پرندہ پر اشعار
شاعری لفظ کو چھوڑکراس
کے ارد گرد پھیلے ہوئے امکانات کواستعمال میں لاتی ہے۔ پرندہ اوراس طرح کے دوسرے لفظوں کے حوالے سے کی گئی شاعری کے مطالعے سے اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ پرندہ شاعری میں صرف پرندہ ہی نہیں رہتا بلکہ آزادی، بلندی اورپروازکی ایک علامت بن جاتا ہے ۔ پرندےاور کئی سطحوں پرزندگی میں حوصلے کی علامت بن کرسامنےآئے ہیں ۔ پرندوں کا رخصت ہوجانا زندگی کی معصومیت کے خاتمے اور شہری زندگی کے عذاب کا اشارہ بھی ہے ۔ نئی غزل میں یہ موضوع کثرت سے برتا گیا ہے ۔
بچھڑ کے تجھ سے نہ دیکھا گیا کسی کا ملاپ
اڑا دیئے ہیں پرندے شجر پہ بیٹھے ہوئے
پرند شاخ پہ تنہا اداس بیٹھا ہے
اڑان بھول گیا مدتوں کی بندش میں
اک پرندہ ابھی اڑان میں ہے
تیر ہر شخص کی کمان میں ہے
-
موضوع : تیر
پرند پیڑ سے پرواز کرتے جاتے ہیں
کہ بستیوں کا مقدر بدلتا جاتا ہے
یہ طائروں کی قطاریں کدھر کو جاتی ہیں
نہ کوئی دام بچھا ہے کہیں نہ دانہ ہے
تم پرندوں سے زیادہ تو نہیں ہو آزاد
شام ہونے کو ہے اب گھر کی طرف لوٹ چلو
جانے کیا سوچ کے پھر ان کو رہائی دے دی
ہم نے اب کے بھی پرندوں کو تہہ دام کیا
مجھے معلوم ہے اس کا ٹھکانا پھر کہاں ہوگا
پرندہ آسماں چھونے میں جب ناکام ہو جائے
یہ رنگ رنگ پرندے ہی ہم سے اچھے ہیں
جو اک درخت پہ رہتے ہیں بیلیوں کی طرح
نکال لایا ہوں ایک پنجرے سے اک پرندہ
اب اس پرندے کے دل سے پنجرہ نکالنا ہے
ریگ دل میں کئی نادیدہ پرندے بھی ہیں دفن
سوچتے ہوں گے کہ دریا کی زیارت کر جائیں
یہ پرندے بھی کھیتوں کے مزدور ہیں
لوٹ کے اپنے گھر شام تک جائیں گے
جانے کیا کیا ظلم پرندے دیکھ کے آتے ہیں
شام ڈھلے پیڑوں پر مرثیہ خوانی ہوتی ہے
-
موضوع : نا انصافی
پرند اونچی اڑانوں کی دھن میں رہتا ہے
مگر زمیں کی حدوں میں بسر بھی کرتا ہے
پرند کیوں مری شاخوں سے خوف کھاتے ہیں
کہ اک درخت ہوں اور سایہ دار میں بھی ہوں
کچھ احتیاط پرندے بھی رکھنا بھول گئے
کچھ انتقام بھی آندھی نے بدترین لیے
پرندے دور فضاؤں میں کھو گئے علویؔ
اجاڑ اجاڑ درختوں پہ آشیانے تھے