Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

وقت سے پرے

ہما فلک

وقت سے پرے

ہما فلک

MORE BYہما فلک

    اونچی اونچی عمارتوں کے درمیان چلتے ہوئے وہ خود کو بہت بونا سا محسوس کرتا۔ اس نے ہوش سنبھالتے ہی ان عمارتوں، ان راستوں کو دیکھا تھا ان کے درمیان لاتعداد بار گزرا اتنی بار کہ اسے لگنے لگا تھا جہاں جہاں اس کے قدم پڑے ہیں وہاں تو گڑھے بن جانے چاہئیں تھے۔ مگر ایسا کچھ نہیں ہوا ۔ ہاں یہ ضرور ہوا تھا کہ پہلے وہ محسوس کرتا، سارا شہر وہیں کا وہیں رکا ہوا ہے اور وہ چلتا ہے۔ روز گھر سے نکلنا ایک طرف مڑنا تیز تیز قدم چلنا۔

    اسی سڑک پر اس کے ساتھ قدم اٹھاتے کئی وجود تھے سپاٹ چہروں کے ساتھ ایک دوسرے سے بےنیاز خود میں مگن!

    جہاں چلتے ہوئے وہ زندگی میں بہت آگے نکل آیا تھا ۔مگر اب اسے محسوس ہونے لگا تھا کہ سارا شہر چل رہا ہے اور وہ رک گیا ہے، تھم گیا ہے، ٹھہر گیا ہے۔ اس کے ارد گرد دیواریں ہیں جن کے ساتھ ساتھ وہ چل رہا ہے وہ جتنا آگے چلتا ہے دیواریں اس کے ساتھ ساتھ چلتی ہیں، وہ ان دیواروں پر چڑھنے کی کوشش کرتا ہے، تاکہ ان کو پھاند کر دوسری طرف جا سکے۔مگر دیواریں اور بلند ہو جاتی ہیں ۔اس کے سر سے اوپر اور اوپر!

    وہ نظریں اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھتا ہے تو اسے آسمان بھی ایک دیوار ہی دکھائی دیتا ہے جس میں بادل اینٹوں کی طرح چنے ہوئے ہیں مگر یہ بادل بھی چل رہے ہیں۔ تیز تیز، اپنی منزل کی طرف گامزن! مگر وہ رکا ہوا ہے۔

    اسے یوں لگنے لگا جیسے سب کچھ اپنے آپ ہو رہا ہے۔ ایک دائرہ ہے جس میں سب گھوم رہے ہیں۔ اسے بچپن سے اب تک کا وہ لگا بندھا معمول یاد آنے لگتا۔ ہر روز ایک ہی وقت پر اٹھنا، ناشتہ کرنا تیار ہوکر سکول جانا اور گھر واپس آنا۔

    اسے سکول کا پہلا دن یاد آتا جہاں اس کے جیسے کئی دوسرے گھبرائے ہوئے چہرے ایک جیسے یونیفارم میں ملبوس اسمبلی کے میدان میں سیدھے کھڑے ہیں۔ ایک شخص بول رہا ہے سب سن رہے ہیں۔ ایسے میں ذرا سا بھی دائیں بائیں دیکھنے کی اجازت نہیں رفتہ رفتہ وہ اس معمول میں ڈھلتا چلا گیا سکول سے کالج کالج سے یونیورسٹی پھر جاب اور شادی!

    زندگی یہی کچھ تو تھی وہ اور اس کے جیسے بہت سے انسانوں کی زندگی!

    اسے اپنے معمول سے عشق ہو گیا تھا اور اس میں ذرا سا بھی ردوبدل ہو جاتا تو اس سے برداشت نہیں ہوتا تھا خواہ اس کے بیمار ہونے کی وجہ سے ہی معمول میں کوئی وقفہ آ جاتا۔

    وہ جس فرم میں ملازم تھا وہاں مختلف قسم کی چیزیں تیار ہوتیں۔ جہاں ان چیزوں کو پیک کیا جاتا وہ اس شعبہ کا انچارج تھا۔

    کچھ دنوں سے وہ محسوس کرنے لگا جیسے وہ بھی کوئی پراڈکٹس ہیں جو لگے بندھے پراسس سے گزر رہی ہیں۔ جیسے مشین کی بیلٹ پر چلتے ہوئے پیکٹس!

    اگر ان میں سے کوئی پیکٹ دائیں بائیں گر بھی جاتا تو اسے اٹھا کر واپس بیلٹ پر ڈال دیا جاتا اور اگر کوئی زیادہ ہی خراب ہو جاتا تو اسے کچرا دان میں پھینک دیا جاتا۔ مشین کی بیلٹ پر چلتے ہوئے ادھر ادھر گر جانے والے پیکٹس اسے باغی لگنے لگے تھے جو اپنی روٹین سے ہٹتے تو ان کو کچرا دان کی سزا ملتی وہ دہل سا جاتا اور خود کو دل ہی دل میں سمجھاتا کہ بقا اسی میں ہے اسی بیلٹ پر سیدھے سیدھے چلتے رہنا مگر اس کا دل کرتا وہ بھی ایک جست لگائے اور اور اس اور کے آگے سوچنے کی بھی اس میں ہمت نہیں تھی۔ بہت کچھ تھا جو اس کے ساتھ جڑا تھا اسے یوں لگتا اس کی ہلکی سی جنبش سے ہی سارا نظام درہم برہم ہو جائےگا۔

    وہ وقت کو خدا مانتا تھا۔

    وقت جس کے ہاتھ میں سب کچھ ہے وہی سب فیصلے کرتا ہے اور کس کے ساتھ کیا بیتی اس سے بے نیاز رہتا ہے۔

    اس نے کبھی کلائی پر گھڑی نہیں باندھی تھی۔

    ’’وقت کو ہم قید کیسے کر سکتے ہیں؟ جب کہ ہم تو خود وقت کی قید میں ہیں۔‘‘ اس کے کولیگز اس کا مذاق بناتے اس نے کبھی کسی سے وقت نہیں پوچھا۔ اس کا اپنا ایک حساب تھا۔

    وہ معمول کا معمول تھا۔

    اپنے آنے کے وقت کا اسے حساب رہتا، پھر تھکا دینے والا کام شروع ہوتا؛ پہلے دو تین دن اسے مسئلہ ہوا، مگر اب وہ جان چکا تھا شمیم صاحب پورے بارہ بجے بریک پر جاتے ہیں۔ وہ واپس آئیں تو ساڑھے بارہ ہوتے ہیں۔ اس کے بعد آسیہ جب اپنی سب چیزیں سمیٹنے لگتی ہے، تو دو بجنے میں دس منٹ ہوتے ہیں وہ صرف پارٹ ٹائم کام کرتی ہے پورے دو بجے اس نے اپنے بیٹے کو سکول سے لینا ہوتا ہے۔ اسی طرح ہر ایک کے معمول کے حساب سے سب کے وقت کا اسے اندازہ رہتا کیونکہ اس کی طرح باقی سب بھی وقت کے قیدی تھے۔ صرف اتنا تھا کہ اپنے اپنے کام کے حساب سے سب کے آنے جانے کے وقت مقرر تھے۔ وہ وقت بتانے والی کسی چیزپر ارادتا نظر نہیں ڈالتا تھا۔

    آج جب وہ دفتر سے باہر نکلا تو جانے کس سوچ کے تحت دائیں طرف مڑنے کی بجائے سامنے چلنے لگا موسم خوشگوار تھا اور آج ہاف ڈے تھا اسے یوں لگا کہ اس کا کہیں گھومنے کا موڈ ہو رہا ہے۔ لیکن یہ احساس بھی اس کے لیے محال تھا ہاف ڈے کے تو اپنے کام ہوتے ہیں طے شدہ پروگرام جن سے ایک پل کے لیے بھی کوتاہی نہیں برتی جا سکتی۔ ان سوچوں میں گم اس کے قدم سامنے کی طرف ہی اٹھتے گئے اس نے خود کو روک کر مڑنے کی کوشش نہیں کی اس کے ارد گرد لوگ تیزی سے گزر رہے تھے سب کو کہیں نہ کہیں پہنچنے کی جلدی تھی ہر طرح کے لوگ بوڑھے، جوان، بچے، خوش لباس لوگ بھی، بدنما حلیے والے بھی۔

    کسی کے چہرے پر ہنسی کی رمق تک نہیں تھی۔ جن چہروں پر پریشانی یا تفکر نہیں تھا وہ سپاٹ تھے کہ ان کے چہروں سے ان کی اندرونی کیفیت کا اندازہ لگانا مشکل تھا۔ ایسے میں کوئی یا وہ خود ہی اگر زور سے قہقہہ لگا کر ہنس دے تو کیا ہوگا؟ اس نے ایک لمحے کے لیے سوچا مگر وہ جانتا تھا وہ ایسا نہیں کر پائے گا شاید کوئی بھی ایسا نہ کر سکے۔

    ہنسنے کے لیے کسی کا ساتھ ہونا ضروری ہے، کسی وجہ کا ہونا بھی ضروری ہے۔ اکیلے یا بغیر وجہ ہنسنے والے کو لوگ پاگل سمجھتے ہیں تو اکیلے رونے والے کو پاگل کیوں نہیں سمجھا جاتا؟ اس سے تو رونے کی وجہ بھی نہیں پوچھی جاتی۔

    یہ آج میں کیا سوچ رہا ہوں؟

    وہ عورت تیزی سے اپنے بچے کے پیچھے بھاگی تھی جو اس سے ہاتھ چھڑا کر سڑک پر چلا آیا تھا۔ اس نے بچے کو دھکا دیا، مگر گاڑی بریک لگاتے لگاتے بھی اسے کچل چکی تھی۔ پلک جھپکتے میں ہی یہ سب ہوا تھا وہ سن کھڑا رہ گیا۔

    کیا اس عورت کو اب پتہ ہے اس کا بچہ کہاں ہے؟۔

    اب اس کا کیا ہوگا۔ اس کی فکر کرنے والی تو سڑک پر خون آلود گھٹڑی کی صورت پڑی تھی۔ گھر سے کیاکرنے کا سوچ کر نکلی، جاکر کیا کچھ کرنا تھا مگر اب سب ذمہ داریاں سب فرائض ہر کام وہیں کا وہیں تھا اسے وقت نے نجات دے دی تھی۔

    وقت نے ظلم کیا تھا یا مہربانی؟

    لوگوں کی بھیڑ، بھاگ دوڑ شور ہنگامہ کچھ دیر کے لیے پھر سب کچھ اپنے معمول پر آ جائیگا۔ سب اپنے اپنے کاموں میں مگن ہو جائیں گے۔

    کیا میرا احساس مر چکا ہے؟ جومیں ایک منٹ کے لیے بھی وہا ں نہیں رکا اور یہ سوچ کر آگے بڑھ آیا میرے جانے سے کیا ہوگا اور اگر سب ہی ایسا سوچتے ہوں تو؟

    نہیں مگر سب ابھی اس بیلٹ پر ہیں اور میں؟

    وہ چلتے چلتے سمندر کے کنارے پہنچ چکا تھا دور تک پھیلا ہوا پانی ہی پانی سب کو پتہ ہے یہاں ڈوبتا سورج خوبصورت لگتا ہے سب اپنے دوستوں اور عزیزوں کے ساتھ یہاں آتے ہیں۔

    خود وہ بھی کئی بار اپنے بیوی بچوں کے ساتھ یہاں آ چکا تھا یہاں ہر وقت ایک ہی نظارا ہوتا ہے بس چہرے بدل جاتے ہیں۔

    مگر میں اتنا الجھا ہوا کیوں ہوں؟

    وہ کسی سے ٹکرایا تھا.

    راستہ دیکھ کر نہیں چل سکتے؟

    وہ بھنایا۔

    راستے تو آنکھوں والوں کے لیے ہوتے ہیں ہم تو جس طرف چل پڑیں وہی راستہ ہے۔

    اوہ!

    کسی اندھے کو دیکھ کر افسوس کا اظہار بھی تو ہر کوئی کرتا تھا۔

    مگر آپ کی کوئی منزل تو ہوتی ہی ہوگی جانے کیوں اس کا دل چاہا اس سے بات کرے۔

    منزل پانے کے لئے راستے کا انتخاب سب سے اہم ہے تمکیا جانو تمہیں بائیں طرف جانا تھا مگر ہمیشہ کی طرح تم دائیں طرف چل دیئے، کیونکہ تم نے ہمیشہ یہی سیکھا ہے۔

    تو آپ کیا کرتے ہیں کیا آپ منزل کے تعین کی بجائے راستے کا انتخاب کر کے گھر سے نکلتے ہیں؟

    گھر بھی منزل ہی ہوتا ہے۔ جب ہم گھر سے باہر ہوں، اور منزلیں مسافروں کے لیے ہوتی ہیں، ہم سب مسافر ہیں، ایک ہی منزل کے ابھی تو زندگی کی بھول بھلیوں میں چکر کاٹ رہے ہیں۔ اسے راستے سمجھ بیٹھے ہیں اور اپنی الگ الگ منزلوں کا تعین کر رکھا ہے جب کہ منزل تو سب کی ایک ہی ہے۔

    تو آپ کا مطلب ہے کہ ہم سب بےسمت بے نشان راستوں پر چلتے ہوئے ایک ہی منزل کی طرف گامزن ہیں کیا ہم خود چل رہے ہیں یا ہمیں چلایا جاریا ہے اور اگر کوئی چلا رہا ہے تو وہ کون ہے؟

    تم نے چکی کو گول گھومتے دیکھا ہے، اس کے دو پاٹوں کا کام دائیں سے بائیں بائیں سے دائیں گھومنا ہے تم نے اس میں پس جانے والے گہیوں کو بھی دیکھا ہے، کیا ان ہاتھوں کو بھی دیکھا جو یہ چکر چلا رہے ہیں؟ تم کس نے چلایا کے چکر میں پھنس کر رہ گئے اور یہ نہیں پوچھا کیوں چلایا؟

    گیہوں پیستے پیستے گھس گھس کر وہ چکی بھی اسی گیہوں کا حصہ بن جاتی ہے وہ ہاتھ بھی اپنی ساری طاقت اس چکی کو دے کر اس میں جذب ہو جاتے ہیں یا اسے اپنے اندر جذب کر لیتے ہیں تو انجام کار سب ایک ہی وجود کا حصہ ہوتے ہیں۔

    ہم جس گندم کے دانے کی سزا بھگت رہے ہیں اسی کو پیس کر کھاتے ہیں اور جس زمین سے یہ رزق ملتا ہے ایک دن اسی زمین کا رزق ہو جاتے ہیں جیسا آپ نے کہا چکی پیستے پیستے اسی چکی میں جذب ہو جاتے ہیں۔ تو پھر یہ چکر کیوں چلایا گیا، جب منزل ایک ہی ہے تو راستے جدا جدا کیوں ہیں؟ اس سارے چکر سے خوشی کس کو حاصل یے اور ہمیں دکھ چننے کو کیوں کہا گیا؟ کیوں کہا گیا کھل کر ہنسنے سے دل مردہ ہو جاتے ہیں۔

    تمہاری خوشی کا پہلا قاتل وہ ہے جس نے کہا تھا کہ مردہ دل کے لوگ ہنستے ہیں کھل کے مت ہنسو دراصل خود اس کا دل مردہ ہو چکا تھا اس لئے اس کی سماعت تمہارے قہقہے کو سہارنے کے قابل نہ رہی تھی تمہارا مجرم وہ ہے جس نے آزادی کی پڑیا میں لپیٹ کر تمہیں قید دی اس نے آزادی کا نعرہ تو لگایا مگر پھر تمہیں زمانے سماج، رسم ورواج کی بندشوں میں باندھ دیا اب تم چکی کے دو پاٹوں کی طرح گول گول گھومو اور تمہارا وجود اس گہیوں کے ساتھ۔ ہی جذب ہو کر ختم ہو جائے تو ٹھیک ہے ورنہ جہاں تم نے اس گھمانے والے کا ہاتھ تھاما وہیں تم معتوب ٹھہرا دیئے جاؤگے۔

    تم گھر سے نکلتے ہو کسی منزل کی طرف، تم جانتے ہو بائیں سے دایاں بہتر ہے تم ہمیشہ آگے کی طرف چلتے ہو کبھی پیچھے قدم اٹھا کر دیکھا؟

    میں قدم اٹھاتا نہیں ہوں یہ تو وقت ہے جو مجھے چلا رہا ہے وقت خدا ہے ازل سے ہے ابد تک رہےگا سب جگہ موجود ہے اور سب سے بےنیاز ہے اپنے اثرات بہت بے دردی سے ہم سب پر چھوڑتا ہے مگر اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔

    اور ہم نہیں رہیں گے مگر وقت رہےگا!۔۔۔ جانے کب تک ؟ اندھے نے سرگوشی کی۔

    یہی تو میں نے کہا ہم وقت کے ہاتھوں بےبس ہیں ہمارے اختیار میں کچھ بھی نہیں میرے پیدا ہونے سے لے کر اب تک میری ذات سے جڑی ہر بات کا فیصلہ وقت نے کیا میرا سونا، جاگنا، کھانا، پینا کہیں آنا جانا، تعلیم، نوکری، شادی اور پھر مر جانا۔ اس کا تعین بھی وقت کے ہاتھ میں ہے۔ سب وقت کے محتاج ہیں، میری پوری زندگی اور ہر انسان کی زندگی!

    وقت سے پرے کچھ بھی نہیں ہے۔

    ایسا اس لیے ہوا کہ تم آنکھیں بند کیے چلتے رہے جس نے جو کہا، کیا۔ تمہیں جس نام سے پکارا گیا تم وہی بن گئے۔ کبھی راستے سے ہٹ کر نہیں چلے۔کبھی وقت سے پرے جاکر نہیں دیکھنے کی کوشش نہیں کی۔

    تو میرے اختیار میں کیا ایسا ہے کہ میں راستے سے الگ ہو کر چلوں ایک نیا راستہ اختیار کروں یا شایدکوئی راستہ ہو ہی نہیں میں خود ایک راستہ بناؤں۔ آج میں ہر روز کی طرح اپنے گھر کی طرف جانے کی بجائے اس طرف پلٹ آیا ہوں آج جو میں نے کیا ہے وہ میرے برسہا برس کے معمول کے خلاف کیا۔

    کیا ایسے میں سکون پا سکوں گا کیا میں اس طرح مطمئن ہو سکوں گا؟

    پتہ نہیں!

    مطلب؟ آپ اس وقت سے مجھے قائل کر رہے ہیں اور اب کہہ رہے ہیں، پتہ نہیں!

    ہاں پتہ نہیں!

    تم کہتے ہو تمہیں جس کی تلاش ہے۔ وہ سکوں ہے تو تمہیں سکوں کی تلاش کیوں کر ہوئی؟ تم توہمیشہْ سیدھے راستے پر چلے ہو ایک لگے بندھے معمول کے مطابق زندگی گزاری جو سماج نے کہا، جو وقت نے طے کیا تم نے اس پر سر تسلیم خم کیا،

    تم نے وقت کو اپنا خدا مانا اور اپنا ہر فیصلہ اس کے ہاتھ میں دے دیا پھر ہر بات پر تقدیر اور مقدر کہہ کر خود کو مطمئن کر لیا تو اب بے چین کیوں ہو؟ بھٹکتے کیوں پھر رہے ہو؟

    میرے پاس اور کوئی راستہ نہیں ہے، میں اسی معمول کا عادی ہوں اسی میں جی رہا ہوں۔

    اور اسی میں مر جاؤ گے ہر اس انسان کی طرح جو پیدا ہوا کھایا پیا بچے پیدا کئے اور مر گیا۔

    تو میں اس سے ہٹ کر کیا کروں؟

    اس سے ہٹ کر خوش ہو کر دیکھو، جی کر دیکھو۔ قہقہہ لگا کر دیکھو، اس خوف کے بغیر کہ لوگ تمہیں پاگل سمجھیں گے۔

    کیا آپ اندر کا حال جان لیتے ہیں؟ ابھی کچھ دیر پہلے تو میں یہی سوچ رہا تھا۔

    نہیں! اندر کا حال صرف تم جان سکتے، ہو تمہارے واقف حال صرف تم ہو!

    میں نے تو بس وہ کہا جو ہر انسان سوچتا ہے اور کچھ الگ سوچنے یاکرنے سے خوفزدہ ہوتا ہے۔ تم نے آج گھر کو منزل نہیں بنایا بلکہ غیرارادی طور پر ہی سہی مڑے تو ہو نا اس لیے تم سے کہا تم ہنس کر دیکھو شاید تمہارے اندر کچھ الگ کرنے کا حوصلہ ہو شاید کچھ الگ کر سکو کچھ نہ بھی کر سکو ایک نیا راستہ نہ بھی بنا سکو اپنے قدموں کے نشان ایک نئے راستے کی بنیاد کے لیے تو چھوڑ ہی دوگے۔

    آج گھر کی طرف واپس لوٹتے ہوئے اسے محسوس ہورہا تھا سارا شہر رکا ہوا ہے اور وہ چل رہا ہے، اس بار آگے کی طرف نہیں پیچھے کی طرف جہاں اس نے پہلا سبق پڑھا تھا اور اس کے مطابق خود کو ڈھالا تھا۔ وہ اس سبق کو بھلانے کی طرف لوٹ رہا تھا اور اب اسے وقت سے بھی پیچھے جانا تھا اس سے آگے نکلنے کے لیے اس پر فتح پانے کے لیے!

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے