Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

پانچواں موسم

شاہین کاظمی

پانچواں موسم

شاہین کاظمی

MORE BYشاہین کاظمی

    بچپن کی ملائمت اور نرمی چہرے پر اگنے والے روئیں نے کم کر دی تھی۔ اس کی جگہ ایک عجیب سی جاذبیت نے لے لی تھی گو میاں جی اسے منع کیا تھا کہ ابھی استرا نہ مارے لیکن اسے چہرے پر اگا ہوا بےترتیب جھاڑ جھنکار اچھا نہیں لگتا تھا اپنے ایک دوست کی مدد سے اس روئیں سے چھٹکارا پانے کی کوشش میں چہرے کو تین چار جگہوں سے زخمی بھی کر بیٹھا تھا اس کی حالت دیکھ کر میاں جی نے بے بھاؤ کی سنائیں وہ سر جھکائے خاموشی سے ڈانٹ سنتا رہا۔

    ’’چلو جاؤ اور جو کہا جائے اسے سنا بھی کرو’’

    میاں جی سخت ناراض تھے

    ’’جی میاں جی’’

    اس نے سعادت مندی سے جواب دیا۔

    میاں جی اس چھوٹے سے گاؤں کی اکلوتی مسجد کے پیش امامگاؤں کے لوگوں کے روحانی پیشوا، قاضی استاد، طبیب اور غمگسار، سبھی کچھ تھے سب بے جھجھک انھیں اپنے مسائل اور دکھڑے سنایا کرتے تھے ان کی آمدنی کا واحد ذریعہ گاؤں والوں کی طرف سے مقررہ کردہ معمولی سی وظیفے کی رقم کے ساتھ ساتھ وہ تحائف بھی تھے جو سال بھر انھیں گندم اور دوسری اجناس کی صورت میں ملا کرتے تھے۔ دودھ، دہی اور لسّی کی علاوہ تازہ پکا ہوا کھانا بھی اس وظیفے میں شامل تھا۔اب دو بندوں کے اخراجات ہوتے ہی کتنے ہیں میاں اکثر اجناس یا تو اطراف کے گاؤں میں ضرورت مندوں میں بانٹ دیا کرتے یا کبھی کبھار اپنی کسی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے فروخت کر دیا کرتے تھے گاؤں میں بچوں بچیوں کا قرآنِ پاک پڑھانا، غمی خوشی کے وقت دعائیں دینا اور جھگڑے نبٹانا میاں جی کے فرائض میں شامل تھا جسے وہ بڑی خوش اسلوبی سے سر انجام دے رہے تھے۔

    دو سال کے بن ماں کے بچے کو کندھے سے لگائے میاں جی آج سے تیرہ سال قبل اس گاؤں میں آئے تھے اور ایک کمرے پر مشتمل اِس کچی مسجد میں پہلی پار اذان دے کر خود ہی نماز پڑھی تھی۔ اس کے بعد گاؤں والوں انھیں کبھی کہیں جانے نہ دیا وہ کون تھے کہاں سے آئے تھے نہ کبھی کسی نے جاننے کی کوشش کی اور نہ ہی میاں جی نے بتانے کی جیسے ایک خاموش معائدہ سا ہو اِس عرصے میں نہ تو بارش اب بھی زوروں پر تھی، اندھیرے میں بجلی کے کوندے زمین کی طرف لپکتے دکھائی دینے لگے اس نے گہرا سانس لے کر روشنی گل کی او ر سونے کے لئے کمرے میں چلی آئی ہاتھ میں پکڑی کتاب بستر پر رکھ کر پردے برابر کئے۔۔۔ آج نیند جانے کہاں رہ گئی تھی۔۔۔ اس نے بےخیالی میں ورق پلٹا۔

    ’’پانچواں موسم’’

    ’’زندگی میں پانچواں موسم اترے تو اس کا حسن معدوم ہونے لگتا ہے۔

    راستہ کوئی بھی ہو غبار اٹھتا ہی ہے۔

    انگور کی بیلوں پر سانپ چڑھ جائیں تو شراب زہریلی ہوجا تی ہے۔

    شب فتنہ کب کٹےگی؟ میرے آنگن میں کھلے گلِ لالہ پر بارود کی راکھ پڑی ہے تم چراغ بجھتے تک لڑتے رہنا۔

    اس نے کتاب بند کر دی، ذہن کہیں اور بھٹک گیا تھا۔

    ’’تمہیں لڑنا ہوگا، میرے لئے، اس مٹی کے لئے’’

    اس کچے سے کمرے کے ایک کونے میں جھلنگا سی چارپائی پرپڑے وجود میں اگر کچھ زندہ تھا تو اس کی نیلگوں سمندروں جیسی آنکھیں۔۔۔ یہ ماجد کی ماں تھی۔

    ’’مجھ سے وعدہ کرو تم لڑو گے، جب تک ساری بلائیں ختم نہیں ہو جاتیں تم لڑو گے’’

    بوڑھے سرد ہاتھ ماجد اور نوما کے ہاتھوں پر جمے ہوئے تھے۔ آنکھوں میں ابھرتی، ڈوبتی حسرت اور امید۔۔۔ ماجد کا سر بےاختیار ہاں میں ہل گیا

    ’’ہم لڑیں گے ماں آخری دم تک لڑیں گے’’

    ماجد کی آواز سن کر بوڑھے نیلگوں سمندروں میں جوار بھاٹا اٹھنے لگا۔ ماجد جانتا تھا اِن نئے بدیسی بھیڑیوں سے لڑنا آسان نہ ہو گا۔جبکہ دھرتی کے سینے پر روبل کی تال پر رقص کرتے سؤروں کے لگائے زخم ابھی تازہ تھے۔ سؤروں کو دھرتی سے باہر ہانک تو دیا گیا تھا لیکن امن واپس نہ آ سکا۔

    نیا چاند ابھرا تو نئے بھیڑئیے گھپاؤں سے باہر نکل آئے۔ ان کے لے پالکوں نے جب ڈوریاں توڑ کر اپنے آزادانہ رقص کا آغاز کیا تو نائیکہ کی تیوری چڑھ گئی۔ اس کی نظروں کا زاویہ بدلا تو وہی لے پالک جو بہت چنیدہ تھے نظروں سے گر گئے۔ لیکن انھیں بھی پروا کب تھی انھوں نے نئی تال چنی اور دھمال شروع ہو گیا۔ بندوقوں کے سائے میں ابھرتے نغموں میں سوز امڈ آیا لہو لہان دھرتی دم بخود تھی ہر طرف بہنے والا خون اپنا تھا۔

    جنت کی اور جاتی پگڈنڈیوں پر جب موت اگنے لگی تو ایک دن وہ اپنے بچے کی انگلی تھامے وہ وہاں سے نکل پڑی۔

    ’’چلو میرے ساتھ’’اس نے ماجد کا ہاتھ تھام لیا۔

    ’’نہیں جا سکتا ‘’

    ’’کیوں؟’’

    ’’ماں سے کیا وعدہ نبھانا ہے’’

    ’’کس سے لڑو گے؟ جب دونوں اطراف اپنا ہی سینہ ہو بندوق کس پر چلے گی’’اِس کے لہجے میں دکھ تھا۔

    لیکن وہ غلط تھی بندوق کی نال شرارے اگل رہی تھی سؤروں کی جگہ بھیڑئیے شہر میں دنددنانے لگے اس نے ایک مڑ کر دیکھا شہر ملبے کا ڈھیر تھا۔ اپنے آنسو چھپاتے ہوئے وہ قافلے کے ساتھ ہو لی۔ یہ اعلیٰ سالاروں کا قافلہ تھا جو سمندر پار جا کر رکا۔۔۔ ماجد کے بغیر زندگی مشکل ضرور تھی ناممکن نہیں جلد ہی زندگی میں رچاؤ آنے لگا۔

    محبت کے شیریں ہونٹوں سے

    پھوٹنے والے نغموں کی مدھرلے

    آتشِ شوق بھڑکا دیتی ہے

    جیسے خشک گھاس میں گرنے والی ننھی سی چنگاری

    زخمی کونج کی پکار

    روح میں اتر رہی ہے

    دن رات کے سینے میں جذب ہو رہا ہے

    مجھے دیدار کی مے دو

    کہ پیاس بڑھ رہی ہے

    محبت اگر دلوں میں حلاوت نہ جگائے

    تو اِس کے اجزاء میں پاکیزگی ترتیب

    الٹ گئی ہے

    چاند کی ساحر کرنیں

    پھول پر منعکس ہیں

    زیست انگڑائی لے کر بیدار ہو رہی ہے

    سچے سر کے لئے من کا اجلا ہونا ضروری ہے

    من میں کدروتوں کا میل سُر گدلا کر دیتا ہے

    اور وہ محض کانوں میں اٹک کے رہ جاتا ہے

    اگر سر من میں اجالا نہ پھونکے

    تو اس کے اجراء میں پا کیزگی کی ترتیب الٹ گئی ہے

    نوجوان شاعر کے ہاتھ سے قلم چھوٹ گیا دھماکے سے در و دیوار لرز اٹھے تھے وہ تیزی سے اٹھا اور پتھریلی دیواروں والے سرد تہہ خانے کے کونے میں دھری اکلوتی موم بتی گل کر دی۔ اچانک اُسے اپنے ہاتھوں پر ننھے ننھے سرد ہاتھوں کا لمس محسوس ہوا یہ نوما تھی۔ اس کی بھوری آنکھوں میں خوف تھا جنگی جہاز سے گرنے والی موت نے زندگی سے موت کو جاتی سرحد پر بھیڑ جمع کر دی۔۔۔ بدن ٹکڑوں میں بٹنے لگے نوما کو سینے سے لگائے وہ ٹھنڈی دیوار سے ٹیک لگائے ساکت بیٹھا تھا چھوٹے سے روشن دان کے ٹوٹے ہوئے شیشے سے شمالی ہوا برف کے ذرات اندر اچھال رہی تھی اس نے ٹٹول کر پرانا کمبل اپنے اوپر کھینچ لیا۔

    اچانک خاموشی چھا گئی شاید جہاز واپس جا چکے تھے نوما بھی سو گئی تھی اس کے سانسوں کی ہلکی سی آواز تہہ خانے کے بھیانک ماحول میں بھلی لگ رہی تھی لطف اللہ نے اسے بستر پر لٹا دیا اس کے گالوں پر آنسؤوں کے نشان تھے۔ اس نے اپنی ادھوری نظم پھر سے لکھنے کی کوشش کی لیکن ذہن منتشر تھا ساتھ نہ دے سکاکاغذوں کے پلندے میں بہت سی آدھی ادھوری نظمیں اور گیت مکمل ہونے کے منتظر تھے، بالکل اس کی ادھوری زندگی کی طرح۔

    ’’مجھے لکھنا ہے اس سے قبل کہ وقت کے کھنڈر میں زندگی کی چاپ معدوم ہو جائے مجھے لکھنا ہے’’ وہ بہت تیزی سے صفحے الٹ پلٹ رہا تھا۔

    ’’آنے والوں کو کیسے پتہ چلےگا کہ ہم کس کرب سے گزرے ہیں میں جانتا ہوں اچھا وقت دور نہیں’’

    اس نے نوما کو دیکھا جو ابھی تک سو رہی تھی۔

    ’’سوتی رہو میری گڑیا دنیا دکھوں سے بھر گئی ہے۔۔۔ موت زندگی پر پنجے گاڑے ہوئے ہے۔۔۔ یہ سب کچھ تمہارے دیکھنے کے لائق نہیں۔۔۔ سوتی رہو میری گڑیا’’

    اس کی خود کلامی جاری تھی۔

    ’’لیکن میں تمہیں بتانا چاہتا ہوں کہ دشمن دروازے پر بیٹھا ہو تو کیسا لگتا ہے۔۔۔ جب رگوں سے زندگی نچڑ رہی ہو تو سانس سینے میں اٹک جاتی ہے۔۔۔ میری باتیں ابھی تمہاری سمجھ میں نہیں آئیں گی۔۔۔ تم زندگی کو اپنے انداز سے دیکھو گی لیکن نوشتۂ دیوار بھی پڑھنا ہوگا زندگی میں اندھیرے در آئیں تو امید مرنے لگتی ہے کسی کو جگنوؤں کی کھوج میں نکلنا ہوگا’’

    سائیں سائیں کرتی ہوا مردہ تنوں کی باس لئے گلی کوچوں میں کرلا رہی تھی۔ وہ بس خالی خالی نظروں سے کاغذوں کو گھورتا رہ گیا۔

    اس کی آنکھ کھلی تو روشن دان سے ہلکی ہلکی روشنی اندر آ رہی تھی اس نے کھونٹی پر لٹکی میلی سی جیکٹ چڑھائی اور ملبہ ہٹاتے ہوئے باہر رینگ آیا۔

    رات ہونے والی بمباری نے بہت تباہی مچائی تھی ہر طرف گہرا سکوت تھا، کھانے کی تلاش میں جیسے ہی وہ نکڑ مڑا گلی کے کونے پر بکتر بند گاڑیوں کے ساتھ فوجیوں کا دستہ دیکھ کر ٹھٹھک گیا۔ وہ تیزی سے پلٹا لیکن فوجی اُسے دیکھ چکے تھے۔ تڑ تڑ کی تیز آواز کے ساتھ اسے اپنے شانے اور کمرمیں آگ اترتی ہوئی محسوس ہوئیوہ وہیں ملبے پر ڈھیر ہو گیا آخری خیال جو اس کے ذہن میں آیا وہ نوما کا تھا۔

    ہر شام اپنے گھونسلوں میں لوٹتی چڑیاں بہت شور کرتیں وہ اس شو ر کا عادی تھا۔ لیکن کبھی کبھی جانے کیا ہو جاتا شور اعصاب پر کوڑے برسانے لگتااور انتہائی بےچین ہوکر چڑیوں پر برس پڑتا۔۔۔ آج بھی اسی کیفیت کا شکار تھا۔۔۔ بیئر کا آخری گھونٹ گلے میں اتار کر اس نے بوتل کو پوری طاقت سے درخت کے تنے کی طرف اچھالا اور گالیاں بکنے لگاپارک کے داہنی طرف پرانے بینچ پر لیٹا ہوا بوڑھا ایک دم چونک کر اٹھا کچھ ناقابل فہم انداز میں بڑ بڑایا اور پھر سے لیٹ گیا اندھیرا پھیلتے ہی چڑیوں کا شور تھما تو بوڑھا بھی پرسکون ہو گیا۔ چاند نے ہولے سے زمین پر جھانکا تو چاندنی کھلکھلا کر گھاس پر رقص کرنے لگی بوڑھے نے اپنے تھیلے سے پرانا سا وائلن نکالا اور بجانے لگا اس کی ٹھٹھری ہوئی موٹی بھدی انگلیوں میں دبی وائلن کی سٹک بہت خوبصورتی سے تاروں پر رواں تھی۔

    منڈیروں پر اونگھتے چراغ بجھ جائیں تو

    موت کے مہیب سائے در و دیوار پر منڈلانے لگتے ہیں

    مسافر راستہ کھوٹا کر لیتے ہیں

    اُن میں لہو ڈالتے رہو

    کہ روشنی

    زندگی کی علامت ہے

    بوڑھے کی آواز میں عجیب سا سوز تھا۔ِاس کے سال خوردہ چہرے کا ملال بتا رہا تھا کہ زندگی نے اس کے ساتھ کچھ اچھا سلوک نہیں کیا۔ یہ ملال وائلن سے پھوٹتے نغموں سے بھی عیاں تھا۔ گیت کی دھن بہت عام فہم نہ تھی۔ لیکن پارک سے گزرنے والے اُسے جانے کب سے سن رہے تھے۔ بوڑھے کے سامنے پڑے گلاس میں سکے گرتے رہے۔ اجنبی دھن پر بجتے نغمے کے سر فضا میں بکھرتے رہے۔ بوڑھے نے سکوں والا گلاس خالی کیا اور دوبارہ وہیں رکھ دیا وائلن درد اگلتا رہا تھا۔ گھنے پیڑوں کی اوٹ سے افسردہ چاند جھانکتا رہا اور رات دھیرے دھیرے بھیگتی گئی۔

    ’’مٹی کا نوحہ کون لکھےگا؟

    جب بیٹے ماں کی چادر نوچ لیں تو کیا قیامت نہیں آئےگی؟

    سفید پھولوں کے باغ میں سؤر چرنے لگے ہیں۔

    چولہے پر دھرا کھانا پختہ ہونے کے انتظار میں ہے۔

    لیکن آگ چولہوں میں نہیں شہروں میں بھڑک رہی ہے۔

    مسافر تمہارا سفر کب تمام ہوگا؟

    نہ ہی سفر تمام ہوتا ہے اور نہ ہی وحشت کبھی سیراب ہوتی ہے۔ اچانک اٹھنے والی آندھی سب کچھ لپیٹ میں لے کر سارے منظر دھندلا دیتی ہے۔ اس دن بھی لمبے انتظار کے بعد بھی لطف اللہ نہ پلٹا تو نوما اپنی پناہ گاہ سے باہر نکل آئی۔ ہر طرف سؤر دنددناتے پھر رہے تھے اور پھر بدن در بدن بٹتے ہوئے محض دس سال کی عمر میں ہی وہ بہت کچھ سمجھنے لگی تھی۔ وجود کی ناؤ کا نا ہموار بہاؤ..... ہچکولے انگ انگ توڑ دیتے ہیں۔ آنے والا ہر نیا مسافر ناؤ میں اپنے انداز میں سوار ہوتا ہے۔۔۔ جب تک لنگر آنکڑے میں پھنسا ہو ناؤ حرکت نہیں کر سکتی وہ بھی جال میں پھنسی مچھلی کی طرح تڑپ سکتی تھی لیکن آزادی اُس کا مقدر نہیں تھی۔ لیکن پھر ایک دن اچانک لنگر اٹھا دیا گیا یا شاید گھاٹ بدل دیا گیا تھا۔ اب ایک مسافر تھا اور وہ۔۔۔ رات دن اسے ڈھوتے ڈھوتے اس کی ہمت ٹوٹنے لگی۔

    کچے پھل سخت اور کڑوے ہوتے ہیں۔ لیکن اس کے باجود کچھ لوگ ان میں دانت گاڑ دیتے ہیں۔ چاہے بعد میں تھوکنا ہی پڑے۔ لیکن نہیں وہ شاید کم عمری میں ہی گدرا گئی تھی اس لئے تھوکنے کی نوبت کم ہی آتی۔ البتہ اِس نے تھوکنا سیکھ لیا۔ بھاری بوٹوں کی ٹھوکریں کھانے کے بعد بھی اس کی تھوکنے کی عادت نہ گئی۔

    پھر ایک دن اچانک وہ اکلوتا مسافر ایک ایسے گھاٹ پر اتر گیا جہاں سے آگے کا سفر ممکن نہ تھا۔ نوما نے اس کے سرد بےجان چہرے کو دیکھا تو ابکائی روکنا مشکل ہو گیا۔

    ’’دیکھو چھوٹی لڑکی انجانی منزلوں کا سفر آسان نہیں ہوتا پاؤں میں تھکن اتر آتی ہے لیکن چلنا تو پڑتا ہے ورنہ چاند پورا ہونے پر بھیڑئیے اپنی اپنی گھپاؤں سے نکل آتے ہیں انھیں تازہ نرم گوشت میں دانت گاڑنا پسند ہے۔ ان کی غرّاہٹیں سانسیں توڑ دیتی ہیں لیکن تم ڈرنا مت’’

    کہیں بہت قریب کوئی جانی پہچانی سرگوشی ابھری

    گو کہ وہ بہت چھوٹی تھی لیکن ذہن کے کسی گوشے میں الفاظ جیسے پیوست ہو گئے تھے۔ اس کی آنکھوں میں نمی ابھرنے لگی اسے انجانی منزلوں کی طرف جانا تھا، ہوا میں خون اور بارود کی بو رچی ہوئی تھی۔

    ’’لیکن مجھے ڈرنا نہیں’’

    وہ دھرتی کو اِس سؤروں سے پاک کرنے کے لیے مجاھدین سے جا ملی۔

    ’’میں اکیلا فیصلہ نہیں کر سکتا اس وقت اپنے سائے پر بھی بھروسہ کرنا مشکل ہے تم انتظار کرو’’

    ’’کب تک؟’’

    اس کی آواز میں بیقراری تھی

    ’’ربانی کے آنے تک’’

    امین وردک آگے بڑھ گیا

    کئی چاند ابھرے اور ڈوبے سؤر کھیت کھلیان تارج کر رہے تھے موت کا رقص جاری رہااندھیرے بڑھنے لگے لوگ کم ہوتے جا رہے تھے۔

    ربانی نے اسے مجاھدین میں شامل ہونے کا عندیہ دے دیا تھا۔ کیونکہ کہ وہ بدیسی سؤروں کی زبان بہت روانی سے بولتی تھی ۔ لیکن اس کی کوکھ میں پلتا بچہ جسے وہ سفید سؤر کا بچہ کہتی تھی اس کی راہ روکنے لگا۔

    گھپاؤں کے در بند کرنے ہوں گے

    ورنہ اندر پلتی بلائیں آبادیاں نابود کر دیں گی

    چاندنی کا سحر دماغ الٹ دیتا ہے

    جنت کی طرف جاتی پگڈنڈیوں پر

    موت اگنے لگے تو

    پہچان کم ہو جاتی ہے

    وقت کے ہاتھ لکھنے میں مصروف ہیں

    الفاظ شرمندگی میں ڈھلتے جاتے ہیں۔

    شہر میں چاند ابھر آیا تھا۔ بہت عجیب سا چاند۔۔۔ سحرزدہ کر دینے والا لوگ بے سدھ ہونے لگے۔ ماجد ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا اس کے جسم میں تشنج اور اینٹھن تھی۔ یکایک اس کی انگلیوں کے سروں پر نوکیلے ناخن نمودار ہوئے۔ چند لمحوں بعد اس نے اپنی لمبی تھوتھنی اوپر اٹھائی اور ہوووووو کی لمبی آواز کے ساتھ آبادی کی طرف بھاگ کھڑا ہوا اس کے تیز نوکیلے دانت چمک رہے تھے اس کے ساتھ اُس جیسے اور بھی کئی تھے، گھپاؤں کے در بند نہیں کئے جا سکے تھے پھر ہر روز ان میں اضافہ ہونے لگا خونخوریاں بڑھنے لگیں۔

    صدیوں سے سیف الملوک میں رقص کرتی پریوں کے گھنگھرو توڑ دئیے گئے آدمی کی جون بدلنے لگی۔۔۔ چاند پورا ہوتے ہی گھپاؤں سے نکلنے والے اپنے نوکیلے دانت اور پنجے نکال کر بھیڑئیے بن جاتے اور اپنے ہی ہم جنسوں کو بھنبھوڑنے لگتے قندھاری اناروں سے ٹپکتا لہو سیف الملوک میں بھرنے لگا اب کی بار بھیڑئیوں کے جسم سے اٹھتی باس پرائی نہ تھی۔

    اس ڈھلتی شام پارک میں وائلن پر بجتی دھن نے اس کے قدم روک لیے دل اتنی زور سے دھڑکا کہ قیامت اٹھا دی۔ وہ یہاں اِس شہر میں اپنے کسی پرانے ساتھی سے ملنے آئی تھی۔ اس کا وطن اور یہاں بستے ساتھیوں سے رابطہ کبھی نہیں ٹوٹا تھا۔ وہ اپنے بیٹے کو ساری عمر سفید سؤرکا بچہ کہتی اور سمجھتی رہی۔ لیکن اس روزاُس دوست کے کہنے پر اسے بلا جھجھک آگ میں جھونک دیا۔ آج اس کی موت کی اطلاع جانے کیوں اسے بے چین کر گئی۔ تیسری نسل کا لہو بھی دھرتی کے چاک رفو نہیں کر پایا تھا۔۔۔ بوڑھا گا رہا تھا۔

    ’’جب عہد فراموش کر دئیے جائیں‘‘

    محبت مر جائے

    یقین باسی ہو جائے

    قدم اجنبیٰ سمتوں میں اٹھنے لگیں

    مٹی سے دغا عام ہو جائے

    تو جان لو

    کہ زندگی کے اجزاء میں

    پاکیزگی کی ترتیب الٹ گئی ہے

    ’’لطف اللہ؟’’وہ دو زانو بوڑھے کے پاس بیٹھ گئی اس کی آنکھوں میں آنسو لرز رہے تھے بوڑھے کی موٹی ٹھٹھری ہوئی انگلیوں میں دبی سٹک ہوا میں معلق رہ گئی

    ’’ کون ؟’’ اس کی آواز میں لرزش تھی

    ’’ میں نوما’’ سٹک گر چکی تھی بوڑھے کا پورا وجود زلزلے کی زد میں تھا

    ’’نہیں میں اسماعیل خان۔۔۔ لطف اللہ تین گولیاں کھا کر کچھ دن زندہ رہ سکا’’

    ’’لیکن تم نے یہ گیت کہاں سے سیکھا؟ یہ تو لطف اللہ کا لکھا ہوا ہے’’

    ’’یہ تمہاری امانت۔۔۔ لطف اللہ نے مرتے وقت تمہیں دینے کو کہا تھا’’

    بوڑھے نے ایک پرانی ڈائری نوما کی طرف بڑھائی

    جانے کب سے لئے پھر رہا ہوں لگتا نہیں تھا کہ میں امانت حق دار کو پہنچا سکوں گا’’

    اس نے ڈائری تھام لی، ٹھنڈا ور اندھیرا تہہ خانہ اچانک روشن ہو گیا

    ’’آکا جان’’ ننھی نوما کے ہاتھ سرد اور آنکھیں خوف سے بھری ہوئی تھیں۔ نوسال عمرہی کتنی ہوتی ہے۔۔۔ ماں باپ اور بہن بھائیوں کی کٹی پھٹی لاشیں اسے آسیب بن کر چمٹ گئی تھیں۔

    ’’کچھ نہیں ہوگا میں ہوں نا’’ لطف اللہ نے اسے سینے میں چھپا لیا بابا کی مہک نتھنوں سے ٹکرائی تو آنکھوں میں نمی اترنے لگی۔

    ’’تم کیا لکھتے ہو؟’’ نوماکی گہری آنکھیں اس پر مرکوز تھیں۔

    ’’اپنی مٹی کا دکھ اپنے لوگوں کا نوحہ’’وہ کچھ نہ سمجھی۔

    ’’بڑی ہو کر اسے ضرور پڑھناتمہیں معلوم ہونا چاہیے ہمارے خواب کیسے بکھرے’’

    نوما نے ڈائری کو کھولا ’’پانچواں موسم’’ لطف اللہ کے خوبصورت حروف کی سیاہی اس کی پہچان کی طرح ماند پڑ رہی تھی

    ’’آؤ میرے ساتھ’’ نوما نے بوڑھے کی طرف ہاتھ بڑھایا۔

    ’’کہاں؟’’ بوڑھے کی آنکھوں میں استعجاب تھا۔

    ’’اپنے گھر اپنی بیٹی کے گھر’’ اس کی آنکھیں چھلک پڑھیں۔

    بوڑھے نے بیسا کھی ایک طرف رکھی اور نوما کا سہارا لے کر اٹھ کھڑا ہوا میاں جی سے کوئی ملنے آیا اور نہ وہ کہیں گئے ان کی بڑے سے بڑی تفریح کسی قریبی گاؤں کی چوپال میں شمولیت ہو ا کرتی تھی ان کی معاملہ فہمی، تدبر اور متحمل مزاجی وجہ سے آس پاس کے گاؤں میں ان کی بہت عزت تھی۔

    سعید پندرہ برس کا ہو چکا تھا اس کی خوبصورت اٹھان، پرکشش خدو خال اِسے گاؤں کے باقی لڑکوں میں نمایاں کرتے تھے۔ گاؤں میں بچیوں اور بچوں کے ساتھ مسجد کے کچے صحن میں ہل ہل کر سیپارہ پڑھتے ہوئے وقت کتنی تیزی سے گزارا اسے اندازہ ہی نہ ہوا۔ چلچلاتی دوپہروں میں باغوں کے گھنے سائے میں چرائے ہوئے پھل کھانا، غلیل سے گرمی گھبراکر درختوں کی اوٹ میں چھپے پرندوں کو تاک تاک کر نشانہ بنانا، نہر کے پانی میں شرطیں باندھ کر غوطے لگانا جیسے خواب سا ہو گیا تھا۔

    میاں جی نے اسے قریبی قصبے کے کالج میں داخلہ کیا دلوایا وہ اپنے گاؤں سے جیسے لاتعلق سا ہو کر رہ گیا شام ڈھلے جب وہ سائیکل پر چار میل کا سفر کرکے گھر آتا تو جوڑ جوڑ دکھ رہا ہوتا تھا، نمازیں بھی نہایت بدلی سے پڑھتا اور سرشام ہی لمبی تان کر سو جاتا۔

    اس دن رانو میاں جی کے لئے کھیر لائی تھی وہ بھی اِسی کی ہم عمر تھی۔ سرخ لان کے سوٹ میں اِس کا رنگ کھلا پڑ رہا تھا بڑی بڑی آنکھوں میں بسا کاجل، ڈوبتے سورج کی زدر شعاعوں نے اس کے گالوں کو جیسے دہکا دیا تھا۔ کھیر کا پیالہ اس کے ہاتھ سے لیتے ہوئے غیرارادی طور پر اِس کی انگلیاں رانو کے ہاتھ سے مَس ہو گئیں اسے لگا جیسے اس نے بجلی کی ننگی تاروں کو چھو لیا ہو سانسیں سینے میں اٹکنے سی لگیں جسم میں دوڑتی سنسنی اَسے کوٹھڑی تک آنا مشکل ہو گیا وہ تو شکر ہوا میاں جی مغرب کی نماز کے لئے وضو کر رہے تھے اس نے جلدی سے کھیر کا پیالہ اندر رکھا اور آذان کے لئے مسجد کی طرف چل پڑا۔

    اِس کے لئے یہ تجربہ بہت انوکھا اور پریشان کن تھا اسی رانو سے ہزار بار جھگڑا ہو ا تھاوہ قرآن پڑھنے میں سب سے تیز تھی میاں جی کا بتایا ہوا ایک بار کا سبق اسے کبھی نہیں بھولا تھا جبکہ اِس نے اور باقی بچوں نے بارہا میاں جی سے چھڑیاں کھائی تھیں اسی لئے سب رانو سے چڑتے اسے رٹو طوطا اور میاں جی کی چمچی کہا کرتے تھے سعید نے اسے کبھی بھی کسی کی بات پر غصہ کرتے نہیں دیکھا تھا ایسے ظاہر کرتی جیسے اِس نے کوئی بات سنی ہی نہ ہو اور یہ بات بچوں کو چِڑانے کے لئے کافی تھی۔

    سعید کی رانو سے کبھی نہیں بنی وہ اِسے بہت بری لگتی تھی میاں جی اس کا سبق سن کر اسے باقی بچوں کا سبق سننے کو کہا کرتے تھے اِس وقت وہ سب سے دل کھول کر اپنا

    سارا غصہ نکالا کرتی، معمولی معمولی غلطی پر میاں جی سے شکایت لگا دیتی سعید نے اس کی وجہ سے اکثر میاں جی سے مار کھائی تھی۔

    آ ج جو کچھ ہوا تھا سعید اسے سمجھنے سے قاصر تھا کہیں اندر کھلبلی سی مچ گئی تھی، وہ اپنی اِس کیفیت کو سمجھ نہیں پا رہا تھا۔

    ’’کیا بات ہے سعید سب ٹھیک تو ہے نا؟’’

    میاں جی نے اِس کی خاموشی بھانپ لی، وہ ایک دم چونک گیا

    ’’جی میاں جی’’

    وہ آہستگی سے بولا

    ’’اتنے چپ کیوں ہو’’ وہ مطمئن نہ ہو سکا

    ’’سر میں درد ہے’’

    اسے اور کوئی بہانہ نہ سوجھ سکا

    ’’دھوپ کی وجہ سے ہو گا کچی لسی بناتا ہوں پی لینا آرام آ جائےگا’’

    میاں جی کے پاس ہر مسئلے کا حل موجود تھا

    ’’یہ لو‘’ وہ بڑا سا گلاس اسے تھماتے ہوئے بولے

    پی لو ان شاء اللہ آرام آ جائےگا

    ’’میاں جی ‘’

    وہ شرمندہ سا ہو گیا ’’میں خود بنا لیتا’’

    ’’کیوں میرے ہاتھ کی پسند نہیں ہے کیا’’

    وہ ہلکا سا مسکرائے اور کچھ پڑھ کر اس پرپھونک دیا۔

    ’’چلواب پی لو’’

    انھوں نے بہت شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا

    آتے جاتے اکثر رانو سے ملاقات ہو جاتی، وقت کے ماہر ہاتھوں نے رانو کے ہونٹوں پر گلاب دہکا دیئے تھے، گال لَو دینے لگے تھے اٹھتی جھکتی لانبی پلکیں دل میں ترازو ہوئی جاتی تھیں، سعید اُسے دیکھتے ہی جیسے بن پیئے بہکنے لگتا وہ انٹر کر چکاتھا اور میاں جی سے مار مار کھا کر پندرہ سیپارے بھی حفظ کر لئے تھے، قصبے کا واحدکالج صرف انٹر تک ہونے کی وجہ سے میاں جی اُسے شہر بھیجنے کا سوچ رہے تھے۔

    ’’پر میاں جی میں وہاں رہوں گا کس کے پاس؟’’

    اُسے میاں جی کا یہ آئیڈیا بالکل پسند نہیں آیا تھا

    ’’دوسرا میں آپ کو اکیلا چھوڑ کر جانا نہیں چاہتا’’

    اس نے میاں جی کو صاف جواب سنا دیا

    ’’جانا تو پڑےگا میرے بچے کہ کوئی اور حل ہے نہیں’’

    میاں جی اس کی ناراضی کو نظرانداز کرتے ہوئے بولے ’’میں نہیں چاہتا کہ تم میری طرح یہاں مسجد میں ہی زندگی گزار دو، خدا کی دنیا بہت وسیع اور خوبصورت ہے، تمہیں بہت پڑھنا ہے، میں نے ملک صاحب کو خط لکھا ہے وہ تمہارے رہنے سہنے کا انتظام کر وا دیں گے’’

    ’’کون ملک صاحب؟’’

    سعید نے پہلی بار ان کے منہ سے کوئی نام سنا تھا

    ’’ہیں ایک اچھے وقتوں کے مہربان’’

    لیکن وقت نے میاں جی مہلت نہ دی رات سوئے تو اتنی گہری نیند کہ ٹوٹ ہی نہ سکی صدمے نے ہلا کر رکھ دیا ابھی تو اس نے چلنا ہی سیکھا تھا کہ میاں جی نے ہاتھ چھڑا لیا اس کی کیفیت اس ننھے بچے کی سی تھی جو بھرے میلے میں اپنی ماں سے ہاتھ چھڑا بیٹھے چاروں طرف اجنبیٰ چہرے، انجان لوگ وہ چیخ چیخ کر رونا چاہتا تھا لیکن آنکھیں جیسے بنجر ہو گئیں گاؤں کے لوگوں نے بہت محبت سے اس کے زخم پر پھاہے رکھنے کی کوشش کی، دھیرے دھیرے اُسے بھی قرار آتا گیا، میاں جی کے چالیسویں کے بعد اُسے میاں جی گدی سونپ دی گئی اور اٹھارہ سال کی عمر میں وہ سعید سے میاں جی بن گیا۔

    دوازے پر دستک ہوئی تو وہ چونک گیا، سامنے رانو کھڑی تھی، ’’میاں جی یہ اماں نے بھیجا ہے’’ اس کے لہجے میں وہی عزت و احترام تھا جو کبھی میاں جی کے لئے ہوا کرتا تھا وہ کپڑے سے ڈھکا ڈونگا اس کی طرف بڑھاتے ہو ئے بولی۔

    ’’تم مجھے میاں جی کیوں کہتی ہو’’

    سعید کے لہجے میں الجھن تھی

    ’’تو اور کیا کہوں، آپ میاں جی ہی تو ہیں’’

    رانو کی آواز میں شو خی تھی

    سعید نے ایک نظر اسے دیکھا، گہرے نیلے سوٹ میں اس کی رنگت کھلی پڑ رہی تھی، بھر ے بھرے ہونٹوں پر تھرکتی مسکان اور آنکھ کا کاجل سعید کا ایمان لوٹنے کو کافی تھے

    ’’اچھا اب تم جاؤ’’

    سعید نے ڈونگا پکڑ لیا اسے اپنے سینے میں مچلتے دل سے خوف آنے لگا تھا، کمبخت قابو سے باہر ہوا جا رہا تھا

    وقت جیسے تھم سا گیا تھادن تو ہنگاموں کی نذر ہوجاتالیکن رات تمام تر وحشتیں لیے پہلو میں آن بیٹھتی۔ بلب کی مدہم سی زرد روشنی میں دیواروں پر ناچتے سائے زندہ ہو جاتے اور اپنی نوکیلی انگلیوں اور تیز دھار ناخنوں سے اسے نوچنے لگتے، وہ ہر رات تنہائی کے ان خوفناک بھوتنو سے لڑتے لڑتے گزار دیتا، دن سارے ان چاہے ہنگام ساتھ لے کر آتا، وہ اکتانے لگا

    ایسے میں رانو کا خیال جیسے واحد سہارا تھاوہ اپنی تمام تر خوبصورتیوں سمیت جب تصور میں وارد ہوتی تو وہ کچی کوٹھڑی کسی شیش محل میں تبدیل ہو جاتی مدقوق روشنی والا مریل بلب چودھویں کے چاند کی سحر آگیں روشنی لٹانے لگتا، کچی بد رنگ دیواروں پر ہزاروں رنگ جھلملانے لگتے سعید رانو کاہاتھ تھامے خواب وادیوں میں اتر جاتا جہاں جھرنوں کا مترنم پانی الفت کے سرمدی سر چھیڑ دیتا، فضاؤں میں نغمگی سی گھل جاتی، ہوا رقص کرنے لگتی، کلیوں کے نازک لبوں پر مسکان بکھر جاتی اور مخملیں سبزے پر تھرکتی چاندنی بیخود ہو اپنے بلوریں جام بھر بھر محبت کرنے والی روحوں کو چاہت کی مے بانٹنے لگتی، تشنگی مٹنے لگتی اور روح بیخود میں در عشق پر دھمال ڈالنے لگتی

    اس کے پور پورمیں اکتاہٹ اتر آئی تھی، انتہائی بے دلی سے نمازیں بھی ادا کرتا معمولی غلطی پر قرآن پڑھنے کے لیے آنے والے بچوں کو روئی کی طرح دھنک کر رکھ دیتا اور بعد میں انھیں بہلاتے ہوئے خود بھی سسک پڑتا۔

    وہ اس ماحول سے بھاگنا چاہتا تھا لیکن کہاں؟ یہ سوال اس کے قدم جکڑ لیتا اس کی تعلیم کا سلسلہ موقوف ہو چکا تھا دن رات مسجدحجرے میں پڑا رہتا، اسے لگتا شاید وہ بھی انھی کچی دیواروں کا حصہ ہے بھدا، بدرنگ اور کھردارا، اپنی بیزاری کہ وجہ سمجھنے سے وہ خود بھی قاصر تھا اسے مسجد اور اس کے خاموش ماحول سے وحشت ہونے لگی عجیب مفلوج کر دینے والی یاسیت تھی اک بے نام اداسی اسے لگا وہ پاگل ہو جائےگا وہ اپنے ہی بال نوچنے لگتا۔

    اس دن جب بڑے چودھری جی نے شادی کی تجویز اس کے سامنے رکھی تو وہ چونک اٹھا،

    ’’ہاں میاں جی ،بڑے میاں جی ہوتے تو سب خود دیکھ لیتے لیکن اب ہمیں ہی کچھ کرنا ہوگا اگر آپ رضامند ہوں تو بات چلاؤں؟ظ

    ’’چودھری جی۔۔۔ وہ میں۔۔۔ سعید گڑبڑا گیا

    ’’اگر کوئی لڑکی نظر میں ہو تو بتا دیں ورنہ میں اپنے طور پر کچھ کرتاہوں’’

    چودھری جی سنجیدگی سے بولے

    ’’بھاگ بھری کی بیٹی رانو کے بارے میں کیا خیال ہے؟ بہت سگھڑ لڑکی ہے’’

    سعید کو لگا دل ابھی پسلیاں توڑ کر باہر نکل آئےگا، اسے سینے میں سانسیں اٹکتی ہوئی محسوس ہوئیں

    ’’آپ نے جواب نہیں دیا؟’’

    چودھری جی نے پھر پوچھا

    ’’چودھری جی میں کیا بولوں، آپ بڑے ہیں جیسا مناسب لگے کریں’’

    سعید نے سار ا معاملہ ان پر ڈال دیا

    ٹھیک ہے میاں جی میں بات کرتا ہوں رب سوہنا بہتر کرےگا

    وہ مصافحہ کر کے باہر نکل گئے

    سعید کے اندر ہلچل مچ گئی تھی، وہ کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے رانو کی مرضی جاننا چاہتا تھا، شام کو جب وہ کھانا لے کر آئی تو سعید نے اسے روک لیا۔

    ’’رانو ایک بات پوچھوں’’

    اس نے بہت جھجھکتے ہوئے کہا

    ’’جی میاں جی ضرور’’

    ’’مجھ سے شادی کرو گی؟’’

    سعید کی آواز کپکپا رہی تھی رانو ایک دم چپ ہو گئی

    ’’کیا ہوا تم نے جواب نہیں دیا؟’’

    ’’میاں جی مجھے ہر گھر کا پکا ہوا کھانا اچھا نہیں لگتا’’

    رانو کی آواز بہت دھیمی تھی

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے