میر تقی میر پر اشعار
اس عنوان کے تحت ہم نے
ان شعروں کو جمع کیا ہے جو میر تقی میر جیسے عظیم شاعر کو موضوع بناتے ہیں ۔ میر کے بعد کے تقریبا تمام بڑے شعرا نے میر کی استادی اور ان کی تخلیقی مہارت کا اعتراف کیا ۔ آپ ان شعروں سے گزرتے ہوئے دیکھیں گے کہ کس طرح میر اپنے بعد کے شعرا کے ذہن پر چھائے رہے اور کن کن طریقوں سے اپنے ہم پیشہ لوگوں سے داد وصول کرتے رہے ۔
ہیں چاروں طرف خیمے کھڑے گرد باد کے
کیا جانیے جنوں نے ارادہ کدھر کیا
میرؔ کی کیا غزل پڑھی ہم نے
عاشقی میں بھی جل رہے ہیں ہم
پجاری ہیں ازل سے میرؔ جی کے
وہی ہم ہیں وہی قشقہ ہمارا
داغؔ کے شعر جوانی میں بھلے لگتے ہیں
میرؔ کی کوئی غزل گاؤ کہ کچھ چین پڑے
احوال میرؔ کیوں کر آخر ہو ایک شب میں
اک عمر ہم یہ قصہ تم سے کہا کریں گے
ہو میرؔ کا زمانہ کہ موجودہ وقت ہو
دلی سے لکھنؤ کی ہمیشہ ٹھنی رہی
آگ سی اک دل میں سلگے ہے کبھو بھڑکی تو میرؔ
دے گی میری ہڈیوں کا ڈھیر جوں ایندھن جلا
نگاہ مست نے اس کی لٹائی خانقہ ساری
پڑا ہے برہم اب تک کارخانہ زہد و طاعت کا
تراشیے تو ہمیں میرؔ کیجیے ورنہ
ہمارے نام کے پیچھے یہ دیپؔ کافی ہے
جب بھی ٹوٹا مرے خوابوں کا حسیں تاج محل
میں نے گھبرا کے کہی میرؔ کے لہجے میں غزل
تم پہ کیا خاک اثر ہوگا مرے شعروں کا
تم کو تو میر تقی میرؔ نہیں کھینچ سکا
میرؔ جی عشق مانا کہ نعمت نہیں پر میں اس کو بلا بھی نہیں مانتا
مانتا ہوں خدائے سخن بھی تمہیں اور حکم خدا بھی نہیں مانتا
ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
چاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا
مرتا تھا میں تو باز رکھا مرنے سے مجھے
یہ کہہ کے کوئی ایسا کرے ہے ارے ارے
ہمارا میرؔ جی سے متفق ہونا ہے نا ممکن
اٹھانا ہے جو پتھر عشق کا تو ہلکا بھاری کیا
جب غزل میرؔ کی پڑھتا ہے پڑوسی میرا
اک نمی سی مری دیوار میں آ جاتی ہے
ان نے تو تیغ کھینچی تھی پر جی چلا کے میرؔ
ہم نے بھی ایک دم میں تماشا دکھا دیا
موا میں سجدے میں پر نقش میرا بار رہا
اس آستاں پہ مری خاک سے غبار رہا
اس باغ کے ہر گل سے چپک جاتی ہیں آنکھیں
مشکل بنی ہے آن کے صاحب نظروں کو
سرمہ جو نور بخشے ہے آنکھوں کو خلق کی
شاید کہ راہ یار کی ہی خاک دھول ہو
شبہ ناسخؔ نہیں کچھ میرؔ کی استادی میں
آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میرؔ نہیں
سیر گلزار مبارک ہو صبا کو ہم تو
ایک پرواز نہ کی تھی کہ گرفتار ہوئے
میرے رونے کی حقیقت جس میں تھی
ایک مدت تک وہ کاغذ نم رہا
تشریح
میر کی شاعری تخیل کے عروج کی شاعری ہے۔ سادہ سے الفاظ میں آفاقی مضامین کو بیان کرنا میر کی شان ہے۔
میر نے زندگی بھر غم کو محسوس کیا غم کو برتا اور اس کو اپنی شاعری کے کینوس پر ابھارا۔ اس رنگا رنگی نے ان کے لہجے کو منفرد اور ان کو خدائے سخن بنا دیا۔
اس شعر میں شاعر انتہائی آسان لفظوں میں اپنے غم کا اظہار کرتا ہے۔ شاعر کہتا ہے اس کی زندگی غم اور درد میں بسر ہوئی ہے۔ پریشانیوں اور مصیبتوں میں گزری ہے۔ اس حد تک غموں میں گزری ہے کہ اپنے اوپر گزری ہوئی پریشانیوں کو جب اس نے کاغذ پر لکھا اور عین ممکن ہے کہ یہ کاغذ ایک خط کی شکل میں ہو جو اس نے اپنے محبوب کو بھیجا ہو، تو شدت غم سے اس کے آنسو اس کاغذ یا خط میں جذب ہو گئے۔ بعد میں وہ کاغذ آنسوؤں کے زیر اثر ایک لمبے عرصے تک رہ گیا یعنی نم رہا۔
اس ظاہری معنی کے علاوہ ایک اور تأثر بھی اس شعر سے ابھر کر آتا ہے اور وہ یہ ہے کہ شاعر کی غمناک زندگی کی کہانی جس خط میں یا جس کاغذ میں تحریر تھی وہ کاغذ اس تحریر کی غمناکی کی وجہ سے گویا تصویر درد بن کر رہ گیا۔
غم کو برتنے اور اس کے زاویوں کا اظہار کرنے کا جو انداز میر کے ہاں ہے وہ شاید ہی کہیں اور ملتا ہو۔ میر بہت سادہ الفاظ میں اپنی ذات کو بیان کرتے ہیں اور ان کا بیانیہ آفاقی رنگ حاصل کر لیتا ہے۔ ایک اور ضروری نکتہ جو اس شعر کے تعلق سے بیان کرنا ضروری ہے وہ یہ کہ اس شعر میں ایک کیفیت کو مبالغے کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے مگر یہ مبالغہ بہت حسین ہے، جس نے شعر کی کرافٹ کو بہت ہی رنگین بنا دیا ہے، بہت حسین بنا دیا ہے ۔
سہیل آزاد
تمہاری یاد بھی چپکے سے آ کے بیٹھ گئی
غزل جو میرؔ کی اک گنگنا رہا تھا میں
سخت مشکل تھا امتحان غزل
میرؔ کی نقل کر کے پاس ہوئے
ہمارے میر تقی میرؔ نے کہا تھا کبھی
میاں یہ عاشقی عزت بگاڑ دیتی ہے
پاؤں کے نیچے کی مٹی بھی نہ ہوگی ہم سی
کیا کہیں عمر کو اس طرح بسر ہم نے کیا
میرؔ جی ہنس کے بات کرتی ہے
پنکھڑی اک گلاب سی مجھ سے
میرؔ و غالبؔ بھی رہے عشق میں سرشار میاں
اب بھی فنکاروں کے جینے کا سہارا ہے یہی
ہم اس کو ساری عمر اٹھائے پھرا کیے
جو بار میرؔ سے بھی اٹھایا نہ جا سکا
عشق ہوا جب ان کو پڑھتے دیکھا تھا
میرؔ کی غزلیں دریا گنج کے سرکل پر
کل شام چھت پہ میر تقی میرؔ کی غزل
میں گنگنا رہی تھی کہ تم یاد آ گئے
یوں بھی دلی میں لوگ رہتے ہیں
جیسے دیوان میر چاک شدہ
تمہیں تو آئے گی بس میرؔ کی خماری پسند
کہاں امولیہؔ کی غزلیں کہاں تمہاری پسند
ریختے کے تمہیں استاد نہیں ہو غالبؔ
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میرؔ بھی تھا
-
موضوع : ریختہ
میں نے دیکھا تو نہیں میرؔ کا دیوان مگر
جانتا ہوں تری آنکھوں کی طرح ہوتا ہے
گو کہ تو میرؔ سے ہوا بہتر
مصحفیؔ پھر بھی میرؔ میرؔ ہی ہے
ایسا ویسا کوئی نہ سمجھے مجھے
میرؔ غالبؔ کی شاعری ہوں میں
کہہ دو میرؔ و غالبؔ سے ہم بھی شعر کہتے ہیں
وہ صدی تمہاری تھی یہ صدی ہماری ہے
سوداؔ تو اس غزل کو غزل در غزل ہی کہہ
ہونا ہے تجھ کو میرؔ سے استاد کی طرف
آج غالب ہے مرے سر پر عشق
آج میں میرؔ ہوا چاہتا ہوں
شعر میرے بھی ہیں پر درد ولیکن حسرتؔ
میرؔ کا شیوۂ گفتار کہاں سے لاؤں