Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کرکٹ سیزن

یوسف ناظم

کرکٹ سیزن

یوسف ناظم

MORE BYیوسف ناظم

    حال حال تک یعنی کوئی دوچار سو سال پہلے تک دنیا میں صرف تین موسم استعمال کئے جاتے تھے یعنی سرما، گرمی اور بارش۔ اور دیکھا جائے تو یہ تین موسم ہماری ضروریات کے لیے کافی سے زیادہ تھے لیکن کچھ ملکوں میں وہاں کی حکومتوں نے عوام کی سہولت کی خاطر اپنی برتری جتانے کے لئے دو موسم اور بنالئے تھے۔ بہار اور خزاں۔ بہار اور خزاں کو موسم کا نام نہیں دیا جاسکتا کیونکہ یہ موسم نہیں صرف موسموں کا ضمیمہ ہیں، یہ یا تو کیفیتیں ہیں یا نتائج۔

    بہر حال چونکہ خزاں اور بہار کو بھی رائج ہوئے ایک عرصہ ہو چکا ہے اور اکثر شاعروں کا کلام انہیں کے ذکر سے لبریز ہے اس لئے انھیں اخلاقاً مصنوعی موسم مان لینے میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن اس معاملے میں مشکل یہ ہوتی ہے کہ ایک مرتبہ نظامِ شمسی میں اس قسم کے اضافوں کو برداشت کرلیا جائے تو پھر یہ سلسلہ طولِ شب فراق کی صورت اختیارکرلیتا ہے اور موسموں پر موسم ایجاد ہونے لگتے ہیں۔ بہار اور خزاں کو سرکاری حیثیت دی گئی تو اس کے بعد کھیلوں کے موسم بننے لگے جیسے کرکٹ سیزن، لیجئے کھیل بچوں کا ہوا دیدۂ بینا نہ ہوا۔

    یہ کرکٹ بھی انگلستان کی ایجاد ہے جن لوگوں نے تاریخ پڑھی ہے بلکہ جن لوگوں نے خوش قسمتی سے نہیں پڑھی ہے انھیں بھی معلوم ہے کہ کسی زمانے میں مملکت برطانیہ اتنی وسیع اور فراخ تھی کہ اس مملکت میں سورج کبھی غروب ہی نہیں ہوتا تھا اور مملکت برطانیہ کی اسی خوبی کی بناء پر ہم بھی کافی عرصہ تک ان کی رعایا رہے لیکن برطانیہ نے جوں ہی کرکٹ ایجاد کی ان کے زوال کے دن آگئے۔

    یہ ان کی بہت بڑی سیاسی غلطی تھی۔ ایک ایک کر کے نو آبادیاں ان کے ہاتھوں سے نکلتی چلی گئیں۔ خود ہندوستان میں جہاں بہت کم کسی چیز کا بُرا مانا جاتا ہے ان کی اس حرکت پر بہت لوگ ناراض ہوئے اور ۱۸۵۷ء میں لوگوں نے اچھا خاصا ہنگامہ برپا کردیا جسے اہل برطانیہ نے غدر کا نام دیا، حالانکہ غدر تو اس کرکٹ کے ذریعہ خود انھوں نے مچایا تھا۔ آج برطانیہ اس کرکٹ کی وجہ سے کس بُرے حال میں ہے۔ نپولین بونا پارٹ سے جو کام نہ ہوسکا خود اہل برطانیہ نے اس کی تکمیل فرمائی۔ اپنے پاؤ ں پر کلہاڑی مارنے کی اس سے زیادہ خراب مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔

    اس وقت دنیا میں تین بڑی طاقتیں برسرعہدہ ہیں۔ روس، امریکہ اور چین۔ یہ تینوں طاقتیں اس منصب جلیلہ پر صرف اس لئے پہنچی ہیں کہ ان کے ہاں کرکٹ نہیں کھیلی جاتی۔ اہل روس جانتے ہیں کہ سرمایہ داری سے زیادہ نقصان دہ چیز کرکٹ ہے۔ اہل امریکہ واقف ہیں کہ امریکہ کو کمیونزم سے اتنا ضرر نہیں پہنچ سکتا جتنا کرکٹ سے پہنچتا ہے اور اہل چین کو اندازہ ہے کہ افیون کرکٹ سے بدرجہا بہتر ہے۔ یہ تینوں طاقتیں کرکٹ کے پاس پھٹکتی تک نہیں، یہ اسی لئے طاقت بن سکیں ورنہ ان ملکوں میں جہاں طرح طرح کے راکٹ بن سکتے ہیں ایٹم بم بن سکتے ہیں کیا کرکٹ کے معمولی بلے نہیں بن سکتے اور کیا وہ تین چھوٹی چھوٹی لکڑیاں نہیں بن سکتیں، جنھیں اسٹمپ کہا جاتا ہے اور جنھیں زمین میں گاڑ کر ان کے سر پر دو گلیاں اس حزم و احتیاط سے رکھی جاتی ہیں گویا یہ گلیاں نہ ہوں بلکہ وہ تاج شاہی ہوں جن میں ہمارے ہاں سے سرقہ کیا ہوا کوہِ نور لگا ہوا ہے۔

    روس، امریکہ اور چین یہ تینوں ملک جانتے ہیں کہ سخت سے سخت سردی کاکوئی علاج ہے، شدید سے شدید گرمی کی حدت کو کم کیا جاسکتا ہے اور بڑے بڑے سیلاب سے بچاؤ کا بند و بست کیا جاسکتا ہے لیکن اس تباہی کا کوئی علاج نہیں جو اس کرکٹ کی وجہ سے پھیلتی ہے۔ یہ عالم گیر تباہی ہوتی ہے جو ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی مدد سے دنیا کے کونے میں پہنچ جاتی ہے۔ ہاکی، فٹبال اور ٹینس بھی کھیل ہیں لیکن معقول کھیل ہیں۔ ڈیڑھ دو گھنٹے میں ان میں ہار جیت کا فیصلہ ہوجاتا ہے۔ ٹینس میں تو ایک دو گھنٹے کھیلنے کے بعد جتینے والا کھلاڑی دوچار لاکھ ڈالر اپنی جیب میں ڈال کر گھر واپس ہوتا ہے لیکن کرکٹ ہی ایسا کھیل ہے جو پانچ دن تک کھیلنا پڑتا ہے اور احتیاط یہ کرنی پڑتی ہے کہ کوئی نتیجہ نہ نکلے۔ سب سے زیادہ اعداد وشمار کرکٹ میں ہوتے ہیں اور سب سے زیادہ بے نتیجہ کھیل کرکٹ ہی ہوتا ہے۔

    اس کھیل میں بس ایک ہی خوبی ہوتی ہے کہ ہر بات جس کا کوئی مطلب ہو اعداو شمار کے کام آتی ہے اور ہر کام خواہ کتنا ہی ناقص کیوں نہ ہو ریکارڈ مانا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک بولر کے پاس عالمی ریکارڈ اس بات کا ہے کہ اس نے سب سے زیادہ نو بال پھینکے اور ایک بلے باز کو اس بات پر ناز ہے کہ وہ ہر میچ میں سب سے آخر میں بلے بازی کے لئے آیا اور کسی گیند کو اپنا بیٹ لگائے بغیر ہمیشہ ناٹ آؤٹ رہا۔ یہ کھلاڑی صرف اس وقت آؤٹ ہوا جب اسے ٹیم سے آؤٹ کیا گیا۔

    کرکٹ میں سست رفتاری کا بھی ریکارڈ ہوتا ہے اور تیز رفتاری کا بھی۔ کسی دوسرے کھیل میں کوئی کھلاڑی مین آف دی میچ نہیں ہوتا لیکن کرکٹ میں ہوتا ہے اور امپائر کے فیصلوں کی طرح یہ کھلاڑی بھی غلط ہوتا ہے۔ حیرت ہے کہ کرکٹ امپائر کے فیصلوں کے کوئی اعداد و شمار اب تک مرتب نہیں کئے گئے حالانکہ یہ بھی ایک ضروری شعبۂ حیات ہے۔ کرکٹ کے کھیل میں اس کے اسٹیڈیم، میدان اور داخلے کے دراوزوں کے علاوہ سب سے زیادہ اہم چیز وہ ہوتی ہے جسے پچ کہا جاتا ہے۔ یہ پچ ۲۲ گز کی ایک سڑک ہوتی ہے جس پر بلے باز رن آؤٹ ہونے کے لئے دوڑتے ہیں اور کبھی کبھی امپائر کی نظر بچاکر ۲۲ کے بجائے صرف پونے بائیس گزر دوڑتے اور اپنے شخصی اسکور میں ایک رن کا اضافہ کرلیتے ہیں۔

    کہا جاتا ہے کہ دنیا بھر میں جہاں جہاں یہ پچیں بنی ہیں ان کی تیاری اور ان کی حفاظت پر اب تک اتنا روپیہ خرچ کیا جاچکا ہے کہ اس قسم سے دو تاج محل، تین اجنتا اور چار قطب مینار تعمیر ہو سکتے تھے۔ کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ اتنی رقم خرچ کرنے پر ڈھائی لاکھ دیہات میں روشنی اور پانی کا بند و بست کیا جاسکتا تھا لیکن یہ بھی کوئی کرنے کا کام ہے۔

    ۲۲ گز کی اس سڑک کو جسے پچ کہا جاتا ہے، اہمیت کا اندازہ بہت کم لوگوں کو ہے۔ ۲۰منزلہ عمارت گرسکتی ہے کوئی حرج نہیں، دریا کا بند ٹوٹ سکتا ہے کوئی مضائقہ نہیں لیکن یہ پچ خراب نہیں ہو سکتی۔ مہذب ملکوں میں اس پچ کی حفاظت کے لئے شوٹ ایٹ سائٹ (Shoot at sight) اجازت ہے۔ رات میں بارش ہو خواہ سارا شہر ٹپک رہا ہو لیکن اس پچ پر پانی کاایک قطرہ نہیں گرسکتا۔ اسے واٹر پروف کفن سے ڈھانکنا پڑتا ہے اور کھیل کے دن غلط فیصلے دینے والے دونوں امپائر اور اپنی اپنی ٹیم کے ہارنے کا بند وبست کرنے والے دونوں کیپٹن اس پچ کا اس توجہ اور تندہی سے معائنہ کرتے ہیں جتنی توجہ سے دواخانوں میں مریضوں کا معائنہ کیا جاتا ہے۔

    اسے تھوڑی دیر کے لئے اور ڈھانک دیا جاتا ہے اور اس مہلت سے فائدہ اٹھا کر جب پولس کی مزید کمک آجاتی ہے تو اعلان کردیا جاتا ہے کہ پچ بے جان ہے، آج کھیل نہیں ہوگا۔ نہ صرف اسٹیڈیم میں بلکہ بیسوں گھروں میں جہاں لوگ ٹی وی سیٹ کے سامنے دم بخود بیٹھے ہوتے ہیں صفِ ماتم بچھ جاتی ہے۔ ملکوں ملکوں میں یہ اندوہناک خبر سنی جاتی ہے اور سوائے ان تین بڑی طاقتوں کے ہر کوئی افسردہ ہوجاتا ہے۔ اتنی بڑی افتاد سے نمٹنا صرف انہیں کا حق ہوتا ہے۔

    فرانس جیسے مشروبات کے شوقین ملک کو بھی کرکٹ سے کوئی دلچسپی نہیں اور اگر اس نے اس شعور کو اپنا شعار بنا لیا تو ممکن ہے یہ ملک بھی آگے چل کر ایک طاقت بن جائے۔ طاقت بننے میں زیادہ دیر نہیں لگی، کوئی ملک خود طاقت نہ بن سکے تو کوئی اچھا سا سہارا ڈھونڈ لینا چاہئیے۔ عالم پناہی چلی گئی لیکن پشت پناہی اب بھی جاری ہے اور کرکٹ کی طرح آئندہ بھی جاری رہے گی۔ کرکٹ کے میدان میں ویسے تو ہر مقام، مقامِ آہ و فغاں ہوتا ہے لیکن اس میں سب سے خطرناک جگہ گلی ہوتی ہے اور جس کھلاڑی کو بھی جان و دل عزیز ہے وہ اس گلی کا رخ نہیں کرتا۔ اکثر بلے باز اسی گلی میں شہید ہوئے ہیں۔ ان کے شہید ہونے کا منظر اتنا صاف شفاف ہوتا ہے کہ امپائر کی انگشت شہادت خود بخود اٹھ جاتی ہے۔

    مشاعرہ گاہ اور کرکٹ کے میدان میں زیادہ فرق نہیں ہوتا۔ کرکٹ کے کھلاڑی اور شاعر دونوں ایک ہی قسم کا رول انجام دیتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ کسی شاعر کا مشاعرہ پڑھنے کے لئے طبّی معائنہ نہیں ہوتا شاید یہ اپنی موت و زیست کا خود ذمہ دار ہوتا ہے۔

    مشاعرہ گاہ میں کمنٹیٹر باکس شہ نشین پر ہوتا ہے اور کمنٹیٹر صرف اس وقت بدلتا ہے جب اسے چند لمحوں کے لئے قدرت طلب کرتی ہے۔ اسے نیچرل کال کہا جاتا ہے اور مشاعرے کے کمنٹیٹر کی بس یہی ایک چیز نیچرل ہوتی ہے۔ مشاعروں میں اناؤنسر، شاعروں کے حالات و حرکات کا ذکر کرتے ہیں لیکن اب تک شاعروں کے اسکور اور ان کی فتوحات وغیرہ کے اعداد و شمار بیان کرنے کا رواج شروع نہیں ہوا ہے حالانکہ اس کے ہاں بھی اعداد و شمار کی کوئی کمی نہیں ہوتی۔ مثلاً یہ کہا جاسکتا ہے کہ اب ہم جس شاعر کو زحمت سخن دے رہے ہیں وہ پچھلے پانچ سالوں میں درجہ اول کے ۱۰۸ مشاعرے پڑھ چکے ہیں۔ سات مرتبہ عالمی دورے پر جاچکے ہیں اور خود اس پچ پر ان کا یہ بارہواں مشاعرہ ہے۔ کسی شاعر کے بارے میں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ یہ اپنی نظم سو سے زیادہ مرتبہ پڑھ چکے ہیں اور آج بھی اس نظم کا مظاہرہ کرنے والے ہیں۔

    مشاعروں میں امپائر نہیں ہواکرتے ہیں لیکن سامعین جس شاعر کو چاہیں آؤٹ کرسکتے ہیں۔ اس کے لئے انھیں کسی سے اپیل نہیں کرنی پڑتی۔ کرکٹ میں امپائر کی فہمائش کے باوجود کھلاڑی ایک آدھ منٹ کریز نہیں چھوڑتا لیکن مشاعرے میں سامعین کی فرمائش پر یہ کام پلک جھپکنے میں ہوتا ہے۔ ایسے موقع پر کمنٹیٹر باس کی طرف سے شاعر کی کوئی مدد نہیں کی جاتی اور صدر مشاعرہ کا تو بہرحال مشاعرہ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اس کا تعلق صرف مشاعرے کی صدارت سے ہوتا ہے، مشاعرے کی سیاست سے نہیں۔

    مشاعروں کے ڈائس پر شاعروں کے علاوہ چند سامعین کو بھی رکھا جاتا ہے۔ یہ بیٹھے ہوئے فیلڈرس ہوتے ہیں اور شاعر کلام سناتے وقت اپنا کوئی شعر کبھی سلپ میں کبھی شارٹ لیگ پر اور کبھی مڈ آن پر سیٹنگ فیلڈر کی نذر کرتا ہے جو بہر صورت قبول کرنا پڑتا ہے۔ بعض سامعین کو یہ شکایت کرتے ہوئے بھی سنا گیا ہے کہ فلاں شاعر نے اپنا سب سے کمزور شعر مجھے نذر کیا تھا۔ کرکٹ میں آخری کھلاڑی سب سے کم زور بلے باز ہوتا ہے لیکن مشاعرے میں صورت حال اس کے برعکس ہوتی ہے۔ مشاعرے کا اخری شاعر سب سے زبردست شاعر ہوتا ہے اور سامعین اس سے زبردستی شعر سنتے ہیں۔ مشاعرے بہرحال کرکٹ سے بہتر چیز ہیں ان میں پانچ روزہ مشاعرے نہیں ہوتے اور اب تو شاعروں کی کامیابی دیکھ کر کرکٹ کے کھلاڑیوں نے بھی رات کے وقت کرکٹ کھیلنا شروع کردیا ہے۔ غنیمت ہے کہ مشاعروں سے کسی نے کچھ تو سیکھا۔

    مأخذ :

    یہ متن درج ذیل زمرے میں بھی شامل ہے

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے