Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

رین چیک

عذرا نقوی

رین چیک

عذرا نقوی

MORE BYعذرا نقوی

    اوپر اثناکے کمرے میں ا سٹریوپوری آواز سے بج رہا تھا۔ گھر میں داخل ہوتے ہی میرا موڈ خراب ہو گیا۔ میڈونا کی آواز سارے گھر میں گونج رہی تھی وہی منحوس گانا۔

    Papa don't Preach

    عامر اوپر اپنے کمرے میں نہ جانے کیا کررہا تھا بالکل ایسا لگ رہا تھا کہ گھر میں بھونچال آیا ہوا ہے۔ ایک تو کناڈا کے گھر بھی کیا ہیں، اندرسے لکڑی کے کھوکھے اور اوپر سے چکنے چمکدار۔ کوئی اوپر کے کمروں میں زور سے چلے بھی تو لگتا ہے کہ اوپر گھڑ دوڑ ہوری ہے۔۔۔ موسم کی وجہ سے بھی میر ا موڈ خراب تھا۔ باہر سردی ہے کہ توبہ! رات بھر جو برف گری تھی ا ب شیشے کی طرح چکنی ہو گئی تھی، چلنا بھی مشکل اور گاڑے چلانا بھی مشکل۔ میں نے کمرے میں نظر ڈالی تو جی ہی جل گیا۔ سیٹرڈے کا دبیز اخبار آیا تھا اور اس کے سارے صفحے ادھر ادھر بکھرے تھے۔ کافی کی جھوٹی پیالیاں اور کشن بھی بے ترتیب پڑے تھے۔میں حسب عادت خودبخود بڑبڑانے لگی۔ سوائے بڑبڑانے کے اور کر بھی کیا سکتی ہوں۔

    ’’ہاں! ہاں! معلوم ہے نا، کہ ابھی وہ نوکرانی بازار سے خریداری کرکے آئے گی۔جھک مار کر خود کر لےگی صفائی۔۔۔ نوکرانی ہی تو میں ہوں اس گھر میں۔۔۔ بلکہ مہترانی بھی، ڈرائیور بھی۔۔۔ باورچی بھی۔۔۔‘‘

    اتنے میں زینے پر اک زلزلہ ساآیا اور اثنا طوفانی انداز سے زینے سے اتر کر چلاتی ہوئی آ رہی تھی۔ ایکسرسائز کے چست لباس میں اسے دیکھ کر میرا دل اور جلا، وہ چیخ رہی تھی۔

    ‘’آپ نے اتنی دیر کردی۔ آپ کو معلوم تھا نا! مجھے گیارہ بجے Y۔W۔C۔A جانا تھا ایکسر سائز کی کلاس کے لئے۔ سینڈی میرا وہاں انتظار کر رہی ہوگی۔ آپ گاڑی لے گئیں۔ کہا تھا آپ نے دس بجے آنے کو، اب دیکھئے گھڑی ساڑھے گیارہ بج چکے۔ مجھے دیر ہوگئی‘‘۔

    میں نے بہت ضبط سے کام لیتے ہوئے کہا۔

    ’’چلو ایکسر سائز کی کلاس تو وہاں ہر گھنٹے بعد ہوتی ہے، اب چلی جاؤ۔۔۔ اصل میں مجھے آج کئی کام کرنا تھے۔ ہفتے بھر کی گروسری کی شاپنگ میں وقت تو لگتا ہی ہے نا!‘‘

    اثنا بالکل آپے سے باہر ہو گئی۔

    ‘’اور وہاں میری دوست سینڈی میر ا ویٹ کر رہی تھی۔ آپ کے لئے تو کچھ نہیں ہوا میرا پروگرام تو اپ سیٹ ہو گیا۔

    You have no sense of responsibility

    میں بھی اب پھٹ پڑی۔

    ’’ہاں! ہاں! مجھے کوئی احساس ذمہ داری نہیں ہے۔ تفریح کرنے گئی تھی نا! نوکر نہیں ہوں تم سب کی۔۔۔ کھانا پکاؤں، صفائی کروں، گھر کا سودا سلف لاؤں اور پھر اگر وہ تمہاری چہیتی دوست سینڈی تمہارے بغیر ایکسر سائز کرلے گی تو کون سی قیامت آ جائےگی۔‘‘

    اثنا نے زور سے پیر پٹخا۔

    You are impossible Mom

    میں آج خود کو قابو میں نہیں رکھ پا رہی تھی۔

    ‘’بکواس بند کرو! اور تم سے کہا تھا نا میں نے، آج چھٹی کے ذرا ویکیوم کر لینا گھر میں، صفائی کر لینا، مگر تمہیں ہوش کہاں۔۔۔ فرصت ملے نا دوستوں کو ٹیلی فون کرنے سے۔۔۔ اور بند کرو یہ منحوس اسٹریو۔ نفرت ہے مجھے اس گانے سے اور گانے والی سے۔۔۔ کیا گانا ہے! صاحبزادی فرما رہی ہیں باپ سے کہ میں کنواری ماں بننے والی ہوں پاپا مجھے نصیحت مت کرو۔۔۔ ہاں! ہاں! نصیحت نہ کریں تو کیا سر پر بٹھائیں کہ واہ! واہ! پیاری بیٹی بڑا نام روشن کیا ہے تم نے ہمارا‘‘۔

    مجھے اپنے لہجے اور الفاظ پر خود بھی حیرت ہو رہی تھی۔۔۔ یہ میں ہوں رعنا رحمن، جو اپنے دھیمے مزاج اور مدھم لہجے کے لئے مشہور تھی۔

    اثنا دھڑام سے دورازہ بند کرکے نکل گئی جاتے جاتے اس کا یہ جملہ میرے کانوں میں اور دل میں چھید کر گیا۔

    Frustrated Woman! makes every one's life miserable

    وہ اوپر گئی اور اپنا پرس اور کوٹ لے کر واپس آئی اور گاڑی کی چابی میرے سامنے سے اٹھاکر جانے لگی، میں نے کہا۔

    ‘’اب گاڑی لے جار ہی ہو تو جلدی آنا شام کو مسز صدیقی کے گھر کھانے پر جانا ہے۔ شاید ابو کی گاڑی اسٹارٹ نہیں ہو رہی ہے‘‘۔

    اثنا نے میرے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔

    ’’مجھے کہیں نہیں جانا ہے، کسی بھی بورنگ جگہ۔۔۔ کیا ہوتا ہے وہاں۔۔۔ ابو اور دوسرے سارے آدمی لوگ ایک کمرے میں بیٹھ کر انڈیا اور پاکستان کی پالیٹکس ڈسکس کریں گے، بحث کریں گے، کمرے میں بیٹھ کر اسلامک ریولوشن لائیں گے اور کوئی کسی کی بات نہیں سنےگا اور لیڈیز دوسرے کمرے میں جمع ہوکر کھانے اور کپڑوں کی باتیں کریں گی۔۔۔ یا وہ مسز پاشا اپنی Preaching شروع کر دیں گی کہ نیل پالش لگانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، اس ڈبل رو ٹی میں لارڈ ہے، یہ ہے وہ ہے۔۔۔ ان سے پوچھئے گا کہ یونیورسٹی میں ان کی بیٹی کیا کرتی پھرتی ہے۔۔۔ سب کے سب Hypocrates‘‘۔

    ایک بار پھر زور سے دروازہ بند کر کے اثنا باہر نکل گئی۔ میرا دل چاہا کہ پکڑ کر دو چانٹے رسید کروں اس کے منھ پر لیکن مجھے کیا گھر میں آفت بلانی تھی۔ تین برس ہوئے جب اثنا چودہ برس کی تھی کی تو ایسی ہی کسی بدتمیزی پر ارشد نے بیٹی کو ایک چانٹا ماردیا تھا۔۔۔ آفت ہی تو آ گئی تھی گھر میں۔ اثنا کے اسکول کی کاونسلر اور سوشل ورکر نے مجھے اور ارشد کو بلا بھیجا تھا یہ بتانے کے لئے کہ یہ Child Abuse ہے، یہ ہے، وہ ہے، اس کے بعد سے ارشد نے تو بیٹی کے تئیں خودکو خول میں بندکر لیا تھا۔

    لیکن اس وقت بات تو اثنا دل کو لگتی ہوئی کہہ رہی تھی۔ دل میرا بھی گھبراتا ہے ان بورنگ دعوتوں سے۔۔۔ مگر کریں بھی کیا اس اجاڑ چھوٹے سے شہر میں، چودہ سال ہو گئے ہمیں یہاں آئے ہوئے۔ بس لے دے کے وہی بیس پچیس ہندوستانی اور پاکستانی خاندان، بس ایک دوسرے کے گھر کھانے کی دعوتیں ہو گئیں بہت ہوا تو شاپنگ مال چلے گئے۔۔۔ اور اب تو شاپنگ سے بھی نفرت ہو گئی ہے۔۔۔ آج ہی کی بات لے لو، پورا پون گھنٹہ لگا مجھے اک اسٹور میں وہاں آدھے دام پر Vacuame کلینر سیل پر لگا تھا، لگتا تھا کہ سارے شہر کو ویکیوم کلینر کی ضرورت پڑ گئی تھی خلقت ٹوٹی ہوتی تھی۔ جب تک میں شیلف تک پہنچوں مال ختم ہو گیا اس لئے ا منیجر کے پاس جاکر کہنا پڑا تب اسنے رین چیک دیا۔۔۔ اب یہ رین چیک کی سلپ دکھا کر اگلے ہفتے یا جب بھی نیا مال آئےگا مجھے ویکیوم کلینز سیل کی آدھی قیمت پر مل جائےگا۔۔۔ کیا خوب اصطلاح نکالی ہے ان امریکنوں نے۔۔۔ رین چیک، لیکن سارا دن غارت ہو گیا آج میرا اس کے پیچھے۔ گھر آئی تو صاحبزادی کی بدتمیزی اور بدمزاجی۔۔۔ میرادل چاہ رہا تھا کہ کسی پر چیخوں، غصہ کروں۔۔۔ مگر کس پر؟ اس گھر میں ہر ایک غصہ کرنے کا اور موڈ خراب کرنے کا حق ہے سوائے میرے۔

    چھٹی کے دن میرا کام اور بڑھ جاتا ہے۔ شکایت کرو تو میاں پھٹ سے کہہ دیتے ہیں کی نوکری چھوڑ دو۔ صرف گھر سے باہر کچھ کرنے کے لئے میں نے ایک ڈاکٹر کے کلینک میں receptionist کی جاب لے لی تھی ویسے یہ کوئی بہت اکسائیٹنگ جاب تو نہیں تھی بس ذرا کچھ مختلف قسم کے لوگوں سے ہی ملاقات ہو جاتی تھی۔اسی بہانے صبح تیار ہوکر گھر سے باہر تو نکل جاتی ہوں۔

    مجھے پھر اثنا کا آخری جملہ ڈسنے لگا۔۔۔ فرسٹیٹڈ عورت۔۔۔ ہاں اب تومیں صرف ایک فرسٹیٹڈ عورت ہی رہ گئی ہوں۔ میری فرسٹ کلاس سوشیالوجی کی ڈگری کسی کونے میں پری ہوگی اور یونیورسٹی میں پائے ہوئے سارے مباحثوں اور ڈراموں کے سارٹیفکٹس تو شاید اب ڈھونڈے سے بھی نہ ملیں۔۔۔ خود کو تو جیسے اب میں بھول ہی گئی ہوں۔۔۔ سر درد سے پھٹا جا رہا تھا میں نے اپنا سر دباتے ہوئے آنکھیں بند کر لیں۔ مجھے خبر بھی نہیں ہوئی اور میرے سر کے نیچے رکھا ہوا صوفے کا کشن میرے آنسوں سے بھیگ گیا۔

    ’’آپ روئیں نہیں mom آپ لوگ اثنا کا سمجھنے کا کوشش کریں‘‘ میرے بیٹے عامر نے دھیرے سے میرے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا۔ مجھے پتہ بھی نہیں چلا کہ وہ کب میرے صوفے کے قریب آکر بیٹھ گیا تھا۔ اس کے جملے پر مجھے بےاختیار ہنسی آ گئی میں نے کہا۔

    ‘’بیٹے سمجھنے کا کوشش نہیں، سمجھنے کی کوشش‘‘۔

    اثنا کی اردو اچھی تھی کیوں کی وہ چار سال کی عمر میں ہندوستان سے کناڈا آئی تھی۔ عامر تب صرف سال بھر کا تھا اس لئے اس کی اردو بہت مضحکہ خیز ہوتی تھی۔ وہ کہہ رہا تھا۔

    ‘’امی! میں فرینک کے ساتھ شام کو جاؤں گا فلم کے لئے‘‘۔

    ‘’اور مسز صدیقی کے گھر دعوت میں؟‘‘ میں نے اٹھ کر بیٹھتے ہو ئے کہا۔

    ‘’Come on Mom!، میں وہاں جاکر کیا کروں گا، آپ کو تو پتہ ہے۔۔۔‘‘

    عامر نے کہا اور میرے گال پر پیار کرکے چلتا بنا۔

    میں مسکرا دی۔۔۔ شیطان کہیں کا۔۔۔ میرا بیٹا کتنا لمبا ہو گیا ہے اور باتیں بھی کتنی سمجھداری کی کرتا ہے۔ اثنا جب تیرہ چودہ سال کی ہوئی تھی تب ہی توہمارے گھر کا سکون غارت ہو گیا تھا۔۔۔ ہر ہر بات پر بحث، ہر بات پر ہنگامہ۔۔۔ میں سوئمنگ کا سٹیوم پہن کر سوئمنگ کیوں نہیں کر سکتی، اسکرٹ اور شارٹس پہننے پر ابو کو کیا اعتراض ہے۔ اپنی دوستوں کے گھر رات کو سلمبر پارٹی میں کیوں نہیں جا سکتی۔۔۔ دوسری دوستو ں کی طرح ڈیٹ پر کیوں نہیں جا سکتی۔ کیوں ہر وقت چڑچڑاپن اور بدمزاجی سوار رہتی تھی اس کے اوپر۔ مستقل بس دوستوں سے فون پر باتیں کرتی رہتی تھی۔ پڑھائی کی طرف بھی زیادہ توجہ نہیں دیتی تھی۔۔۔ کیسے کیسے بےتکے کپڑے پہنتی تھی عجیب حلیے بناکر گھوما کرتی تھی۔

    ایک بار جب وہ کسی بات پر غصّے میں بہت بد زبانی کر رہی تھی تو ارشد نے ایک چانٹا مار دیا تھا بس پھر تو طوفان آ گیا تھا۔ اسکول کی کاؤنسلر نے نہ جانے اثنا کو کیا سمجھایا کہ بات اور بگڑ گئی۔ اثنا نے اس سے اپنے سارے دکھڑے کہے ہوں گے۔ پھر ایک سوشل ورکر ہمارے گھر تشریف لائیں تھیں ہمار ے اور ہماری بیٹی کے درمیان ایک معاہدہ کرانے کے لئے۔۔۔ انھوں نے ہمیں بتایا کی اس ملک میں ہمیں اپنی اولاد کو کیسے پالنا چاہیے، سوشل ورکر کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کسی لڑکے کے ساتھ اثنا کے ڈیٹ پر جانے سے کیا ہمیں کیا اعتراض ہے۔ سوشل ورکر نے ہمیں سمجھایا کہ ہمیں اثنا کے ساتھ کیا کیا کرنا ہے اور کیا کیا نہیں کرنا ہے۔

    اور آج تک گویا ہم اسی معاہدے کے تحت جی رہے ہیں۔ ارشد نے تو خود کو مصروفیت کے خول میں بند کر لیا ہے۔۔۔، وہ ہیں اور ان کے آفس کا کام اور کمیونٹی کی مسجد کے کاروبار۔۔۔ اب بس میں رہ گئی بیٹی سے نبٹنے کے لئے۔۔۔ پھر جب پچھلے سال اثنا کا اسکول ختم ہوا اور کالج میں دا خلے کی بات ہوئی تو ایک اور ہنگامہ کھڑا ہو گیا۔ اس کی ضد تھی کہ میں ٹورنٹو کی یونیورسٹی میں پڑھوں گی۔۔۔ مجھے خوب معلوم تھا کہ بس گھر سے دور رہنے کا بہانہ تھا اور جب اسے یہیں اسی شہر میں یونیورسٹی میں داخلہ لینا پڑا تو تب سے شدید موڈ آف ہے۔۔۔ کیا کروں اس لڑکی کا۔۔۔کہاں چلی گئی میری وہ پیاری سی گڑیا جسے میں اپنے ہاتھ سے خوبصورت فراکیں سی کر پہناتی تھی، بالکل پری بنا کر رکھتی تھی، کتنی جان دی تھی میں نے اس پر، بچپن میں ہر ضد پوری کی تھی۔

    صوفے پر لیٹے لیٹے تھوڑی دیر کے لئے میری آنکھ جھپک گئی۔ میں نے اٹھ کر نماز پڑھی اور مسز صدیقی کے گھر جانے کے لئے تیار ہونے لگی۔ اثنا کا ابھی تک کوئی پتہ نہیں تھا۔ شکر ہے کہ ارشد کی گاڑی اسٹارٹ ہو گئی۔ مسز صدیقی کے گھر سے دعوت کے دوران میں نے ایک دو بار اپنے گھر فون کیا مگر فون انگیج ہی ملا، میں سمجھ گئی کہ اثنا یا عامر فون پر مستقل اپنی دوستوں سے باتیں کر رہے ہوں گے۔ رات کو ایک بجے جب ہم دعوت سے لوٹے تو دونوں اپنے اپنے کمروں میں سوئے ہوئے تھے۔

    دوسرے دن اتوار تھا تو میں بھی صبح دس بجے سوکر اٹھی تو دیکھا کہ عامر تو صبح صبح اپنے کسی دوست کے ساتھ فون پر skiing کا پروگرام بنا رہا ہے۔ اثنا کچن میں بیٹھی کارن فلیکس کھا رہی تھی، مجھے آتا دیکھ کر اپنا پیالہ اٹھاکر اوپر اپنے کمرے میں چلی گئی۔ میں نے باہر نظر ڈالی تازہ گری ہوئی برف دھنکی ہوئی روئی کے ڈھیر جیسی لگ رہی تھی۔ میں چائے بناکر فریدہ خانم کی گائی ہوئی غزلوں کا کیسٹ لگاکر سکون سے پینے بیٹھی ہی تھی کہ ارشد تیار ہو کر نیچے اترتے ہوئے بولے۔

    ‘’ارے! تم تو آرام سے بیٹھی غزلیں سن رہی ہو، تیار نہیں ہونا آج مسجد میں پرویز شیخ نے قرآن خوانی کرائی ہے ان کے والد کا لاہور میں انتقال ہو گیا ہے۔ بارہ بجے سے پہلے پہنچنا ہے۔ ‘‘

    ‘’چلو آج اتوار کا دن بھی گیا‘‘۔ میں حسب عادت بڑبڑانے لگی۔

    جب میں تیار ہوکر آئی تو ارشد باہر اپنی گاڑی اسٹارٹ کرنے کی کوشش کر رہے تھے مگر وہ اسٹارٹ ہی نہیں ہوئی تو مجبوراََ دوسری گاڑی لینی پڑی جو میں اور اثنا استعمال کرتے تھے۔ جب میں گاڑی میں بیٹھنے لگی تو اثنا کا چھوٹا سا پرس سیٹ پر پڑا تھا جس میں وہ اپنا کنگھا اور لپ اسٹک وغیرہ رکھتی تھی وہ پرس اٹھا کر جب میں کار کے gloves compartment میں رکھنے لگی تو اس میں سے ایک چھوٹا سا پیکٹ نکل کر میرے پاؤں کے پاس گر گیا۔۔۔ اس سے پہلے کہ ارشد کی نظر اس پر پڑے میں نے اپنا بھاری برف والا بھاری بوٹ رکھ دیا اور پھر مسجد پہنچ کر گاڑی سے اترتے وقت وہ پیکٹ چپکے سے اپنے پرس میں ڈال لیا۔ مسجد میں سیپارے پڑھتے وقت وہ پیکٹ بچھو کی طرح میرے ذہن میں ڈنک مارتا رہا۔ جیسے تیسے گھر آئی۔۔۔ شکر ہے ارشد نیچے لونگ روم میں بیٹھ کر ہاکی کا میچ دیکھنے لگے۔ اثنا کے کمرے کے سامنے سے گذری تو دیکھا کہ وہ بیڈ پر اوندھی لیٹی کسی سے فون پر بات کر رہی تھی۔ میرے کان میں بس یہ جملہ پڑا۔ اثنا کہہ رہی تھی۔

    ‘’Oh! He is so cool, so Cute‘‘

    میں اپنے کمرے میں جاکر بیڈ پر گر پڑی۔۔۔ دماغ پھٹا جا رہا تھا۔۔۔ سرہانے رکھا فون بار بار اکسا رہا تھا ۔۔۔ اٹھا لو فون اور معلوم لو کہ وہ کون کم بخت Cool لڑکا ہے جو بہت کیوٹ ہے۔۔۔ شاید مائک ہو۔۔۔ جارج یا پھر شاید راجیش؟ لیکن اگر اثنا کو پتہ چل گیا کہ میں اس کا فون سن رہی ہوں تو قیامت آ جائےگی۔۔۔ اونہہ ۔۔۔مجھے اب کسی چیز کی پرواہ نہیں اب رہ ہی کیا گیا ہے۔

    اور میں نے دھیرے سے سرہانے رکھا ریسیور آہستہ سے اٹھا لیا۔۔۔ اثنا اپنی دوست مدیحہ سے باتیں کر رہی تھی۔

    ‘’کل بہت مزہ آیا، پہلے میں اور مائک یوں ہی گھومتے رہے۔۔۔ پتہ ہے کل میں نے بئیر آرڈر کر دی۔۔۔ چھی چھی اتنی بدمزہ تھی۔۔۔ مائک اتنا کیوٹ ہے، میرے سامنے سے اٹھاکر بئیر خود پی گیا اور میرے لئے سیون اپ منگا دیا۔۔۔ کل مجھے اتنا غصہ آ رہا تھا۔۔۔ کل ہم دونوں نے لمباڈ ا (lambada) ڈانس کیا، گیارہ بجے تک ڈانس کرتے رہے۔۔۔you know ملیحہ۔۔۔ کل میرا موڈ اتنا خراب تھا۔۔۔ میں کچھ بھی کر سکتی تھی My mom is driving me crazy۔۔۔ میں اتنے غصے میں تھی کہ۔۔۔ مگر مائک اتنا ڈیسنٹ اور کیوٹ ہے۔۔۔ ڈانس کے بعد مجھے گھر چھوڑ گیا He behaved like a perfect Gentleman اور پتہ ہے جاتے جاتے کیا بولا۔۔۔ کہنے لگا I did not want to take advantage of your bad mood today but I am taking a rain check۔۔۔ بدمعاش کہیں کا۔

    میں نے دھیرے سے فون رکھ دیا۔ دماغ بالکل خالی تھا۔ نہ جانے کیوں۔۔۔ میں تھوڑی دیر آنکھیں بند کرکے لیٹی رہی۔ اثنا فون پر بات ختم کرکے شاید کچھ کھانے کے لئے نیچے کچن میں گئی تو میں اس کے کمرے میں گئی اور وہ پیکٹ اس سائیڈ ٹیبل کی دراز میں ڈال دیاجس پر اثنا کے بچپن کی تصویر فریم میں مسکرا رہی تھی۔ کمرے سے نکلتے وقت میں اس کی الماری میں سے وہ گڑیا بھی اٹھا لائی جو میری امی نے اثنا کی پانچویں سالگرہ پر ا پنے ہاتھ سے بنا کر بھجوائی تھی۔ لال غرارے اور گوٹا لگے لال دوپٹے میں ملبوس دلہن بنی گڑیا میں نے لاکر اپنی الماری میں چھپا دی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے