کرتے۔ وہ اسے ہندوستانی شان سے گرا ہوا فعل تصور کرتے تھے۔ ہاں جب بازار میں میں نے کوئی چیز خریدنا ہوتا تو بےپرواہی کے انداز سے بل کی ادائیگی کر دیتے اور میرے شکریہ کرنے سے پیشترہی مسکرا کر کہتے اس کی بالکل ضرورت نہیں۔

    میں نے واہ واہ کی خاطر خزانے لٹا نے والے دیکھے ہیں۔ میں نے تعریف کے لئے زندگیاں قربان ہوتی دیکھی ہیں لیکن اس طرح گوشہ تاریکی میں اپنا اثاثہ لٹانے والا یہی ہندوستانی نوجوان دیکھا ہے جو اس وقت آگے بڑھتا تھا۔ جب اسے دیکھنے والی کوئی آنکھ قریب نہ ہوتی تھی۔

    اسی طرح کئی مہینے گزر گئے۔ پورن چند کے اشتیاق میں سرمو فرق نہ آیا۔ وہ رات کو ناٹک میں آتے۔ دن کو ہوٹل میں۔ ان کا یہ معمول تھا جس میں کبھی ناغہ نہ ہوتا تھا۔ ان کی نگاہیں بیتاب تھیں۔ چہرہ متفکر۔ اکثر بیٹھے بیٹھے آہ سرد بھر کر چونک اٹھتے۔ میں نے کئی دفعہ اس کا باعث پوچھنے کی کوشش کی، لیکن وہ خاموش رہے۔ معلوم ہوتا تھا۔ ان کے دل میں کوئی خاص بات ہے۔ جسے وہ مجھ پر ظاہر کرنا چاہتے تھے لیکن جب بولنے لگتے تو کوئی طاقت زبان کو پکڑ لیتی۔ وہ ہچکچا کر چپ ہو جاتے۔ وہ اس قدر شرمیلے اور سیدھے تھے کہ ایک عورت کے سامنے بھی اپنا دل نہ کھول سکتے تھے۔ حالانکہ یہ چنداں مشکل نہ تھا۔ میں صورت حال کو سمجھ گئی تھی اور ہر ایک عورت جو ذرا سی سمجھ بھی رکھتی ہو۔ معاملہ کو فوراً بھانپ سکتی ہے۔ لیکن میرے کان اس کے اظہار محبت کے دو لفظوں کے بھوکے تھے۔ امریکن عورت اتنا محبت کو نہیں چاہتی۔ جتنا محبت کے الفاظ کو چاہتی ہے، ’’میں تمہیں چاہتا ہوں۔‘‘کیا شریں فقرہ ہے۔ کیسا دل کو پکڑ لینے والا خیال۔ زنانہ دل کو از حد خود رفتہ بنا دینے والا جادو۔ اس کی روح میں ہلچل مچا دینے والا سحر۔

    رفتہ رفتہ میرے دل میں ایک نئے خیال نے سر نکالا۔ پورن چند کے آنے میں ذرا دیر ہو جاتی۔ تو طبیعت میں انتشار پیدا ہو جاتا۔ رات کو ناٹک میں وہ دکھائی نہ دیتے۔ تو حفظ کئے ہوئے الفاظ ہونٹوں پر منجمد ہو جاتے۔ وہ نظر آ جاتے، تو سینہ میں دل دھڑکنے لگتا۔ آنکھیں رقص کرنے لگتیں۔ مجھے خیال ہوا پورن چند نے مجھ پر سحر کر دیا ہے۔ میں ان کے بغیر خوش نہ ہوتی۔ ان کی گفتگو میری خشک زندگی کو پررونق بنا دیتی تھی۔ میں نے سینکڑوں نوجوان دیکھے تھے۔ لیکن جو بات پورن چند میں تھی وہ کسی میں نہ تھی۔ وہ مجھ پر فدا تھے۔ مجھے دیکھے بغیر ایک دن گزارنا بھی ان کے لئے دشوار تھا۔ ان کی آنکھوں میں محبت کی پیاس تھی اور دل میں اضطراب، لیکن اس کے باوجود انہوں نے اپنی خود داری کو ہاتھ سے نہیں دیا۔ انہوں نے کبھی جوش انگیز کلمات استعمال نہیں کہے۔ تنہائی کے مواقع آئے اور گزر گئے مگر پورن چند نے کبھی ان سے فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کی۔ ان کی ان صفات نے میرے دل میں اپنا گھر کر لیا۔ ایک ہندوستانی عشق کی جلن کو کس خاموشی سے برداشت کر سکتا ہے۔ اس کا مجھے پہلا تجربہ ہوا۔ خیال آیا جہاں کے مرد اس قدر حوصلہ مند ہیں۔ وہاں کی عورتوں کا کیا حال ہوگا۔ میرا دل اختیار میں نہ رہا۔ اظہار محبت کے میدان میں عورتیں ہمیشہ سے فتح حاصل کرتی رہی ہیں۔ میں نے ایک ہندوستانی سے شکست کھائی اور ایک دن نامکمل فقروں میں اپنا دل پورن چند کے سامنے رکھ دیا۔

    پورن چند کا چہرہ گلنار ہو گیا۔ گویا کوئی ان ہونی بات ہو گئی ہو۔ جس طرح کسی دوشیزہ کے چہرے پر شادی کی تجویز سن کر خیالی سرخی دوڑ جاتی ہے۔ اسی طرح پورن چند کا حال ہوا۔ میرے تعجب کی انتہا نہ تھی لیکن میرا دل بےاختیار تھا۔ میں نے اپنا فقرہ پھر دوہرایا، ’’پورن چند! جانتے ہو تمہاری غیرحاضری میں میری کیا حالت ہوتی ہے۔‘‘

    پورن چند کو یکایک قوت گفتار مل گئی۔ سر جھکا کر بولے، ’’میرین، میں نے سنا تھا کہ ہندوستان کے مرد عورتیں ہیں اور امریکہ کی عورتیں مرد۔ آج اس کی تصدیق ہو گئی۔‘‘

    کیا پر لطف فقرہ تھا۔ اظہار دل کی خوبصورت تصویر۔ میرے بال بال میں مسرت کی لہر موجزن ہو گئی۔ جس طرح پھولوں میں شہد چھپا رہتا ہے۔ اسی طرح اس فقرے میں محبت کا اعتراف پوشیدہ تھا۔ کون کہتا ہے ہندوستانی بد تہذیب ہیں جو اظہار عشق کے خیال کو ایسے مہذبانہ الفاظ کا جامہ پہنا سکتے ہیں جو اپنے دل کی لگی کو کئی مہینوں تک اندر چھپا سکتے ہیں۔ ان کو بد تہذیب کہنا پر لے درجہ کی بےانصافی نہیں تو اور کیا ہے۔

    میں صوفہ پر بیٹھی تھی۔ بےتابانہ انداز سے کھڑی ہو گئی اور جوش سے کان میں پڑے ہوئے موتی کی مانند کانپتے ہوئے بولی، ’’تو تم مجھے چاہتے ہو۔۔۔ محبت کرتے ہو۔‘‘

    پورن چند کی آنکھوں میں مسرت کی چمک تھی لیکن وہ پاگل نہیں ہو گئے۔ ان کے بشرہ سے ظاہر ہوتا تھا کہ ان کے دل میں جذبات کا ہجوم برپا ہے لیکن انہوں نے اپنے آپ پر قابو رکھا اور متانت سے جواب دیا، ’’اس کا جواب میری آنکھوں سے پوچھو۔‘‘

    میں نے شرارت سے آگے بڑھ کر ان کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھا اور کہا، ’’وہاں تو میں بیٹھی ہوں۔‘‘

    ’’کہاں‘‘

    ’’تمہاری آنکھوں میں‘‘

    پورن چند نے میرے ہاتھ پکڑ لئے۔ اس وقت ان کا عضو عضو کانپ رہا تھا اور بولے ’’میرین! ڈیر! تم مجھ پر الزام لگا رہی ہو، جو کہتی ہو کہ تم صرف میری آنکھوں میں بس رہی ہو، اگر غور سے دیکھو تو میرے جسم کے ایک ایک ذرہ میں، میرے خون کے ایک ایک قطرہ میں، میرے خیال کی ایک ایک لہر میں تم موجود ہو۔ میرا تصور تک تمہاری نذر ہو چکا ہے۔ میرے خواب تمہاری زیارت کے لئے وقف ہیں۔ میرا آرام تمہاری یاد میں محو ہو گیا ہے۔‘‘

    جس طرح دریا کا باندھ کھل جانے سے پانی پرزور روانی سے بہنے لگتا ہے۔ اسی طرح پورن چند دیوانہ وار محبت کے اظہار میں بہہ گئے۔ اس وقت یہ محبت پر تقریر کرنے والا نوجوان اس پہلے خاموش، شرمیلے، سیدھے سادے پورن چند سے کس قدر دور، کس قدر مختلف تھا۔

    پورن چند بیٹھ گئے۔ اس وقت ان کا چہرہ پھر مطمئن ہو گیا۔ جیسے طوفان کے بعد سمندر ساکن ہو جاتا ہے۔ میں نے ان کی طرف دیکھا۔ انہوں نے میری طرف دیکھا۔ ان نظروں میں محبت کے دفتر پوشیدہ تھے۔ مجھ پر وجد کا عالم طاری تھا۔ میں اپنے آپ پر رشک کرتی تھی اور کہتی تھی کہ اس قسم کے نوجوان کی محبت جیت لینا بذاتہ ایک کامیابی ہے۔ ان ایام میں میرے ایکٹنگ کی دھوم مچ گئی۔ میں ایک جوش کی حالت میں اسٹیج پر آتی تھی اور لوگوں کے دلوں میں ہلچل مچا دیتی تھی۔ یہ ایام میری زندگی کے روشن تریں لمحے تھے جن کے مقابلے میں دنیا بھر کی نعمتیں نثار کی جا سکتی ہیں، میں جس جس شہر میں گئی۔ پورن چند میرے ہمراہ گئے۔ کبھی انہوں نے مجھ پر جادو کیا تھا۔ اب ان پر میرا جادو چل رہا تھا۔ وہ میرے حسن پر دیوانے ہو گئے اور اپنا وطن، مقصد، کام سب کچھ بھول بیٹھے، جس طرح بچہ اسکول میں جاتے وقت کوئی تماشہ دیکھ کر اسکول کا خیال بھول جاتا ہے۔ ان کے پاس روپے کی کمی نہ تھی۔ وہ اس طرح دریا دلی سے خرچ کرتے تھے گویا کہ وہ کروڑوں کے مالک ہوں اور بعد کے واقعات سے معلوم ہوا کہ میں غلطی پر نہ تھی۔

    اسی طرح کچھ سال گزر گئے۔ میرا زنانہ دل پورن چند سے اچاٹ ہو گیا۔ انہی ایام میں ایک نہائت دولت مند بڈھے سوداگر سے میرا تعارف ہوا۔ وہ دراصل امریکہ کا رہنے والا تھا۔ انگلستان میں کاروبار کے لئے آیا ہوا تھا۔ اب وہ کافی روپیہ کما کر واپسی کے ارادوں میں تھا۔ مجھے دیکھ کر وہ از خود رفتہ ہو گیا۔ میری نگاہ اس کے روپے پر پڑی۔ پورن چند کے پاس اب روپے کی کمی ہونے لگی تھی۔ میں نے اس دولت مند بڈھے کی طرف نظر کی اور امریکہ پہنچتے ہی اس سے شادی کر لی۔

    اس کے بعد میں نے اسٹیج چھوڑ دیا اور نیویارک میں امیرانہ شان و شکوہ سے زندگی گزارنے لگی، مگر پورن کی زندگی تلخ ہو گئی۔ انہیں مجھ سے اس تبدیلی کی امید نہ تھی۔ ایک دن میرے پاس آکر بولے، ’’مجھے یہ خیال نہ تھا کہ تم اس قدر بےوفا ثابت ہوگی۔‘‘

    میرے لئے یہ الفاظ ناقابل برداشت تھے۔ میں نے گرم ہو کر کہا، ’’تو کیا تمہارا یہ مطلب ہے کہ تم میری اپنی چھت کے نیچے میری توہین کرنے آئے ہو۔‘‘

    پورن چند بیٹھے تھے۔ یہ سن کر تیرکی مانند تن کر کھڑے ہو گئے اور آہستہ سے کہنے لگے، ’’تمہاری توہین کرنے کے لئے، نہیں میرین!تم غلطی پر ہو۔ دنیا میں کوئی بدترین سے بدتریں لفظ ایسا نہیں جو تمہاری توہین کے لئے استعمال کیا جا سکے۔ تم نے مجھے سے دغا نہیں کیا۔ فرض محبت و انسانیت اور عورت کی فطرت سے دغا کیا ہے۔ میرے دل میں امریکہ کی عظمت بیٹھی ہوئی تھی۔ تم نے اسے حرف غلط کی طرح مٹا دیا ہے۔ میرے دل میں عورت کا احترام تھا۔ تم نے اسے چھیل دیا ہے۔ میں سمجھتا تھا عورت کچھ نہیں چاہتی۔ صرف محبت چاہتی ہے۔ تم نے اپنی مثال سے ثابت کیا ہے کہ عورت سب کچھ چاہتی ہے لیکن محبت ہی نہین چاہتی۔ اس کے ہاتھ میں یہ آلہ ہے جس سے وہ مردوں کو بےوقوف بناتی ہے اور موقعہ پر اس طرح بدل جاتی ہے جس طرح وہ قطعی بے تعلق تھی۔ یہ خیال کم از کم امریکن عورتوں کے متعلق تم نے صحیح ثابت کر دیا ہے۔ ان کے بارے میں ہندوستان کے لئے تمہارا پیغام امریکن وقار کو لوگوں کی نظروں میں بہت کم کر دےگا۔‘‘

    مجھ پر ان میں سے کسی بات کا اثر نہ ہوا، لیکن آخری الفاظ پر شرم سے پانی پانی ہو گئی۔ امریکن عورت سب کچھ سہہ سکتی ہے لیکن یہ نہیں سہہ سکتی کہ وہ غدار ہے۔ اس نے ملکی وقار کو نیچے گرا دیا ہے۔ ان الفاظ سے میرے دل میں چھریاں چل گئیں۔ مجھ کو اس وقت اس قدر غصہ تھا کہ اگر ہاتھ میں پستول ہوتا تو پورن چند کو وہیں ڈھیر کر دیتی۔ پورن چند نے جب یہ الفاظ کہے تو ان کے چہرے پر انتشار نہ تھا۔ لیکن میں سن کر پاگل ہو گئی اور چلا کر بولی، ’’میرے مکان سے نکل جاؤ۔‘‘

    پورن چند نے متعجبانہ انداز سے میری طرف دیکھا۔ شائد ان کو خیال نہ تھا کہ انسان اتنا بھی کمینہ ہو سکتا ہے۔ اس وقت میرے بدن پر ان کے روپے سے خریدے ہوئے زیورات تھے۔ اگر وہ چاہتے تو ان کی جانب اشارہ کر کے ہی مجھے سر نگوں کر سکتے تھے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا اور چپ چاپ میرے مکان سے نکل گئے۔

    آٹھ دس ماہ گزر گئے۔ میں پورن کو بھول گئی۔ مجھے اتنا بھی خیال نہ رہا کہ میں نے ان کو صدمہ پہنچایا ہے۔ میرے ہندوستانی ناظرین حیران نہ ہوں۔ امریکن عورت کی فطرت ہی اس قسم کی ہے۔ وہ مرد کا دل توڑتی ہے اور بھول جاتی ہے۔ ایک دن بازار میں بھیڑ دیکھ کر میں ٹھہر گئی۔ وہاں ایک جوگی بیٹھا ہوا تھا۔ اس کے کپڑے گیروے تھے۔ سر پر لمبی لمی جٹائیں لیکن چہرہ اس قدر چمکتا تھا، جس طرح قناعت کی سلطنت میں روحانی سرور۔ وہ لوگوں کو اپدیش دے رہا تھا اور گیتا کا وہ حصہ سنا رہا تھا جس میں انسان کو اپنا فرض پورا کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ اس کی آواز شیریں تھی، الفاظ میں جادو۔ حاضرین بت بنے ہوئے سن رہے تھے۔ یکایک اس کی آنکھیں میری طرف اٹھیں۔ میرا کلیجہ سن سا ہو گیا۔ میرا دماغ پھٹنے لگا۔ مجھے روح کی گہرائی میں احساس ہوا کہ میں ان کا اپدیش سننے کے لائق نہیں۔ میں گھبرا کر بھیڑ سے نکل آئی اور گھر کو روانہ ہوئی۔ اس وقت میری نظروں میں پورن چند کی خوبیاں پھرنے لگیں۔ ان کی روشنی میں اپنی غلط کاریوں کا احساس ہوا۔ مقابلہ نے اصلیت پر روشنی ڈال دی۔ دوسرے دن میں نے تلاش کیا لیکن پورن چند کا پتہ نہ لگا۔

    انہیں ایام میں وہاں ایک ہندوستانی خاتون کے آنے کا غلغلہ ہوا۔ جسے فن موسیقی میں ردجہ کمال حاصل تھا۔ اخبارات نے اس کی تعریف میں اپنے کالم سیاہ کر دیئے تھے۔ وہ ایک ہندوستانی ساز بینا بجاتی تھی۔ اس کا گانا ہماری سمجھ میں نہ آتا تھا لیکن دل و دماغ پر جادو کی برکھا ہونے لگتی تھی۔ اس کی آوازمیں ایک خاص قسم کی مٹھاس تھی۔ جو دلوں کو پکڑ لیتی تھی۔ اس وقت تک میں یہی سمجھے بیٹھی تھی کہ موسیقی کے متعلق مغرب کا علم مکمل ترین ہے لیکن اس خاتون کے گانے نے اسے غلط قرار دے دیا۔ مجھے پہلی دفعہ معلوم ہوا کہ اس باب میں مغرب کو مشرق کی کئی صدیوں تک شاگردی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ جب میں پہلے پہل اس کا گنا سننے گئی تو گانا سننے کی غرض سے نہیں۔ محض دل بہلاوے کے خیال سے چلی گئی تھی لیکن وہاں جا کر میری آنکھیں کھل گئیں ایک ہندوستانی عورت اس قدر عمدگی سے گا سکےگی۔ اس کی مجھے امید نہ تھی لیکن اس کا گانا سن کر میں لٹو ہو گئی۔ اس میں ایکٹنگ نہ تھی۔ وہ جب گاتی تھی توآنکھیں نہ مٹکا تی تھی۔ نہ لوگوں کی طرف دیکھتی تھی، نہ اپنے اعضاء کو حرکت دیتی تھی۔ اس میں سنجیدگی کی ایک شان پائی جاتی تھی جو ہندوستانی عورتوں کے لئے ہی مخصوص ہے۔ مجھے اپنا اسٹیج ذلیل معلوم ہونے لگا۔

    دوسرے دن میں اس کے قیام گاہ پر پہنچی۔ اس نے مشرقی طریق کی سرگرمی سے میرا خیر مقدم کیا اور ایک کرسی پر بٹھا کر خود دوسری کرسی پر بیٹھ گئی۔ میری حیرت کا ٹھکانا نہ تھا۔ اس سے پہلی شب کو اسے دور سے دیکھا تھا۔ اب نزدیک سے دیکھا۔ وہ اس قدر خوب صورت، اتنی حسین تھی کہ میری آنکھیں جھپک گئیں۔ اس کے جسم پر کوئی زیور نہ تھا۔ کوئی تصنع نہ تھی لیکن پھر بھی شکل آنکھوں میں کھبی جاتی تھی۔ میں نے قدر دانی کے طور پر کہا، ’’رات آپ نے کمال کر دیا ہے۔‘‘

    ساوتری نے نہایت فصیح انگریزی میں پوچھا، ’’آپ بھی جلسہ میں تھیں، آپ کو میرا گانا پسند آیا۔‘‘

    ’’بہت اچھی طرح۔ آپ اس فن میں ماہر ہیں۔‘‘

    ’’یہ نہ کہئے۔ راگ ودیا سمندر ہے۔ اس کا پار کس نے پایا ہے۔‘‘

    ’’آپ نے‘‘

    ساوتری نے مسکرا کر کہا ’’میں تو ابھی طفل مکتب ہوں۔‘‘

    ’’یہ آپ کی مشرقی انکساری ہے۔ ورنہ میری رائے تو آپ کے متعلق نہایت بلند ہے۔‘‘

    ’’کیونکہ میں آپ کی مہمان ہوں۔‘‘

    ’’نہیں۔ اس لئے کہ آپ میں وہ چیز ہے جو سوتی ہوئی روحوں کو بیدار کر دیتی ہے۔‘‘

    ساوتری خاموش ہو گئی۔ بظاہر اس سے وہ ناخوش سی ہوئی۔ میں نے سمجھا یہ سب دکھاوا ہے لیکن بعد کے واقعات نے اسے غلط ثابت کیا۔ میں جوں جوں اس سے زیادہ ملتی گئی۔ اس کی قدر و منزلت میری نگاہوں میں بڑھتی گئی۔ یہاں تک کہ میرا دل اس کی پرستش کرنے لگا۔ اس کا سینہ روحانیت کا خزانہ تھا۔ دماغ عرفان کا سمندر، روپے سے اس کو چنداں لگاؤ نہ تھا۔ Performances سے جو آمدنی ہوتی تھی۔ اس کا حصہ کثیروہ خیرات کر دیتی تھی۔ اس کے ساتھ جو ملازم تھے۔ ان سے اس کا برتاؤ حقیقی بھائیوں کی مانند تھا۔ وہ مزاج کی چھچھوری نہ تھی۔ جو کچھ کہنا ہوتا مختصر طور پر کہتی، اس کی ان خوبیوں نے مجھے اپنا گرویدہ بنا لیا۔ وہ مجھے اس دنیا کی مخلوق معلوم نہ ہوتی تھی۔ وہ پھول کی مانند حسین اور قطرہ شبنم کی مانند پاکیزہ معلوم ہوتی تھی۔ دنیا کی آلائشوں سے بلند، دنیا کی مکاریوں سے پاک، ایک دن میں نے اس سے سوال کیا، ’’تمہارے یہاں آنے کا سبب کیا ہے۔ یہ تو معلوم نہ ہوا۔‘‘

    ساوتری کا چہرہ تبدیل ہو گیا۔ اس نے کوئی جواب نہ دیا۔

    میں نے پوچھا، ’’روپیہ کمانا‘‘

    ’’ہندوستانی عورت روپے کو ہیچ سمجھتی ہے۔‘‘

    ’’اپنے ہنر کی نمائش‘‘

    ’’یہ بھی اس کے لئے کوئی دل خوش کن امر نہیں۔‘‘

    ’’دنیا کی سیر‘‘

    ’’یہ بھی نہیں‘‘

    میں نے حیرت سے پوچھا، ’’پھر آپ کی اصلی غرض کیا ہے۔‘‘

    ساوتری آبدیدہ ہو گئی۔ اس کی خوب صورت پلکوں پر پائی کے قطرے لہریں مارنے لگے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا۔ میرے اس سوال سے اس کا زخم دل ہرا ہو گیا ہے۔ ساوتری بولی۔

    ’’بہن میں ایک خاص غرض سے یہاں آئی ہوں۔ کبھی موقعہ ملا تو تم سے اپنی داستان کہوں گی۔‘‘

    میں نے جواب دیا، ’’ابھی نہ کہہ دو، میرا دل اس کے لئے بہت بے چین ہو رہا ہے۔‘‘

    ساوتری اس قسم کی خاتون نہ تھی۔ جو بآسانی اپنی زندگی کے واقعات کسی کے روبرو رکھنے کو آمادہ ہو جاتی لیکن میرے ساتھ اس کے تعلقات نے اسے مجبور کر دیا۔ ٹھنڈی سانس بھر کر بولی، ’’ابھی سن لو‘‘

    میں ہمہ تن گوش ہوگئی۔ ساوتری نے کہنا شروع کیا۔

    اے بہن میں پنجاب دیش کے مشہور شہر امرتسر کی رہنے والی ہوں۔ یہ سکھوں کا ایک تواریخی شہر ہے۔ میرے والدین کے پاس جاگیریں نہیں تھیں لیکن ان کی حالت اس قسم کی ضرور تھی کہ عوام ان کا شمار امراء میں کرتے تھے۔ مجھے انہوں نے بڑے لاڈ و چاؤ سے پالا اور جب جوان ہوئی تو بیاہ کی تیاریاں شروع کر دیں مگر اس سے مجھے خوشی نہ ہوئی۔ وجہ یہ کہ میرے صفحۂ دل پر ایک تصویر نقش ہو چکی تھی اور میں نے تصفیہ کر لیا تھا کہ شادی کروں گی تو انہیں سے کروں گی ورنہ ساری عمر کنوارپنے میں گزار دوں گی۔ وہ اتنے خوبصورت، اتنے ذہین، اتنے شریف تھے کہ میں ان کی پوجا کرتی تھی۔ جہاں تک میرا خیال ہے۔ ایسا مرد سارے شہر میں نہ تھا۔ وہ اسی محلے کے رہنے والے تھے۔ جس میں میں رہتی تھی۔ بچپن میں ہم دونوں اکٹھے ہی کھیلا کرتے تھے۔ ہم نے کبھی زبان سے پیمان محبت نہیں باندھا تھا۔ کبھی شادی کا اقرار نہیں کیا تھا لیکن دونوں دلوں میں یہ محبت اس طرح حل ہو گئی تھی جس طرح دودھ میں مصری۔ ہم دونوں کو ایک دوسرے پر کامل اعتماد تھا اور یقین تھا کہ کوئی ایک دوسرے کو دھوکا نہیں دے سکتا۔

    ’’جب میری شادی کا تذکرہ شروع ہوا تو مجھے فکر پیدا ہوئی۔ چنانچہ میں نے ایک سہیلی کے ذریعہ اپنی ماں تک اپنا عندیہ پہنچا دیا۔ اس بات کا سننا تھا کہ میری ماں آگ بگولا ہو گئی اور مجھ سے سخت سست بولی۔ میں نے اسے صاف صاف الفاظ میں تمام بات کہہ دی۔ ہندوستانی لڑکی کے لئے یہ بات غیرمعمولی ہے۔ وہاں اسے بے حیائی سمجھا جاتا ہے۔ تاہم میں نے یہاں تک جانا بھی قبول کر لیا لیکن اس کچھ اثر نہ ہوا۔ میرے والدین ان کے ساتھ شادی کرنے کو رضا مند نہ ہوئے کیونکہ ان کی مالی حالت کچھ اچھی نہ تھی۔ شائد یہ بدقسمت ہندوستان ہی ایسا ملک ہے جہاں لڑکی کے لئے اپنے بیاہ میں رائے دینا گناہ عظیم ہے۔ میری آنکھوں مین جہان تاریک ہو گیا۔ آخر جب ہر طرف سے مایوسی دکھائی دی۔ تو ایک دن ہم دونوں گھر سے نکل بھاگے۔

    اے بہن! ہندوستانی معاشرت میں یہ محبت نہایت کمینہ اور ذلیل سمجھی جاتی ہے۔ وہاں اس قسم کی بات کو لوگ برداشت ہی نہیں کر سکتے۔ جو لڑکی گھر سے نکل آئے اس کے لئے ہندوستان میں کوئی عزت نہیں۔ سینکڑوں والدین اس شرمندگی سے بچنے کے لئے زہر پھانک لیتے ہیں۔ ہزاروں ندیوں میں کود پڑتے ہیں۔ ہزار چھریاں پیٹ میں بھونک لیتے ہیں۔ میں یہ سب کچھ جانتی تھی لیکن محبت نے مجھے پاگل بنا دیا تھا۔ میں یہ سمجھ نہیں سکتی تھی کہ میں اپنا دل اور یاد ایک شخص کو دے کر اپنا جسم دوسرے شخص کے حوالے کس طرح کر سکوں گی۔ اس کا علاج یہ ہو سکتا تھا کہ میں اپنے آپ کو قربان کر دوں لیکن جب ان کاخیال آتا تھا تو کلیجہ لرز جاتا تھا۔ اس لئے میں نے راہ فرار اختیار کی لیکن کئی ماہ تک طبیعت ٹھیک نہ ہوئی۔ وہ خود کئی ماہ تک سوتے سوتے چونک اٹھا کرتے تھے۔ ہم وید منتر دل کے ساتھ اگنی کے سامنے باقاعدہ شادی کر لی اور ہمالیہ کے دامن میں ایک چھونپڑا بنا کر رہنے لگے۔

    ہماری ضروریات مختصر تھیں۔ اس چھونپڑے میں رہتے ہوئے دو سال نکل گئے وہ زمانہ میری زندگی کی روشن تریں گھڑیاں تھیں۔ ہم پھل پھول کھاتے تھے۔ قدرتی مناظر دیکھتے تھے اور محبت کے پانسے کھیلتے تھے۔ ہماری زندگی کے یہ سال عیش و نشاط کے ایام تھے جس کو یاد کرکے اب بھی دل خون کے آنسو بہانے لگتا ہے۔ یہ شہر بڑا خوبصورت ہے لیکن ہمالہ کے اس جھونپڑے سے اس کو کوئی نسبت نہیں جو قناعت کی تصویر بنا ہوا اپنے زمانہ گزشتہ کے شاندار اور پرشکوہ عروج کو یاد کر رہا ہے۔ وہاں دن کو دھوپ کھلتی تھی۔ رات کو چاندنی، پہاڑ کی چوٹیاں دور تک اس طرح ایک دوسرے کے بعد بلند ہوتی گئی ہیں۔ گویا ان کا سلسلہ کبھی ختم ہی نہیں ہوتا۔ وہ نظارہ یاد آتے ہی اڑ کر وہاں پہنچ جانا چاہتی ہوں، جہاں ہماری زندگی ایک ایسی بہار تھی۔ جس نے خزاں کے جھونکے نہ دیکھے تھے۔

    ’’اے بہن! وہ مجھ پر جی جان سے فدا تھے۔ ہم دن رات محبت کی پیاسی نگاہوں سے ایک دوسرے کو دیکھتے رہتے تھے لیکن جی نہ تھکتا تھا۔ ہماری محبت کھلے آسمان کی طرح وسیع تھی جس کا کوئی خاتمہ دکھائی نہیں دیتا۔ پتھر کی طرح مضبوط تھی جس میں کوئی رخنہ نہیں ہوتا۔ میں اکثر سوچا کرتی تھی کہ اگر میں راہ فرار اختیار نہ کر لیتی تو یہ محبت کا آبِ حیات جس میں کوئی تلخی شامل نہیں مجھے کیسے میسر ہونا۔ ہمارے جھونپڑے کے قریب ہی تھوڑے فاصلے پر بنباسی رہتے تھے جو دنیوی تعلقات سے منہ موڑکر عاقب سنوارنے کی فکر میں عبادت کرتے تھے۔ وہ ہمیں دیکھ کر اس طرح خوش ہوتے تھے۔ جس طرح باپ بچوں کو۔ ہم ان کے آشیرباد کے تلے آرام سے زندگی کے دن گزارتے رہے۔

    دو سال گزر گئے۔ ہمارے جھونپڑے کی چھت اور دیواریں خستہ ہو گئیں، جس طرح آدمی کا جسم بڑھاپے میں خراب ہو جاتا ہے۔ ایک دن انہوں نے زمین کھودنی شروع کی تاکہ چھت اور دیواروں کی مرمت کر دی جائے۔ یہ کام انہوں نے پہلے نہ کیا تھا۔ ہاتھوں میں چھالے پڑ گئے۔ لیکن اس کے سوا چارہ نہ تھا۔ میں ان کی امداد کرتی تھی۔ لیکن میرے بنائے کچھ بنتا نہ تھا۔ پسینہ میں شرابور وہ زمین کھود رہے تھے کہ یکایک اچھل پڑے۔ میں دوڑتی ہوئی گئی اور خوشی سے دیوانہ وار جھومنے لگی۔ وہاں ایک دیگ تھی۔ جو اشرفیوں سے منہ تک بھری ہوئی تھی۔ انہوں نے انہوں نے احتیاطا چاروں طرف دیکھا اور مجھ کو کہا، ’’چپ‘‘

    ’’اے بہن! اگر یہ واقعہ شہر میں ہوتا تو شور مچ جاتا اور لوگوں کے ٹھٹ کے ٹھٹ جمع ہو جاتے لیکن وہاں ہمارے سوا کون تھا۔ ہم نے دیگ کو کھینچ کر باہر نکالا اور سوچنے لگے کہ اس روپیہ سے کیا کیا جائے۔ آخر صلاح ٹھر ی کہ اسے رفاہ عام کے کام میں خرچ کیا جائے۔ ہم احتیاط سے نیچے میدان میں لے آئے اور عمارتیں شروع کرا دیں۔ ایک سال کے اندر وہ اجاڑ جگہ ایک دل فزا بستی بن گئی۔ کہیں اناتھ آلے تھے کہیں ہسپتال۔ کہیں سرائیں۔ ہمارا محل اس شہر کے درمیان میں تھا اور اتنا خوبصورت کہ دیکھ کر طبیعت خوش ہو جاتی تھی۔ ہم گھر سے فقیر بن کر نکلے تھے۔ یہاں راج بھوگنے لگے۔ مجھے کوئی خاص کام نہ تھا لیکن وہ دن رات مصروف رہتے تھے۔ کہیں اناتھ آلے اور گئوشالے کا حساب آتا۔ کہیں لوگوں کے تنازعات۔ ان کو بسا اوقات روٹی کھانے کی بھی فرصت نہیں ملتی تھی۔ میری مسرت کا ٹھکانہ نہ تھا۔ مجھے ان پاکیزہ نظاروں سے روحانی حظ حاصل ہوتا تھا۔ گو اس روحانی حظ نے مجھ سے میرے خاوند کا بیشتر حصہ دوسروں کے لئے چھین لیا تھا۔

    ایک دن وہ بہت رات گئے محل میں آئے۔ دربان وغیرہ سب سو گئے تھے میں نے دوڑ کر محبت اور غصہ کی ملی جلی آواز میں پوچھا، ’’اتنی دیر کیوں کر دی۔‘‘

    انہوں نے مجھے پیار بھری نگاہوں سے دیکھ کر جواب دیا، ’’لڑکیوں کے لئے پاٹھ شالہ کی تجویز ہے۔ اس کے لئے اسکیم بنا رہے تھے۔

    ’’کل بنا لیتے‘‘

    ’’نہیں میں اسے جلد ختم کرنا چاہتا ہوں۔‘‘

    ’’اتنی جلدی کا ہے کی ہے۔‘‘

    انہوں نے پر معنی نگاہوں سے میری طرف دیکھا اور کہا، ’’تمہیں یہ بھی معلوم ہے ملک میں کیا ہو رہا ہے؟‘‘

    یہ 1907ء کی بات ہے۔

    میں نے بناوٹی غصہ سے جواب دیا، ’’کیا ہو رہا ہے۔ میں نہیں جانتی‘‘

    ’’دیش بھگتی کا زمانہ ہے، لیڈر قید ہو رہے ہیں۔‘‘

    ’’جانتی ہوں جو اخبار آپ نے منگوا دیا ہے۔ اس میں بڑی سخت سخت خبریں ہوتی ہیں۔‘‘

    ’’تو تمہارا بھی تو کچھ فرض ہے۔‘‘

    میں نے جواب میں پوچھا، ’’میرا کیا فرض ہے؟‘‘

    ’’ملک کے لئے کچھ قربانی کرو، کہو کروگی؟‘‘

    ’’کروں گی‘‘

    ’’کیا کروگی؟‘‘

    ’’اپنا سارا روپیہ قومی کاموں کے لئے دے دو۔‘‘

    ’’وہ تمہارا تھا کب۔ کیا معلوم کس کا دفینہ تھا۔ کوئی اپنی چیز دو۔‘‘

    ’’میرے اپنے پاس تو کچھ بھی نہں ک ہے۔‘‘

    ’’چند سال کے لئے مجھے دے دو۔‘‘

    میں چونک پڑی اور پیچھے ہٹ کر بولی، ’’یہ کیا کہتے ہو؟‘‘

    ’’قوم کو روپے کی ضرورت ہے اس میں شبہ نہیں لیکن روپے سے بھی زیادہ ضرورت ملک کو آدمیوں کی ہے۔ ایک محنتی آدمی لاکھوں روپے پیدا کر سکتا ہے لیکن لاکھوں روپے ایک آدمی کو نہیں بنا سکتے۔

    میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ میں نے روتے ہوئے کہا، ’’میرا دل کیسے مانےگا۔‘‘

    انہوں نے میراہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور حلوے سے زیادہ شیریں اور ریشم سے زیادہ نرم الفاظ میں بولے، ’’میں تمہیں ہمیشہ کے لئے تھوڑا کہتا ہوں، صرف چند سال کے لئے اجازت دے دو۔ میں ولایت جا کر قانون پڑھنا چاہتا ہوں‘‘

    ’’کیا اس کے بغیر ملکی خدمت نہیں ہو سکتی‘‘

    ’’ہو سکتی ہے لیکن ملک کو اس وقت قانون دانوں کی زیادہ ضرورت ہے، ذرا غور کر کے دیکھو۔ ملک کی خدمت کے میدان میں جتنے شہسوار نکلے ہوئے ہیں سب کے سب قانون داں ہیں۔‘‘

    میں نے جواب دیا، ’’پھر مجھے بھی ساتھ لے چلو‘‘

    ’’پگلی کہیں کی۔ کبھی ایسا ہو سکتا ہے۔‘‘

    ’’ہو کیوں نہیں سکتا۔ میں تمہیں وہاں پڑھنے سے روک تھوڑا ہی لوں گی۔‘‘

    اس پر انہوں نے لمبی چوڑی تقریر کی اور ملک کی دردناک حالت کا میرے سامنے فوٹو کھینچ دیا، لیکن میں نے رضامندی نہ دی۔ میرے دل میں درد وطن نہ ہو۔ یہ بات نہیں تھی۔ اگر مجھے کوئی کہتا کہ تمہارے سر دینے سے ہندوستان کا بھلا ہو سکتا ہے تو میں یقیناً اپنا سر اپنے ہاتھ سے کاٹ کر پھینک دیتی۔ لیکن ان کی جدائی مجھ سے برداشت نہ ہوتی تھی۔ میں اپنے انکار پر برابر جمی رہی لیکن انہوں نے بھی وہ ضد پکڑی کہ خاموش نہ ہوئے۔ یہاں تک کہ مجھے رضامندی دینی پڑی۔ پانی کے متواتر قطروں نے پتھر میں سوراخ کر دیا۔ اب جب سوچتی ہوں تو حیران ہوتی ہوں کہ اس وقت کیسے مان گئی۔

    ’’اے بہن جب وہ چلے گئے تو میں باولی سی ہو گئی۔ مجھے ایسا معلوم ہونے لگا گویا دنیا کی ہر ایک چیز تبدیل ہو گئی۔ سورج اب بھی چڑھتا تھا۔ چاند کی کرنیں میرے محل پر اب بھی کھیلتی تھیں۔ آسمان پر گھٹائیں اب بھی اٹھتی تھیں لیکن ان میں وہ سرور، وہ کشش، وہ موہنی نہ تھی۔ میں پچھتانے لگی کہ اس وقت کیوں مان لیا۔ بمبئی سے خط آیا۔ تمہاری یاد لئے جا رہا ہوں۔ پڑھ کر میرا دل رونے لگا۔ ولایت سے خط آیا۔ حوصلہ سے رہنا۔ میں جلد آ جاؤں گا۔ مگر مجھے حوصلہ نہ تھا۔ دن رونے میں کٹ جاتا، رات جاگنے میں۔ میری صحت خراب ہو گئی۔ گھبراکر لکھا مجھے وہیں بلا لو، میرا دل ہمیشہ اداس رہتا ہے۔ جواب آیا تھوڑا عرصہ اور طبیعت پر جبر کرو۔ ان خطوط میں ہمدردی، سوز اور محبت کے جذبات پوشیدہ تھے۔ ان کی آمد و رفت زندگی کا ذریعہ بن گئی۔ وہ اتنے خوبصورت ہیں لیکن مجھے ان پر کبھی شک نہیں ہوا، کیونکہ میں جانتی تھی کہ وہ شریف اور نیک دل ہیں کہ کسی عورت کی طرف نگاہ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے۔ وہ اسے بھی میری محبت کی امانت میں خیانت کرنا سمجھتے ہیں۔ جب وہ جانے لگے تو میری ایک سکھی نے کہا تھا کہ دنیا میں سب کچھ ہو سکتاہے لیکن یہ نہیں ہو سکتا۔ مگر کیا معلوم تھا کہ میری قسمت بھی پھوٹ جائےگی۔

    ’’دو سال ان کے خط برابر آتے رہے لیکن اس کے بعد ان کا سلسلہ منقطع ہو گیا۔ میں نے رو رو کر لکھا مجھے بن آئی موت نہ مار۔ تمہارے خطوط میرے لئے رام بان ہیں لیکن کوئی جواب نہ آیا۔‘‘

    ’’میں گھبرا گئی۔ دل میں ہزاروں قسم کے وسوسے پیدا ہوئے۔ تاریں دیں، آدمی بھیجے لیکن کوئی پتہ نہ لگا۔ اتنا معلوم ہوا کہ جہاں پڑھتے تھے۔ اب وہاں نہیں ہیں۔ لیکن کہاں ہیں، کیا کر رہے ہیں۔ اس کا کوئی پتہ نہ لگا۔ آخر میں نے اپنے دیوان کو انگلستان بھیجا کہ جا کر پورا پورا حال لکھو۔ یہ دیوان اپنے کام میں نہایت چابک دست اور ہوشیار تھا۔ مجھے اس پر پورا پورا بھروسہ تھا۔ اس نے جاکر کئی ماہ تک تحقیقات کرنے کے بعد لکھا کہ وہ ایک امریکن کمپنی کی ایکٹریس کے ساتھ امریکہ چلے گئے ہیں۔ مجھے ایسا معلوم ہوا۔ جیسے سانپ نے کاٹ کھایا ہو۔ کئی دن تک غش آتے رہے۔ میرے پاس روپے پیسہ کی کمی نہ تھی۔ نوکروں چاکروں کی پروا نہ تھی۔ مجھے کسی طرح کی تکلیف نہ تھی لیکن دل ہمیشہ روتا رہتا تھا۔ میں نے اپنے دیوان کو لکھا۔ امریکہ چلے جاؤ اور ان کی تلاش کرو۔ دیوان امریکہ چلا گیا اور کئی ماہ تک ان کی تلاش کرتا رہا۔ آخر اس نے مجھے اطلاع دی کہ اس عورت کی بےوفائی سے ان کا دل کھٹا ہو گیا ہے اور وہ سادھو ہو گئے ہیں۔ اس نے ہزاروں بار منتیں کیں۔ ہزار طرح سمجھایا لیکن انہوں نے ایک نہ سنی۔ برابر اپنی ضد بر اڑے رہے اور یہ ہی کہتے رہے کہ میں نے وہ گناہ کیا ہے کہ اب اپنی بیوی کو منہ نہیں دکھا سکتا۔ پرائشچت کروں گا۔ آخر میں نے اپنے بہی خواہوں کے صلاح مشورہ سے یہ فیصلہ کیا کہ خود امریکہ چلوں۔ جب ہم دامن ہمالہ کے جھونپڑے میں رہتے تھے۔ اس وقت میں گانے کی مشق کیا کرتی تھی، جسے وہ سن کر بے خود ہو جایا کرتے تھے اور جھومنے لگ جایا کرتے تھے۔ میں نے امریکہ میں آکر اس فن کے ذریعہ شہرت کی تلاش کا فیصلہ کیا کہ شاید اس طریق سے ان کا پتہ لگ جائے۔

    ’’مگر مجھے انگریزی نہ آتی تھی۔ میں رامائن مہابھارت پڑھنے والی۔ بھجن گانے والی، معمولی ہندو عورت، میرا دل متزلزل ہو گیا۔ جس طرح طوفان کے جھونکوں سے بعض وقت کشتی ہلنے لگتی ہے۔ تاہم میں نے انگریزی پڑھنا شروع کر دیا۔ دل میں لگن تھی۔ دماغ میں خیال، چند ماہ میں زبان کھل گئی اور میں انگریزی بولنے لگ گئی۔ کچھ ہچکچاہٹ تھی۔ وہ جہاز میں دور ہو گئی۔

    ’’اے بہن! یہاں آنے کا میرا اور کوئی مدعا نہیں۔ محض ان کی تلاش کرنا ہے۔ پرماتما جانے کامیابی ہوتی ہے یا نہیں۔‘‘

    یہ کہتے کہتے ساوتری کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔

    مجھے معلوم ہے ہو گیا کہ اس کے حسین چہرے پر اداسی کا رنگ کیوں لہراتا رہتا تھا۔ ہندوستانی عورت کے لئے اس کاخاوند ہی سب کچھ ہے۔ یہ میں کہانیوں میں سنتی تھی۔ کتابوں میں پڑھتی تھی لیکن یقین نہ آتا تھا۔ آج اس کی تصدیق ہو گئی۔ اسے اداس دیکھ کر میں کڑھا کرتی تھی مگر یہ خیال نہ تھا کہ اس کے دکھ کا باعث میں ہی ہوں گی۔ میرے دل پر کسی نے گرم انگارے رکھ دیئے۔ میں روتی ہوئی اٹھی اور اس کے قدموں سے لپٹ گئی۔ صید اور صیاد دونوں اکٹھے رونے لگے۔ میں نے روتے روتے اپنے گناہوں کا اعتراف کیا۔ ساوتری کی آنکھوں سے آگ کے شرارے نکلنے لگے۔ اس نے غصہ میں آکر مجھے دھکا دیا اور کہا، ’’پھر دوبارہ میرے سامنے نہ آنا۔‘‘

    یہ ذلت میرے لئے حد برداشت سے باہر تھی لیکن ساوتری کی داستان محبت اور حسن سلوک نے مجھ پر جادو کر دیا تھا۔ مجھے اس پر غصہ نہیں۔ اپنے آپ پر غصہ آ رہا تھا۔ ساوتری کی روحانیت نے امریکن مادہ پرستی کی خوفناک تصویر میرے سامنے رکھ دی۔ میں نے عزم مصمم کر لیا کہ پورن چند کا پتہ ڈھونڈھ نکالوں گی۔

    کئی ماہ گزر گئے۔ ساوتری مختلف شہروں میں ہو کر پھر نیویارک آ گئی۔ اس کی تعریف و ثنا سے اخبارات کے کالم بھرے ہوتے تھے لیکن اس کے خاوند کا پتہ نہ لگا۔ میں نے بھی اپنی سے پوری پوری کوشش کی، مگر ان کا سراغ نہ ملا۔ یہاں تک کہ میں اس طرف سے مایوس ہو گئی۔

    رات کا وقت تھا۔ میں آرام کی نیند سوئی تھی۔ یکایک شور سے آنکھ کھل گئی۔ دیکھا مکان پر آگ کے شعلے لپک رہے ہیں۔ میں تیر کی سی تیزی کے ساتھ نیچے اتر آئی۔ وہاں ہزاروں کا ہجوم تھا۔ پانی کا انجن آگ کو بجھانے کے لئے دریاالٹ رہا تھا لیکن آگ کے شعلے کسی طرح قابو میں نہ آتے تھے۔ وہ پانی کے اثر سے نکل نکل جاتے تھے۔ میرا سینہ دھڑکنے لگا۔

    یکایک خیال آیا میرا خاوند اوپر ہے۔ وہ رات کو ایک سخت قسم کی شراب استعمال کیا کرتا تھا جس کے نشہ سے بے سدھ پڑا ہوگا۔ میں نے چلا کر کہا ’’میرا خاوند‘‘

    اگر یہ واقعہ پہلے ہوتا تو مجھے خاوند کی پرواہ نہ ہوتی، لیکن ساوتری کی صحبت نے میرے خیالات کو تبدیل کر دیا تھا۔ اب میں سمجھ گئی تھی کہ خاوند بیوی کا تعلق جسمانی نہیں بلکہ روحانی ہوتا ہے۔ میں اب اسے روح کی پوری گہرائی سے چاہنے لگی تھی۔ وہ عمر میں مجھ سے بہت بڑا تھا اور میں نے شادی کرتے وقت محض اس کے روپے کا خیال کیا تھا مگر ساوتری نے مجھے سکھا دیا کہ خاوند کی محبت کیا چیز ہوتی ہے۔ اب میں اس کے روپے کو نہیں بلکہ اس کی ذات کو چاہتی تھی۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اسے موت کے منہ میں دیکھ کر میرے دل پر کیا بیتی ہوگی۔ میں نے خوف و ہراس سے چلا کر کہا ’’میرا خاوند‘‘!

    حاضرین سکتے میں آ گئے۔ ان کو یہ خیال نہ تھا کہ وہ ابھی اوپر رہ سکتا ہے۔ وہاں اس وقت تباہی برپا تھی۔ آگ محل کے کونے کونے میں جا چکی تھی اور جہاں نہ گئی تھی۔ وہاں تیزی سے جا رہی تھی اور اس کی موت کو لحظہ بہ لحظہ یقینی بنا رہی تھی۔ یہ نظارہ ہزاروں آدمی کھڑے دیکھ رہے تھے لیکن کسی کے قدموں کو جنبش نہ ہوتی تھی۔ میں نے چلاکر کہا، ’’میرا خاوند جو اسے بچائےگا، میں اسے دس ہزار ڈالر انعام دوں گی۔‘‘

    جو کام ہمدردی نہ کر سکتی تھی اسے لالچ نے کیا۔ بیسیوں آدمی آگے لیکن مکان کی پہلی منزل سے ہی لوٹ آئے۔ آگ کے شعلوں نے راستہ روک رکھا تھا۔ میری آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ میں نے دل ہی دل میں خدا کے آگے ہاتھ باندھے اور جلتے ہوئے محل کی طرف نگاہ کی۔ آگ اپنے پورے جوبن پر تھی۔ میں نے پھر چلاکر کہا، ’’میرا خاوند!‘‘

    حاضرین میں جنبش ہوئی۔ ایک آدمی آگے نکلا اور دیوانہ وار زینے پر چڑھ گیا۔ راستہ میں آگ پہرہ دے رہی تھی مگر وہ اسے چیرتا ہوا نکل گیا۔ آگ نے اپنی گرجتے ہوئے شعلوں سے اس کا تعاقت کیا، لیکن وہ پہنچ سے باہر جا چکا تھا۔ حاضرین نے تالیاں بجا کر داد شجاعت دی۔ میرا کلیجہ لبوں تک آ گیا۔

    اتنے میں دیکھا۔ وہ سایہ اوپر کی منزل پر جا پہنچا اور نگاہوں سے اوجھل ہو گیا۔ لوگوں نے پھر خوشی کے نعرے بلند کئے۔ بظاہر وہ کمرہ ڈھونڈھ رہا تھا لیکن بہت دیر تک اسے معلوم نہ ہوا۔ وہ ادھر ادھر دوڑ رہا تھا۔ ہزاروں آنکھیں اس طرف خوف اور ہمدردی کے ملے جلے جذبہ سے دیکھ رہی تھیں اور ہر لمحہ جو گزر رہا تھا، اس ہمدردی کی موت کو بھی نزدیک بلا رہا تھا۔

    اتنے میں محل کی پچھلی طرف سے ایک آدمی آتا دکھائی دیا۔ میری خوشی کا ٹھکانہ نہ تھا۔ یہ میرا خاوند تھا۔ میں دوڑ کر اس سے چمٹ گئی اور بولی، ’’تم کہاں تھے۔‘‘

    ’’پچھلی طرف‘‘

    میں نے متعجب ہو کر پوچھا، ’’کب اترے؟‘‘

    ’’بڑی دیر ہوئی‘‘

    میں نے اوپر نگاہ اٹھائی، وہ سایہ ادھر ادھر گھوم رہا تھا۔ میں نے چلاکر کہا، ’’نیچے اتر آؤ، اوپر کوئی نہیں ہے۔ وہ بچ گیا ہے۔‘‘

    ہزاروں آدمیوں نے میری آواز کو دوہرایا، ’’وہ بچ گیا ہے، تم نیچے اتر آؤ۔‘‘

    وہ تیزی سے نیچے اترنے لگا لیکن جلدی میں کسی چیز سے ٹھوکر کھا کر گر پڑا۔ ہزاروں آنکھوں نے یہ نظارہ دیکھا اور ہزاروں سینوں نے سرد آہیں بھریں، کیا وہ بچےگا؟

    بظاہر اس کی کوئی امید نہ تھی۔ آگ بڑھ رہی تھی تھی مگر ہو بے ہوش پڑا تھا۔ وقت ہاتھ سے جا رہا تھا۔ میرے خاوند کے چہرے پر پسینے کے قطرے ٹپکنے لگے۔ ہمارے ملازموں نے دو کرسیاں بچھا دیں۔ ہم بیٹھ کر بیتابی سے ے انجام ہمدردی کا یہ خوفناک تماشہ دیکھنے لگے۔ وہ ابھی تک چت لیتا ہوا تھا، لوگ دیوار کی طرح ساکن تھے۔ دنیا کے مہذب ترین ملک میں ایک ہمدرد آد می شعلوں کے درمیان لیٹا ہوا تھا اور کسی کو آگے برھنے کی ہمت نہ تھی۔

    یکایک ایک آدمی پیچھے سے بھیڑ کو چیرتا ہوا آگے بڑھا اور تیزی سے زینے چڑھ گیا۔ اس کی ٹانگوں میں بجلی کی سی طاقت تھی اور سینہ میں آہنی دل لوگوں کے منع کرتے کرتے وہ آگے بڑھ گیا اور موت کے جبڑوں میں گھس کر، دھوئیں کے بادل میں غائب ہو گیا۔ لوگوں کے دم رگ گئے۔ یکایک نعرہ مسرت بلند ہوا۔ وہ پھر دکھائی دے رہا تھا اور جلتے ہوئے تختوں کے اوپر سے گزر رہا تھا۔ یہ وقت بڑا نازک تھا۔ اگر کوئی تختہ جل کر ڈٹ جاتا تو اس کی موت یقینی تھی لیکن وہ بڑی احتیاط سے آگے بڑھ رہا تھا اور وہ پہلا آدمی، وہ ابھی تک بیہوش پڑا تھا۔

    جلتے ہوئے تختوں کے اوپر سے گزر کر وہ جان فروش آگے بڑھا۔ حاضرین کی دعائیں اس کے ساتھ تھیں۔ یکایک روشنی کا پورا عکس اس کے چہرہ پر پڑا۔ میرا کلیجہ دہل گیا وہ پورن چند تھے۔ جو ایک بےکس اور بے بس آدمی کو بچانے کی خاطر اپنی جان پر کھیل رہے تھے۔ ان کی خوبیاں میرے سامنے پھرنے لگیں، میں نے اضطراب انگیز لہجہ میں جواب دیا، ’’خدا کرے وہ بچ جائے۔‘‘

    میرے خاوند نے پوچھا، ’’کیا تم اسے جانتی ہو؟‘‘

    ’’بہت اچھی طرح سے‘‘

    ’’کون ہے؟‘‘

    ’’پورن چند‘‘

    میرا خاوند کرسی سے اچھل پڑا، ’’کیا وہی انڈین؟‘‘

    ’’ہاں وہی انڈین‘‘

    ’’تمہاری سہیلی، اس عجیب و غریب ہندوستانی گانے والی عورت کا شوہر؟ تمہارا اسی سے مطلب ہے؟‘‘

    ’’ہاں اسی سے‘‘

    ’’بڑا دلیر آدمی ہے، اس نے امریکنوں کی ناک کاٹ ڈالی ہے۔‘‘

    ’’وہ رہ نہیں سکتا۔ ہمدردی کا تو وہ پتلا ہے۔‘‘

    ’’خدا اس کی حفاظت کرے‘‘

    میں نے جوش سے جواب دیا، ’’وہ کرے گا، میری سہیلی ساوتری کی کوششیں رائیگاں نہیں جا سکتیں۔‘‘

    ’’آمین‘‘

    میں نے اوپر نگاہ کی۔ تو خوشی سے اچھل پڑی۔ پورن چند جھک کر اس آدمی کو اٹھا رہا رہے تھے۔ یہ کام چند لمحہ میں ختم ہو گیا اور پورن چند اس بیہوش جسم کو بازؤوں میں لئے ہوئے دھوئیں کے بادلوں اور آگ کے سیاہ و سرخ شعلوں میں گھس گئے۔ اس وقت چاروں طرف سناٹا چھایا ہوا تھا۔ لوگوں کے سانس تک رکے ہوئے تھے۔ اتنے میں وہ نچلی منزل پر پہنچ گئے۔ لوگوں کے نعرۂ مسرت سے آسمان ہل گیا۔ پورن چند تیزی سے نیچے اترنے لگے مگر راستہ میں موت بیٹھی ہوئی تھی۔ آگ کی آتشی زبانیں تختوں اور زینوں کو سانپوں کی مانند چاٹ چاٹ کر ان دونوں زندگیوں کا راستہ بند کر رہی تھیں مگر پورن چند ہراساں نہیں ہوئے۔ انہوں نے لبادے کو نل سے بھگو کر اپنے جسم سے کس کر باندھ لیا۔ سر کو لپیٹ لیا اور آگ کے شعلوں میں کود پڑے۔ لوگوں نے چلا کر کہا۔ خداوندا! اپنا فضل کر اس دلاور کو اپنے ہاتھ سے بچا اور نعرہ ختم نہ ہوا تھا کہ وہ خطرے سے باہر تھا۔ میں پاگلوں کی مانند آگے بڑھی۔ خوشی نے دوسرا وارا کیا۔ اس کی گود میں ساوتری تھی۔ میں فرط مسرت سے بیہوش ہوکر گر پڑی۔

    جب مجھے ہوش آیا تو میں نے اپنے آپ کو ایک ہوٹل میں پایا۔ مجھ سے ذرا فاصلے پر ساوتری آرام کرسی میں لیٹی ہوئی تھی اور پورن چند کے ساتھ آہستہ آہستہ باتیں کر رہی تھی۔ اس وقت اس کے چہرے پر مسرت کھیلتی تھی، میں نے دیوانہ وار آگے بڑھ کر کہا، ’’میں آپ دونوں سے معافی کی طلبگار ہوں‘‘

    ساوتری نے کھینچ کر مجھے گلے سے لگا لیا اور مسکرا کر بولی، ’’بہن اب اس تذکرہ کو جانے دو۔‘‘

    ’’لیکن مجھے چین نہیں آئےگا، جب تک تمہارے ہونٹوں سے نہ سن لوں گی کہ تم نے مجھے معاف کر دیا ہے۔‘‘

    ’’ساوتری نے سنجیدگی سے جواب دیا۔ میرا دل تمہاری طرف سے بالکل صاف ہے۔‘‘

    میرے سینہ سے کسی نے بوجھ ہٹا دیا مگر میں نے پھر بھی آنکھیں اوپر نہ اٹھائیں اور کہا، ’’ایک احسان اور کرو تو بڑی مہربانی ہو۔‘‘

    ساوتری نے مادرانہ شفقت کے ساتھ اپنا ہاتھ میرے کندھے پر رکھا اور پوچھا، ’’کیا‘‘؟

    ’’ان کو بھی کہو مجھے معاف کردیں۔ میں نے ان کو بہت تکلیف دی ہے۔‘‘

    پورن چند اس وقت اس طرح خاموش تھے، جیسے منہ میں زبان نہ ہو۔ میری درخواست سن کر بھی وہ کچھ نہ بولے اور چپ چاپ اپنی گھڑی کی زنجیر کے ساتھ کھیلتے رہے۔ ساوتری نے کہا، ’’سنتے ہو بہن میرین کیا کہہ رہی ہے؟‘‘

    ’’ہاں‘‘

    ’’پھر معاف کر دو نہ‘‘

    ’’اس کا کوئی قصور بھی ہو‘‘

    میں نے بات کاٹ کر کہا، ’’یہ بات مجھ سے متعلق ہے اور میں اسے خود تسلیم کرتی ہوں۔ میں تمہاری گنہگار ہوں‘‘

    پورن چند پھر خاموش تھے۔

    ساوتری نے کہا، ’’چلو اب کہہ دو۔ بیچاری کس قدر پشیمان ہو رہی ہے۔‘‘

    پورن چند بولے، ’’جہاں تک میر اخیال ہے۔ اس میں قصور سراسر میرا تھا۔ یہ کنواری تھی۔ امریکہ کی تہذیب میں پلی تھی۔ ناٹک کمپنی میں کام کرتی تھی۔ اس سے اس قسم کی حرکت ہو جانا باعث حیرت نہیں۔ تعجب تو یہ ہے کہ میری آنکھوں پر کیسے پردہ پڑ گیا جو میں اپنے ملک اپنے مذہب، اپنی قوم، اپنی تہذیب، اپنی روایات اور اپنی بیوی کے ساتھ دغا کرنے پر آمادہ ہو گیا۔ مجھے جب جب ہی یہ یاد آتا ہے سینے میں بھالے چبھ جاتے ہیں اور نگاہ اوپر نہیں اٹھتی۔ اسی لئے میں نے پرائشچت کرنے کی خاطر سادھو بننا منظور کیا تھا۔ اسی لئے لاکھوں روپیہ کا مالک ہونے کے باوجود میں نے ایک آفس میں کلرکی کا کام شروع کر دیا تھا۔ میں جانتا تھا کہ تم پر کیا گزری ہوگی لیکن یہ امید نہ تھی کہ تم یہاں تک پہنچ جاؤگی۔ اس وقت تک مجھے تمہاری محبت اور عقیدت پر ناز تھا۔ اب تمہاری قابلیت پر بھی فخر ہو گیا ہے لیکن میری نگاہوں میں جو ندامت ہے۔ وہ پتہ نہیں کبھی رفع ہو گی یا نہیں۔ باقی رہ گیا سوال میرین کا۔ اس کے متعلق میں سچے دل سے کہہ رہا ہوں کہ میرے دل میں غبار نہیں ہے۔ میں اسے معاف کرتا ہوں۔‘‘

    ساوتری کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اس نے پھرائی ہوئی آواز سے کہا، ’’یہ نہ کہو، تمہیں شرمندگی کی ضرورت نہیں۔ پرماتما نے میری لٹی ہوئی خوشی واپس دے دی ہے۔ میرے لئے یہی سب کچھ ہے۔‘‘

    مگر پورن چند اس پر قانع نہ ہوئے، بضد ہو کر بولے۔

    ’’نہیں تمہیں بھی مجھے معاف کرنا ہوگا۔ اس کے بغیر میرے دل کی ہلجل بند نہ ہوگی‘‘

    ساوتری نے جواب دیا، ’’یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ہندوستانی عورت کے ہونٹ اس کے کبھی عادی نہیں ہوئے۔‘‘

    ’’نہ ہوں مگر تمہیں یہ کہنا ہوگا‘‘

    ’’میں تو یہ کہہ سکتی ہوں کہ میرے دل میں کوئی میل نہیں ہے لیکن یہ نہیں کہہ سکتی کہ میں نے معاف کیا، میں اپنے آپ کواس کے قابل نہیں سمجھتی۔‘‘

    ’’مگر تمہیں کہنا ہوگا۔‘‘

    ساوتری کا چہرہ حیا سے سرخ ہو گیا۔ وہ بھاگ کر ساتھ کے کمرے میں جا چھپی۔ اس وقت میرے دل میں روحانی کیف کا عالم چھایا ہوا تھا۔ وہی ساوتری جس کی شہرت کے ڈنکے امریکہ کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک بج رہے تھے۔ اس وقت خاوند کے سامنے کم سمجھ بچے کی مانند شرما رہی تھی۔ میرے دل میں ہندوستان کی عظمت نے سر بلند کیا۔

    تھوڑے دنوں کے بعد وہ ہندوستان کو واپس لوٹ گئے۔ تو میرا دل اداس ہو گیا۔ جس طرح بچہ ماں سے بچھڑ کر اداس ہو جاتا ہے۔ مجھے ایسا معلوم ہونے لگا گویا میری کوئی چیز گم ہو گئی ہے۔ میرا خاوند ہر وقت ناز برداریاں کرنے میں اپنی تمام قوت صرف کر دیتا تھا لیکن میرے دل کا کنول ہمیشہ مرجھایا رہتا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہو اکہ میرا خاوند بھی بیمار رہنے لگااور چھ ماہ کے بعد مرگیا۔

    اس واقعہ نے میرے دل کو چور چور کر دیا اور میری تمام مسرت برباد ہو گئی۔ ساوتری نے اس پر مجھے ایک طول طویل خط لکھا۔ یہ خط کیا تھا۔ بےثباتی عالم پر ایک خوبصورت سرمن تھا۔ میرے دل کو کھویا ہوا قرار مل گیا۔ میں اسے سنبھال کر رکھنے لگی گویا کوئی قیمتی اور نایاب ہیرا ہو۔ اب بھی جب طبیعت میں انتشار پیدا ہوتا ہے تو یہ خط معجزے کاکام دیتا ہے۔

    آخر مجھ سے نہ رہا گیا۔ ساوتری اور پورن چند کی کوشش نے مجھے ہندوستان میں کھینچ لیا مگر یہاں آکر دل بیٹھ گیا۔ ان دونوں کا پتہ نہ تھا۔ میں ہمالیہ کے پہاڑوں پر پھری۔ میدانوں میں گھومی ہوں۔ تیرتھوں پر گئی ہوں لیکن ان کا کوئی پتہ نہیں لگا۔ میرا ارادہ تھا کہ اپنا تمام روپیہ ان کے حوالے کر دوں تاکہ وہ خیراتی کاموں میں صرف کر دیں۔ اس خیال سے اخبارات میں اشتہار دیئے لیکن پھر بھی کوئی نتیجہ نہ ہوا۔

    میں دامن ہمالہ میں گھومنے لگی۔ غیر ملک کی عورت ہونے کے باوجود جہاں جہاں سے میں گزری لوگوں نے میری دل کھول کر خاطر داریاں کیں۔ ان خاطر داریوں کو دیکھ کر جن میں ہمیشہ محبت سادگی اور عزت کے جذبات ملے ہوئے ہوتے ہیں۔ میرے دل میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ ہندوستان وہی ہندوستان ہے جس کے متعلق باہر ہزاروں طرح کی غلط بےبنیاد اور بیہودہ باتیں مشہور ہیں اور کی جا رہی ہیں۔ اگر میرے اختیار میں ہوتا تو ہندوستان کی روحانیت پر سے امریکہ اور فرانس کی پر شوکت و پرنمائش تہذیب کو تصدیق کر دیتی۔

    میں نے اپنا روپیہ بنک میں جمع کرا دیا اور اسے ہدایت کر دی کہ میری وفات کے بعد اسے ہندوستانی قوم پرستوں کے حوالے کر دیا جائے اور خود ہمالہ کے دامن میں گھومنے لگی۔ گھومتے گھومتے ایک دن ایک جھونپڑا دکھائی دیا۔ اسے دیکھ کر مجھے ایسا معلوم ہوا جیسے کوئی میری اپنی قیمتی شے مل گئی ہے۔ میرے پاس کوئی ثبوت نہیں لیکن میرا دل شہادت دیتا ہے کہ یہ وہی جھونپڑا ہے، جس میں ساوتری اور پورن چند نے اپنے ایام محبت بسر کئے تھے۔ یہاں کی آب و ہوا میں مجھے اطمینان قلب نصیب ہوتا ہے اور روح سرشار ہو جاتی ہے، جب صبح کے وقت میں خداوند کے حضور میں جھک کر دعا کرنے لگتی ہوں تو مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ یہاں سے بہت قریب ہے اور میری پرارتھنا کے ایک ایک لفظ کو کان لگا کر سن رہا ہے۔

    اس جھونپڑے کی رہائش سے مجھے اطمینان قلب مل گیا ہے، اب مجھے کوئی خواہش نہیں رہی۔ صرف یہ آرزو ہے کہ میری آخری ساعت اس سرزمین میں آئے۔ جس کو قدرت نے اپنی بیشمار فیاضیوں سے مالا مال کر رکھا ہے اور جس کو روحانیت نے اپنا مسکن بنایا ہے۔ میرا جسم اور اس کی ہڈیاں ہندوستان کی سرزمین میں پیوست ہوں اور اگلے جنم میں (کیوں کہ مجھے تناسخ پر اعتقاد ہے) مجھے ہندوستان کی پیدائش کا فخر حاصل ہو۔

    مأخذ:

    صبح وطن (Pg. 13)

    • مصنف: سدرشن
      • ناشر: پنجابی سٹیم پریس، لاہور
      • سن اشاعت: 1922

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے