aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ٹوٹے ہوئے تارے

کرشن چندر

ٹوٹے ہوئے تارے

کرشن چندر

MORE BYکرشن چندر

    رات کی تھکن سے اس کے شانے ابھی تک بوجھل تھے۔ آنکھیں خمار آلودہ اور لبوں پر تریٹ کے ڈاک بنگلے کی بیئر کا کسیلا ذائقہ۔ وہ بار بار اپنی زبان کو ہونٹوں پر پھیر کر اس کے پھیکے اور بے لذّت سے ذائقے کو دور کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ گو اس کی آنکھیں مندی ہوئی تھی، لیکن پہاڑوں کے موڑاسے اس طرح یاد تھے، جیسے الف بے کی پہلی سطر، اور وہ نہایت چابکدستی سے اپنی موٹر کو جس میں صرف دو آدمی بیٹھ سکتے تھے، (ایک آدمی اور غالباً ایک عورت) ان خطرناک موڑوں پر گھمائے لے جا رہا تھا۔ کہیں کہیں تو یہ موڑ بہت خطرناک ہوجاتے۔

    ایک طرف عمودی چٹانیں، دوسری طرف کھائی، جس کی تہہ میں جہلم کے نیلے پانی اور سفید جھاگ کی ایک ٹیڑھی سی لکیر نظر آجاتی، انھیں موڑوں پر سے تو کار کو تیز چلانے میں لطف حاصل ہوتا تھا۔ سارے جسم میں ایک پھریری سی آجاتی تھی۔ صبح کی ہوا بھی برفیلی اور خوشگوار تھی، اس میں اونچی چوٹیوں کی اور گھاٹیوں پر پھیلے ہوئے جنگلوں کے جیگن کی مہک گھلی ہوئی تھی۔ کیسی انوکھی مہک تھی، عجیب، بے نام سی تروتازہ، نہالو کے لبوں کی طرح، وہ اپنی نیم وا پلکوں کے سائے میں پچھلی رات کے بیتے ہوئے طربناک لمحوں کو واپس بلانے لگا۔ بیّر کی رنگت میں ڈوبتے ہوئے سورج کا سونا گُھلا ہوا تھا۔ اس کے کسیلے پن میں ایک عجیب سی لطافت تھی۔ رات کی بھیگی ہوئی خاموشیوں میں دور کہیں ایک بلبل نغمہ ریز تھی۔ بلبل نے اپنے نغمے میں خاموشی اور آواز کو یوں ملا دیا تھا کہ دونوں ایک دوسرے کی صدائے باز گشت معلوم ہوتے تھے۔ اور وہ یہ معلوم نہ کر سکا تھا کہ یہ خاموشی کہاں ختم ہوتی ہے۔ اور یہ موسیقی کہاں شروع ہوتی ہے۔۔۔ چاندنی رات میں سیب کے پھول ہنس رہے تھے اور نہالو کے لب مسکرا رہے تھے۔

    وہ لب جو بار بار چومے جانے پر بھی معصوم دکھائی دیتے تھے، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ دنیا کی کوئی چیز بھی انھیں نہیں چھو سکتی، کیسا عجیب احساس تھا۔ رات کی تنہائیوں میں نہالو کا حسن غیر فانی اور غیر زمینی معلوم ہوتا تھا۔ اس کے لب، اس کی آنکھوں کی نرمی، اس کے بال سیاہ گھنے اور ملائم، جیسے رات کی بھیگی ہوئی خاموشی، اور پھر ان بالوں میں سیب کے چند چٹکتے ہوئے غنچے، جیسے رات کی بھیگی ہوئی خاموشی میں بلبل کے میٹھے نغمے، اور وہ یہ معلوم نہ کر سکا کہ خاموشی کہاں شروع ہوتی ہے اور یہ موسیقی کہاں ختم ہوتی ہے۔

    لیکن اب تو وہ ڈاک بنگلہ بھی بہت پیچھے رہ گیا تھا، اور اس وقت کسی پرستانی قلعے کی طرح معلوم ہورہا تھا۔ موڑوں کے الجھاؤ میں کار گھومتی ہوئی جا رہی تھی اور اس کے تخیل میں نہالو کے لب، جیگن کی مہک، بلبل کا نغمہ اور بیئر کا سنہرا رنگ چاندی کے تار کی طرح چمکتی ہوئی سڑک پر الجھتے گئے۔ نیچے جہلم کا پانی وحشی راگ گانے لگا اور فضا میں سیب کے لاکھوں پھول آنکھیں کھول کر چہچہانے لگے، اور اس نے سوچا کہ کیوں نہ وہ اپنی موٹر کو اسی کھائی کی وسیع خلاء پر ایک بے فکر پرندے کی طرح اڑا کر لے جائے، یہ خیال آتے ہی اس نے اپنے جسم میں ایک سنسنی سی محسوس کی اور اس کی نیم وا آنکھیں کھل گئیں۔

    راستے میں ایک چشمے کے کنارے اس نے اپنی کار ٹھہرالی۔ اور دیر تک ہاتھ پاؤں دھوتا رہا، آنکھوں کو چھینٹے دیتا رہا، ایک پہاڑی گیت گنگناتا رہا اور پانی لے کر کلّیاں کرتا رہا، آہستہ آہستہ اس کی آنکھوں میں رچا ہوا خمار دور ہو گیا اور بیّر کا کسیلا ذائقہ بھی جاتا رہا۔ اب لب سوکھے تھے، آنکھوں میں جلن سی محسوس ہونے لگی، پیاس اور اشتہا بھی، اس نے بوتل کھول کر گرم چائے انڈیل لی، اور سردتوس پر مکھن لگا کر کھانے لگا، بدن میں گرمی اور قوت آرہی تھی، شانوں کی تھکن معدوم ہونے لگی، اب وہ راہ چلتے ہوئے لوگوں، موٹروں اور لاریوں کو غور اور دلچسپی سے دیکھنے لگا۔ اس وادی میں بیکانیر کے مارواڑی اپنی بھاری بھرکم بیویوں کو پہلگام سیر کرانے کے لئے لے جا رہے تھے، اس کار میں ایک یورپین مرد ایک ہاتھ سے کار چلا رہا تھا اور دوسرا ہاتھ اس کی بیوی کی کمر پر تھا۔ جو اپنے لبوں پر سرخی لگانے میں مصروف تھی، اس لاری میں بیمار کلرک اور ان کی ادھ موئی بیویاں بیٹھی تھیں، اور ان کے بے شمار بچّے لاری کی کھڑکیوں پر کھڑے غُل مچا رہے تھے۔ اس لاری میں سِکھ ڈرائیور کی پگڑی ڈھیلی ہو چکی تھی اور وہ اونگھتا ہوا معلوم ہوتا تھا، اسے خیال آیا کہ چند میل آگے جاکر یہ سِکھ ڈرائیور اپنی لاری کو کھائی کی وسیع خلاء پر اڑانے کی کوشش کرے گا۔ اور پھر دوسرے دن وہ اخبار میں ایک چھوٹی سی خبر پڑھ لے گا، مری کشمیر روڈ پر ایک حادثہ۔ لاری جہلم میں جا گری، سب مسافر جہلم میں غرق ہوگئے، ڈرائیور بال بال بچ گیا۔۔۔ لاری موڑ پر سے گزر گئی۔

    اسی لاری میں بیٹھے ہوئے لوگ جن میں پنجاب کے چند پہلوان بھی شامل تھے بہت خوش و خرّم دکھائی دیتے تھے اس خوشی میں غالباً کشمیر کی ناشپاتیوں اور عورتوں کی نرمی اور گداز پن کا بہت حصہ تھا لیکن انھیں کیا معلوم کہ چند میل آگے جا کر انھیں موت سے مقابلہ کرنے کہ لئے اپنی پہلوانی کا ثبوت دینا پڑے گا، اور یہ کہ تھوڑی دیر میں ہی وہ عورتوں کی طرح چیخیں مارتے اور کھائی پر ناشپاتیوں کی طرح لڑھکتے دکھائی دیں گے۔

    اس لاری میں چند ریشمیں برقعے سرسرا رہے تھے۔ لیکن کئیوں نے نقاب الٹ دیئے تھے، ایک بد صورت عورت نے جو ایک نہایت خو بصورت برقعہ پہنے تھی زور سے پان کی پیک سڑک پر پھینکی اور چندچھینٹیں اڑ کر چشمے کے قریب آپڑیں اور وہ پرے سرک گیا، تین ہاتو، اپنے گھٹے ہوئے سروں پر تنگ ٹوپیاں پہنے اور کاندھوں پر نمک کے بڑے بڑے ڈلے اٹھائے گزر رہے تھے۔ ان کے نتھنے پھولے ہوئے تھے، اور گال سرخ، اور چپٹے پاؤں میں پیال کی چپلیں تھیں، اسے وہ ضرب المثل یاد آئی۔ ’’کشمیر میں جاکے ہم نے دیکھی ایک عجیب بات، عورتیں ہیں مثل پری، آدمی جن ذات۔۔۔‘‘ دو گوجریاں، جوان، سانولی سلونی، گدرائی ہوئیں، جیسے رسیلی جامن، تیزی سے قدم اٹھاتے ہوئے گزر گئیں۔ ایک ڈرائیور نے اپنی لاری چشمے کے کنارے ٹھہرالی اور انجن اور پّیے ٹھنڈے کرنے لگا، لاری میں ایک موٹے سیٹھ کا موٹا کتّا اس کی طرف دیکھ کر بھوکنے لگا، ’’ٹامی شٹ اپ ، ٹامی شٹ اپ‘‘ موٹے سیٹھ نے کئی بار کہا، لیکن کتّا نہ رکا اور لاری کے موڑ پر گزرجانے تک بھونکتا رہا۔

    اب سورج صبح اور دوپہر کے درمیانی وقفے میں آگیا تھا، اور اس نے چلنے کی ٹھانی، اس نے سوچا کہ آج رات وہ چومیل کے ڈاک بنگلے میں قیام کرے گا۔ گڑھی تو وہ آج رات کسی طرح نہ پہنچ سکتا تھا۔ اس نے اپنی اوک میں چشمے کا صاف و شفّاف پانی پینے کے لئے بھرا اور پھر رک گیا، خاموش قدموں سے ایک عورت اس کے قریب آگئی تھی، نوجوان سی، اور کچھ فربہ اندام، اس نے نیلے پھولوں والی سوسی کی ایک بھاری شلوار پہن رکھی تھی، اور اس سیاہ قمیض پر اس کی ابھری ہوئی چھاتیوں کے گول خم نظر آئے، اور چشمے کا صاف و شفّاف پانی اس کی اوک سے باہر چھلکنے لگا، اور کچھ عرصے کے بعد اس کے پتلے پیاسے سُرخ لبوں کی طرف دیکھ کر اسے اپنا سوال بے معنی سا معلوم ہوا۔ عورت چشمے میں سے اوک بھر بھر کر اپنی پیاس بجھاتی، اور اس کی پیاس تیز ہوتی گئی۔ عورت کے لب اور گال گیلے ہوگئے اور کانوں کے قریب بل کھاتی ہوئی زلف بھی، اور پھر یکایک دونوں کی نگاہیں ملیں، عورت نے مسکرا کر اپنی آنکھوں کو ٹھنڈے پانی کے چھینٹے دینے شروع کئے۔

    اس نے پوچھا، ’’تم کہاں جا رہی ہو؟‘‘

    عورت نے کہا، ’’میں نّکرمیں اپنے میکے گئی تھی، اب بلند کوٹ اپنے خاوند کے پاس جا رہی ہوں۔‘‘

    ’’بلند کوٹ کدھر ہے؟‘‘

    عورت نے کہا، ’’یہاں سے سات آٹھ کوس تک تو میں اسی سڑک پر چلوں گی، پھر آگے جنگل سے ایک راستہ اوپر پہاڑ کی طرف چڑھتا ہے، وہ راستہ ہمارے بلند کوٹ کی طرف جاتا ہے بہت اونچی اور سرد جگہ ہے۔‘‘

    ’’تو پھر تم وہاں کیوں رہتی ہو۔ یہاں دیکھو کتنا خوشگوار موسم ہے، اور اس چشمے کا پانی کتنا ٹھنڈا اور میٹھا ہے۔‘‘

    عورت نے ہنس کر کہا، ’’ہم بکّروال لوگ ہیں، ہم بھیڑوں، بکریوں، بھینسوں کے گلّے کے گلّے پالتے ہیں۔ آج کل ان اونچے علاقوں پر بہت عمدہ عمدہ ہری ہری گھاس ہوتی ہے، جو برف کے گھل جانے پر پھوٹتی ہے، اس باریک، نرم اور ہری دوب کو ہمارے مویشی بہت شوق سے کھاتے ہیں، اور چشمے تو وہاں اس سے بھی زیادہ ٹھنڈے اور میٹھے ہیں۔‘‘

    اس نے بات کا رخ بدل کر کہا، ’’کیا تم نے کبھی موٹر کی سواری کی ہے؟‘‘

    ’’ہاں ایک بار لاری میں بیٹھی تھی، جب میری شادی ہوئی تھی۔‘‘

    ’’کتنا عرصہ ہوا؟‘‘

    ’’دو سال‘‘

    وہ اپنا رخت سفر باندھنے لگا، عورت کی ناک پر پانی کی دو بوندیں ابھی تک لٹک رہی تھیں، اور گیلی زلف داہنے گال سے چپک گئی تھی، اس نے کہا، ’’تمھاری ناک پر پانی کی دو بوندیں ہیں۔‘‘ اور پھر وہ یکایک دونوں ہنسنے لگے۔ دو بوندیں، دو سال، دو گولائیاں، اور اس نے آہستہ سے کہا، ’’آؤ تم میری کار میں بیٹھ جاؤ، کم ازکم سات آٹھ کوس تک تو میں تمھیں ساتھ لے جا سکتا ہوں۔‘‘

    اس نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا، عورت ہچکچائی، لیکن موٹر کا دروازہ کھلا تھا اور اس نے اسے اندر دھکیل دیا، اور پھر کیا یہ موٹر بھی دوآدمیوں کے سفر کے لئے نہ بنائی گئی تھی؟ ایک مرد اور غالباً ایک عورت، اور اس نے غیر شعری طور پر اپنا ایک ہاتھ اس کی کمر پر رکھ دیا، عورت کے جسم میں ایک خفیف سی جھرجھری پیدا ہوئی جیسے سوئے ہوئے سمندر کی لہریں بیدار ہوجائیں موٹر بھاگتی گئی اور اس کا ہر نفس آتشیں ہوتا گیا۔ آگ اور سمندر جن میں بلند کوٹ کی رفعتیں غرق ہوجاتی ہیں اور وقت مٹ جاتا ہے۔

    جب وہ چومیل کے ڈاک بنگلے پر پہنچا، تو ہر طرف شام کی اداسی چھا رہی تھی۔ سامنے کا سیاہ پہاڑ کسی وسیع قلعے کی دیوار معلوم ہورہا تھا، اور درختوں کی چوٹیاں پہرے دار کی بندوقیں۔ اب وہ پھر اکیلا تھا، اسے اپنے آپ سے، قلعے کی دیوار سے، پہرے داروں کی بندوقوں سے، فضا کی تنہائی سے ڈر محسوس ہوا۔ اپنے آپ سے ڈر، اس تیرگی سے ڈر، جو اس کی روح پر چھائی ہوئی تھی، رات کے گہرے سایوں کی طرح، جیسے وہ افسردگی کے دلدل میں اندر ہی اندر دھنسا جا رہا ہو۔ اس نے ڈاک بنگلے کے بَیرے کو آواز دے کر کہا، ’’ایک وائٹ ہارس‘‘ کھول دو۔ اور پھر اس نے دس روپے کا نوٹ اس کے ہاتھ میں تھما دیا، جانِ عزیز کے مقابلے میں دس روپے کے نوٹ کی کیا اہمیت تھی، کاغذ کا حقیر ٹکڑا، بوتل اپنےسامنے دیکھ کر اس نے سوچا، اب میں بچ جاؤں گا، اب اس دلدل میں نہیں دھنسوں گا۔ اور اس نے بوتل کو زورسے گردن سے پکڑ لیا، شاید کہیں وہ اس کا دامن چھڑا کر نہ بھاگ جائے، اس نے بَیرے کو آواز دی۔

    ’’جی سرکار‘‘

    ’’ایک مرغی بھون لو، دیکھو دبلی پتلی نہ ہو۔‘‘

    ’’بہت اچھا سرکار‘‘

    ’’اور ہاں دیکھو‘‘ اس نے بَیرے کے ہاتھ میں پانچ کا نوٹ دے کر کہا، ’’ایک ۔۔۔ لے آؤ دبلی پتلی نہ ہو۔ تمھیں بھی انعام ملے گا۔‘‘

    بیرے کی باچھیں کھل گئیں، آنکھیں چمک اٹھیں، گردن کی رگیں ایک قصاب کی طرح تن گئیں، اس نے خوش ہوکر کہا، ’’حضور بے فکر رہیں ایسا عمدہ چوزہ لاؤں گا کہ۔۔۔‘‘

    ’’جاؤ، جاؤ۔‘‘ اس نے جلدی سے کہا، اور بوتل کو گلاس میں انڈیلنا شروع کیا۔

    ڈاک بنگلے کے باغ میں بینے اور رُدنے باری باری بول رہے تھے۔ بینےکہتے، پیں پیں پیں، ردنے کہتے بڑی ری ری، پھر دونوں چپ ہوجاتے اور یکایک کوئی نظر نہ آنے والا پرندہ کسی درخت پر پھڑ پھڑانے لگتا، اور اس نے سوچا کہ وہ اسی وقت گیرج میں جا کر اپنی موٹر سے لپٹ جائے، اور آنسو بہا بہا کر کہے، ’’میں اکیلا ہوں، میری جان، میں اکیلا ہوں۔ مجھے تم سے محبت ہے۔‘‘ بڑی ری ری۔۔۔ جی۔۔۔ جی۔۔۔ جی۔۔۔ پی۔۔۔ پی۔۔۔ پی۔۔۔ کیا وہ جئے یا پئے۔۔۔ بوتل خالی ہوگئی۔ اور وہ میز پر سر پٹک کر جُھک جانے کو تھا کہ یکایک کسی نے اس کے شانے کو ہلایا۔ بَیرا اس کے پاس کھڑا تھا اور اس کے پاس ایک عورت کھڑی تھی۔

    ’’تم کون ہو؟‘‘ اس نے ہکلاتے ہوئے پوچھا۔

    ’’میرا نام زبیدہ ہے۔‘‘ عورت نے کانپتی ہوئی آواز میں کہا، وہ کرسی کا سہارا لے کر اٹھا اور کمرے کے اندر جانے کے لئے مڑا۔

    بَیرے نے اسے سہارا دینا چاہالیکن اس نے اسے جھڑک کر کہا، ’’ہٹ جاؤ‘‘ میں کمرے میں خود چلا جاؤں گا۔ وہ اس وقت اس جری سیاح کی طرح محسوس کر رہا تھا۔ جو کسی دشوار گزار برفستان میں سفر کر رہا ہو، ایک سیاہ کھائی سی ہر طرف پھیلی ہوئی تھی، صرف کمرے میں ایک کونے پر ایک چھوٹا سا لیمپ جل رہا تھا، روشنی چاروں طرف تاریکی کا سمندر اور بیچ میں روشنی کا مینار۔۔۔ وہ اس روشنی کی طرف بڑھتا چلا گیا، شاید وہ اب بھی بچ جائے گا۔ یکایک اس نے پیچھے دروازہ بند ہونے کی آواز سنی اور وہ رک گیا۔ بَیرے نے عورت کو اندر دھکیل کر دروازہ باہر سے بند کر دیا تھا، عورت دروازے سے لگ کر کھڑی ہو گئی۔

    ’’آؤ۔۔۔ آؤ۔۔۔‘‘ اس نے عورت کی طرف ہاتھ ہلا کر جھومتے ہوئے کہا، ’’ادھر آؤ، روشنی ادھر ہے۔‘‘

    عورت ہولے ہولے قدموں سے قریب آگئی تھی۔ اس کے بالوں کے عین درمیان سے ایک سیدھی مانگ نکلی ہوئی تھی، چاندی کے تار کی طرح اور اس نے دونوں طرف بالوں میں پر تکلّف انداز میں ستھّا لگایا ہوا تھا، ستھّے کا موم بالوں پر لیمپ کی روشنی کے انعکاس سے بار بار چمک اٹھتا تھا، اس کے کانوں میں چاندی کی ایک ایک بالی لٹک رہی تھی۔

    اس نے عورت کے شانے پر جھک کر رازدارانہ لہجہ میں کہا، ’’کیوں؟ تم اداس ہو۔۔۔ تمھارا نام کیا ہے؟‘‘

    ’’زبیدہ۔‘‘ اس نے بے جان سے لہجہ میں کہا۔

    ’’شبیدہ۔۔۔ شبیدہ۔۔۔ اس نے ہنس کر کہا۔‘‘ شبیدہ ۔۔۔ ہوں۔۔۔ کیا خوب۔۔۔ اس نے اس کے چمکیلے بالوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا، ’’یہ کیا ہے۔۔۔ شبیدہ۔۔۔ پیاری ش۔۔۔ ش۔۔۔ شبیدہ۔۔۔‘‘

    ’’یہ ستّھا ہے۔ یہ موم اور جنگل کے جیگن سے بنتا ہے۔ اس سے بال خوبصورت۔۔۔‘‘

    ’’خوب شورت؟۔۔۔ خوب شورت شبیدآ۔۔۔ آ۔۔۔ اس نے ہنسی اور ہچکی کے بیچ کے لہجے میں کہا، ’’تم بہت خوب شورت ہو شبیدہ۔۔۔‘‘ اس نے زبیدہ کے صاف اور گلابی رخساروں پر انگلیاں پھیرتے ہوئے کہا۔ پھر وہ الگ ہٹ کر کھڑا ہو گیا اور انگلی سے اس کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگا، ’’تم۔۔۔ تم ۔۔۔ شبیدہ ہو۔؟ نہیں۔۔۔ تم میری ماں ہو! ہی ہی ہی۔‘‘

    اور وہ اس کے قریب گیا۔

    عورت نے یکایک اس کے بازوؤں کو جھٹک دیا، جیسے اسے کسی سانپ نے ڈس لیا ہو۔

    ’’ہاں۔۔۔ ہاں۔۔۔‘‘ وہ چلاّ کر بولا، ’’ش، ش شبیدہ ماں ہے۔ شبیدہ میری بہن ہے۔۔۔ شش شبیدہ میں گنہگار ہوں۔ شبیدہ تم یہاں کیوں آئیں۔ آخ۔۔۔ ہیں؟‘‘

    ’’میں غریب ہوں۔‘‘ زبیدہ نے آہستہ سے کہا۔

    ’’غریب؟ ہی ہی ہی۔‘‘

    ’’میرا بچّہ بیمار ہے؟ جرا میرا ننھا سا جرا، ڈاگ دار(ڈاکٹر) نے کہا ہےاسے نمونیا ہو گیا ہے۔ وہ چار روپےفیس مانگتا ہے، بَیرے نے مجھے صرف تین روپے دئے ہیں، خدا کےلئے مجھے ایک روپیہ اور دے دو۔‘‘

    ’’نمونیا؟ ہی ہی ہی۔۔۔ اسے خ۔۔۔ خ۔۔۔ خیراتی ہسپتال لے جاؤ نا۔۔۔ نمونیا۔۔۔ نتھا جرا۔۔۔‘‘

    ’’یہاں ایک ہی تو ہسپتال ہے۔‘‘ عورت نے اداس لہجہ میں کہا، ’’اور وہ بھی خیراتی۔۔۔ میرے اللہ۔۔۔ میں کیا کروں۔۔۔ میں تمھارے پاؤں پڑتی ہوں۔ خدا کے لئے مجھے ایک روپیہ اور دے دینا۔ صرف ایک روپیہ۔‘‘

    ’’بش۔۔۔ بش۔۔۔ فکر نہ کرو۔۔۔ نہ۔۔۔ نہ منھی شبیدہ۔‘‘ وہ اس کی گردن میں لپٹ کر کہنے لگا، ’’میں تم پر مرتا ہوں۔ خوبصورت شبیدہ۔۔۔ میں اکیلا ہوں۔۔۔ میں اکیلا ہوں۔۔۔ میں اکیلا ہوں۔۔۔ مجھےتم سے محبت ہے، مجھے بچاؤ۔ شبیدہ۔۔۔ اس نے اس کے شانے پر سر رکھ دیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔

    وہ سویا پڑا تھا، عورت کے گلے میں اس کے بازو حمائل تھے جیسے’’وائٹ ہارس‘‘ کی بوتل پر اس کی انگلیاں، لیمپ کی مدھم روشنی جھلملا رہی تھی۔ کالی رات کے سنّاٹے میں نظر نہ آنے والے بیے اور رونے ابھی تک بحث کئے جاتے تھے۔۔۔ جی۔۔۔ جی۔۔۔ جی۔۔۔ پی۔۔۔ پی۔۔۔ پی۔۔۔لیکن انھیں سننے والا موجود نہ تھا۔ کھائی اس کے سر پر ہموار ہو چکی تھی۔

    جب وہ جاگا تو، تو خمار اتر چکا تھا، روشنی بجھ گئی تھی۔ سائے غائب ہو چکے تھے، بینے اور رونے خاموش تھے، صبح کا ہلکا سا پر تو چاروں طرف چھن رہا تھا، وہ ابھی تک اس کی آغوش میں مدہوش پڑی تھی، برہنہ، ستھے سے آراستہ کئے ہوئے بال پریشان تھے اور سپید گردن کے ان حصوں پر سرخ سرخ نشان تھے۔ جنھیں وہ بار بار چومتا رہتا تھا۔ اس نے نیم وا آنکھوں سے اسے سر سے پاؤں تک دیکھا، سڈول، گداز، سانچے میں ڈھلا ہوا جسم ، وہ آہستہ سے اس کے پنڈے پر انگلیاں پھیرنے لگا۔ عورت کے سارے جسم میں ایک لرزش پیدا ہوئی، جیسے سوئے ہوئے سمندر کی لہریں بیدار ہوجائیں۔ اس کے لبوں سے ایک آہ سی نکلی۔ اور اس نے آہستہ سے اس مدہوشی کے عالم میں کہا۔

    ’’جرے۔۔۔ پیارے ننّھے جرے۔۔۔ اور پھر اس کے نیم والب اسی طرح آپس میں ملے، جیسے ماں اپنے پیارے بیٹے کو چوم رہی ہو۔ ننّھاجرا؟ یکایک وہ چونک پڑا، گزری ہوئی رات کے موہوم سے سائے اس کی آنکھوں کے آگے آتے گئے۔ ننّھا جرا۔۔۔ نمونیا۔۔۔ ڈاگ دار۔ وہ کانپنے لگا۔ تین روپے۔۔۔ چار روپے۔۔۔ صرف ایک روپیہ۔ اس نے فوراً اپنے بازو اس کی گردن سے ہٹا لئے۔ ننّھا جرا۔۔۔ اور اسے ایسا معلوم ہوا۔ جیسے وہ اپنی ماں سے زنا کر رہا ہوں۔۔۔ اور وہ یک لخت بستر سے اچھل کر زمین پر کھڑا ہوگیا۔ اور پھٹی پھٹی نگاہوں سے اس عورت کی طرف تکنے لگا۔ جو اب جاگ گئی تھی، اور برہنہ تھی اور ساری رات اس کی آغوش میں رہی تھی۔

    وہ چیخ کر کہنے لگا، ’’چھپالو، چھپالو۔ اپنے آپ کو اس کمبل میں۔ دفع ہو جاؤ میرے سامنے سے۔ کیوں اس طرح پریشان نگاہوں سے میری طرف دیکھ رہی ہو۔ سنتی نہیں ہو کیا؟ میں کہتا ہوں، اٹھو، اٹھو۔میرے بستر سے۔۔۔ یہ لو۔۔۔ یہ لو۔۔۔ ایک روپیہ دو روپے، تین روپے، چار روپے، یہ سب لے لو، بھاگو یہا ں سے، بھاگو! بھاگو! بھاگو!‘‘ اور اس نے اس عورت کو کمبل اڑھا کر اس کے کپڑے اس کے ہاتھ میں دے کر اسے کمرے سے نکال دیا۔

    بہت دیر تک وہ بستر پر سر پکڑے بیٹھا رہا۔ دل و دماغ پر ایک مبہم سی الجھن ایک مکڑی کے جالے کی طرح تنی ہوئی تھی۔ جو اسے بار بار پریشان کر رہی تھی، اور وہ کچھ نہ سوچ سکتا تھا۔ با ر بار اپنے الجھے ہوئے لمبے بالوں میں انگلیاں پھیر کر اس مکڑی کے جالے کو دور کرنے کی کوشش کرتا رہا آخر جب بَیرے نے آکر اس سے کہا، ’’صاحب غسل خانہ میں گرم پانی دھرا ہے۔‘‘ تو وہ بے دلی سے اٹھا اور پوٹاشیم پر مینگنیٹ کی پچکاری اٹھا کر غسل خانہ میں گھس گیا۔

    طبعت بے مزہ سی ہوگئی تھی، اور منھ کا کڑوا کسیلا ذائقہ ہوش آنے پر بھی دور نہ ہوا تھا۔ شانے بوجھل سے تھے، نہا کر وہ برآمدے میں میز پر کہنیاں ٹیک کر ناشتے کا انتظار کرتا رہا اور اپنے آپ کو کوستا رہا۔ ہوشیار بَیر ے نے ناشتے پر بیئر کے خوش رنگ سیال نے آہستہ آہستہ اس کے خیالات کی رو کو بدل دیا۔ اس کی طبیعت مضرح ہوتی گئی، وہ آہستہ آہستہ گنگنانے لگا، اور سیٹیاں بجانے لگا، بیتی ہوئی راتوں کے لمحے خوش گوار اور دل کش بنتے چلے گئے، ستھے سے چمکتے ہوئے بال، سیاہ قمیض پر چھاتیوں کے ابھرے ہوئے خم، نہالو کا غیر فانی حسن، بلبل کا نغمہ، پپیے کی پی، پی، اور سیب کے پھول چاندنی میں ہنستے ہوئے یکایک کسی راستے میں چمکتے ہوئے چشمے کاٹھنڈا پانی اور میٹھا پانی اس کی آنکھوں کے سامنے خوشی سے اچھلنے اور ابل ابل کر قہقہہ لگانے لگا، اور اسے اپنی کار کی یاد آئی جو گیرج میں پڑی اس کی راہ تک رہی تھی۔ وہ کھڑا ہوگیا۔ اور اس نے بَیرے کو انعام دے کر پوچھا، ’’گڑھی کا ڈاک بنگلہ یہاں سے کتنے میل دور ہوگا۔‘‘

    ’’ایک سو دس میل سرکار۔‘‘

    ’’ہاں بَیرے کا کیا نام ہے؟‘‘

    ’’خادم شاہ، حضور۔‘‘

    ’’ہمم۔‘‘

    ’’بہت اچھا آدمی ہے‘‘ بیرے نے کہا، ’’صاحب لوگوں کا پرانا خادم ہے حضور۔‘‘

    ڈاک بنگلے کے قریب ایک موڑ کاٹتے ہوئے اسے ایک نیلے رنگ کی کار مل گئی جو ڈاک بنگلے کی طرف آرہی تھی۔ ایک بھاری جسم اور دہری ٹھوڑی والا آدمی جس نے سیاہ پھندنے والی رومی ٹوپی پہن رکھی تھی، کار چلا رہا تھا، اس کی بغل میں ایک عورت بیٹھی ہوئی تھی، نیلی سوسی کی شلوار، سیاہ قمیض پر چھاتیوں کے ابھرے ہوئے خم، اور آنکھوں میں عادی مجرموں کی سی بے جان اداسی اور وہ دل ہی دل میں مسکرایا، محرم نہیں ہے تو ہی نوا ہائے راز کا۔ غریب عورتوں نے اپنی خیالی عصمت کی خاطر پہاڑوں پر بلند کوٹ بنائے تھے۔ لیکن حقیقت یہ تھی، کہ ان کے میکے اور سسرال ، ایک میٹھے چشمے سے دوسرے میٹھے چشمے تک اورایک ڈاک بنگلے سے دوسرے ڈاک بنگلے تک محدود تھے۔ اس نے دل ہی دل میں خدا وندا لا یزال کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا جس نے ان لوگوں کو غریب بنا کر اس کے لئے دلکش راتیں مہیّا کی تھیں۔ زبیدہ، وائٹ ہارس، اور بھناہوا مرغ۔۔۔ الٰہی کیسی کیسی نعمتیں تونے بنائی ہیں۔ اس کے تخیل میں گڑھی کا ڈاک بنگلہ ایک پرستانی قلعہ نظر آنے لگا۔ اور اس نے اپنی کار کی رفتار تیز کردی۔

    موٹر کے آگے اور پیچھے، چیڑھ اور دیوار کے گھنے اور سبز جنگلوں کے درمیان چاندی کے تار کی طرح چمکتی ہوئی وہ پکیّ سڑک پھیلتی جا رہی ہے، ایک میٹھے چشمے سے دوسرے چشمے تک، ایک ڈاک بنگلے سے دوسرے ڈاک بنگلے تک، ایک امیر کی جیب سے دوسرے امیر کی جیب تک، یہ وہی نقرئی تار ہے جس نے انسانوں کے دل تاریک کر دیئے ہیں۔ عورتوں کی عصمتیں ویران کر ڈالی ہیں، اور سماج کی روح کو آتشک کے جہنم میں جھلسا دیا ہے۔

    مأخذ:

    کرشن چندر کے بہترین افسانے

      • ناشر: ایشیا پبلیشرز، دلی
      • سن اشاعت: 2004

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے