Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

میر تقی میر پر اشعار

اس عنوان کے تحت ہم نے

ان شعروں کو جمع کیا ہے جو میر تقی میر جیسے عظیم شاعر کو موضوع بناتے ہیں ۔ میر کے بعد کے تقریبا تمام بڑے شعرا نے میر کی استادی اور ان کی تخلیقی مہارت کا اعتراف کیا ۔ آپ ان شعروں سے گزرتے ہوئے دیکھیں گے کہ کس طرح میر اپنے بعد کے شعرا کے ذہن پر چھائے رہے اور کن کن طریقوں سے اپنے ہم پیشہ لوگوں سے داد وصول کرتے رہے ۔

ہیں چاروں طرف خیمے کھڑے گرد باد کے

کیا جانیے جنوں نے ارادہ کدھر کیا

میر تقی میر

میرؔ کی کیا غزل پڑھی ہم نے

عاشقی میں بھی جل رہے ہیں ہم

شاہ رخ عبیر

پجاری ہیں ازل سے میرؔ جی کے

وہی ہم ہیں وہی قشقہ ہمارا

وکاس شرما راز

داغؔ کے شعر جوانی میں بھلے لگتے ہیں

میرؔ کی کوئی غزل گاؤ کہ کچھ چین پڑے

گنیش بہاری طرز

احوال میرؔ کیوں کر آخر ہو ایک شب میں

اک عمر ہم یہ قصہ تم سے کہا کریں گے

میر تقی میر

ہو میرؔ کا زمانہ کہ موجودہ وقت ہو

دلی سے لکھنؤ کی ہمیشہ ٹھنی رہی

عثمان مینائی

میرے اللہ مجھے ایسے خیالوں سے نواز

وہ جنہیں میر تقی میرؔ نہیں سوچ سکا

لکی فاروقی حسرت

آگ سی اک دل میں سلگے ہے کبھو بھڑکی تو میرؔ

دے گی میری ہڈیوں کا ڈھیر جوں ایندھن جلا

میر تقی میر

نگاہ مست نے اس کی لٹائی خانقہ ساری

پڑا ہے برہم اب تک کارخانہ زہد و طاعت کا

میر تقی میر

تراشیے تو ہمیں میرؔ کیجیے ورنہ

ہمارے نام کے پیچھے یہ دیپؔ کافی ہے

دیپک شرما دیپ

گریہ و زاری کا سامان اٹھا لیتے ہیں

ہجر میں میرؔ کا دیوان اٹھا لیتے ہیں

حمزہ بلال

جب بھی ٹوٹا مرے خوابوں کا حسیں تاج محل

میں نے گھبرا کے کہی میرؔ کے لہجے میں غزل

طاہر فراز

تم پہ کیا خاک اثر ہوگا مرے شعروں کا

تم کو تو میر تقی میرؔ نہیں کھینچ سکا

عمیر نجمی

میرؔ جی عشق مانا کہ نعمت نہیں پر میں اس کو بلا بھی نہیں مانتا

مانتا ہوں خدائے سخن بھی تمہیں اور حکم خدا بھی نہیں مانتا

چراغ شرما

میرؔ غالبؔ یہیں تو رہتے تھے

ہم بھی دلی سے دل لگا لیں کیا

اسلم راشد

اقبالؔ کی نوا سے مشرف ہے گو نعیمؔ

اردو کے سر پہ میرؔ کی غزلوں کا تاج ہے

حسن نعیم

ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی

چاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا

میر تقی میر

مرتا تھا میں تو باز رکھا مرنے سے مجھے

یہ کہہ کے کوئی ایسا کرے ہے ارے ارے

میر تقی میر

ہمارا میرؔ جی سے متفق ہونا ہے نا ممکن

اٹھانا ہے جو پتھر عشق کا تو ہلکا بھاری کیا

ندا فاضلی

جب غزل میرؔ کی پڑھتا ہے پڑوسی میرا

اک نمی سی مری دیوار میں آ جاتی ہے

اتل اجنبی

ان نے تو تیغ کھینچی تھی پر جی چلا کے میرؔ

ہم نے بھی ایک دم میں تماشا دکھا دیا

میر تقی میر

موا میں سجدے میں پر نقش میرا بار رہا

اس آستاں پہ مری خاک سے غبار رہا

میر تقی میر

اس باغ کے ہر گل سے چپک جاتی ہیں آنکھیں

مشکل بنی ہے آن کے صاحب نظروں کو

میر تقی میر

سرمہ جو نور بخشے ہے آنکھوں کو خلق کی

شاید کہ راہ یار کی ہی خاک دھول ہو

میر تقی میر

شبہ ناسخؔ نہیں کچھ میرؔ کی استادی میں

آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میرؔ نہیں

امام بخش ناسخ

سیر گلزار مبارک ہو صبا کو ہم تو

ایک پرواز نہ کی تھی کہ گرفتار ہوئے

میر تقی میر

میرے رونے کی حقیقت جس میں تھی

ایک مدت تک وہ کاغذ نم رہا

تشریح

میر کی شاعری تخیل کے عروج کی شاعری ہے۔ سادہ سے الفاظ میں آفاقی مضامین کو بیان کرنا میر کی شان ہے۔

میر نے زندگی بھر غم کو محسوس کیا غم کو برتا اور اس کو اپنی شاعری کے کینوس پر ابھارا۔ اس رنگا رنگی نے ان کے لہجے کو منفرد اور ان کو خدائے سخن بنا دیا۔

اس شعر میں شاعر انتہائی آسان لفظوں میں اپنے غم کا اظہار کرتا ہے۔ شاعر کہتا ہے اس کی زندگی غم اور درد میں بسر ہوئی ہے۔ پریشانیوں اور مصیبتوں میں گزری ہے۔ اس حد تک غموں میں گزری ہے کہ اپنے اوپر گزری ہوئی پریشانیوں کو جب اس نے کاغذ پر لکھا اور عین ممکن ہے کہ یہ کاغذ ایک خط کی شکل میں ہو جو اس نے اپنے محبوب کو بھیجا ہو، تو شدت غم سے اس کے آنسو اس کاغذ یا خط میں جذب ہو گئے۔ بعد میں وہ کاغذ آنسوؤں کے زیر اثر ایک لمبے عرصے تک رہ گیا یعنی نم رہا۔

اس ظاہری معنی کے علاوہ ایک اور تأثر بھی اس شعر سے ابھر کر آتا ہے اور وہ یہ ہے کہ شاعر کی غمناک زندگی کی کہانی جس خط میں یا جس کاغذ میں تحریر تھی وہ کاغذ اس تحریر کی غمناکی کی وجہ سے گویا تصویر درد بن کر رہ گیا۔

غم کو برتنے اور اس کے زاویوں کا اظہار کرنے کا جو انداز میر کے ہاں ہے وہ شاید ہی کہیں اور ملتا ہو۔ میر بہت سادہ الفاظ میں اپنی ذات کو بیان کرتے ہیں اور ان کا بیانیہ آفاقی رنگ حاصل کر لیتا ہے۔ ایک اور ضروری نکتہ جو اس شعر کے تعلق سے بیان کرنا ضروری ہے وہ یہ کہ اس شعر میں ایک کیفیت کو مبالغے کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے مگر یہ مبالغہ بہت حسین ہے، جس نے شعر کی کرافٹ کو بہت ہی رنگین بنا دیا ہے، بہت حسین بنا دیا ہے ۔

سہیل آزاد

میر تقی میر

تمہاری یاد بھی چپکے سے آ کے بیٹھ گئی

غزل جو میرؔ کی اک گنگنا رہا تھا میں

محسن آفتاب کیلاپوری

عاشقی میں میرؔ جیسے خواب مت دیکھا کرو

باؤلے ہو جاؤ گے مہتاب مت دیکھا کرو

احمد فراز

سخت مشکل تھا امتحان غزل

میرؔ کی نقل کر کے پاس ہوئے

فہمی بدایونی

ہمارے میر تقی میرؔ نے کہا تھا کبھی

میاں یہ عاشقی عزت بگاڑ دیتی ہے

راحت اندوری

پاؤں کے نیچے کی مٹی بھی نہ ہوگی ہم سی

کیا کہیں عمر کو اس طرح بسر ہم نے کیا

میر تقی میر

میرؔ جی ہنس کے بات کرتی ہے

پنکھڑی اک گلاب سی مجھ سے

شاسوت سنگھ درپن

میرؔ و غالبؔ بھی رہے عشق میں سرشار میاں

اب بھی فنکاروں کے جینے کا سہارا ہے یہی

سلمان ظفر

ہم اس کو ساری عمر اٹھائے پھرا کیے

جو بار میرؔ سے بھی اٹھایا نہ جا سکا

طارق قمر

عشق ہوا جب ان کو پڑھتے دیکھا تھا

میرؔ کی غزلیں دریا گنج کے سرکل پر

گوتم راج رشی

یہاں پہ آہ و فغاں درد و غم کا نام نہیں

مرا کلام ہے یہ میرؔ کا کلام نہیں

آشو مشرا

کل شام چھت پہ میر تقی میرؔ کی غزل

میں گنگنا رہی تھی کہ تم یاد آ گئے

انجم رہبر

یوں بھی دلی میں لوگ رہتے ہیں

جیسے دیوان میر چاک‌ شدہ

مظفر حنفی

اک میرؔ تھا سو آج بھی کاغذ میں قید ہے

ہندی غزل کا دوسرا اوتار میں ہی ہوں

بشیر بدر

تمہیں تو آئے گی بس میرؔ کی خماری پسند

کہاں امولیہؔ کی غزلیں کہاں تمہاری پسند

امولیہ مشرا

ریختے کے تمہیں استاد نہیں ہو غالبؔ

کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میرؔ بھی تھا

مرزا غالب

میں نے دیکھا تو نہیں میرؔ کا دیوان مگر

جانتا ہوں تری آنکھوں کی طرح ہوتا ہے

ارمان جودھ پوری

گو کہ تو میرؔ سے ہوا بہتر

مصحفیؔ پھر بھی میرؔ میرؔ ہی ہے

مصحفی غلام ہمدانی

ایسا ویسا کوئی نہ سمجھے مجھے

میرؔ غالبؔ کی شاعری ہوں میں

جیوتی آزاد کھتری

کہہ دو میرؔ و غالبؔ سے ہم بھی شعر کہتے ہیں

وہ صدی تمہاری تھی یہ صدی ہماری ہے

منظر بھوپالی

سوداؔ تو اس غزل کو غزل در غزل ہی کہہ

ہونا ہے تجھ کو میرؔ سے استاد کی طرف

محمد رفیع سودا

آج غالب ہے مرے سر پر عشق

آج میں میرؔ ہوا چاہتا ہوں

شاداب جاوید

شعر میرے بھی ہیں پر درد ولیکن حسرتؔ

میرؔ کا شیوۂ گفتار کہاں سے لاؤں

حسرتؔ موہانی

اجنبی تم کبھی نہ پاؤ گے

مرتبہ جو غزل میں میرؔ کا ہے

اتل اجنبی

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے