کہانی کی کہانی
’’یہ ایک ایسے لاولد جوڑے کی کہانی ہے، جو ایک دوسرے کا سکھ دکھ بانٹتے ہوئے زندگی گزارتے ہیں۔ لیکن ان کے دل میں اولاد نہ ہونے کا دکھ ہمیشہ ستاتا رہتا ہے۔ ایک روز اچانک ان کے آنگن میں ایک بیر کا پیڑ اگ آتا ہے اور وہ دونوں اس کو اپنے بچے کی طرح پالتے ہیں۔ درخت پر جب پھل آتا ہے تو وہ خود کھانے کے بجائے گاؤں میں بانٹتے رہتے ہیں۔ ایک بار جب وہ گاؤں ایک ٹھاکر کے یہاں بیر دینا بھول جاتے ہیں تو غصے میں آکر ٹھاکر اس بیر کے پیڑ کو کاٹ دیتا ہے۔‘‘
قریب ڈیڑھ سو سال کا عرصہ گزر چکا ہے، مگر دیوی سلکھی کا نام آج بھی زندہ ہے۔ گورداسپور کے ضلع میں کڑیالہ نام کا ایک چھوٹا سا گاؤں ہے، جہاں زیادہ تر آبادی ہندو جاٹوں کی ہے۔ وہاں آپ کسی سے پوچھیں، وہ آپ کو دیوی سلکھی کی سمادھ کا پتہ بتا دےگا۔ اس پر ہر سال میلہ لگتا ہے۔ عورتیں رنگ برنگ کے کپڑے پہن کر آتی ہیں اور اس پر گھی کے دئے جلاتی ہیں۔ جب بیر پکتے ہیں، تو سب سے پہلے بیر دیوی سلکھی کے سمادھ پر چڑہائے جاتے ہیں۔ اس کے بعد لوگ کھاتے ہیں۔ کیا مجال ہے کہ اس سمادھ پر بیر چڑھائے بغیر کوئی بیر کو منہ بھی لگا جائے۔ دیوالی کی رات کو لوگ پہلے یہاں چراغ جلاتے ہیں۔ اس کے بعد اپنے گھر میں جلاتے ہیں۔
کسی میں اتنی جرأت نہیں کہ دیوی سلکھی کی سمادھ کو روشن کئے بغیراپنے گھر میں روشنی کر جائے۔ بیاہ کے بعد بہوئیں پہلے یہاں آ کر اظہار عقیدت کرتی ہیں۔ اس کے بعد سسرال میں قدم رکھتی ہیں۔ کسی میں ہمت نہیں کہ اس ریت کو توڑ جائے۔ دیوی کی سمادھ گاؤں کے وسط میں ہے اس کے اوپر عقیدتمندوں نے سنگ مرمر کی ایک چھت بنا دی ہے۔ اس چھت کے اوپر ایک جھنڈا لہراتا ہے، جو دور دور سے نظر آتا ہے۔ دیوی سلکھی نے کوئی ملک فتح نہیں کیا، نہ کوئی سلطنت قائم کی۔ نہ اس میں کوئی ایسی ناقابل فہم روحانی طاقتیں تھیں۔ جو لوگوں کے دلوں کو پکڑ لیتیں۔ نہ اس نے رفاہِ عام کی خاطر کوئی قربانی کی۔ وہ ایک غریب ان پڑھ سدں ھی سادی مگر ستونتی براہمن لڑکی تھی جو ایک ناعاقبت اندیش، جاہل جاٹ کے غیض و غضب کا شکار ہو گئی۔ اس نے اپنے شوہر سے جو عہد کیا تھا۔ وہ اس پر اٹل رہی۔ وہ شہید وفا بھی تھی۔ مظلوم بھی تھی، معصوم بھی تھی اور یہی وہ بات ہے۔ جس نے اسے اس قدر عرصہ گذر چکنے کے بعد بھی گاؤں میں جیتی جاگتی طاقت بنا رکھا ہے۔ ہندو دیوی دیوتاؤں کی پوجا کرتے ہیں۔ مسلمان پیروں فقیروں کو مانتے ہیں لیکن دیوی سلکھی کی حکومت میں مذہب و ملت کا یہ امتیاز بھی نہیں ہے۔ اس کی حکمرانی ہندو مسلمان دونوں کے دلوں پر ہے۔
دیوی سلکھی اسی گاؤں کے ایک غریب براہمن جے چند کی بیوی تھی۔ جے چند کے گھر میں کوئی بھی نہ تھا۔ نہ ماں نہ باپ۔ نہ بہن نہ بھائی۔ دونوں خاوند بیوی تھے۔ کوئی بال بچہ بھی نہ تھا۔ چند سال علاج معالجہ کرتے رہے لیکن جب تمام کوششیں بےثمر ثابت ہوئیں تو قسمت پر شاکر ہو کر بیٹھ رہے۔ اس زمانہ میں براہمن لوگ عام طور پر ملازمت وغیرہ نہ کرتے تھے۔ نہ روپیہ میں اس وقت ایسی دلکشی تھی۔ نہ لوگ اس جنس کو جنس نایاب سمجھ کر اس کے حصول کے لئے بیتاب رہتے تھے، تھوڑے ہی میں گزر ہو جاتا تھا۔ ایک کماتا تھا، دس کھا لیتے تھے۔ آج وہ زمانہ کہاں؟ دس کمانے والے ہوں ایک بیکار کو نہیں کھلا سکتے۔ سارے سارے دن پوجا پاٹ میں لگے رہتے تھے۔ کھانے پینے کو جاٹ ججمانوں کے ہاں سے آ جاتا تھا۔ دونوں کو کسی قسم کا فکر نہ تھا۔ البتہ اپنی بےاولادی پر اکثر کڑھا کرنے تھے۔ اگر ایک بھی بچہ ہو جاتا تو دونوں بہل جاتے۔ ان کی زندگیاں شیریں، منور پررونق ہو جاتیں۔ ان کو کوئی مشغلہ مل جاتا۔ اب ایسا معلوم ہوتا تھا، جیسے ان کا گھر سونا سونا ہے۔ جیسے ان کے لئے دنیا بالکل سیٹھی ہے۔ جیسے ان کی زندگی ایک ختم نہ ہونے والی اندھیری رات ہے۔ جس میں کوئی تارہ کوئی چاند نہیں۔ صرف یاس کے بادل گھرے ہوئے ہیں۔ ان بادلوں میں کبھی کبھی تھوڑی دیر کے لئے امید کی بجلی بھی چمک جاتی تھی لیکن اس سے ان کے دلوں کی تاریکی بڑھتی تھی، گھٹتی نہ تھی۔ اسی طرح کئی سال گزر گئے۔
ایک دن جے چند نے اپنے آنگن کے کونے میں بیری کا ایک پودا دیکھا جو خود بخود اگ آیا تھا۔ پودا بہت چھوٹا تھا اور عام پودوں سے ذرا بھی مختلف نہ تھا لیکن جے چند کو ایسا معلوم ہوا جیسے یہ پودا نہ تھا قدرت کے حسن و جمال کا جلوہ تھا۔ اس کے چھوٹے چھوٹے رگ و ریشے اور چکنی چکنی ننھی ننھی خوبصورت کونپلیں دیکھ کر ان کے دل پر خود فراموشی کا عالم طاری ہو گیا۔ دوڑے دوڑے سلکھی کے پاس گئے اور بولے، ’’آؤ کچھ دکھاؤں! بھگوان نے ہمارے گھر میں بوٹا لگایا ہے۔ بڑا خوبصورت ہے۔‘‘
سلکھی نے جاکر دیکھا تو ایک ننھا سا پودا تھا۔ بولی، ’’کیا ہے یہ؟ بڑے خوش ہو رہے ہو۔‘‘
جے چند: ’’بیری کا پودا ہے۔ ابھی چھوٹا ہے، چند دنوں میں بڑا ہو جائےگا۔ اس میں سبز سبز پتے آئیں گے۔ میٹھے میٹھے پھل لگیں گے۔ لمبی لمبی ڈالیاں پھیلا کر کھڑا ہوگا۔‘‘
سلکھی نے خوش ہوکر کہا، ’’آنگن میں سایہ ہو جائےگا۔‘‘
جے چند: ’’ہر سال بیر لگیں گے۔ خوب میٹھے ہوں گے۔‘‘
سلکھی: ’’میں ہرروز پانی سے سینچا کروں گی۔ چند ہی دنوں میں بڑا ہو جائےگا۔ کب تک پھلےگا؟‘‘
جے چند: ’’(پودے کو محبت بھری نگاہوں سے دیکھ کر) چار سال بعد۔ تم نے دیکھا کیسا پیارا لگتا ہے۔ بڑا ہو کر اور بھی پیارا لگے گا۔ کیسا چکنا ہے! کیسا خوبصورت ہے! دیکھ کر آنکھیں روشن ہو جاتی ہیں۔‘‘
سلکھی: (سادگی سے) ’’گرمی کے دن ہیں کمہلا جائےگا مجھے تو اب بھی گھبرایا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ ذرا کونپلیں تو دیکھو جیسے پیاس سے بیاکل ہو رہی ہوں۔ کہئے تازہ پانی بھر لاؤں؟ گرمی سے بڑے بڑوں کا برا حال ہے، یہ تو بالکل ننھی سی جان ہے! ابھی بھر لاؤنگی۔‘‘
جے چند: ’’ایسے وقت میں تم کہاں جاؤگی۔ میں جاتا ہوں۔
لیکن سلکھی نے کلسا اٹھایا اور چلی گئی۔ تھوڑی دیر بعد دونوں خاوند بیوی اس ننھے سے پودے کو پانی سے سینچ رہے تھے۔ ایسی محبت سے، جیسے ان کا جیتا جاگتا بچہ ہو۔ ایسی عقیدت سے جیسے ان کا دیوتا ہو۔ ایسی محویت سے جیسے کوئی نہایت دلکش چیز ہو۔ پودا دھوپ سے سچ مچ کمہلایا ہوا تھا۔ ٹھنڈا پانی پاکر اس نے آنکھیں کھول دیں۔ سلکھی بولی، ’’دیکھ لو اب اس میں تازگی آگئی ہے یا نہیں؟ کیوں؟‘‘
جے چند: ’’مجھے تو ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے یہ مسکرا رہا ہے۔‘‘
سلکھی: ’’اور مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے باتیں کر رہا ہے۔ کہتا ہے، میں تمہارا بیٹا ہوں۔‘‘
جے چند: ’’بھئی یہ بات تو تم نے میرے ہونٹوں سے چھین لی۔ میں بھی یہی کہنے جا رہا تھا۔ ہاں بیٹا تو ہے ہی۔ اس سے خوب پیار کروگی نا؟‘‘
سلکھی: ’’تمہارے کہنے کی کیا ضرورت ہے؟ بیٹے سے کون پیار نہیں کرتا۔‘‘
جے چند: ’’لیکن کہیں، مجھے نہ بھول جانا۔ بڑی عمر میں لڑکا پاکر عورتیں خاوندوں کی طرف سے لاپروا ہو جاتی ہیں۔ مگر مجھ سے تمہاری لا پروائی برداشت نہ ہوگی۔ یہ ابھی سے کہے دیتا ہوں۔‘‘
سلکھی: ’’چلو ہٹو! تمہیں تو ابھی سے ڈاہ ہونے لگا۔ جے چند ہنستے ہنستے گھر کے اندر چلے گئے لیکن سلکھی کئی گھنٹے وہیں دھوپ میں کھڑی بیری کی طرف دیکھتی رہی اور خوش ہوتی رہی۔ آج بھگوان نے اس کے گھر میں بوٹا لگا دیا تھا۔ آج اس کو ایسا محسوس ہوا جیسے وہ بانجھ نہیں رہی۔ معصوم بچہ چھاچھ کو دودھ سمجھ کر پینے لگا۔
اب جے چند اور سلکھی دونوں کو ایک مشغلہ مل گیا کبھی بیری کو پانی دیتے، کہ کمہلا نہ جائے۔ کبھی کھرپی لے کر اس کے آس پاس کی زمین کھودتے کہ اسے زمین سے خوراک حاصل کرنے میں دقت نہ ہو۔ کبھی اس کے گرد اگرد باڑ لگاتے کہ کوئی جانور نقصان نہ پہنچائے۔ کبھی دو چار پائیاں کھڑی کر کے اس پر چادر پھیلا دیتے کہ گرمی میں سوکھ نہ جائے۔ لوگ یہ دیکھتے تھے اور ہنستے تھے۔ بعض شخص کہہ بھی دیتے تھے کہ ان کے حواس بجا نہیں رہے لیکن محبت کے ان سادہ دل متوالوں کو اس کی ذرا پروا نہ تھی۔ انہیں بیری کی کونپلیں بڑھتی دیکھ کر وہی خوشی ہوتی تھی جو خوشی ماں باپ کو بچے کے ہاتھ پاؤں بڑھتے دیکھ کر ہوتی ہے۔ جے چندباہر سے آتے تو سب سے پہلے بیری کی خیرو عافیت دریافت کرتے۔ سلکھی رات کو کئی کئی مرتبہ چونک کر اٹھتی اور بیری کو دیکھنے جاتی۔ شاید اسے خطرہ تھا کہ کوئی اس انمول چیز کو اکھاڑ کر نہ لے جائے۔ ایسی محبت، ایسی احتیاط سے کسی بیوہ نے اپنے اکلوتے بیٹے کی بھی کم پرورش کی ہوگی۔ دھیرے دھیرے یہ نخل محبت بڑھنے لگا۔ اب وہ زمین سے بہت اوپر اٹھ گیا تھا۔ اس کا تنا بھی بہت موٹا ہو گیا تھا۔ ڈال بھی بڑے بڑے ہو گئے تھے۔ رات کے وقت ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے وہ باہیں پھیلاکر کسی کو گلے لگانے کو بے قرار ہو۔ سلکھی اسے اپنی بیٹی اور جے چند اسے اپنا بیٹا کہتے تھے، اسے دیکھ کر ان کی آنکھیں روشن ہو جاتی تھیں۔ ان کے دل کے کنول کھل اٹھتے تھے۔ یہ درخت معمولی درخت نہ تھا۔ ان کی مشترکہ محنتوں کا نتیجہ تھا۔ اس کے لئے انہوں نے اپنی راتوں کی نیند قربان کی تھی۔ اس پر انہوں نے اپنے جسم و روح کی تمام خوشیاں نثار کر دی تھیں۔
اسی طرح پیار و محبت اور غور و پرداخت کے چار سال گزر گئے اور بیری کے پھلنے کا زمانہ نزدیک آ گیا۔ جے چند اور سلکھی دونوں کے پاؤں زمین پر نہ پڑتے تھے۔ ان کی خوشی کا ٹکارنا نہ تھا۔ جب بور آیا، تو دونوں سارے سارے دن آنگن میں بیٹھے اس کی حفاظت کیا کرتے تھے۔ کیا مجال جو کوئی جانور بھی قریب پھٹک جائے۔ جے چند اب پہلے کی طرح پوجا پاٹھ کے پابند نہ رہے تھے۔ سلکھی کو اب