Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کیلاش پربت

انور قمر

کیلاش پربت

انور قمر

MORE BYانور قمر

    کیوب ازم کے نمونے پر بنی یہ پندرہ منزلہ عمارت جو آپ دیکھ رہے ہیں، کیلاش چند جی کی ملکیت ہے۔ اس کے پہلے منزلہ پر خود کیلاش چند جی رہتے ہیں۔ دوسرے پر ان کا بڑا لڑکا اویناش، تیسرے پر ان کا چھوٹا لڑکا دنیش اور چوتھے پر ان کی لڑکی مادھوری، پانچویں منزلہ کیلاش چند جی نے اپنی دھرم پتنی آشا دیوی کے بھائی کے سپرد کر رکھا ہے۔ چھٹا منزلہ بھی آشادیوی کے کسی رشتہ دار کی تحویل میں ہے۔

    جس طرح ہر منزل کی تعمیر میں اینٹ، چونا، گارا اور اسٹیل کا استعمال ہوا ہے، بالکل اسی طرح اس خاندان کی اٹھان میں محنت، ریاضت، تپ اور فکر کارفرما رہی ہے۔ جس طرح عمارت کی ہرمنزل ایک دوسرے سے جداہوتے ہوئے بھی فرش اور چھت سے ملحق ہے۔ اسی طرح عمارت کی ہر منزل پر رہنے والی فیملی ایک دوسرے سے جدا ہوتے ہوئے بھی فرش اور چھت سے ملحق ہے۔ اسی طرح عمارت کی ہر منزل پر رہنے والی فیملی ایک دوسرے سے الگ ہونے کے باوجود بزنس کے مفاد اور کیلاش چند جی کی پالیسی سے بلا واسطہ جڑی ہوئی ہے۔

    عمارت کی ساتویں آٹھویں منزل پر کوئی نہیں رہتا۔ نویں دسویں پر بھی نہیں۔ گیارہویں بارہویں پر بھی نہیں اور تیرہویں چودھویں پر بھی نہیں۔

    لیکن پندرھویں منزل پر؟

    ہاں، کوئی رہتا ہے۔

    کون؟

    یہ میں ابھی آپ کو بتائے دیتا ہوں۔ لیکن۔۔۔ ذرا ٹھہریے۔

    عمارت کی ساتویں آٹھویں منزلیں کیوں خالی ہیں؟

    پہلے اس سوال کا جواب دے دوں۔

    کیلاش چند جی کے سورگواشی دادا سیٹھ کلیان جی اودے پور کے مہاراجہ گیان چند جی کے دیوان تھے۔ ان کی بڑی زمینیں، کوٹھیاں اور حویلیاں تھیں۔ بات کیا تھی؟ واقعہ کون سا پیش آیا تھا کہ مہاراجہ گیان چند جی نے اپنے معتبر دیوان کو شاہی دربار سے الگ کردیا؟ لیکن راجپوتوں میں ایک صفت ہے جو آج کل کے لحاظ سے عیب بن چکی ہے، ان کی دی ہوئی زبان! وہ جسے زبان دیتے ہیں اس سے کبھی نہیں پھرتے۔ کلیان چند جی شاہی دربار سے ضرور الگ کردیے گئے، لیکن ان کی جائیداد، ان کی زمین اور ان کا سرمایہ ان سے نہیں چھینا گیا۔

    کلیان چند جی نے تمام جائیداد کے پیسے کھرے کیے اور اپنے رشتہ داروں کو لے کر شمال کی طرف کوچ کرگئے۔

    بات طول پکڑتی جارہی ہے او رآپ اس پندرہویں منزل کے مکین کے بارے میں جاننے کو بے قرار ہوئے جارہے ہیں۔ تھوڑا صبر اور کیجیے۔ میں ابھی آپ کی تشویش دور کیے دیتا ہوں۔

    شہر لدھیانہ میں قیام پذیر ہونے کے بعد کلیان جی نے اُون کا کاروبار سنبھالا۔ ان کی ذاتی نگرانی میں کاروبار خوب پھلا پھولا۔ انہوں نے مزدوروں کو عام کر خنداروں سے زیادہ اجرت دی۔ ان کے سکھ دکھ میں شریک ہوئے۔ ان پر نگرانی کرنے والوں کو ہمیشہ تاکید کی کہ وہ اپنے ماتحتوں سے جبر سے کام نہ لیں۔ ان پر کسی قسم کی سختی نہ برتیں۔ کلیان چند جی کی یہ پالیسی بڑی کارگر ثابت ہوگئی۔ مزدور دن رات محنت مشقت کرتے رہے اور لگن سے کام کرتے رہے۔ نتیجہ کلیان چند جی کے سامنے چند سالوں ہی میں برآمد ہوا۔ ان کا مال ہندوستان کے کونے کونے میں تو کھپا ہی، عرب، ملایا، انڈونیشیا کے بازاروں میں بھی ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔

    ان ایشیائی ملکوں کے دورے پر تو انہیں جانا ہی پڑتا تھا، پر وہ کبھی کبھار مغربی ملکوں کے بازاروں میں بھی گھوم آتے تھے۔ چونکہ شاہی دربار سے متعلق رہ چکے تھے اس لیے شاہی مزاج ان کی شخصیت کا ایک عنصر بن چکا تھا۔ وہ جس ملک کے دورے سے واپس ہوتے، بطور یادگار چند چیزیں اپنے ساتھ ضرور لیتے آتے۔ عمارت کی ساتویں اور آٹھویں منزل پر وہی چیزیں محفوظ کردی گئی تھیں۔ دستی گھڑیوں سے لے کر قدآدم کے برابر کلاکس (CLOCKS)، ہاتھی دانت کے بنے پائپ سے لے کر سہ رنگی آبنوس کے پائپ، ماچس کی ڈبیہ جتنے فانوس سے لے کر لال قلعہ کے سب سے بڑے فانوس کے برابر فانوس، سیکڑوں قسم کے جوتے، واکنگ اسٹیکس (WALKING STICKS) بے شمار رنگین پتھر، بیسیوں قسم کی تلواریں، سیکڑوں طرز کے خنجر، بے مثال پینٹنگس، لاجواب دستکاری کے نمونے اور کئی مخطوطے، ان میں شامل تھے۔

    چند منٹ اور۔ پھر میں آپ کو بتادوں گا کہ پندرہویں منزل پر کون مقیم ہے؟ یقین جانیے کہ آپ کو اس کے متعلق جان کر مایوسی نہیں ہوگی۔ اور میں اپنے کوٹ کی آستین میں سے خرگوش نکال کر دکھانے کاعادی نہیں ہوں اور نہ مافوق الفطرت باتیں کرنے کامجھے خبط ہے۔

    نویں دسویں گیارہویں اور بارہویں منزل بھی اسی قسم کے نوادرات سے پر ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ان منزلوں کے نوادرات کلیان چند جی نے نہیں بلکہ ان کے دو بیٹوں نے جمع کیے ہیں۔ بڑے نے کم اور چھوٹے نے زیادہ۔ سگریٹ کے ٹن، ماچس کی ڈبیاں، قلم، شراب کی بوتلیں، اور پتہ نہیں کیا کیا چھوٹی بڑی، معمولی اور غیرمعمولی چیزیں وہاں اکٹھا کی گئی ہیں۔ تیرہویں منزل میوزیم نہ بن پائی، بلکہ لائبریری بن چکی ہے۔ اس کا سہرا کیلاش چند جی کے سر ہے۔

    انہوں نے کتابوں کو ہر چیز پر فوقیت دی۔ ویسے ان کے بزنس کی گدی سنبھالتے ہی سیاسی و سماجی اتھل پتھل زیادہ ہوئی۔ سال بھی تو ۴۷ء کا تھا۔ وہ تو انہیں کا دم خم تھا جو اپنی نیا پار لگا گئے۔ ورنہ کوئی اور ہوتا تو نوادرات بھی نیلام ہوگئے ہوتے اور پھر سوشلزم کا منحوس نعرہ بھی انہیں کے کانوں کو سننا پڑا۔ طبقاتی کشمکش کی جنگ بھی انہیں کو دیکھنی پڑی۔ انہیں ہر بار کھٹکا لگا رہا کہ چھوٹی چھوٹی ننھی ننھی مچھلیاں بڑی مچھلیوں کی غذا بننے کی بجائے انہیں نہ چٹ کرجائیں۔

    انہیں اچھے دن دیکھنا نصیب تھا، اس لیے وہ عبوری دور ثابت ہوا۔ انہوں نے حفظِ ماتقدم کے طور پر اپنے قلعے کے گرد گہری خندق کھدوادی۔ اس قلعہ کی ہر مربع انچ دیوار پر فولاد کی چادر منڈھ دی۔ انہوں نے اپنے محافظوں کو حکم دے دیا کہ جب کبھی جہاں کہیں کوئی چیونٹی قلعہ کی طرف آنکھ اٹھاکر دیکھے، توپ کا دہانہ کھل جائے۔ خندقیں پر کردی جائیں۔ اور پھر چیونٹی میں جرأت اور حوصلہ پیدا ہوجانے کی وجہ معلوم کی جائے اور اس جیسی تمام کمینہ خصلت چیونٹیوں کے وجود کو بارود سے اڑادیا جائے۔

    جب کوئی تقریب ہوتی، مہمانوں کی تواضع چودھویں منزل پر کی جاتی۔ اس منزل کی خاصیت یہ تھی کہ اس کی چاردیواری سلائیڈنگ گلاس (SLIDING GLASS) کی بنی ہوئی تھی۔ مہمان جب اس منزل پر قدم رکھتے تو مغرب میں دور تک پھیلے ہوئے سمندر کو، مشرق میں عمارتوں کے سلسلہ کو، جنوب میں چھاؤنی کو اور شمال میں ہینگنگ گارڈن (HANGING GARDEN) کو بھی کیلاش چند جی کی ملکیت سمجھتے۔

    کیلاش چند جی ململ کی دھوتی اور ریشم کے کرتے میں ملبوس شہابی وہسکی کا نازک سا جام تھامے اونچی مسند پر بیٹھے سرمحفل اپنے آدرنیہ دادا اور پوجیہ پتا کا حال سناتے۔ ان کی دھرم پتنی مہمانوں کے بیچ ہندوستان کی کلاسیکل عورت کے روپ میں پیش ہوتیں۔ وہ ٹھیٹ ہندو رسم و رواج کے مطابق اپنا بناؤ سنگھار کرتیں۔ کھانے اکثر اپنے ہاتھوں سے پکاتیں اور پکاتے پکاتے اپنی بہوؤں اور بیٹیوں کو کوستی رہتیں کہ وہ مغرب زادیاں ہوگئی ہیں۔ اپنا مان سمان گنوا بیٹھی ہیں۔ انہیں نہ اپنے گھر کی فکر ہے نہ اپنے خاوند کی اور نہ اپنے بچوں کی۔ بس پارٹیاں ہی پارٹیاں۔ عیش ہی عیش۔

    اور ان کے لڑکے کونوں کتھروں میں دبکے شراب کے گھونٹ اور سگریٹ کے کش لگاتے رہتے اور ان کا ہاتھ کسی گل بدن کی کمر کے گرد حمایل ہوتا۔ ان کی بیویاں اپنے مہمانوں کی تواضع میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھتیں۔ پلیٹوں میں ملائی کوفتے سرو (SERVE) کرتے کرتے ان کا آنچل اکثر ڈھلک جاتا اور چاند سورج بھی بھی مہمانوں کی پلیٹ میں آنے کو لپک پڑتے۔

    کیلاش پربت میں آج بھی یہی ہو رہا ہے۔ شہر کے بڑے بڑے بزنس مین، عوام کے ٹیکسوں پر پلنے والے بڑے بڑے نیتا، ان کی بیویاں، ان کی لڑکیاں اس تقریب میں شریک ہیں۔ وہاں آئے ہوئے ہر مہمان کو یہی محسوس ہو رہا ہے کہ وہ واقعی کیلاش پربت کی کسی موڈرن طرز پر بنی گپھا میں بیٹھے ہیں، جہاں کے مناظر بھی حرارت بخش ہیں۔ جہاں سوسالہ پرانی مدیرا شبنمی پیالوں میں اپسراؤں کا روپ دھارن کرلیتی ہے اور حلق سے اترتے ہی زبان سے کلیجے تک کہکشاں گراتی چلی جاتی ہے اور جہاں کی مسندیں عورت کے پہلو کی طرح نرم اور گرم ہیں اور جہاں کھانا اپنے روایتی طرز پر سوفیصدی درست پکتا ہے اور بھاپ میں اپنی خوشبو اڑاتا جب نتھنوں میں پہنچتا ہے تو پل بھر کے لیے ذہن کے کروڑوں میل دور واقع گوشہ سے آواز آتی ہے،

    ’’میں کہاں ہوں؟ میں کہاں ہوں؟‘‘

    ’’کیا یہ سورگ ہے؟ کیا یہ سورگ ہے؟‘‘

    کیلاش چند جی کا چہرہ آج کچھ اس طرح دمک رہا ہے کہ جس طرح چودھویں کا چاند مشرق سے طلوع ہو رہا ہے۔

    وہ اپنے دوستوں، ساتھیوں، رفیقوں، چہیتوں اور عزیزوں سے بار بار کہہ رہے ہیں،

    ’’لیجیے اور لیجیے۔ خوب پیجیے۔ مدہوش ہوجائیے۔ ہاں سرکار آپ بھی۔ آپ بھی۔ بڑے دنوں بعد درشن دیے ہیں آپ نے۔ کیا فرمایا؟ اجی، یہ غریب خانہ آپ ہی کا ہے۔ جب جی چاہے چلے آئیے۔ لیجیے۔ ویٹر۔۔۔ صاحب کے لیے۔ اور مسز کا پڑیہ آپ زیادہ چہک رہی ہیں، کم پی رہی ہیں۔ یہ رہا آپ کا گلاس، خالی کیجیے۔ بس جلدی سے۔ شاباش۔ کہیے راؤ صاحب، آپ کیا فرما رہے تھے؟ ہاں، ہاں، ویت نام کے متعلق، خوب صاحب میں بھی کچھ اسی موضوع پر سننے اور سنانے کے موڈ میں ہوں۔ خیر اب آپ خاموش ہی ہوگئے ہیں تو مجھے بولنا ہی پڑے گا۔ آج میں آپ سبھوں کو ایک خوش خبری سناؤں گا، آئیے نا آگے آجائیے۔ اور قریب، اور قریب۔‘‘

    وہ ایک دوسرے کے اتنے قریب ہوگئے کہ ان کے جسموں پر لگی مختلف خوشبویں کسی گلدستہ کی ملی جلی خوشبو کی مانند ہوگئیں۔

    ہلکے ہلکے قہقہہ بلند ہورہے تھے۔ بات چیت بھی جاری تھی کہ کیلاش چند جی بولے، ’’میرے دوستوں اور عزیزوں، مجھے بڑی چاہ تھی کہ آپ میں سے کوئی آکر مجھ سے یہ پوچھتا کہ آج کی یہ تقریب کس سلسلہ کی ہے؟‘‘

    ’’آپ کی شادی کی سلور جوبلی؟‘‘

    ’’نہیں۔‘‘

    ’’آپ کی گولڈن جوبلی سال گرہ؟‘‘

    ’’نہیں۔‘‘

    ’’آپ کے بزنس کا ایکسپانشنEXPANSION؟‘‘

    ’’نہیں۔‘‘

    ’’آپ کے پریوار کے کسی فرد کا کوئی کارنامہ؟‘‘

    ’’نہیں۔‘‘

    ’’سکم بھارت کی ایک ریاست بن گیا؟‘‘

    ’’آپ کچھ کچھ قریب آرہے ہیں شریمان جی۔‘‘

    یہ سنتے ہی محفل قہقہہ زار بن گئی۔

    ’’جنوبی ویت نام پر پرنس سیہانوک کا قبضہ؟‘‘

    ’’آپ تو بہت ہی قریب آگئی ہیں مس شیلا۔‘‘

    ’’کیلاش جی آپ اپنی بات اپنے تک ہی رکھیے۔ مجھے صرف یہ بتائیے کہ کیا آپ کو جنوبی ویت نام سے ہمدردی ہے؟‘‘

    ’’ہمدردی؟ مجھے تو ان سے دلی ہمدردی ہے، کماری شیلا۔‘‘

    شیلا جذباتی ہوکر بولی، ’’تو کیلاش جی آپ اس سلسلہ میں کیا کر رہے ہیں؟‘‘

    ’’کیا کر رہے ہیں؟‘‘

    ’’میرا مطلب ہے کہ کیا آپ نے ریڈ کراس سوسائٹی کو کوئی ڈونیشن دیا؟‘‘

    ’’ضرور دیا ہے اور اتنا دیا ہے کہ اس رقم کا انکشاف کردوں تو انکم ٹیکس کے افسران مجھے پریشانیوں میں مبتلا کردیں گے۔‘‘

    قہقہہ۔

    ’’دیکھیے صاحبان، مس شیلا نے مجھ سے بڑے دلچسپ سوالات پوچھے اور میں نے ان کے جوابات بھی دیے۔ لیکن مس شیلا کے لیے، آپ کے لیے اور اپنے لیے میں ان سوالوں اور جوابوں سے بھی زیادہ دلچسپی کا سامان رکھتا ہوں، پوچھیے کیا؟‘‘

    ’’کیا؟‘‘ سبھوں نے ایک زبان ہوکر پوچھا۔

    ’’آئیے میرے ساتھ۔ میں آپ کو تھوڑی سی تکلیف دوں گا۔ لیکن یہ تکلیف تھوڑی ہی دیر میں راحت میں بدل جائے گی۔ آپ خوش ہوجائیں گے کیلاش چند نے ہمیں کیا انوکھی چیز دکھائی ہے۔‘‘

    یہ کہہ کر کیلاش چند جی سیڑھیوں کی طرف چل دیے اور ان کے پیچھے تمام لوگ۔ وہ پندرہویں منزل کے آخری زینے پر آکر رک گئے اور نیچے کھڑے ہوئے لوگوں سے مخاطب ہوکر بولے، ’’آپ ہمیشہ مجھ کو ٹوکا کرتے تھے کہ میں اپنے آدرنیہ دادا اور پوجیہ پتا کا سا شوق نہیں رکھتا۔‘‘

    ’’درست ہے! RIGHT YOU ARE‘‘ سب ایک ساتھ بولے۔

    ’’لیکن مجھے ماچس کی ڈبیوں، شراب کی بوتلوں، سگریٹ کے ڈبوں، چھڑیوں، قلموں، فانوسوں، جوتوں اور پتھروں سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ’کیلاش پربت‘ کی نویں، دسویں، گیارہویں اور بارہویں منزلوں پر کی چیزیں اگر سلامت رہیں تو کافی ہے۔ آج ان کی اہمیت کم ہے کیونکہ وہ بے جان چیزیں ہیں۔ آج جاندار چیزوں کی قدر ہے جیسے تیندوا، سانپ، مگرمچھ وغیرہ وغیرہ۔ آپ انہیں اپنے گھر میں رکھیے۔ انھیں پالیے۔ انہیں ٹیمTAME کیجیے۔ پھر انہیں اپنے دوستوں کو دکھائیے۔ پالتو کتے اور پالتو بلیاں اب کسی دلچسپی کی حامل نہ رہیں۔ خوں خوار اور زہریلے جانوروں ہی کو پالنا آج سب سے بڑا ہنر اور فن ہے۔‘‘

    سبھوں کو جیسے سانپ سونگھ گیا۔

    سبھوں کی پیشانیوں پر پسینے کی بوندیں نمودار ہوگئیں۔ سبھوں نے ا پنے گلے میں خشکی محسوس کی۔ سبھوں نے کیلاش چند جی کو دل ہی دل گالیاں دیں کہ سور، حرام زادے نے سارا مزہ کرکرا کردیا۔ اب ہمیں کٹہروں اور پنجروں میں قید یا بالکل آزاد وحشی اور زہریلے جانوروں کا دیدار کرانے لے جارہا ہے۔

    سالا۔ اس کاایستھیٹیک سینس(AESTHETIC SENSE) مارا گیا ہے۔ اس کی عقل سٹھیا گئی ہے۔

    ’’تو میرے ساتھیو! یہ منزل اب کبھی خالی نہیں رہے گی۔ اس میں میں نے ایک نادر چیز لاکر رکھی ہے۔ آئندہ جب کبھی آپ اپنے دوستوں، محبوبوں اور یاروں کو میرا میوزیم دیکھنے بھیجیں تو ان سے یہ ضرور کہیے گا کہ وہ اپنے ساتھ کسی چائینیز ہوٹل سے ابلے ہوئے چاول اور قیمہ ضرور خرید کر لیتے آئیں۔‘‘

    ’’لیجیے صاحب، یہ رہا کیلاش پربت کاسب سے قیمتی نادر۔۔۔‘‘

    ہال کا بلند و بالا دروازہ کھلا۔ ہال میں ہزاروں غبارے، بے شمار رنگین فیتے، سیکڑوں کھلونے بکھرے پڑے تھے۔ عین وسط میں ایک قالین بچھا ہوا تھا، اس پر ایک ربر فوم کا میٹریس، جس پر نرم تکیہ اور غیر شکن آلودہ چادر پڑی تھی۔

    وہاں کوئی موجود نہ تھا۔

    البتہ کمروں کے آخری کونے میں ایک ویتنامی بچہ سکڑا سمٹا اکڑوں بیٹھا خوفزدہ نظروں سے انہیں دیکھ رہا تھا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے