Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

شکوہ پر اشعار

عشق کی کہانی میں شکوہ

شکایتوں کی اپنی ایک جگہ اور اپنا ایک لطف ہے ۔ اس موقع پر عاشق کاکمال یہ ہوتا ہے کہ وہ معشوق کے ظلم وجفا اور اس کی بے اعتنائی کا شکوہ اس طور پر کرتا ہے کہ معشوق مدعا بھی پا جائے اور عاشق بدنام بھی نہ ہو ۔ عشق کی کہانی کا یہ دلچسپ حصہ ہمارے اس انتخاب میں پڑھئے ۔

کب وہ سنتا ہے کہانی میری

اور پھر وہ بھی زبانی میری

مرزا غالب

ذرا سی بات تھی عرض تمنا پر بگڑ بیٹھے

وہ میری عمر بھر کی داستان درد کیا سنتے

نامعلوم

ان کا غم ان کا تصور ان کے شکوے اب کہاں

اب تو یہ باتیں بھی اے دل ہو گئیں آئی گئی

ساحر لدھیانوی

شکوۂ آبلہ ابھی سے میرؔ

ہے پیارے ہنوز دلی دور

میر تقی میر

کیسے کہیں کہ تجھ کو بھی ہم سے ہے واسطہ کوئی

تو نے تو ہم سے آج تک کوئی گلہ نہیں کیا

جون ایلیا

شکوۂ ہجر پہ سر کاٹ کے فرماتے ہیں

پھر کروگے کبھی اس منہ سے شکایت میری

فانی بدایونی

ہمارے عشق میں رسوا ہوئے تم

مگر ہم تو تماشا ہو گئے ہیں

اطہر نفیس

آپ کی قسموں کا اور مجھ کو یقیں

ایک بھی وعدہ کبھی پورا کیا

شوخ امروہوی

صاف انکار اگر ہو تو تسلی ہو جائے

جھوٹے وعدوں سے ترے رنج سوا ہوتا ہے

قیصر حیدری دہلوی

احسانؔ اپنا کوئی برے وقت کا نہیں

احباب بے وفا ہیں خدا بے نیاز ہے

احسان دانش

کیوں ہجر کے شکوے کرتا ہے کیوں درد کے رونے روتا ہے

اب عشق کیا تو صبر بھی کر اس میں تو یہی کچھ ہوتا ہے

حفیظ جالندھری

وہ کریں بھی تو کن الفاظ میں تیرا شکوہ

جن کو تیری نگہ لطف نے برباد کیا

جوش ملیح آبادی

بڑا مزہ ہو جو محشر میں ہم کریں شکوہ

وہ منتوں سے کہیں چپ رہو خدا کے لیے

داغؔ دہلوی

حال دل سن کے وہ آزردہ ہیں شاید ان کو

اس حکایت پہ شکایت کا گماں گزرا ہے

عبد المجید سالک

رات آ کر گزر بھی جاتی ہے

اک ہماری سحر نہیں ہوتی

ابن انشا

کیا وہ نمرود کی خدائی تھی

بندگی میں مرا بھلا نہ ہوا

مرزا غالب

سنے گا کون میری چاک دامانی کا افسانہ

یہاں سب اپنے اپنے پیرہن کی بات کرتے ہیں

کلیم عاجز

سر اگر سر ہے تو نیزوں سے شکایت کیسی

دل اگر دل ہے تو دریا سے بڑا ہونا ہے

عرفان صدیقی

کہنے دیتی نہیں کچھ منہ سے محبت میری

لب پہ رہ جاتی ہے آ آ کے شکایت میری

داغؔ دہلوی

سر محشر یہی پوچھوں گا خدا سے پہلے

تو نے روکا بھی تھا بندے کو خطا سے پہلے

آنند نرائن ملا

فلک سے مجھ کو شکوہ ہے زمیں سے مجھ کو شکوہ ہے

یقیں مانو تو خود اپنے یقیں سے مجھ کو شکوہ ہے

عبید الرحمان اعظمی

ہم عجب ہیں کہ اس کی باہوں میں

شکوۂ نارسائی کرتے ہیں

جون ایلیا

صرف شکوے دکھ رہے ہیں یہ نہیں دکھتا تجھے

تجھ سے شکوے رکھنے والا تیرا دیوانہ بھی ہے

وکرم گور ویراگی

بدگماں آپ ہیں کیوں آپ سے شکوہ ہے کسے

جو شکایت ہے ہمیں گردش ایام سے ہے

حسرتؔ موہانی

زندگی سے یہی گلہ ہے مجھے

تو بہت دیر سے ملا ہے مجھے

احمد فراز

آگے مرے نہ غیر سے گو تم نے بات کی

سرکار کی نظر کو تو پہچانتا ہوں میں

قائم چاندپوری

ہاں انہیں لوگوں سے دنیا میں شکایت ہے ہمیں

ہاں وہی لوگ جو اکثر ہمیں یاد آئے ہیں

راہی معصوم رضا

پر ہوں میں شکوے سے یوں راگ سے جیسے باجا

اک ذرا چھیڑئیے پھر دیکھیے کیا ہوتا ہے

مرزا غالب

چپ رہو تو پوچھتا ہے خیر ہے

لو خموشی بھی شکایت ہو گئی

اختر انصاری اکبرآبادی

یہ غم کیا دل کی عادت ہے نہیں تو

کسی سے کچھ شکایت ہے نہیں تو

جون ایلیا
  • موضوعات : دل
    اور 1 مزید

عشق میں شکوہ کفر ہے اور ہر التجا حرام

توڑ دے کاسۂ مراد عشق گداگری نہیں

اثر رامپوری

شکوہ اپنوں سے کیا جاتا ہے غیروں سے نہیں

آپ کہہ دیں تو کبھی آپ سے شکوہ نہ کریں

خلش کلکتوی

پا رہا ہے دل مصیبت کے مزے

آئے لب پر شکوۂ بیداد کیا

امداد امام اثر

چپ رہو کیوں مزاج پوچھتے ہو

ہم جئیں یا مریں تمہیں کیا ہے

لالہ مادھو رام جوہر

گلا بھی تجھ سے بہت ہے مگر محبت بھی

وہ بات اپنی جگہ ہے یہ بات اپنی جگہ

باصر سلطان کاظمی

کہہ کے یہ اور کچھ کہا نہ گیا

کہ مجھے آپ سے شکایت ہے

آرزو لکھنوی

میری ہی جان کے دشمن ہیں نصیحت والے

مجھ کو سمجھاتے ہیں ان کو نہیں سمجھاتے ہیں

لالہ مادھو رام جوہر

مجھے رہنے کو وہ ملا ہے گھر کہ جو آفتوں کی ہے رہ گزر

تمہیں خاکساروں کی کیا خبر کبھی نیچے اترے ہو بام سے

آرزو لکھنوی

تم عزیز اور تمہارا غم بھی عزیز

کس سے کس کا گلا کرے کوئی

ہادی مچھلی شہری

غیروں سے کہا تم نے غیروں سے سنا تم نے

کچھ ہم سے کہا ہوتا کچھ ہم سے سنا ہوتا

چراغ حسن حسرت

محبت ہی میں ملتے ہیں شکایت کے مزے پیہم

محبت جتنی بڑھتی ہے، شکایت ہوتی جاتی ہے

شکیل بدایونی

کس منہ سے کریں ان کے تغافل کی شکایت

خود ہم کو محبت کا سبق یاد نہیں ہے

حفیظ بنارسی

آج اس سے میں نے شکوہ کیا تھا شرارتاً

کس کو خبر تھی اتنا برا مان جائے گا

فنا نظامی کانپوری

اک تیری بے رخی سے زمانہ خفا ہوا

اے سنگ دل تجھے بھی خبر ہے کہ کیا ہوا

عرش صدیقی

وہی حکایت دل تھی وہی شکایت دل

تھی ایک بات جہاں سے بھی ابتدا کرتے

مرزا محمد ہادی عزیز لکھنوی

شکوۂ غم ترے حضور کیا

ہم نے بے شک بڑا قصور کیا

حسرتؔ موہانی

دیکھنے والا کوئی ملے تو دل کے داغ دکھاؤں

یہ نگری اندھوں کی نگری کس کو کیا سمجھاؤں

خلیل الرحمن اعظمی

چاہی تھی دل نے تجھ سے وفا کم بہت ہی کم

شاید اسی لیے ہے گلا کم بہت ہی کم

محبوب خزاں

ہمیں تو اپنی تباہی کی داد بھی نہ ملی

تری نوازش بیجا کا کیا گلا کرتے

عرشی بھوپالی

کوئی چراغ جلاتا نہیں سلیقے سے

مگر سبھی کو شکایت ہوا سے ہوتی ہے

خورشید طلب

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے