Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

پاپوش

عزیز احمد

پاپوش

عزیز احمد

MORE BYعزیز احمد

    کہانی کی کہانی

    ’’حیدر آباد کے ایک ایسےجاگیردار کی کہانی ہے، جو اپنی بیوی سکینہ بیگم کی مخالفت کے باوجود گھر کی نوکرانی کی بیٹی سے گاؤں جاکر متعہ (نکاح) کر لیتا ہے۔ اس نکاح کے بعد وہ اصرار کرکے سکینہ بیگم کو بھی گاؤں لے جاتا ہے۔ مگر وہاں دونوں بیویوں کے درمیان ایسا جھگڑا ہوتا ہے کہ سکینہ بیگم جاگیردار صاحب کا گھر چھوڑکر چلی جاتی ہے۔‘‘

    دلبر علی خاں چھوٹے سے جاگیردار ہیں جس زمانے میں حیدر آباد کے نواح میں کشن پلی کی پہاڑیاں ایک بڑا فیشن ایبل محلہ بن گئیں انہوں نے یہاں بلندی پر ایک چھوٹا سامکان بنوا لیا۔ تین کمرے، ایک برآمدہ، باہر ایک برآمدہ اور چبوترہ اور پہاڑی کی ڈھلوان پر ایک بےہنگم سا باغ جس میں نیم، ببول اور بہت سے خودرو پودوں کے ساتھ ساتھ دو چار سرو کے درخت تھے۔ سرخ پھولوں کی جاپانی بیلیں تھیں۔ گلاب البتہ کئی قسم کے تھے۔

    اس باغ میں اور برآمدے میں تعطیلات کے دنوں میں دلبر علی خاں یا ان کے خاندان کے متفرق افراد، محلہ کے دوسرے بنگلوں والوں کو ٹہلتے نظر آتے ہیں۔ دلبر علی خاں کو جاگیر سے کوئی چار پانچ سو روپیہ ماہوار کا اوسط مل جاتا تھا اور ان کے پاس دو موٹریں بھی تھیں۔ ایک چھوٹی سی ڈی۔کے۔ڈبلیو اور ایک بڑی شورلٹ۔ شورلٹ پر ٹیکسی کا نمبر تھا اور اس کی رجسٹری بھی انہوں نے ٹیکسی کی حیثیت سے کرائی تھی۔

    اس سے فائدہ یہ تھا کہ پٹرول راشنگ کے اس تکلیف دہ زمانے میں انہیں تیس گیلن کے قریب پٹرول مل جاتا تھا۔ لیکن دلبرعلی خاں نے سرکاری نوکری بھی کرلی تھی۔ محکمہ۔۔۔ میں وہ انسپکٹر تھے ناکے پر کبھی اپنی چھوٹی گاڑی اور کبھی بڑی شورلٹ میں بڑی شان سے جاتے۔ ان کے افسربھی انہیں نواب صاحب کہتے اور باوجود اس کے کہ وہ اپنے افسروں کو ہمیشہ اپنے سے برتر سمجھتے اور تعظیماً صاحب کہتے، مگر ان کی بھی عزت کی جاتی تھی۔ اپنے آباؤ اجداد کی طرح نواب دلبر علی خاں کا بھی راسخ عقیدہ تھا کہ سرکاری ملازمت سے عزت ہوتی تھی۔ خواہ وہ سرکاری ملازمت انسپکٹری ہی کیوں نہ ہو۔ ورنہ بیکار نوابوں کی آمدنی کتنی ہی ہو، ان کو کون جانتا ہے؟ نوکری میں اتنی عزت تو ضرور ہے کہ اگر دس افسروں کا حکم ماننا پڑتا ہے تو دس ماتحتوں پر حکم چل بھی سکتا ہے۔ اس لیے نواب دلبر علی خاں اپنے ڈھلوان پہاڑی کے باغیچے میں صرف تعطیلوں میں ہی نظر آتے ہیں۔ تین لڑکے جوان تھے۔ تینوں یونیورسٹی میں پڑھتے تھے۔ ایک ایل ایل بی کر رہا تھا۔ ایک بی اے میں تھا۔ ایک انٹرمیڈیٹ کے سال اول میں۔ کالج کے وقت سے پہلے اور اس کے بعد یہ تینوں اس باغیچے میں اکثر کاشت کاری میں مصروف رہتے۔ خصوصاً برسات میں موسمی پھولوں کے بیج بوئے جاتے اور بھٹے، کیلے اور بہت سی اجناس کی تخم ریزی کی جاتی۔ ان میں سے ایک لڑکا برآمدے میں پابندی سے مغربین کی نماز پڑھتا نظر آتا۔

    کشن پلی میں کوئی بھی زیادہ پردہ نہیں کرتا۔ ان پہاڑیوں میں پردہ تو پردہ تخلیہ بھی ذرا مشکل ہی ہے۔ بنگلے ٹیلوں پر اور نشیبوں میں اس طرح بکھرے ہیں کہ ہر ایک بنگلہ دوسرے کے لیے منظر عام ہے۔ مکانوں کو ہوا دار بنانے کے لیے کھڑکیوں کی وہ کثرت ہے کہ ایک مکان سے دوسرے مکان کے کمرے کا سارا فرنیچر گن لیجئے۔ اسی لیے نواب دلبر علی خاں کے گھرانے میں بھی پردے کا کوئی ایسا خاص اہتمام نہ تھا۔ ان کی بیگم جو چالیس سال کی ہوں گی اکثر ’’ماٹی ملے‘‘نوکروں اور (دماغ چوٹی حرام زدای) ماماؤں کو ڈانٹتی ہوئی برآمدے میں یا باغ میں نظر آتیں۔ کبھی بھینسوں کو چرانے والا چھوکرا نہ آتا تو وہ اپنے باغ میں بھینسوں کی رکھوائی بھی کر لیتیں۔ آس پاس کے تمام بنگلوں میں پچیس سال سے کم عمر کی لڑکیاں انہیں سکینہ خالہ کہتیں۔ وہ تھیں بھی جگت خالہ ہر ایک کے دکھ درد میں شریک۔ ہمسایوں میں کسی کے یہاں زچگی ہو،کسی کا بچہ بیمار ہو۔ وہ برابر مدد کے یا خدمت کے لیے موجود۔ بعض سے تو ان کے اتنے مراسم تھے کہ گھر کی مالکن گرمیوں میں اپنے میاں کے ساتھ بنگلور یا مہابلیشور جائیں تو اپنے بچوں کو اور گھر کی کنجیوں کو سکینہ خالہ کے سپرد کر جاتیں اور جب واپس آتیں تو انہیں حیرت ہوتی کہ سکینہ خالہ کے خانہ داری کے زمانے میں خرچہ اندازے سے کم ہوا ہے۔

    جب کشن پلی کے کسی خالی بنگلے میں کوئی نئے لوگ آتے تو کسی اور بیگم کے ساتھ سکینہ بیگم ملاقات کے لیے سب سے پہلے پہنچتیں۔ انکسار میں کوئی کمی نہ کرتیں۔ یہاں تک کہ بعض دماغ چوٹی چھوکریاں ان کے انکسار کو بیوقوفی سمجھنے لگتیں۔ جب صدر المہام بہادر کے کاغذات ممہور کی بھتیجی نے کشن پلی میں ایک مکان کرائے پر لیا تو سکینہ بیگم تیسرے ہی روز ملنے کو پہنچیں اور دل افروز سلطان یعنی صدرالمہام بہادر کی بھتیجی کو ادب سے جھک کے سلام کیا۔ دل افروز نے کہا۔ ’’خالہ مجھے آپ کو سلام کرنا چاہیے۔ میں چھوٹی ہوں آپ بڑی ہیں۔ آپ مجھے شرمندہ کرتی ہیں۔‘‘

    تویہ بات سکینہ خالہ کی سمجھ میں بھی آ گئی اور انہوں نے تلافی مافات کے لیے دل افروز کی چٹ چٹ بلائیں لیں اور دل افروز اور اس کے دلہا کو دعائیں دیں۔

    سکینہ بیگم اور نواب دلبر علی خاں کے دو لڑکیاں بھی تھیں۔ ایک زینب تھی جو اب کوئی سولہ سترہ سال کی ہو گئی تھی۔ زینب پر پابندی زیادہ تو نہ تھی مگر وہ ماں باپ سے پوچھے بغیر دل افروز، مہر نگار، شوبھا یا اور کسی ’’آپا‘‘ کے بنگلے نہ جاسکتی تھی۔ جب دفتر کے وقت ان آپاؤں کے میاں چلے جاتے تب وہ کبھی سکینہ بیگم کے ساتھ، کبھی اپنی چھوٹی بارہ سالہ بہن شہر بانو کے ساتھ ان سب کے یہاں جاتی۔ یوں ان لڑکیوں پر بھی پردے کی کوئی سخت پابندی نہ تھی۔ برآمدے میں وہ عموماً پھرتی رہتیں۔ محلے کے دولہے بھائیوں میں سے کسی سے آمنے سامنے آگے بات چیت تو نہ کرتیں مگر دور سے ان کو دیکھ کے چھپنے کی بھی کوشش نہ کرتیں اور کشن پلی میں کوئی کسی سے چھپتا ہی نہیں تھا۔

    سکینہ بیگم کے ملازمین میں صرف قابل ذکر ہے یہ ایک پانچ سال کا چھوکرا ہے۔ چھ مہینے ہوئے دلبر علی خاں نے دورہ کرتے ہوئے جوگی پیٹھ کے قریب اس یتیم و یسیر لڑکے کو ایک ایک دانہ چاول کے لیے ترستے ہوئے دیکھا تھا۔ شہر بانو ضد کرنے لگی کہ ہم اس کو پالیں گے۔ یوں تووہ اسے گاؤں سے اٹھا نہیں لا سکتے تھے۔ دلبر علی خاں نے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ اس کی صرف ایک پھوپھی ہے۔ جسے خود ہی کچھ کھانے کو میسر نہیں۔ پانچ روپے دے کر دلبر علی خاں نے اس سے یہ لڑکا لے لیا اور ان کا نام حر رکھا۔ حر اس لیے کہ خریدتے ہی شہر بانو نے اسے آزاد کر دیا تھا اور نوکر رکھ لیا تھا۔ یہ بچہ حر اب آدھی اردو اور آدھی تلنگی تتلا کے بولتا تھا اور بیک وقت نوکر بھی تھا اور کھلونا بھی۔ زینب اور شہر بانو دونوں کی مار بھی کھا تا تھا اور دونوں اسے چاہتی بھی بہت تھیں۔ حر اس عمر میں اس طرح کام کرتا تھا کہ تمام ہمسایوں کو حیرت تھی۔محرم کے روٹ یا حلوے کی سینی اس کے سر پر رکھ دی جاتی اور شہر بانو یا سکینہ بیگم اس سے کہتیں ’’حر! یہ حصہ لے جا کر مہر نگار کے یہاں دے کے آ۔ اگر گرایا تو پھر دیکھ۔‘‘

    اور یہ بچہ، کالی، چھوٹی سی شکل، بمشکل ڈیڑھ فٹ کا قد، پہاڑی پگڈنڈی سے، سرکس کے مسخرے کی طرح سر پر تھالی کا بوجھ سنبھالے اترتا۔ شکریہ کی چٹھی لکھ کے تھالی میں رکھ دیتا۔ اگر کوئی خدا ترس ہوا تو ذرا سی مٹھائی حر کو بھی کھلا دیتا۔ خر پر اگر کوئی زیادہ مہربان ہوتا تو یہ پانچ سال کا بچہ جو مشین کی طرح کام کر سکتا تھا اپنے کو بچہ سمجھ کے رو دیتا۔ وہ بچوں کی طرح شرمیلا تھا اور نوکری کی تو مجبوری تھی۔ لیکن اجنبیوں کی دخل اندازی اور ان کا زبردستی کا رحم اور پیار اسے گوارا نہیں تھا۔

    سکینہ بیگم اور دلبر علی خاں اور ان کے بچے جب کھانا کھاتے تو وہ دور بیٹھا ہوا کھانے کو دیکھتا رہتا۔ لیکن جب وہ کھانا کھا چکے تو پھر کسی نوکر یا ماما کی مجال نہیں تھی کہ دستر خوان کے یعنی خاصے کے کھانے میں سے ایک لقمہ بھی حر سے پہلے کھائے۔ بچے ہوئے دستر خوان سے جو چیز اسے پسند آتی۔ وہ سب سے پہلے اسے اپنی مٹی کی رکابی میں انڈیل لیتا اور اگر کوئی ماما اسے چھیڑتی اور دسترخوان اٹھاتے وقت کوئی چیز حر کو نہ لینے دیتی تو وہ رونے لگتا۔ ’’دیکھ درا سانی‘‘ اور درا سانی (مالکہ) یعنی حرکی شہر بانو یا چھوٹی بی بی فوراً ماما کو ڈانٹتی’’کیوں گے (ری) کیوں چپ کی چپ ستارئی (رہی ہے) اس کو‘‘ یا اگر کہیں کوئی ماما ایسا غضب کرتی کہ حر کے کھانے سے پہلے سچ مچ کچھ کھا لیتی تو پھر موقع کی اہمیت کے لحاظ سے سکینہ بیگم کو غصہ آتا، ’’کیوں ری مشٹنڈی‘‘ حرام زادی۔۔۔ کھاکھا کے کیسی نکل رہی ہے دیکھ حرام یک چڑیل کو۔‘‘

    الغرض حر کا مرتبہ دلبر علی خاں کے گھرانے میں ہندوستانی نوکروں سے زیادہ اور ولائتی کتے کے برابر تھا۔

    گرمیوں کے دنوں میں چھٹی لے کے (دلبر علی خاں) اکثر اپنی جاگیر کو جایا کرتے تھے لیکن سکینہ خالہ اور بچے ان کے ساتھ بہت کم جاتے تھے۔ اس کی وجہ ہمسائے کی تمام بیگماتے کو معلوم تھی۔ سکینہ خالہ دل افروز سے کبھی کبھی دکھڑا روتیں ’’بی بی۔ میں کیا بولوں آپ سے میری پالی ہوئی چھوکری، وہی منڈی کاٹی، چھہ۔۔۔ گلزار۔ ہمارے صاحب، اس پر ریچ (پرہی) نیت خراب کیے ہیں۔ میرے سے بولے سکینہ تیرے کو ڈاکٹر ان تین مہینے کا پرہیز بتائے ہیں۔۔۔‘‘

    ’’وہ کاہے کا پرہیز۔‘‘ دل افروز کی والدہ نے چھا لیا کترتے ہوئے پوچھا۔

    اپنی والدہ کے اس بے احتیاط سوال اور ان کی ناسمجھی پر جھینپ کے دل افروز نے کہا۔

    ’’چپ بیٹھو مما‘‘

    مگر سکینہ خالہ تشریح پر تلی ہوئی تھیں۔ ’’قریب آنے کا پرہیز آپا‘‘۔ بڑی بی سمجھ کے، مسکرا کے پھر چھا لیا کاٹنے لگیں۔ دل افروز جھینپ کے سوچنے لگی۔ سکینہ خالہ کو اپنے گھر کے سارے بھید اس طرح بیان کرنے کی کیا خاص ضرور ت تھی۔

    پھر سکینہ خالہ نے کہنا شروع کیا۔ ’’میرے سے بولنے لگے۔ سکینہ تیرے کو ڈاکٹر ان تین مہینے کا پرہیز بتائے ہیں۔ میں پھر گلزار سے تین مہینے کا متعہ کرلیتا ہوں۔ تیرے پیر پڑتاؤں سکینہ۔ میں اس کو یہاں حیدرآباد لیتاؤں۔ میں بولی نواب تمہارے کو شرم لحاظ نہیں۔ ماشاء اللہ سے تین بیٹے، ایک بیٹی جوان جہان ہے۔ پچاس سال کی عمر ہونے کوآئی۔ پانچ برس میں کیا بولتے ہو کہ وظیفہ لے کے اللہ اللہ کرنے کا وخت آئیں گا اور اب یہ سب کا ماں کریں گے۔ قسم امیر علیہ السلام کی، تم اس لونڈی کو لاؤ تو سہی، میں تمہارا گھر چھوڑ کے نہیں چلی گئی تو بولو۔ بی بی میرا مہر پچاس ہزارہے۔ کیا میں اس کو چھوڑوں گی۔ حضرت عباس کی قسم دعویٰ کر کے ایک ایک کوڑی جھڑا لوں گی۔۔۔ مہر برابر وصول کرنا بی بی۔ خدا کی شان ہے جو لونڈی میری پاپوش کے برابر نہیں تھی۔ سو انے آج کے دن میری سوکن بنےگی۔ میں اپنے بچوں کو لے کے نہیں چلی گئی تو انے دیکھنا۔ میں اس کی لونڈی باندی ہوں کیا۔ انے بےچارہ سمجھتا ہوں گا۔ میرے کو پچاس ہزار میں خرید لیا۔ مگر پچاس ہزار میں پہلے دھر والیوں گی۔ میری شادی کچھ ایسی ویسی ہوئی تھی۔ بی بی میں نواب گزارش جنگ کی بیٹی ہوں۔ کچھ ہنسی ٹھٹھا نہیں۔ میری شادی میں مہاراجہ کشن پرشاد، حیدری صاحب، آپ کے چچا، سب لوگاں آئے تھے اب تک ہمارے دیوان خانے میں تصویر لگی ہے۔ آپ کبھی آئے تو دیکھو۔۔۔ آپ لوگوں میں اچھا ہے۔ متعہ وتعہ کا جھگڑا نہیں۔‘‘

    دل افروز کی والدہ نے کہا ’’تو کیا ہوا۔ ہم لوگوں میں متعہ نہیں تو مرداں نکاح متعہ کے بغیر ہی عورتوں کو گھروں میں ڈال نہیں لیتے کیا؟‘‘

    ’’ہاؤ۔ یہ بھی ٹھیک بات بولے آپ‘‘۔ سکینہ بیگم نے ان کی رائے سے اتفاق کیا۔

    لیکن معلوم ہوتا ہے کہ کسی طرح نواب دلبر علی خاں وہ کرہی گزرے جس کا اندیشہ تھا۔ انہوں نے اس چھوکری گلزار سے متعہ کر لیا گلزار کی ماں اور اس کی نانی اس سے پہلے اسی گھرانے میں نوکر تھیں۔ گلزار یہیں پیدا ہوئی تھیں اور اس کی جوانی، بھینس کی جوانی کے آتے ہی سب ریجھ گئے۔ نواب دلبر علی خاں تو ایک طرف نواب دلنواز علی خاں یعنی ان کے والدجن کی عمر اب اسی سال کے اوپر تھی۔ جن کی پشت خم ہو چکی تھی اور جو بات بات پر کھانستے تھے اور ہر محفل میں نواب افضل الدولہ مرحوم کے زمانہ سلطنت کا ذکر کرتے تھے۔ وہ نواب دلنواز علی خاں تک اس نوجوان بھینس کے قدردانوں میں تھے۔ اس سے ہاتھ پیر دبواتے۔ اسے حکم دیتے کہ ان کے سامنے ہی بیٹھی رہے۔ ابھی ساغر و مینا مرے آگے اور ان کے نوجوان پوتوں کا پوچھنا ہی نہیں تینوں گلزار پر ترچھی ترچھی میٹھی میٹھی نگاہیں ڈالتے۔ مگرجب انہیں معلوم ہوا کہ یہ نوجوان بھینس والد بزرگوار کو پسند آئی ہے تو یہ شریف لڑکے مجبوراً دست بردار ہو گئے اور نواب دلبر علی خاں نے متعہ کر کے اسے رکھ ہی لیا مگر حیدر آباد میں نہیں، جاگیر میں۔

    اس سال حیدرآباد میں اس کڑاکے کی گرمی ہوئی کہ خدا کی پناہ اور کشن پلی کے پتھریلے ٹیلے دن کے گیارہ بجے سے تپنا شروع کر دیتے۔ حیدر آباد میں لو نہیں چلتی۔ لیکن اس سال اپریل ہی سے ہوا میں لو کی سی گرمی تھی۔ تالاب، کنٹے سب سوکھ گئے تھے اور خود حسین ساگر اور گنڈی پیٹھ میں بہت تھوڑا سا پانی رہ گیا تھا۔ اس لیے جب دلبر عالی خاں نے اپنی بیوی اور بچوں کو جاگیر چلنے کے لیے کہا تو ان کی بیوی اگرچہ یہ کہہ کے کئی دن تک انکار کرتی رہیں۔ نواب میں تو نہیں آتی۔ وہاں تم اس حرام زادی سنڈی کو رکھے ہیں۔ اس کو دیکھتے ہی مریا ہاتھ اٹھیں گا اور میں اپنی پاپوش اس کو کھینچ کے ماروں گی۔ پھر تم میرے سے لڑیں گے اور جوان جہان بچوں کے سامنے تھکا فضخیتی ہوئیں گی۔ یہ سب کائیں کو۔ تم جاؤ۔ میں آتیج (آتی ہی) نئیں۔‘‘ لیکن گرمیوں کی شدت سے مجبور ہو کے وہ اور بچے بالاخر تیار ہو گئے۔

    جاگیر پہنچ کے سکینہ خالہ گلزار سے اسی طرح کا سلوک کرتیں جیسا نوکرانیوں سے کیا جاتا ہے۔ لاکھ نواب نے اس سے متعہ کیا ہو۔ لیکن اس حرام زادی کی کیا مجال جو حر سے پہلے دستر خوان کا بچا ہوا ایک ٹکڑا بھی وہ کھا لے۔ گلزار کو وہ وہی کھانا دیتیں جو اور سب نوکروں کو ملتا۔ ناشتے میں جوار کی روٹی۔ دوپہر میں باجرہ کی روٹی اور موٹے چاول اور دال۔ شام کو موٹے چاول اور ایک بگھارا سالن یا کڑھی۔ دلبر علی خاں کچھ کہتے تو سکینہ بیگم بپھر کے کہتیں ’’یہ لونڈی رنڈی نوکروں کا کھانا نہیں تو کیا سرداروں کا کھان کھائیں گی۔ میری اور میری بچوں کی پاپوش کی برابری کریں گی؟‘‘

    ایک دن سکینہ بیگم نے اپنے میاں اور گلزار کو اس کی کوٹھڑی میں دیکھ لیا تھا دن بھر وہ چڑ چڑاتی اور غصہ کرتی رہیں۔ شام کے کھانے پر صحن میں وہ ان کے میاں اور سب بچے بیٹھے تھے۔ کھانا صحن میں شطرنجی پر ہوتا تھا اور ذرا اول وقت ہی ہو جاتا تھا کہ پتنگے پریشان نہ کریں۔ حر شطرنجی سے ذرا دور بیٹھا دستر خوان اور اٹھتے ہوئے لقموں پر نظر جمائے تھا۔ گلزار قریب ہی کھڑی کھانا کھلا رہی تھی اور دلبر علی خاں کو دیکھ دیکھ کے ہنس رہی تھی۔

    سیکنہ بیگم کا خون دفعتہ کھول اٹھا۔ ’’جا یہاں سے مردار۔ یہاں کیا نخرے کرے رہی ہے۔‘‘

    دلبر علی خاں نے کہا ’’انے کیا کررئی ہے بےچاری۔‘‘

    ’’بےچاری؟‘‘ سکینہ بیگم کی آواز چیخ بن گئی۔ ’’انے بےچاری ہے۔ ایک تم بیچارے، ایک انے بےچاری۔ شرم نہیں آتی بڈھے تیرے کو۔ دیکھ یہ تیری جوان بیٹی بیٹھی ہے تو اس کے اور بچوں کے سامنے ایک ادنیٰ چھوکری سے ہنسی ٹھٹھا کر رہے۔ یہ رنڈی، چھہ۔۔۔ ال کو اشارے کرراہے۔ یہی سبخ (سبق) دے رہا ہے۔ جوان بیٹی کو آج تو میں یہ حرام زادی کی چوٹی کاٹوں گی۔‘‘

    ’’دیکھو سکینہ۔ تم چپ نہیں بیٹھے تو میں مزہ بتاؤنگا‘‘۔ نواب دلبر علی خاں کو بھی اب غصہ آ رہا تھا۔

    ’’کیوں کیا کریں گے تم میرے کو۔ کیا مزہ بتائیں گے جی۔ ساری عمر چپ بیٹھی ناجی میں چپ بیٹھ بیٹھ کے تو آج یہ حال ہوا۔ کیا کریں گے تم میرے کو۔ بولونا‘‘۔ سکینہ بیگم نے ہسٹریا کے عالم میں چیختے ہوئے بکنا شروع کیا۔

    دلبر علی خاں چپ ہو گئے۔ مگر سکینہ بیگم کا غصہ بڑھتا جا رہا تھا۔ وہ گلزار کی طرف مخاطب ہوئیں۔

    ’’نکل یہاں سے رنڈی، مردار، مال زادی۔‘‘ اور یہ دیکھ کرکہ گلزار اپنی جگہ سے نہیں ہل رہی ہے۔ انہوں نے اپنی جوتی اٹھائی اور اسے مارنے کو اٹھیں۔

    دلبر علی خاں نے جھپٹ کر جوتی ان کے ہاتھ سے چھین لی اور اسی جوتی سے سکینہ بیگم کو مارنا شروع کیا۔ اپنے تین جوان بیٹوں، اپنی بیٹیوں کے سامنے۔ سکینہ بیگم اور زور زور سے چیخنے اور رونے لگیں۔ ’’مارو میرے کو مارو، آج تم میرے کو مار ڈالو‘‘۔ دونوں لڑکیاں ایک دوسرے کو لپٹ کر رونے لگیں۔ حر بھی بجائے کھانے کی طرف گھورنے کے چیخیں مار مار کر رونے لگا۔ تینوں لڑکے اٹھ کے بےطاقت بتوں کی طرح بے حس و حرکت کھڑے ہو گئے اور گلزار نے ہنسنا شروع کیا۔ ہسٹریا اور فتح کی ملی جلی ہنسی۔ آج ایک جوان لونڈی نے بڈھی مالکہ پر فتح پائی تھی۔ جو پاپوش بچپن سے اس کے سر پر پڑتی رہی تھی۔ آج بیگم صاحبہ کے جسم پر برس رہی تھی۔

    اتنے میں منجھلے لڑکے نے بڑے سے آہستہ سے کہا، ’’بھائی یہ حرام زادی ہنس رہی ہے۔‘‘

    اس پر بڑے نے فوراً اپنا جوتا سنبھالا اور گلزار کی طرف جھپٹا۔ دلبر علی خاں اپنی بیوی کو چھوڑ کے اس سے لپٹ گئے۔ بڑے لڑکے نے غضبناک لہجے میں کہا۔ ’’ابا، آپ نے ہماری ماں کو جوتوں سے مارا۔ اس حرام زادی کے لیے اور یہ کھڑی ہو کے ہنس رہی ہے۔ میں تو آج اس کو مار ڈالوں گا۔ چھوڑئیے آپ‘‘ باپ کی گرفت اور مضبوط ہو گئی اور بیٹا باپ پر جوتا نہ اٹھا سکا۔ جوتا اس کے ہاتھ سے گر گیا اور وہ پھوٹ پھوٹ کے رونے لگا۔ لیکن اتنے میں منجھلے اور چھوٹے لڑکے نے اپنے اپنے جوتے سنبھالے اور گلزار پر پل پڑے۔ بڑے لڑکے نے اب باپ کو اپنی جوان آہنی گرفت میں اس طرح پکڑ لیا کہ وہ ہل نہ سکتے تھے۔ چھوٹے اور منجھلے لڑکے نے اپنی ماں کے اس جملے کی بھی پروانہ لی۔ ’’عباس۔ رشید تو نکو (نہیں) مارو۔ تمہارے باپ نے اس کے ساتھ متعہ کیا ہے۔‘‘ جوتے تڑا تڑا تڑ گلزار پر پڑتے رہے۔ یہاں تک کہ اس کی ناک سے خون بہہ نکلا اور وہ بے ہوش ہو کے گر پڑی اور اس کو مار کھاتے دیکھ کے سب ہی نے اپنی مسرت کو ضبط کیا، شہر بانو تک نے مگر پانچ سال کا غلام حر کھلکھلا کے ہنس پڑا۔

    سیکنہ بیگم دوسرے دن صبح کی گاڑی سے بڑے بیٹے کو ساتھ لے کے حیدر آباد آئیں۔ مگر اپنے گھر نہیں اپنی پھوپھی کے گھر۔ تین مہینے ہو گئے اب تک انہوں نے اپنے میاں دلبر علی خاں کے گھر میں قدم نہیں رکھا ہے۔ لیکن اور سب بچے باپ ہی کے ساتھ ہیں۔ گلزار سے متعہ کی تجدید ہو چکی ہے مگر وہ حیدر آباد نہیں بلائی گئی۔ جاگیر ہی میں ہے۔ جہاں بڑی تعطیلوں میں دلبر علی خاں چلے جاتے ہیں۔ معلوم نہیں سکینہ بیگم کا ارادہ مہر اور نان نفقے کا دعویٰ کرنے کا ہے یا نہیں۔ وہ کشن پلی میں بہت کم لوگوں کے پاس ملنے کو آئیں۔

    دفتر کے دنوں میں تینوں لڑکے کالج چلے جاتے ہیں۔ خود دلبر علی خاں دفتر کو اور شہر بانو بچیوں کے اسکول کو۔ زینب جو مدرسے نہیں بھیجی جاتی گھر میں اکیلی رہ جاتی ہے۔ صرف دو نوکر اور ایک بڑھیا اور ایک ذرا سا حر۔ معلوم نہیں کس مصیبت سے اس کا سارا دن کٹتا ہے۔ باپ سے پوچھ کے کبھی جب محلے کے سارے دولہے اپنی اپنی کچہر یوں اور دفتروں کو چلے جاتے ہیں تو وہ دل افروز آپا یا مہر نگار آپا سے ملنے جاتی ہے اور جلد ہی واپس آ جاتی ہے۔شام کے چار بجے حر کو ساتھ لے کے، کوئی نصف میل کے فاصلے پر اپنی والدہ سکینہ بیگم سے ملنے جاتی ہے اور ان کی خوشامد کرتی ہے۔ سکینہ بیگم راتوں کو اٹھ اٹھ کے وظیفے پڑھتی اور دعائیں مانگتی ہیں کہ ان کی جوان بیٹی پر پنجتن کا سایہ رہے۔ خدا اسے ہر طرح کے شر اور ہر بری نگاہ سے بچائے رکھے۔ لیکن ان کا دل یہ کسی طرح نہیں مانتا کہ اس لڑکی کی حفاظت کے لیے بھی وہ اپنے شوہر کے گھر واپس آنے کا نام لیں۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے