aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

آخری صفحہ کی تحریر

محمد حمید شاہد

آخری صفحہ کی تحریر

محمد حمید شاہد

MORE BYمحمد حمید شاہد

    جب پہلا خون ہوا تھا تو اس نے لہو کا ذائقہ چکھا تھا؛ بہت کڑوا کسیلا تھا۔

    سارا محلہ صحن میں امنڈ آیا تھا۔

    نعش کو کندھوں پر اٹھا کر سارے شہر میں پھرایا گیا تھا۔

    جب نعش کی خوب نمائش ہو چکی تو چیرویں قبر کھودی گئی ۔ سفید کفن میں لپیٹ کر نعش کو قبر کے عین درمیان لٹا دیا گیا ۔ پھر پتھروں سے چھت بنائی گئی۔ جب پتھروں سے چھت بنا کر اس کے تمام سوراخوں کو گیلی مٹی سے بند کر دیا گیا‘ تب بھری بھری مٹی ڈالی گئی تھی۔

    اور یہ سب کچھ اس نے خود بچشم سر دیکھا تھا۔

    جب وہ واپس پلٹا تھا تو ایک بات بھی قبر سے کسی نامعلوم راستے سے نکلی تھی اور اس کے ساتھ ہو لی تھی اور جب یہ بات کچھ آگے بڑھی تو لوگوں کی زبانوں پر ناچ رہی تھی؛ یہی کہ

    یہ اس کا پہلا قتل ہے۔

    وہ کہتا تھا؛ یہ خون اس نے نہیں کیا۔ ہونی شدنی اس کی بے بسی سے بندھی تھی اور جب پاؤں من بھر کے ہو گئے تھے‘ طے شدہ فاصلے کا بوجھ کمر پر لدا تھا‘ آگے تاریکی تھی اور راستہ اس میں گم تھا اور جب وہ بہت تھک گیا تھا اور کچھ بھی سجھائی نہ دے رہا تھا‘ تو مجبوراً وہ گھر میں داخل ہوا تھا۔ پھر اس نے تینوں کو دیکھا تھا جن میں سے ایک قتل ہوا تھا۔ ان کے پیٹ پیٹھوں نے جکڑے ہوے تھے اور زبانیں ٹھوڑی سے بھی نیچے لٹک آئی تھیں۔ ان کے حلق خشک تھے اور آنکھیں لپک لپک کر اسے ٹٹول رہی تھیں۔

    تب لہو اس کے کھاتے میں ڈال دیا گیا تھا۔

    اس نے ذائقہ چکھا؛ بہت کڑوا کسیلا تھا۔

    سب نے کہا‘ خون اسی نے کیا ہے۔

    مگر وہ کہتا تھا‘ یہ قتل میں نے نہیں کیا۔

    یہ وہ پہلا خون تھا جس سے وہ انکاری تھا اور بعد والے قتل وہ تسلیم کرتا تھا۔

    مگر یہ پہلا اور آخری خون تھا جو لوگ اس کے سر منڈھتے تھے اور کہتے تھے‘ پھر اس سے کوئی قتل نہ ہوا۔

    اس نے من بھر کے قدموں کو جھاڑ دیا تھا اور وہاں وہ قدم اگ آئے تھے جن میں ان چھوئے رستوں کی مسافت تھی۔ پھر وہ اتنی مہارت سے چلا کہ ان تینوں میں سے جو دو قتل ہونے سے رہ گئے تھے‘ ان کی پیٹھوں نے ہاتھ ڈھیلے کردیے اور پیٹ آگے کو لپک آئے تھے۔

    اور اب وہ لہو کے بھرے ہوے پیالے پیتے تھے۔

    مگر لوگ کہتے تھے‘ پھر اس نے کوئی قتل نہیں کیا۔

    اس نے سارے خون اپنی ڈائری میں لکھے ہوے تھے۔

    پہلے صفحہ پر جو قتل درج تھا وہ‘ وہ نہیں تھا جو لوگ کہتے تھے۔

    اس نے لکھا تھا کہ سب سے پہلے اس نے اپنی گردن کاٹی تھی اور سارا لہو ہاتھ کے کٹوروں میں بھرا تھا۔ پھر کٹے سر کو بدن پر جوڑا‘ اور لہو کے کٹورے ہونٹوں سے لگا کر غٹا غٹ پی گیا تھا۔

    اس روز کے بعد جب بھی وہ واپس پلٹتا تھا لہو کا بھرا مشکیزہ ساتھ لاتا تھا۔

    اور وہ دونوں‘ جو تین میں سے قتل ہونے سے بچ گئے تھے‘ بھر بھر کے لہو کے پیالے پیتے تھے۔

    وہ چاہتا تھا‘ وہ قتل نہ ہو جو ڈائری کے پہلے صفحے پر لکھا گیا۔

    مگر جب اس نے سیاہ گاؤن اتارا تھا‘ اور رول کیے ہوے موٹے کا غذ کو کھول کر ایک ایک کے سامنے دھرا تھا تو سب نے نفی میں سر ہلائے تھے۔

    تب اس کے قدم من من کے ہو گئے اور گزر چکا فاصلہ اس کی پیٹھ کا بوجھ بن گیا تھا۔

    آگے اندھیرا تھا اور گھر میں داخل ہونے پر ایک خون اس کے سر منڈھ دیا گیا تھا۔

    وہ بہت رویا۔ رات بھر کانپتا رہا اور صبح اس نے اپنے قتل کا فیصلہ کیا۔

    جب وہ اپنا قتل کر چکا تھا تو اس نے اپنی نئی ڈائری کے پہلے پر سارا وقوعہ لکھا اور ایک مرتبہ پھر زور سے رویا تھا۔

    پھر یوں ہوا کہ ڈائری کے ورق ورق سیاہ ہوتے رہے۔

    پہلے پہل تو اسے کراہت محسو س ہوتی تھی۔ رفتہ رفتہ اس کے ہونٹ لہو کے عادی ہو گئے۔

    شروع میں جو ہچکچاہٹ ہوتی وہ بھی جاتی رہی بعدازاں اسے اپنا شکار گرانے میں کوئی مشکل پیش نہ آتی تھی۔

    وہ لہو پیتا رہا۔

    اور وہ دو بھی اس کے لائے ہوے لہو سے کام و دہن آلود کرتے رہے جو تین میں سے قتل ہونے سے بچ گئے تھے۔

    روز روز کے تازہ خون نے ان کے جسموں کو بہت پھیلا دیا۔

    اور تینوں نے محسوس کیا‘ گھر کی دیواریں جسموں سے ٹکرانے لگی ہیں حبس بڑھ رہا ہے اور اگر وہ کچھ اور عرصے ان دیواروں کے اندر رہ گئے تو گھٹ کے مر جائیں گے۔

    وہ وہاں سے نکلے اور کھلی فضا میں پہنچے۔ دور دور دیواریں کھنچوا دیں۔ عظیم شاہ راہ کی طرف صدر دروازہ رکھا۔ اور اس پر نیم پلیٹ لگوا دی۔

    اب انہیں ماحول اچھا لگتا تھا۔ فضا بھی صاف ستھری تھی۔ حبس نہ تھا اور نہ ہی چاروں طرف ندیدے لوگ رہتے تھے۔ جو ارد گرد رہتے تھے‘ انہیں اس بات کی پروا نہ تھی کہ ساتھ والے گھر میں وہ رہتے ہیں جو خون پیتے ہیں۔

    اور وہ بھی نہیں جانتا تھا کہ اس کے چاروں طرف رہنے والے لہو پیتے ہیں یا۔۔۔؟

    ویسے وہ سب اگر یہ جانتے بھی تھے تو اسے معمول کا عمل سمجھتے تھے۔

    ۔۔۔ اور وہ لہو پیتے رہے۔

    وہ ‘جس نے ڈائری کے پہلے صفحے پر اپنے قتل کی روداد لکھی تھی‘ اس نے بعدکے ہر صفحے پر اپنے شکاری کی تفصیل کے آخر میں یہ بھی لکھا کہ اگر وہ صیاد ہے تو سچ یہ ہے کہ اسی لمحے صید بھی ہے۔

    پھر یوں ہوا کہ آخری والی سطر سے ایک خیال پھڑک کر اٹھا اور کہنے لگا:

    ’’تم کچھ نہ کچھ بہت پیچھے بھول آئے ہو‘‘

    یہ سنتے ہی وہ پلٹ پڑا۔ دوڑتے دوڑتے وہاں گیا جہاں کے حبس سے ڈر کر کھلی فضا میں دیواریں تعمیر کی تھیں۔ جب وہ وہاں پہنچا جہاں پر وہ تھی ‘جسے وہ بھول آیا تھا تو یہ جان کر بہت پریشان ہوا کہ دروازہ دیوار سمیت غائب تھا۔ دروازے اور دیواریں تو اجنبی قدموں میں جھجک بھرنے کے لیے ہوتے ہیں مگر وہ لوگ جو اندر باہر ہو رہے تھے ان کے قدموں میں جھجک نہ تھی‘ اشتہا تھی ایک مہین سا پردہ ‘کسی بھی سہارے کے بغیر‘ معلق تھا جو اشتہا کو مہمیز کر رہا تھا۔

    اس نے دیکھا ؛ جو لوگ اندر باہر ہورہے تھے‘ ان کے ہونٹ اس کے لہو سے تر تھے‘ جسے وہ پیچھے چھوڑ گیا تھا۔

    وہ تیزی سے آگے بڑھا اور وہ پردہ نوچ پھینکا جو قدموں میں اشتہا بھر رہا تھا۔

    اندر پہنچا‘ دیکھا ؛ اس کے بدن میں لہو کا ایک قطرہ بھی نہ تھا۔ اس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئی تھیں۔جب وہ کچھ اور آگے بڑھا تو کھلی آنکھوں میں حیرت تھیا تھیا ناچ رہی تھی۔ اس نے اسے چھونا چاہا مگر ایک چیخ درمیان میں آ کھڑی ہوئی۔ اس نے چیخ کو پرے پٹخ دیا اور اسے چھوا۔ تب وہ حیرت اور نفرت کے درمیان بھاگتے بھاگتے مر گئی۔

    اس موت نے اسے بوکھلا دیا اور وہ الٹے قدموں کھلی فضا کی جانب بھاگا۔ اپنی ڈائری کے آخری سے پہلے صفحے پر سارا وقوعہ لکھنے کے بعد اس نے اپنا یہ فیصلہ بھی لکھا:

    ’’اب مزید خون نہیں پیوؤں گا۔‘‘

    مگر وہ دو ‘جو قتل ہونے سے بچ گئے تھے‘ خون مانگتے تھے۔

    اور جتنے دن انہیں خون نہ ملا ‘اتنے دن وہ اس پر برستے رہے اور اپنے شکموں کو دباتے رہے۔

    تب اس نے وہ سارا خون تھوکنا شروع کیا ‘جو اس نے پیا تھا

    اور جب خون تھوکتے تھوکتے تھک گیا ‘تو ایک سوچ اس کے دروازے پرد ستک دے رہی تھی‘ یہی کہ ان دونوں کو قتل کرے ‘جو تین میں سے زندہ بچ گئے تھے یا پھر ان دو کے لیے مزید خون کرتا جائے کہ لہو مانگتے تھے۔

    اور جس رات اس کے دروازے پر اس سوچ نے دستک دی تھی ‘اسی رات کی صبح‘ وہ پنکھے کے ساتھ رسی باندھ کر لٹک گیا تھا اور یہ سارا وقوعہ نامعلوم ہاتھوں نے ڈائری کے آخری صفحہ پر عدم کے لفظوں سے لکھ دیا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے