Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

نئی الیکٹرا

محمد حمید شاہد

نئی الیکٹرا

محمد حمید شاہد

MORE BYمحمد حمید شاہد

    وہ کہتی ہے، وہ یوری پیڈیرز کی الیکڑا جیسی ہے۔

    فر ق ہے تو اِتنا سا کہ پرانے والی الیکٹرا کو اس کی بےوفا ماں اور اس کے بَدطینت عاشق کی وجہ سے سب کچھ چھوڑنا پڑا، جب کہ اسے یعنی نئی الیکٹرا کو، جن لوگوں کی وجہ سے گھر بَد ری پر مجبور ہونا پڑا ان میں ایسے لوگوں کے نام آتے ہیں جن کا وہ بتانا نہیں چاہتی۔

    لوگ کہتے ہیں۔

    وہ الیکٹرا نہیں خود کلائٹمنسٹرا ہے۔

    شاطرہ، بےوفا، بَد کردار۔۔۔

    گھر بَدری محض ایک ڈرامہ تھا۔۔۔ اور جب وہ یہ کہتی ہے کہ وہ لوگوں کے نام بتانا نہیں چاہتی تو دراصل اس کے ذِہن میں اِیک نام بھی نہیں ہوتا۔۔۔ وہ تو محض ڈرامے کا جملہ بولتی ہے۔

    لوگ یہ بھی کہتے ہیں۔

    پرانے والی کائٹمنسٹرا نے اپنے شوہر ایگمنان کو اَپنے عاشق سے مل کر قتل کرایا تھا جب کہ اِس شاطرہ نے اَپنے بَدطینت شوہر سے مل کر ان سب کو تلوار کی دَھار پر رَکھا ہوا ہے جو اس کی طرف نظر اٹھانے کا جرم کرتے ہیں۔

    وہ بتاتی ہے۔

    جب نئے والے ایگمنان کو قتل ہوے زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا تو اس نے چال چلی تھی ویسی ہی چال جیسی پرانی والی الیکٹرا نے چلی تھی۔

    بس فرق اِتنا تھا۔۔۔

    پرانی والی الیکٹرا نے یہ پیغام بھیجا تھا کہ اس کے ہاں بچہ ہو چکا ہے جب کہ اس نے، یعنی نئی الیکٹرا نے، ڈھونگ رچایا تھا کہ اس کے پیٹ میں بچہ ہے اور بچہ اس قدر نیچے کھسک آیا ہے کہ وہ چلنے پھرنے سے معذور ہے۔

    لوگ کہتے ہیں،

    وہ الیکٹرا نہیں، کلائٹمنسٹرا ہے۔

    دغا باز، فریبی، مکار۔۔۔

    یوں بھی حمل کسی قسم کا ڈھونگ رَچانے سے بھلا کب باز رکھ سکتا ہے۔ عمرریوابیلا کے ناول ’’ری کوئیم فار اے وومین، زسول‘‘ میں ریاستی جبر کا شکار ہونے والی سوزانا کی بے ربط یادداشتوں میں جس اَیلیشیا کا ذکر ملتا ہے وہ بھی حاملہ تھی۔

    وہ پاگل نہیں تھی، مگر خود کو پاگل ظاہر کرتی تھی۔ اِس لیے کہ اس کے ساتھ جو کچھ ہو چکا تھا اس کے نتیجے میں اسے پاگل ہو جانا چاہیے تھا۔

    جب وہ عجیب وغریب حرکتیں کرتی تھی تو اس پر تشدد کرنے والے یقین کر لیتے تھے کہ وہ دیوانگی میں ایسا کر رہی ہے۔ جب کہ سوزانا اَپنی بے ربط یادداشتوں میں لکھتی ہے کہ وہ اِس طرح کوئی اَہم پیغام ان تک منتقل کیا کرتی تھی۔

    اس نے بچے کا ڈھونگ نہیں رچایا تھا بچہ اس کے پیٹ میں تھا۔

    پھر یوں ہوا، کہ وہ آ گئی۔

    جب وہ آئی تو اس کے ہونٹوں پر گئے دنوں کے عذاب لمحوں کے تذکرے تھے۔

    وہ کہتی۔۔۔

    اس نے ایک ایک لمحہ رَو رَو کر گزارا ہے کیوں کہ اسے اَپنے باپ یعنی نئے والے ایگمنان کے قتل کا دکھ سہنا پڑا تھا اور اسے ساری آسائشیں چھوڑنا پڑی تھیں جو اس کے بَد ن میں حرارت، جلد میں چمک اور گالوں پر سرخی لا سکتی تھیں۔

    جب وہ یہ کہتی تو لوگ اس کے حسن کی تعریف کرتے اور کہتے۔۔۔ نام نہاد سختیوں نے تو اس کے بَدن کو گداز، ہونٹوں اور گالوں کو سرخ جب کہ جلد کو مزید شفاف بنا دیا ہے۔

    وہ کہتی۔۔۔

    جہاں وہ گھر بَدری کے دن کاٹتی رہی تھی وہاں کے لوگ بہت اچھے تھے۔

    پرانے والی الیکٹرا کا قصہ بھی ملتا جلتا ہے۔

    جس کے ساتھ اس کی شادی ہوئی تھی اس نے اسے چھوا تک نہ تھا۔

    اور جس نے نہیں چھوا تھا، وہ چاہتا تھا الیکٹرا آرام سے رہے مگر وہ پرانی آسائشوں کو نہ بھول پائی تھی۔۔۔ وہ روتی رہتی تھی۔

    وہ جو خود کو نئی الیکٹرا کہتی ہے وہ گھر بَد ری کے دنوں کو یاد کر کے دکھی ہو جاتی ہے۔۔۔ اور کہتی ہے کہ۔۔۔

    وہ بہت اَچھے لوگ تھے۔۔۔ مگر پھر بھی وہ روتی رہتی تھی۔

    لوگ کہتے ہیں۔

    وہ الیکٹرا نہیں، کلائٹمنسٹرا ہے۔۔۔

    دغاباز، فریبی، عیار، مکار۔۔۔

    کچھ اور لوگ بھی ہیں، جو ذرا پرے کھڑے سب کچھ دیکھ رہے ہیں۔

    یہ اِدھر ہیں نہ ادھر۔

    اِن میں سے ایک کہتا ہے۔

    وہ کالی دَاس کی شکنتلاہے۔

    ایسی شکنتلا کہ جسے کوئی راجہ دَشینت نہیں ملا۔

    وہ، جو خود کو راجہ دَشینت سمجھتا ہے، اس کے ہاتھ میں کوئی انگوٹھی نہیں ہے۔

    خود کو راجہ دَشینت کہنے والا دعویٰ کرتا ہے۔

    اس کی انگوٹھی مچھلی کے پیٹ میں ہے۔

    وہ لوگ جو نہ اِدھر ہیں نہ ادھر۔۔۔ ان میں سے ایک اور کہتا ہے۔۔۔

    یہی دعویٰ اس کے راجہ دَشینت نہ ہونے کا ثبوت ہے۔

    وہ مزید کہتا ہے۔

    نہ تو مدعی دَشینت ہے نہ اس کے بازوؤں میں بازو ڈالنے والی شکنتلا۔۔۔ وہ تو بس رَاسین کی فَیدرا جیسی ہے۔

    جوانی، حسن اور جذبات سے بھری ہوئی۔

    جو جذبات سے آگ بھڑکاتی ہے اور سب کو رَاکھ بنا ڈالتی ہے۔

    وہ لوگ جو ادھر ہیں، نہ اِدھر، ان میں سے تیسرا کہتا ہے۔

    وہ سارے لوگ جو اِدھر بھی ہیں اور ادھر بھی بالزاک کے اس بوڑھے گوریو جیسے ہیں، جو کامیڈی ہیوسن میں اَپنی بیٹیوں کے لیے سب کچھ قربان کر سکتا ہے۔

    وہ کہتی ہے۔

    وہ تو سب کی بیٹی ہے۔

    لوگ کہتے ہیں۔

    وہ چھنال ہے۔

    وہ ہنستی ہے اور تکرار کرتی ہے کہ

    وہ تو سب کی بیٹی ہے۔

    تیسرا آدمی اَپنی بات آگے بڑھاتا ہے۔

    لوگ بوڑھے گوریو کی طرح ہیں اسے اَپنی بیٹی نہ سمجھتے ہوے بھی اس پر سب کچھ قربان کرتے چلے جا رہے ہیں۔

    وہ اسے جھوٹا کہتے ہوے بھی اس سے محبت کرتے ہیں کیوں کہ وہ کہتی ہے کہ وہ ان کی بیٹی ہے۔

    لوگ چوں کہ بوڑھے گوریو جیسے ہیں لہٰذا چھنال کے عاشقوں کو بھی دعا دے رہے ہیں۔ وہ دعا کے لیے اٹھے ان ہاتھوں سے لمبی مہلت کے دانے اٹھا کر نفاست سے بٹے ہوے دھاگے میں ڈال لیتی ہے۔

    یہ دانے اس کی انگلیوں سے پھسلتے ہیں اور ہونٹوں پر عجب سی مسکراہٹ پھیل جاتی ہے۔

    لوگ اس وقت سے دعا کرنے کے عادی ہو گئے ہیں جب سے اس نے مظلومیت کا سوانگ بھرا ہوا تھا۔

    لوگ کہتے ہیں۔

    اس کی گھر بَد ری محض ڈھونگ تھا، آنکھوں میں دھول تھی، ایک فریب تھا، ڈرامہ تھا وہ چاہتی تو واپس آ سکتی تھی۔

    لیکن لوگ پھر بھی دعا کرتے آتے رہے، اس لیے کہ لوگ بوڑھے گوریو جیسے ہیں۔

    وہ جو نہ اِدھر ہیں نہ ادھر، وہ کہتے ہیں۔

    لوگوں کی یہی سادگی کبھی کبھی بے وقوفی کی حدوں کو بھی چھونے لگتی ہے۔

    لوگ کہتے ہیں۔

    اس نے الہ دین کا جادوئی چراغ رگڑا تھا اور اَپنی ساری آسائشیں وہاں منتقل کر دی تھیں جہاں وہ گھر بَد ری کے دِن گزر رہی تھی۔ وہیں وہ خون اور پیپ کے پیالے لنڈھاتی تھی، یہ پیالے اسے اس کے چاہنے والے فراہم کرتے تھے۔

    الہ دن کا چراغ الیکٹرا والے اصل قصے میں نہیں ہے۔۔۔ مگر حیرت ہے کہ وہ خود سارے قصوں میں ہے اور سارے ہی قصے اس کے آگے بےبس ہیں کہ اس کے تذکرے کے بغیر نامکمل رہ جاتے ہیں۔

    پھر یوں ہوا کہ ایگمنان قتل ہو گیا۔

    وہ کہتی ہے۔

    اَب قتل ہونے والا ایگمنان نہیں بل کہ ایجس تھیس تھا۔

    غاصب، ظالم اور اصل ایگمنان کا قاتل۔

    اَصل ایگمنان سے اس کی مراد یوری پیڈیز والا نہیں بل کہ اس کا اپنا باپ ہے۔

    مگر کچھ لوگوں کا اصرار ہے۔

    اِس بار قتل ہونے والا ایگمنان ہی تھا۔

    وہ کہتی ہے۔

    جو قتل ہوا ہے اسے قتل ہو جانا چاہئے تھا، ا گرچہِ اس قتل میں اس کے بھائی یعنی نئے والے لیسٹس کا کوئی ہاتھ نہیں، مگر جو ہوا اچھا ہوا اور ایسا ہی ہونا چاہئے تھا۔

    لوگ کہتے ہیں۔

    بہت ظلم ہوا اور اِس ظلم کے پیچھے اس شاطرہ، اس کے بھائی اور ان چالیس چوروں کا بھی ہاتھ ہے جو مرجینا والے نئے قصے میں اَپنے دروازے مرجینا کے لیے کھلے چھوڑ دیتے ہیں۔

    الیکٹرا اور کلائٹمنسٹرا کے قصے میں چور نہیں ہیں۔

    مگر اِس قصے میں چوروں کا تذکرہ تواتر سے آتا ہے۔

    وہ کہتی ہے۔

    اگر اسے چوروں والے قصے کی مرجینا سمجھ لیا جائے تو بھی کوئی حرج نہیں۔

    وہی مرجینا جو بے حد حسین تھی اور عقل مند بھی۔

    لوگ کہتے ہیں۔

    وہ چوروں والے نئے قصے کی دغا باز اور فریبی مرجینا ہے، ایسی مکار ار حرافہ کہ اپنے ہی مالک کی آنکھوں میں دھول جھونکتی ہے۔

    جب ہنہناتے گھوڑے بندھ چکتے ہیں اور اس کا مالک اِعتماد کے نشے میں لڑھک چکتا ہے تو چپکے سے اٹھتی ہے۔

    اور باری باری ان چوروں کے بستروں میں جا گھستی ہے جو اس کے مالک کے جاگتے ہوے اسے دیکھنے کا حوصلہ بھی نہ کر پاتے تھے۔

    مگر جوں ہی اس کا مالک جاگتا ہے۔

    وہ پاک دامن اور عفیفہ بن جاتی ہے۔

    اس کے ہاتھوں میں مضبوط بٹے ہوے دھاگے میں پروئے ہوے دانے ہوتے ہیں۔

    یہ دانے اس نے دعا کے لیے اٹھے ہاتھوں سے اچکے تھے۔

    دعا کے لیے اٹھے ہاتھ ان لوگوں کے تھے جو اَپنی نہیں بل کہ بوڑھے گوریو کی جون میں تھے۔

    لوگ کہتے ہیں، وہ جھوٹی ہے۔

    مگر وہ دانے گن گن کر اسم اعظم کا ورد کرتی ہے۔

    اور جب وہ ورد کرتی ہے تو چالیس کے چالیس چور اس کے لیے کھل جا سم سم کہتے ہیں۔

    وہ لوگوں کی طرف مسکرا کر دیکھتی ہے اور کہتی ہے۔

    وہ الیکٹرا ہے۔

    نظروں کے سامنے جتنی بھی تصویریں متحرک ہیں سب ایک ہی جاپ جپ رہی ہیں۔

    وہ الیکٹرا ہے۔

    گلیوں کا خون پکارتا ہے۔

    وہ کلائٹمنسٹرا ہے۔

    دغاباز، فریبی، مکار۔۔۔

    مگر لوگ اسے دیکھنے اور سننے پر مجبور ہیں۔

    اِس لیے کہ اس کے پاس مرجینا والی چمکتی جلد، فیدرا جیسے بھڑکتے جذبات، الیکٹرا جیسی بلند ہمتی کلائٹمنسٹرا جیسی عیاری، ایلیشیا جیسا ڈھونگ، شکنتلا جیسا حسن اور چالیس چوروں کی طاقت ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے