aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

شہید ساز

سعادت حسن منٹو

شہید ساز

سعادت حسن منٹو

MORE BYسعادت حسن منٹو

    میں گجرات کاٹھیا واڑ کا رہنے والا ہوں۔ ذات کا بنیا ہوں۔ پچھلے برس جب تقسیم ہندوستان پر ٹنٹا ہوا تو میں بالکل بیکار تھا۔ معاف کیجیے گا میں نے لفظ ٹنٹا استعمال کیا مگر اس کا کوئی ہرج نہیں۔ اس لیے کہ اردو زبان میں باہر کے الفاظ آنے ہی چاہئیں۔ چاہے وہ گجراتی ہی کیوں نہ ہوں۔

    جی ہاں، میں بالکل بیکار تھا۔ لیکن کوکین کا تھوڑا سا کاروبار چل رہا تھا جس سے کچھ آمدن کی صورت ہو جاتی تھی۔ جب بٹوارہ ہوا اور ادھر کے آدمی ادھر اور ادھر کے ادھر ہزاروں کی تعداد میں آنے جانے لگے تو میں نے سوچا چلو پاکستان چلیں۔ کوکین کا نہ سہی کوئی اور کاروبار شروع کردوں گا۔ چنانچہ وہاں سے چل پڑا اور راستے میں مختلف قسم کے چھوٹے چھوٹے دھندے کرتا پاکستان پہنچ گیا۔

    میں تو چلا ہی اس نیت سے تھا کہ کوئی موٹا کاروبارکروں گا۔ چنانچہ پاکستان پہنچتے ہی میں نے حالات کو اچھی طرح جانچا اور الاٹ منٹوں کا سلسلہ شروع کردیا۔ سکہ پالش مجھے آتا ہی تھا۔ چکنی چیڑی باتیں کیں۔ ایک دو آدمیوں کے ساتھ یارانہ گانٹھا اور ایک چھوٹا سا مکان الاٹ کرالیا۔ اس سے کافی منافع ہوا تو میں مختلف شہروں میں پھر کر مکان اور دکانیں الاٹ کرانے کا دھندا کرانے لگا۔

    کام کوئی بھی ہو ،انسان کو محنت کرنا پڑتی ہے۔ مجھے بھی چنانچہ الاٹ منٹوں کے سلسلے میں کافی تگ و دو کرنا پڑی۔ کسی کے مسکہ لگایا، کسی کی مٹھی گرم کی، کسی کو کھانے کی دعوت دی، کسی کو ناچ رنگ کی، غرضیکہ بے شمار بکھیڑے تھے۔ دن بھر خاک چھانتا، بڑی بڑی کوٹھیوں کے پھیرے کرتا اور شہر کا چپہ چپہ دیکھ کر اچھا سا مکان تلاش کرتا جس کے الاٹ کرانے سے زیادہ منافع ہو۔

    انسان کی محنت کبھی خالی نہیں جاتی۔ چنانچہ ایک برس کے اندر اندرمیں نے لاکھوں روپے پیدا کرلیے۔ اب خدا کا دیا سب کچھ تھا۔ رہنے کوبہترین کوٹھی۔ بینک میں بے اندازہ مال پانی۔۔۔ معاف کیجیے گا۔ میں کاٹھیا واڑ گجرات کا روز مرہ استعمال کرگیا۔ مگر کوئی واندہ نہیں۔ اردو زبان میں باہر کے الفاظ بھی شامل ہونے چاہئیں۔۔۔ جی ہاں، اللہ کا دیا سب کچھ تھا۔ رہنے کو بہترین کوٹھی، نوکر چار، پیکارڈ موٹر بینک میں ڈھائی لاکھ روپے۔ کارخانے اور دکانیں الگ۔۔۔ یہ سب کچھ تھا۔ لیکن میرے دل کا چین جانے کہاں اڑ گیا۔ یوں تو کوکین کا دھندا کرتے ہوئے بھی دل پر کبھی کبھی بوجھ محسوس ہوتا تھا۔ لیکن اب تو جیسے دل رہا ہی نہیں تھا۔ یا پھر یوں کہیے کہ بوجھ اتنا آن پڑا کہ دل اس کے نیچے دب گیا۔ پر یہ بوجھ کس بات کا تھا؟

    آدمی ذہین ہوں، دماغ میں کوئی سوال پیدا ہو جائے تو میں اس کا جواب ڈھونڈ ہی نکالتا ہوں۔ ٹھنڈے دل سے (حالانکہ دل کا کچھ پتا ہی نہیں تھا) میں نے غور کرنا شروع کیا کہ اس گڑبڑ گھوٹالے کی وجہ کیا ہے؟

    عورت۔۔۔؟ ہو سکتی ہے۔ میری اپنی تو کوئی تھی نہیں۔ جو تھی وہ کاٹھیا واڑ گجرات ہی میں اللہ کو پیاری ہوگئی تھی۔ لیکن دوسروں کی عورتیں موجود تھیں۔مثال کے طور پر اپنے مالی ہی کی تھی۔ اپنا اپنا ٹیسٹ ہے۔ سچ پوچھیے تو عورت جوان ہونی چاہیے اور یہ ضروری نہیں کہ پڑھی لکھی ہو، ڈانس کرنا جانتی ہو۔ اپن کو تو ساری جوان عورتیں چلتی ہیں (کاٹھیا واڑ گجرات کا محاورہ ہے جس کا اردو میں نعم البدل موجود نہیں۔)

    عورت کا تو سوال ہی اٹھ گیا اور دولت کا پیدا ہی نہیں ہوسکتا۔ اس لیے کہ بندہ زیادہ لالچی نہیں، جو کچھ ہے اسی پر قناعت ہے۔ لیکن پھر یہ دل والی بات کیوں پیدا ہو گئی تھی۔آدمی ذہین ہوں۔ کوئی مسئلہ سامنے آجائے تو اس کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہوں۔ کارخانے چل رہے تھے۔ دکانیں بھی چل رہی تھیں۔ روپیہ اپنے آپ پیدا ہورہا تھا۔ میں نے الگ تھلگ ہو کر سوچنا شروع کیا اور بہت دیر کے بعد اس نتیجے پرپہنچا کہ دل کی گڑ بڑ صرف اس لیے ہے کہ میں نے کوئی نیک کام نہیں کیا۔

    کاٹھیا واڑ گجرات میں تو میں نے بیسیوں نیک کام کیے تھے۔مثال کے طورپر جب میرا دوست پانڈورنگ مر گیا تو میں نے اس کی رانڈ کو اپنے گھر ڈال لیا اور دو برس تک اس کو دھندا کرنے سے روکے رکھا۔ ونائک کی لکڑی کی ٹانگ ٹوٹ گئی تو اسے نئی خرید دی۔ تقریباً چالیس روپے اس پر اٹھ گئے تھے۔ جمنا بائی کو گرمی ہوگئی۔ سالی کو (معاف کیجیے گا) کچھ پتا ہی نہیں۔ میں اسے ڈاکٹر کے پاس لے گیا۔ چھ مہینے برابر اس کا علاج کراتا رہا۔۔۔ لیکن پاکستان آکر میں نے کوئی نیک کام نہیں کیا تھا اور دل کی گڑ بڑ کی یہی وجہ تھی۔ ورنہ اور سب ٹھیک تھا۔

    میں نے سوچا۔ کیا کروں۔۔۔؟ خیرات دینے کا خیال آیا۔ لیکن ایک روز شہر میں گھوما تو دیکھا کہ قریب قریب ہر شخص بھکاری ہے۔ کوئی بھوکا ہےکوئی ننگا۔کس کس کا پیٹ بھروں، کس کس کا انگ ڈھانکوں۔۔۔؟ سوچا ایک لنگر خانہ کھول دوں لیکن ایک لنگر خانے سے کیا ہوتا اور پھر اناج کہاں سے لاتا؟ بلیک مارکیٹ سے خریدنے کا خیال پیدا ہوا تو یہ سوال بھی ساتھ ہی پیدا ہوگیا کہ ایک طرف گناہ کرکے دوسری طرف کارِ ثواب کا مطلب ہی کیا ہے۔؟

    گھنٹوں بیٹھ بیٹھ کر میں نے لوگوں کے دکھ درد سنے۔ سچ پوچھیے تو ہر شخص دکھی تھا۔ وہ بھی جو دکانوں کے تھڑوں پر سوتے ہیں اور وہ بھی جو اونچی اونچی حویلیوں میں رہتے ہیں۔ پیدل چلنے والے کو یہ دکھ تھا کہ اس کے پاس کام کا کوئی جوتا نہیں۔ موٹر میں بیٹھنے والے کو یہ دکھ تھا کہ اس کے پاس کار کا نیا ماڈل نہیں۔ ہر شخص کی شکایت اپنی اپنی جگہ درست تھی۔ ہر شخص کی حاجت اپنی اپنی جگہ معقول تھی۔

    میں نے غالب کی ایک غزل، اللہ بخشے شولاپور کی امینہ بائی چتلےکر سے سنی تھی۔ ایک شعر یاد رہ گیا ہے؂ کِس کی حاجت روا کرے کوئی۔۔۔ معاف کیجیے گا یہ اس کا دوسرا مصرعہ ہے اور ہو سکتا ہے پہلا ہی ہو۔

    جی ہاں، میں کس کس کی حاجت روا کرتا جب سو میں سے سو ہی حاجت مند تھے۔ میں نے پھر یہ بھی سوچا کہ خیرات دینا کوئی اچھا کام نہیں۔ ممکن ہے آپ مجھ سے اتفاق نہ کریں۔ لیکن میں نے مہاجرین کے کیمپوں میں جا جا کر جب حالات کا اچھی طرح جائزہ لیا تو مجھے معلوم ہواکہ خیرات نے بہت سے مہاجرین کو بالکل ہی نکما بنا دیا ہے۔ دن بھر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں، تاش کھیل رہے ہیں۔ جگار ہورہی ہے (معاف کیجیے گا جُگار کا مطلب ہے جوا یعنی قمار بازی) گالیاں بک رہے ہیں اور فوکٹ یعنی مفت کی روٹیاں توڑ رہے ہیں۔۔۔ ایسے لوگ بھلا پاکستان کو مضبوط بنانے میں کیا مدد دے سکتے ہیں۔ چنانچہ میں اسی نتیجہ پر پہنچا کہ بھیک دینا ہرگز ہرگز نیکی کا کام نہیں۔ لیکن پھر نیکی کے کام کے لیے اور کون سا رستہ ہے؟

    کیمپوں میں دھڑا دھڑ آدمی مررہے تھے۔ کبھی ہیضہ پھوٹتا تھا کبھی پلیگ۔ ہسپتالوں میں تل دھرنے کو جگہ نہیں تھی۔ مجھے بہت ترس آیا۔ قریب تھا کہ ایک ہسپتال بنوا دوں مگر سوچنے پر ارادہ ترک کردیا۔ پوری اسکیم تیار کر چکا تھا۔ عمارت کے لیے ٹینڈر طلب کرتا۔ داخلے کی فیسوں کا روپیہ جمع ہو جاتا۔ اپنی ہی ایک کمپنی کھڑی کردیتا اور ٹنڈراس کے نام نکال دیتا۔ خیال تھا ایک لاکھ روپے عمارت پرصرف کروں گا۔ ظاہر ہے کہ ستر ہزارروپے میں بلڈنگ کھڑی کردیتا اور پورے تیس ہزار بچا لیتا مگر یہ ساری اسکیم دھری کی دھری رہ گئی۔ جب میں نے سوچا کہ اگر مرنے والوں کو بچا لیا گیا تو یہ جو زائد آبادی ہے وہ کیسے کم ہوگی۔

    غور کیا جائے تویہ سارا لفڑا ہی فالتو آبادی کا ہے۔ لفڑا کا مطلب ہے جھگڑا، وہ جھگڑا جس میں فضیحتا بھی ہو۔ لیکن اس سے بھی اس لفظ کی پوری معنویت میں بیان نہیں کرسکا۔جی ہاں غور کیا جائے تو یہ سارا لفڑا ہی اس فالتو آبادی کا ہے۔ اب لوگ بڑھتے جائیں گے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ زمینیں بھی ساتھ ساتھ بڑھتی جائیں گی۔ آسمان بھی ساتھ ساتھ پھیلتا جائے گا۔ بارشیں زیادہ ہوں گی۔ اناج زیادہ اگے گا۔ اس لیے میں اس نتیجے پرپہنچا۔۔۔ کہ ہسپتال بنانا ہرگز ہرگز نیک کام نہیں۔

    پھر سوچا مسجد بنوا دوں۔ لیکن اللہ بخشے شولا پور کی امینہ بائی چتلے کر کا گایا ہوا ایک شعر یاد آگیا؂ نام منجور ہے تو فیج کے اسباب بنا۔۔۔ وہ منظور کو منجور اور فیض کو فیج کہا کرتی تھی۔ نام منظور ہے تو فیض کے اسباب بنا۔ پل بنا چاہ بنا مسجد و تالاب بنا۔ کس کم بخت کو نام و نمود کی خواہش ہے۔ وہ جو نام اچھالنے کے لیے پل بناتے ہیں۔ نیکی کا کیا کام کرتے ہیں۔۔۔؟ خاک! میں نے کہا نہیں یہ مسجد بنوانے کا خیال بالکل غلط ہے۔ بہت سی الگ الگ مسجدوں کا ہونا بھی قوم کے حق میں ہرگز مفید نہیں ہوسکتا۔ اس لیے کہ عوام بٹ جاتے ہیں۔

    تھک ہار کر میں حج کی تیاریاں کررہا تھا کہ اللہ میاں نے مجھے خود ہی ایک راستہ بتا دیا۔ شہر میں ایک جلسہ ہوا۔ جب ختم ہوا تو لوگوں میں بدنظمی پھیل گئی۔ اتنی بھگدڑ مچی کہ تیس آدمی ہلاک ہوگئے۔ اس حادثے کی خبر دوسرے روز اخباروں میں چھپی تو معلوم ہوا کہ وہ ہلاک نہیں بلکہ شہید ہوئے تھے۔

    میں نے سوچنا شروع کیا۔ سوچنے کے علاوہ میں کئی مولویوں سے ملا۔ معلوم ہوا کہ وہ لوگ جو اچانک حادثوں کا شکار ہوتے ہیں۔ انھیں شہادت کا رتبہ ملتا ہے یعنی وہ رتبہ جس سے بڑا کوئی اور رتبہ ہی نہیں۔ میں نے سوچا کہ اگر لوگ مرنے کی بجائے شہید ہوا کریں تو کتنا اچھا ہے۔ وہ جو عام موت مرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان کی موت بالکل اکارت جاتی ہے۔ اگر وہ شہید ہو جاتے تو کوئی بات بنتی۔

    میں نے اس باریک بات پر اور غور کرنا شروع کیا۔چاروں طرف جدھر دیکھو خستہ حال انسان تھے۔ چہرے زرد، فکر و تردد اور غم روزگار کے بوجھ تلے پسے ہوئے۔ دھنسی ہوئی آنکھیں ،بے جان چال۔ کپڑے تار تار ،ریل گاڑی کے کنڈم مال کی طرح یا تو کسی ٹوٹے پھوٹے جھونپڑے میں پڑے ہیں یا بازاروں میں بے مالک مویشیوں کی طرح منہ اٹھائے بے مطلب گھوم رہے ہیں۔ کیوں جی رہے ہیں۔ کس کے لیے جی رہے ہیں اور کیسے جی رہے ہیں۔ اس کا کچھ پتہ نہیں۔ کوئی وبا پھیلی۔ہزاروں لوگ مر گئے اور کچھ نہیں تو بھوک اور پیاس ہی سے گھل گھل مرے۔ سردیوں میں اکڑ گئے۔ گرمیوں میں سوکھ گئے۔ کسی کی موت پر کسی نے دوآنسو بہا دیے، اکثریت کی موت خشک ہی رہی۔

    زندگی سمجھ میں نہ آئی، ٹھیک ہے۔ اس سے حظ نہ اٹھایا، یہ بھی ٹھیک ہے۔۔۔ وہ کس کا شعر ہے۔ اللہ بخشے شولاپور کی امینہ بائی چتلے کر کیا درد بھری آواز میں گایا کرتی تھی ۔۔۔مر کےبھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے۔ میرا مطلب ہے اگر مرنے کے بعد بھی زندگی نہ سدھری تو لعنت ہے سسری پر۔

    میں نے سوچا کیوں نہ بیچارے، یہ قسمت کے مارے، در در کے ٹھکرائے ہوئے انسان جو اس دنیا میں ہر اچھی چیز کے لیے ترستے ہیں،اس دنیا میں ایسا رتبہ حاصل کریں کہ وہ جویہاں ان کی طرف نگاہ اٹھانا پسند نہیں کرتے، وہاں ان کو دیکھیں اور رشک کریں۔ اس کی ایک ہی صورت تھی کہ وہ عام موت نہ مریں بلکہ شہید ہوں۔

    اب سوال یہ تھا کہ یہ لوگ شہید ہونے کے لیے راضی ہوں گے؟ میں نے سوچا، کیوں نہیں۔ وہ کون مسلمان ہے جس میں ذوقِ شہادت نہیں۔ مسلمانوں کی دیکھا دیکھی تو ہندوؤں اور سکھوں میں بھی یہ رتبہ پیدا کردیا گیا ہے۔ لیکن مجھے سخت ناامیدی ہوئی جب میں نے ایک مریل سے آدمی سے پوچھا، ’’کیا تم شہید ہونا چاہتے ہو؟‘‘ تو اس نے جواب دیا، ’’نہیں۔‘‘

    سمجھ میں نہ آیا کہ وہ شخص جی کر کیا کرے گا۔ میں نے اسے بہت سمجھایا کہ دیکھو بڑے میاں، زیادہ سے زیادہ تم ڈیڑھ مہینہ اور جیو گے،چلنے کی تم میں سکت نہیں۔ کھانستے کھانستے غوطے میں جاتے ہو تو ایسا لگتا ہے کہ بس دم نکل گیا۔ پھوٹی کوڑی تک تمہارے پاس نہیں۔ زندگی بھر تم نے سکھ نہیں دیکھا۔ مستقبل کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا پھر اور جی کر کیا کرو گے۔ فوج میں تم بھرتی نہیں ہوسکتے۔ اس لیے محاذ پر اپنے وطن کی خاطر لڑتے لڑتے جان دینے کا خیال بھی عبث ہے۔ اس لیے کیا یہ بہتر نہیں کہ تم کوشش کرکے یہیں بازار میں یا ڈیرے میں جہاں تم رات کو سوتے ہو، اپنی شہادت کا بندوبست کرلو۔ اس نے پوچھا، ’’یہ کیسے ہوسکتا ہے؟‘‘

    میں نے جواب دیا، ’’یہ سامنے کیلے کا چھلکا پڑا ہے۔ فرض کرلیا جائے کہ تم اس پر سے پھسل جاؤ۔۔۔ ظاہر ہے کہ تم مر جاؤ گے اور شہادت کا رتبہ پاؤ گے۔‘‘ یہ بات اس کی سمجھ میں نہ آئی۔ کہنے لگا۔ ’’میں کیوں آنکھوں دیکھے کیلے کے چھلکے پر پاؤں دھرنے لگا۔۔۔ کیا مجھے اپنی جان عزیز نہیں۔۔۔‘‘ اللہ اللہ کیا جان تھی۔ ہڈیوں کا ڈھانچا جھریوں کی گٹھری!

    مجھے بہت افسوس ہوا اور اس وقت اور بھی زیادہ ہوا، جب میں نے سنا کہ وہ کم بخت جو بڑی آسانی سے شہادت کا رتبہ اختیار کرسکتا تھا،خیراتی ہسپتال میں لوہے کی چارپائی پر کھانستا کھنکارتا مر گیا۔ ایک بڑھیا تھی منہ میں دانت نہ پیٹ میں آنت۔ آخری سانس لے رہی تھی، مجھے بہت ترس آیا۔ ساری عمر غریب کی مفلسی اوررنج و غم میں گزری تھی۔ میں اسے اٹھا کر ریل کے پاٹے پر لے گیا۔ معاف کیجیے گا، ہمارے یہاں پٹری کو پاٹا کہتے ہیں۔ لیکن جناب جونہی اس نے ٹرین کی آواز سنی۔ ہوش میں آگئی اور کوک بھرے کھلونے کی طرح اٹھ کر بھاگ گئی۔

    میرا دل ٹوٹ گیا۔ لیکن پھر بھی میں نے ہمت نہ ہاری۔ بنیا کا بیٹا اپنی دھن کا پکا ہوتا ہے۔ نیکی کا جو صاف اور سیدھا راستہ مجھے نظر آیا تھا،میں نے اس کو اپنی آنکھ سے اوجھل نہ ہونے دیا۔مغلوں کے وقت کا ایک بہت بڑا احاطہ خالی پڑا تھا۔ اس میں ایک سو اکاون چھوٹے چھوٹے کمرے تھے۔ بہت ہی خستہ حالت میں۔ میری تجربہ کار آنکھوں نے اندازہ لگا لیا کہ پہلی ہی بڑی بارش میں سب کی چھتیں ڈھے جائیں گی۔ چنانچہ میں نے اس احاطے کو ساڑھے دس ہزار روپے میں خرید لیا اور اس میں ایک ہزار مفلوک الحال آدمی بسا دیے۔ دو مہینے کرایہ وصول کیا۔ ایک روپیہ ماہوار کے حساب سے۔ تیسرے مہینے جیسا کہ میرا اندازہ تھا، پہلی ہی بڑی بارش میں سب کمروں کی چھتیں نیچے آرہیں اور سات سو آدمی جن میں بچے بوڑھے سبھی شامل تھے۔ شہید ہوگئے۔

    وہ جو میرے دل پر بوجھ سا تھا، کسی قدر ہلکا ہوگیا۔ آبادی میں سے سات سو آدمی کم بھی ہوگئے۔ لیکن انھیں شہادت کا رتبہ بھی مل گیا۔۔۔ ادھر کا پلڑا بھاری ہی رہا۔ جب سے میں یہی کام کررہا ہوں۔ ہرروز حسبِ توفیق دو تین آدمیوں کو جامِ شہادت پلا دیتا ہوں۔ جیسا کہ میں عرض کرچکا ہوں۔ کام کوئی بھی ہو انسان کو محنت کرنا ہی پڑتی ہے۔ اللہ بخشے شولاپور کی امینہ بائی چتلے کر ایک شعر گایا کرتی تھی۔ لیکن معاف کیجیے گا وہ شعر یہاں ٹھیک نہیں بیٹھتا۔ کچھ بھی ہو، کہنا یہ ہے کہ مجھے کافی محنت کرنا پڑتی ہے ۔ مثال کے طور پر ایک آدمی کو جس کا وجود چھکڑے کے پانچویں پہیےکی طرح بے معنی اور بیکار تھا۔ جام شہادت پلانے کے لیے مجھے پورے دس دن جگہ جگہ کیلے کے چھلکے گرانے پڑے لیکن موت کی طرح جہاں تک میں سمجھتا ہوں شہادت کا بھی ایک دن مقرر ہے۔ دسویں روز جا کروہ پتھریلے فرش پر کیلے کے چھلکے پر سے پھسلا اور شہید ہوا۔

    آج کل میں ایک بہت بڑی عمارت بنوا رہا ہوں۔ ٹھیکہ میری ہی کمپنی کے پاس ہے، دو لاکھ کا ہے۔ اس میں سے پچھتر ہزار تو میں صاف اپنی جیب میں ڈال لوں گا۔ بیمہ بھی کرالیا ہے۔ میرا اندازہ ہے کہ جب تیسری منزل کھڑی کی جائے گی تو ساری بلڈنگ اڑاا ڑا دھڑام گر پڑے گی۔ کیونکہ مصالحہ ہی میں نے ایسا لگوایا ہے۔ اس وقت تین سو مزدور کام پر لگے ہوں گے۔ خدا کے گھر سے مجھے پوری پوری امید ہے کہ یہ سب کے سب شہید ہو جائیں گے۔ لیکن اگر کوئی بچ گیا تو اس کا یہ مطلب ہوگا کہ پرلے درجے کا گناہگار ہے جس کی شہادت اللہ تبارک تعالیٰ کو منظور نہیں تھی۔

    مأخذ:

    نمرودکی خدائی

      • سن اشاعت: 1952

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے