aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

محبت کی پہچان

کرشن چندر

محبت کی پہچان

کرشن چندر

MORE BYکرشن چندر

    پہلے دن جب اس نے وقار کو دیکھا تو وہ اسے دیکھتی ہی رہ گئی تھی۔ اسماء کی پارٹی میں کسی نے اسے ملوایا تھا۔ ان سے ملو یہ وقار ہیں۔ وقار اس کے لیے مکمل اجنبی تھا مگر اس اجنبی پن میں ایک عجیب سی جان پہچان تھی۔ جیسے برسوں یا شاید صدیوں کے بعد آج وہ دونوں ملے ہوں، اور کسی ایک ہی بھولی ہوئی بات کو یاد کرنے کی کوشش کر رہے ہوں۔ دوسری بار شاہدہ کی کوفی پارٹی میں ملاقات ہوئی تھی، اور اس بار بھی بظاہر اس بیگانگی کے اندر وہی یگانگت ان دونوں کو محسوس ہو رہی تھی۔ یہ پہلی نگاہ والی محبت نہیں تھی۔ ایک عجیب سی قربت اور گہری جان پہچان کا احساس تھا۔ جو دونوں کے دلوں میں امڈرہاتھا جیسے بہت پہلے وہ کہیں ملے ہیں۔ بہت لمبی لمبی بحثیں کیں ہیں۔

    عادات، خیالات اور ذاتی پسند کے تانے بانے پر ایک دوسرے کو پرکھا ہے۔ وہ دونوں ایک دوسرے کے ہاتھ کی گرمی کو جانتے ہیں۔ اس برقی رو کو پہچانتے ہیں۔ جو نگاہوں ہی نگاہوں میں ایک دوسرے کو دیکھتے ہی دوڑنے لگتی ہے۔ وہ ڈور جودل ہی دل میں اندر بندھ جاتی ہے اور ایک دوسرے سے الگ ہو نے کے بعداپنے اپنے گھروں میں الگ الگ اپنے اپنے کمروں میں اکیلے آرام، سکون اور چین سے بیٹھے ہوئےٍ بھی یو ں محسوس ہو تا ہے، جیسے وہ ڈور ہل رہی ہے۔ ایک ہی سمے میں وقت اور احساس کے ایک ہی ثانیے میں وہ دونوں ایک دوسرے کو یاد کر رہے ہیں۔ رات کی تنہائی میں عذرا کو اپنے بستر پر اکیلے لیٹے لیٹے ایک دم احساس ہوا جیسے اس کے بہت ہی قریب اس کے چہرے پر وقار جھکا ہوا ہے۔ گھبرا کر اس نے بیڈ سوئچ دبا کر روشنی کی۔ کمرے میں کوئی نہ تھا۔ پھر بھی وہ گھبرا سی گئی۔ لجا سی گئی اس ایک لمحہ میں ایسا محسوس ہواجیسے اس کا راز وقار کو معلوم ہو گیا۔ تیسری بار جب وقار سے رؤف کی دعوت پر ملی توبے اختیار اس کی آنکھیں جھک گئیں اور رخساروں پہ رنگ آگیا۔ محبت کرنے والی عورت کا دل بہت شفّاف ہوتا ہے۔

    وقار اور عذرا کو ایک دوسرے کے قریب آتے زیادہ دیر نہیں لگی۔ کچھ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے بنانے والے نے ان دونوں کو بنایا توایک دوسرے کے لیے ہی تھا۔ دونوں ضدی اور مغرورتھے۔ راست باز اور محنتی، نہ کسی سے دبنے والے نہ کسی سے بے جا خوشامد کرنے والے، دونوں کسی قدر کج بحث بھی تھے۔ اور شاید وہ بحث صدیوں پہلے ان کے درمیان شروع ہوئی تھی اب پھر جاری ہورہی تھی۔ دونوں سائنس کے بہت اچھے طالب علم تھے۔ اور یونیورسٹی کے چیدہ اسکالروں میں ان کا شمار ہوتا تھا اور آج کل سائنس میں فلسفہ سے کہیں زیادہ بحث کرنے کا موقع ہے۔ اس پر طرّہ یہ کہ دونوں وجیہہ، خوب صورت اور حسین تھے۔ لگتا تھا قدرت نے دونوں کو ایک ہی سانچے اور ٹھپّے میں ڈھال کر ایک دوسرے سے دُور پھینک دیا تھا۔ حالات کے محور پر گردش کرتے کرتے اچانک وہ ایک دوسرے سے آن ملے تھے اور اب ایسا لگتا تھا جیسے کبھی ایک دوسرے سے الگ نہ ہوں گے۔

    یہ پہچان تین چار سال تک چلتی گئی اور گہری ہوتی گئی۔ اس عرصہ میں وقار آ ئی اے ایس کے انتخاب میں آچکا تھا اور ٹریننگ حاصل کر رہا تھا۔ عذرا بھی نیشنل لیبا ریٹریز میں ملازم ہو چکی تھی اور اپنے محبوب موضوع کرسٹولوجی پر ریسرچ کر رہی تھی۔ زندگی ان دونوں کے لیے بہار کے پہلے جھونکے کی طرح شروع ہورہی تھی ان دونوں نے شادی کا فیصلہ کر لیا تھا۔ مگر شادی سے چند روز پہلے عذرا کے منہ سے ’نہیں نکل گیا۔ برسوں بعد آج بھی جب وہ واقع کو یاد کرتی ہے تو اسے اس ’نہیں پر حیرت تو نہیں ہوتی، ہاں اس ’نہیں پر جمے اور اڑے رہنے پر حیرت ہوتی ہے۔

    وہ دونوں نیشنل پارک کے ایک گھنے کنج میں گھاس پر دسترخوان بچھائے کھانا کھارہے تھے۔ دور اوپر کہیں سورج تھا۔ بیچ میں چمیلی کے پیلے پیلے پھول تھے جن کے اوٹ میں کہیں کہیں جھیل کا نیلا پانی ایک شریر بچے کی طرح ان دونوں کی تنہا ئی میں جھانک جاتا ہے۔ کوئی کشتی ساحل سے گزرجاتی ہے۔ کوئی پیار کرنے والی لڑکی اپنے چاہنے والے کے بازو پر سر رکھ کر ہنس رہی ہے۔ اس کی ہنسی سفید بادل کا ایک ٹکڑا ہے۔ اس دنیا میں ہمیشہ قیامتیں آتیں رہیں گی اور ہمیشہ وہ ایک دوسرے سے جھگڑینگے۔ دس گز زمین کے لئے، کبھی ایک جھوٹے غرور کے لئے اور ہمیشہ کوئی نہ کوئی آفت ٹوٹتی رہے گی اس دنیا میں۔ مگر محبت صرف ایک بار آتی ہے۔ بادل کے سفید ٹکڑے کی طرح جھیل میں ایک کشتی کی طرح تیرتی ہوئی چا ہت کے بازو پر سر رکھے ہوئے آسمان کو تکتی ہوئی، دل کے ساحل کو چھوتی ہوئی گزر جاتی ہے۔ کوئی ہاتھ بڑھاکے روک لے تو رُک جاتی ہے ورنہ موت کی گونج کی طرح کہیں اور چلی جاتی ہے۔

    ایسے ٹھنڈے سے میٹھے شہد بھرے لمحے وہ بحث شروع ہوئی تھی۔ وقار نے اسے مشورہ دیا تھا کہ شادی کے بعد عذرا نیشنل لیباریٹریز میں کام کرنا چھوڑ دے۔ وقار اب آئی اے ایس میں آچکا ہے۔ خدا کے فضل سے ہر طرح کی فراغت اسے حاصل ہے اب عذرا کو استعفٰے داخل کر دینا چاہیئے۔ چند دنوں میں ان کی شادی ہونے والی ہے عذرا کے منہ سے نہ نکل گئی۔ نہیں وہ اپنی ملازمت کبھی ترک نہیں کرے گی۔ ملازمت چھو ڑنے کی ضرورت کیا ہے اسے ایک کام پسند ہے۔ وہ ریسرچ کرنا چاہتی ہے۔ شادی کا یہ مطلب تو ہرگز نہیں ہے کہ عورت مردکی غلام ہو کر رہ جائے۔ گھر داری میں ایسا کون سا وقت لگتا ہے کھانا باورچی پکائے گا، پانی نل سے آئے گا، جھاڑو بہاڑو، جھاڑ پونجھ کا کام منیار کریگی۔ باقی رہ کیا گیا؟ صوفے پر ایک عمدہ ساڑھی پہن کر شوہر کی راہ تکنا؟ سو یہ کام کون سا مشکل ہے۔ دفتر سے آتے ہی چند منٹ میں سا ڑھی بدل کر مو نہہ ہاتھ دھو کر دروازہ پر ٹنگی ہوئی ایک روشن مسکراہٹ کی طرح کھڑا ہوا جا سکتا ہے۔

    جوں جوں وہ بات کرتے گئے بحث الجھتی ہی گئ۔ عذرا کو اندازہ ہورہا تھا کہ بحث غلط راستہ پر جارہی ہے مگر جوش کے عالم میں وہ بھی بولتی چلی گئی۔ بحث کے دوران اسے یہ بھی احساس ہوا کہ وہ گھراور اس کی ذمہ داری اور اس کے احساس کی اہمیت کو محض بحث کی خاطر کم کرتی جا رہی ہے۔ کچھ یہ بھی احساس ہونے لگا کہ ویسے وقار کی دلیل میں وزن زیادہ ہے۔ اس بات سے وہ اور بھی بپھر گئی۔ اس کے لہجے میں تلخی آنے لگی۔

    پھر اسے یہ محسوس ہوا جیسے یہ سب کچھ غلط ہورہا ہے۔ اسے معاملے کو سنبھال لینا چاہیئے مگر وہ ایک’نا‘ جو اس کے مونہہ سے نکلی تو نکلتی ہی چلی گئی

    اور وہ بحث کے دوران مزید کج بحثی سے کام لینے لگی۔ وقار بھی سنجیدگی کو چھوڑ کر غصّے سے کام لینے لگا تمھیں یہ نوکری چھوڑدینی ہوگی۔

    ’’تم مجھے ایسی کوئی دھمکی نہیں دے سکتے۔‘‘ عذرا کے لہجے میں آنسو آنے لگے وہ اور بھی اپنے عقیدے پر سخت ہوتی گئی۔

    ’’کسی قیمت پر میں یہ ملازمت نہیں چھوڑوں گی۔ چاہے شادی ہو یا نہ ہو۔ میں اپنا کام بند نہیں کروں گی۔‘‘

    یکایک عذرا نے اپنا فیصلہ دے دیا۔ اور بحث ایک دم بند ہو گئی۔ دسترخوان لپیٹ دیا گیا۔ خاموشی میں جھیل کے کنارے برتن دھوئے گئے۔ ایک کشتی مردوں عورتوں کی ہنسی سے بھری ہوئی شریر بچّوں کی کلکاریوں سے معمور قریب سے گزرتی جا رہی تھی۔ عذرا کا جی چاہا وہ ہاتھ بڑھا کے اس کشتی کو روک لے ورنہ یہ سب بچّے چلے جائیں گے اوروہ اکیلی رہ جائے گی۔ مگر اس کے دل میں اتنا غم اور غصہ اور غرور بھرا ہوا تھا کہ وہ کچھ نہ کر سکی۔ ٹفن کے ایک خالی برتن کو ہاتھ میں لئے پانی میں کھنگالتی رہی اور پانی ایلمو نیم کی دیواروں سے ایک بے معنی فقرہ کی طرح ٹکرا تا رہا۔

    گاڑی میں بھی اسے خیال آیا کہ وہ وقار کی بات مان جائے اپنی ضد ترک کردے۔ ایک کمزور لمحہ کا سہارا لے کراپنے آپ کو وقار کی گود میں کرادے۔ مگر وہ ملتجی لمحہ گزر گیا۔ اور وہ چٹان کی طرح سخت اور مغرور بنی اپنی سیٹ پر وقار سے الگ بیٹھی رہی حتٰی کہ اس کا فلیٹ آگیا۔

    وقار ا اور عذرا کی شادی نہیں ہوئی۔ وقار اپنی پوسٹنگ پر تنہا ہی چلا گیا۔ عذرا نے بھی کسی دوسرے بڑے شہر میں ٹرانسفر کر وا لیا۔ بہت سے سال گزرگئے۔ دل بجھ سا گیا۔ وقار اب بھی عذرا کو یاد آتا تھا۔ تنہا راتوں میں، زندگی کے اجاڑ اور طویل لمحوں میں وقار کی جدائی بہت کھلنے لگی۔ مرد تو بہت تھے اور ایک ہزار تنخواہ پانے والی عورت کے لئے مردوں کیا کمی ہوسکتی ہے۔ مگر وہ دوسرے مرد سے شادی تو جب کرے جب وقار کو کسی طرح بھول جائے اور وہ کمبخت دل سے اتر تا ہی نہیں۔

    عذرا نے شادی نہیں کی۔ مگر اس نے چند ماہ کایتیم بچہ گود لے کر پال لیا۔ مُنّا بھی اب چار سال کا ہو چکا تھا اور اپنے باپ کو پوچھتا تھا،

    ’’امی، ابو کہاں ہیں؟‘‘

    ’’کنیڈا گئے ہیں۔‘‘

    ’’کنیڈا کہاں ہیں؟‘‘

    ’’یہاں سے بہت دور ہے۔‘‘

    ’’کب آئیں گے؟‘‘

    ’’نہیں آئیں گے‘‘

    ’’کیوں نہیں آئیں گے۔ سب کے ابّو تو رات کو گھر آتے ہیں۔ میرے ابّو کیوں نہیں آتے؟‘‘

    وہ لا جواب ہو کر چپ ہو جاتی۔ مگر مُنا پوچھتا ہی رہتا۔ کنڈر گارڈن میں جب اسے داخل کرانے کا سوال آیا تو منے کے باپ کا نام پوچھا گیا۔ ایک دم سے عذرا ٹھٹک سی گئی۔ پھر آہستہ سے بولی۔

    ’’وقار حسین‘‘

    نام لکھ لیا گیا۔ منا کے دل پر درج بھی ہو گیا۔ اسی رات منّا نے اپنی امی کے گلے میں بانہیں ڈال کر پوچھا، ’’امی کیا میرے ابّو کا نام وقار حسین ہے؟‘‘

    ’’ہاں بیٹا‘‘ عذرا کی آنکھوں سے آنسو چھلکنے لگے۔

    ’’دیکھنے میں کیسے ہیں میرے ابّو؟‘‘ منا نے دوسرا سوال کیا۔

    عذرا بات کو ختم کرنے کی خاطر ایک ٹرنک کھول کر اس میں سے وقار کی ایک تصویر نکال کر لائی اور منے کے ہاتھ میں دے دی۔ مُنا دیر تک اس تصویر کو غور سے دیکھتا رہا۔ پھر اس نے اپنے ابّو کی تصویر کو اپنے ننھے سے سینے سے لگا لیا پھر تصویر کا مُنہ چوم کر بولا، ’’میرے ابّو۔۔۔ میرے ابّو۔۔۔‘‘

    عذرا نے اسے جلدی سے گلے لگا لیا۔ اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی مگر منا نہیں رویا۔ وہ مرد تھا اور جب عذرا کے آنسو ختم ہو گئے تو اس نے گمبھیر اور سنجیدہ لہجہ میں عذرا سے پوچھا، ’’امی کیا ابّو تم سے خفا ہیں؟‘‘ عذرا نے آہستہ سے اثبات میں سر ہلایا۔

    منا دیر تک اپنی امی کو غور سے گھورتا رہا۔ اس کے معصوم بھولے چہرے پر دونوں ابروؤں کے درمیان سوچ کی ایک گہری لکیر بن گئی تھی۔ مُنا نے اپنے گال پر انگلی رکھتے ہوئے کہا، ’’رو نہیں امی۔ میں جب بڑا ہوجاؤں گاتمہیں ابّو کے پاس کنیڈا لے کر چلوں گا۔‘‘

    ’’کنیڈا؟‘‘ وقار تو ہندوستان میں تھا کہیں پر۔ اسے یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ عذرا کہاں پرہے۔ یہ بھی معلوم تھا کہ کہیں پر اس کے ایک بیٹا بھی پیدا ہوچکا ہے۔ یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ اس بچے نے اپنے کمرے میں دیوار پر اس کی تصویر ٹانگ لی ہے اور اس سے باتیں کرتا ہے۔

    وقار کو یہ سب کچھ معلوم نہیں تھا۔ مگر شادی اس نے بھی نہیں کی۔ ابھی زخم بھرا نہیں تھا۔ کچھ یہ بھی محسوس ہوتا تھا کہ جو عورت اس دنیا میں اس کے لئے تھی، جو صحیح معنوں میں اس کی ساتھی ہو سکتی تھی اس کواس نے اپنی ضد میں کھو دیا۔ آج بھی اسے احساس تھا کہ بات اسی کی صحیح تھی دلیل جائز اور وزنی مگر وہ جو اپنی بات منوا نے کے لئے تل گیا تھا اسی ایک بات نے شاید عذرا کو اس سے برگشتہ خاطر کر دیا تھا۔ وہ اگر اس کی ملازمت ترک کر انے پر اس قدر اصرار نہ کرتا تو یقیناً عذرا بھی اتنی ضد نہ کرتی۔ ممکن تھا کچھ عرصے کے بعد خود ہی چھوڑ دیتی۔ یا بچہ ہونے کے بعد تو ضرور ہی خود سے یہ ملازمت چھوڑدیتی۔ ایک ذرا سی بات کے لئے، اپنی۔۔۔ مرد کی بے ہودہ خودی کی خاطر وقار نے اپنی محبت کو ٹھکرا دیا تھا۔ یہ احساس دن بہ دن بڑھتا جارہا تھا۔ اندر ہی اندر وقار اپنی غلطی پر پیچ و تاب کھا تا مگر اب کچھ نہیں ہو سکتا تھا۔ دن گزرتے گئے، مہینے گزرتے گئے، برس گزرتے گئے۔ کیا جوانی اسی طرح گزر جائے گی۔ طبعا وہ عیاش او باش آدمی نہیں تھا۔ وہ گھریلو سکون پسند ایک ہی عورت والا مرد تھا۔ ادھر ادھر کی تاک جھانک سے وہ گھبرا تا تھا۔ اس نے اپنی زندگی میں صرف عذرا، اس کے بچوں اور اس کے گھر کا تصّور کیا تھا۔ اور جب اسے وہی گھر نہیں ملا تو اس نے بھی شادی کا خیال ترک کر دیا اور اپنے آپ کو اپنے کام میں غرق کر دیا۔

    ایک بار وہ ناگپور سے دہلی کے لئے فلائی کر رہا تھا۔ مون سون کے دن تھے، موسم بہت خراب اور طوفانی ہو رہا تھا۔ اس کے جہاز کو راستہ بدل کر حیدرآباد کے ہوائی اڈے پر اترنا پڑا۔ انجن میں بھی خرابی پیدا ہوگئی تھی۔ موسم بے حد خراب ہورہا تھا۔ معلوم ہوا رات یہیں کاٹنی پڑے گی۔ سب مسافروں کو رات کے قیام کے لئے رٹز ہوٹل لے جایا گیا۔ حیدرآباد آنے کا اسے موقع ملا تھا۔ چائے پی کر وہ باہر نکل کھڑا ہوا۔ ہوا میں جھکڑ اور خنکی کے آثار تھے۔ کثیف بادلوں کی گہری سلوٹوں میں ڈوبتے ہوئے سورج کی سُرخی تھی۔ سڑک پر گھاس، تنکے اور املی کے خشک پتے اڑ رہے تھے۔ وقار نے اپنے کوٹ کے کالر اونچے کر لئے اور اس سڑک پر ہو لیا جو ایک اونچی پہاڑی چٹان کے کنارے کنارے اپنا راستہ کاٹتی ہوئی نیچے کو جاتی تھی۔ کچھ دیر کے بعد وہ حیدرآباد کو سکندرآباد سے جدا کرنے والے نظام تال پر تھااور میلوں تک پھیلے ہوئے پانی کا نظارہ کر رہا تھا۔ بندھ کی سڑک پر گھومتا گھومتا وہ کسی دوسری سڑک پر گھوم گیا۔ فضا میں عجیب اداسی سی تھی۔ سڑکوں پر روشنی ہو چلی تھی۔ مگر جھکڑ زدہ ماحول میں یہ زرد روشنی مایوسی کو توڑنے کی ناکام کوشش کر ہ رہی تھی۔

    اب چاروں طرف چھوٹے چھوٹے بنگلے تھے جن کی نصف قدآدم دیواروں سے بوگن ویلیا کے پھول دار شاخیں جھانک رہی تھیں۔ کہیں کہیں پر املتاس اور املی کے پیڑ شاخوں سے شاخیں ملائے اس کے سر کے اوپر اس کے خلاف کسی سازش میں مصروف نظر آتے تھے۔ ایک آدمی ایک میلی چدّر اوڑھے ایک پان والے سے بیڑی کا ایک بنڈل خرید رہا تھااور قریب کے دل شاد ہوٹل کے میلے ماحول سے ایک ٹرانز سسٹر کے غیر ذاتی سنگیت کی آواز آ رہی تھی۔

    موسیقی اگر ذاتی نہ ہو تو محض مشین کا شور بن کر رہ جا تی ہے۔ بہت سی موسیقی جو وہ آج کل سنتا ہے خالی برتنوں کی آواز معلوم ہوتی ہے۔ گانے والے کی آواز اور سننے والے کے کان کا تعلق باقی ہے مگر روح کا تعلق غائب ہوچکا ہے۔ ایسی موسیقی ایسی شادی سے مشابہ ہے جو اخباری اشتہاروں کے ذریعہ سر انجام پاتی ہے۔ ایک بار اس نے بڑے غلام علی خاں کو ایک چھوٹی سی محفل میں اپنی آنکھوں کے سامنے گاتے ہوئے سنا تھاپھر ان کے کسی ریکارڈمیں وہ مزہ نہ آیا۔ ایک بار اس نے محبت بھی کی تھی۔ پھر شادی کے کسی پیغام میں وہ مزہ نہ آیا۔ ایک بار وہ سوچتا سوچتا چلتاچلتا رک گیا۔ کسی نے اس کے گھٹنو ں کے نیچے اس کی پتلون کو پکڑ کر کھینچا تھا۔

    اس نے مڑ کر دیکھا ایک چھوٹا سا کوئی چار سال کی عمر کا ایک بچّہ ہے اور اس کی پتلون کو پکڑے ہوئے اس کی طرف بڑی گہری نظروں سے اس کی طرف دیکھ رہا ہے۔

    ’’کیا ہے بیٹے؟‘‘ اس نے بڑی نرم آواز میں پوچھا۔

    ’’آپ کا نام کیا ہے؟‘‘ منّے نے پوچھا۔

    ’’وقار حسین‘‘ اس نے جواب دیا،

    ’’مگر تم کیوں پوچھتے ہو بیٹے؟‘‘

    ’’کیوں کہ ہمارے گھر میں آپ کی تصویر لگی ہے۔‘‘

    ’’میری تصویر تمہارے گھر میں۔‘‘ وقار حسین حیرانی سے اس چار سال کے بچّے کی طرف دیکھنے لگا۔ ذہن پر بہت زور دینے کے بعد بھی اسے یاد نہ آیا کہ حیدرآباد میں اس کا کوئی رشتہ ار رہتا تھا۔

    منّا نے آہستہ سے اثبات میں سر ہلا دیا۔ پھر دونوں ہاتھ پھیلا کر بولا، ’’مجھے اپنی گود میں اٹھا لو اور میرے گھر چلو۔ تم کو وہ تصویر دکھاتا ہوں۔‘‘ وقار حسین نے جھک کر بچّے کو اپنی گود میں اٹھا لیا۔ بچّہ بڑے آرام سے اس کے سینے سے لگ گیااور اپنے چھوٹے ہاتھ کی ننھی ننھی انگلیوں سے اسے اپنے گھر کا راستہ بتانے لگا۔

    جب وہ دونوں ایک نیم تاریک بنگلے کے باغیچے میں داخل ہوئے تو مّنا اس کی گود سے اتر گیا۔ اب وہ دونوں باغیچے کے گرد ایک نیم دائرہ بناتی ہوئی روش پر گھوم کر بنگلے کے پورچ میں آچکے تھے۔ منّا نے جلدی سے اپنی انگلی وقار کے ہاتھ سے جھڑائی اور تیزی سے بنگلے کے اندر جاتے ہوئے زور سے چلاّیا، ’’امی۔۔۔ امی۔۔۔ ابّو آگئے۔‘‘ عذرا دوڑی دوڑی باہر آئی۔ پھر ٹھٹھک کر دروازہ پر کھڑی ہوگئی۔ پھر وقار کو پہچان کر خوشی سے رونے لگی۔ نہیں نہیں اب وہ کبھی بھی نانہیں کرے گی۔

    مأخذ:

    مسرت

    • مصنف: کرشن چندر
      • ناشر: اوپندر ناتھ
      • سن اشاعت: 1991

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے