aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

توبہ پر اشعار

توبہ خمریات کی شاعری

کا ایک بنیادی لفظ ہے اس کے استعمال سے شاعروں نے نئے نئے مضامین پیدا کئے ہیں ۔ خاص بات یہ ہے کہ توبہ کے موضوع کی خشکی ایک بڑی شوخی میں تبدیل ہوگئی ہے ۔ شراب پینے والا کردار ناصح کے کہنے پرشراب پینے سے توبہ کرتا ہے لیکن کبھی موسم کی خوشگواری اورکبھی ابلتی ہوئی شراب کی شدت کے سامنے یہ توبہ ٹوٹ جاتی ہے ۔ ہمارا یہ انتخاب پڑھئے اوران شوخیوں سے لطف لیجئے ۔

شب کو مے خوب سی پی صبح کو توبہ کر لی

رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی

جلالؔ لکھنوی

برسات کے آتے ہی توبہ نہ رہی باقی

بادل جو نظر آئے بدلی میری نیت بھی

حسرتؔ موہانی

ان کے رخسار پہ ڈھلکے ہوئے آنسو توبہ

میں نے شبنم کو بھی شعلوں پہ مچلتے دیکھا

ساحر لدھیانوی

ترک مے ہی سمجھ اسے ناصح

اتنی پی ہے کہ پی نہیں جاتی

شکیل بدایونی

بات ساقی کی نہ ٹالی جائے گی

کر کے توبہ توڑ ڈالی جائے گی

جلیل مانک پوری

گزرے ہیں میکدے سے جو توبہ کے بعد ہم

کچھ دور عادتاً بھی قدم ڈگمگائے ہیں

خمار بارہ بنکوی

شرکت گناہ میں بھی رہے کچھ ثواب کی

توبہ کے ساتھ توڑیئے بوتل شراب کی

ظہیرؔ دہلوی

وہ کون ہیں جنہیں توبہ کی مل گئی فرصت

ہمیں گناہ بھی کرنے کو زندگی کم ہے

آنند نرائن ملا

ہائے سیمابؔ اس کی مجبوری

جس نے کی ہو شباب میں توبہ

سیماب اکبرآبادی

پینے سے کر چکا تھا میں توبہ مگر جلیلؔ

بادل کا رنگ دیکھ کے نیت بدل گئی

جلیل مانک پوری

مری شراب کی توبہ پہ جا نہ اے واعظ

نشے کی بات نہیں اعتبار کے قابل

حفیظ جونپوری

اتنی پی ہے کہ بعد توبہ بھی

بے پیے بے خودی سی رہتی ہے

ریاضؔ خیرآبادی

ہم نے برسات کے موسم میں جو چاہی توبہ

ابر اس زور سے گرجا کہ الٰہی توبہ

نامعلوم

مجھے توبہ کا پورا اجر ملتا ہے اسی ساعت

کوئی زہرہ جبیں پینے پہ جب مجبور کرتا ہے

عبد الحمید عدم

میں تو جب مانوں مری توبہ کے بعد

کر کے مجبور پلا دے ساقی

جگر مراد آبادی

کھنک جاتے ہیں جب ساغر تو پہروں کان بجتے ہیں

ارے توبہ بڑی توبہ شکن آواز ہوتی ہے

نامعلوم

آپ کے ہوتے کسی اور کو چاہوں توبہ

کس طرف دھیان ہے کیا آپ یہ فرماتے ہیں

لالہ مادھو رام جوہر

توبہ کھڑی ہے در پہ جو فریاد کے لئے

یہ مے کدہ بھی کیا کسی قاضی کا گھر ہوا

احمد حسین مائل

جام ہے توبہ شکن توبہ مری جام شکن

سامنے ڈھیر ہیں ٹوٹے ہوئے پیمانوں کے

ریاضؔ خیرآبادی

ہم سے مے کش جو توبہ کر بیٹھیں

پھر یہ کار ثواب کون کرے

شکیل بدایونی

شکست توبہ کی تمہید ہے تری توبہ

زباں پہ توبہ مبارکؔ نگاہ ساغر پر

مبارک عظیم آبادی

اے شیخ مرتے مرتے بچے ہیں پیے بغیر

عاصی ہوں اب جو توبہ کریں مے کشی سے ہم

جلیل مانک پوری

ساقیا دل میں جو توبہ کا خیال آتا ہے

دور سے آنکھ دکھاتا ہے ترا جام مجھے

جلیل مانک پوری

ہماری کشتیٔ توبہ کا یہ ہوا انجام

بہار آتے ہی غرق شراب ہو کے رہی

جلیل مانک پوری

فتویٰ دیا ہے مفتیٔ ابر بہار نے

توبہ کا خون بادہ کشوں کو حلال ہے

جلیل مانک پوری

توبہ کی رندوں میں گنجائش کہاں

جب یہ آئے گی نکالی جائے گی

مبارک عظیم آبادی

دختر رز نے دیے چھینٹے کچھ ایسے ساقیا

پانی پانی ہو گئی توبہ ہر اک مے خوار کی

جلیل مانک پوری

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے