غالب قید میں
تفتہ، قبلہ! کل آپ مفتی صدر الدین آزردہ کے مشاعرے میں شریک نہ ہوئے۔
غالب، ایک تو درد کمر دوسرے بارش، شرکت نہ کرسکا۔ مفتی صاحب کو معذرت نامہ بھیج دیا تھا۔ کیوں مشاعرہ کیسا رہا؟
تفتہ، بڑا کامیاب رہا۔ لالہ مکندی لال بھی تو وہاں موجود تھے۔
غالب، کیوں لالہ جی؟
مکندی لال، جی ہاں قبلہ میں بھی ایک دوست کے ساتھ ادھر جانکلا تھا۔
غالب، کیوں تفتہ۔ مشاعرے میں کوئی اچھا شعر بھی ہوا؟
تفتہ، سلطان الشعراء نے ایک عجیب شعر کہا۔
غالب، وہ کیا؟
تفتہ، اب تو گھبراکے یہ کہتے ہیں کہ مرجائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے۔
غالب، کیا واقعی یہ ذوق کاشعر ہے؟
تفتہ، جی ہاں قبلہ یہ انہیں کا شعر ہے۔
غالب، بھئی جس کسی کا بھی ہو، شعر خوب ہے۔
اب تو گھبراکے یہ کہتے ہیں کہ مرجائیں گے
مرکے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے۔
مرحبا مرحبا کیا شعر کہا ہے! سبحان اللہ!
مکندی لال، کیوں بھئی مہتارام، وہ تم اس روز حضرت ذوق کا کوئی شعر سنا رہے تھے۔
مہتا رام، کون سا شعر؟
مکندی لال، وہی جس کا قافیہ شاید روشنی تھا۔
مہتا رام، ہاں ہاں یاد آ گیا۔
پڑا ہے اس تیرہ خاکداں میں یہ آدمی کی فروتنی ہے
وگر نہ قندیل عرش میں بھی اسی کے جلوے کی روشنی ہے
غالب، بہت خوب! بہت خوب!
تفتہ، آپ کی وہ غزل جس کا مقطع ہے،
عشق پر زور نہیں ہے یہ وہ آتش غالب
کہ لگائے نہ لگے اور بچھائے نہ بنے
ولی عہد بہادر کے دربار میں گائی جا رہی تھی۔
غالب، یہ کب کی بات ہے۔
تفتہ، یہی کوئی چار روز کی بات ہوگی۔
غالب، تم سے کس نے کہا؟
تفتہ، حکیم مومن خاں کہہ رہے تھے کہ انہوں نے یہ بات کسی مرشد زادے سے سنی تھی۔
مکندی لال، جناب والا آپ کی ایک غزل تو شہر کے ہرگلی کوچے میں گائی جا رہی ہے۔
غالب، کون سی غزل؟
مکندی لال، وہی دیکھیے نا۔۔۔ اس کا کوئی شعر اس وقت یاد نہ رہا۔ بھائی مہتا تمہیں تو یاد ہوگا؟
مہتا رام، وہی جس کا ایک شعر ہے
واعظ نہ تم پیو نہ کسی کو پلاسکو
کیا بات ہے تمہاری شراب طہور کی
مکندی لال، نہیں یہ نہیں۔۔۔ نہیں دیکھیے، یاد آ گیا وہی جس کا مقطع ہے۔
غالب چھٹی شراب، پر اب بھی کبھی کبھی
پیتا ہوں روز ابر و شب ماہتاب میں
غالب، (ہنستے ہوئے ) لالہ جی میں اصل میں فارسی کا شاعر ہوں۔ ریختہ میں یوں ہی کبھی کبھار تفریحاً کچھ کہہ لیا کرتا ہوں۔
مکندی لال، اجی قبلہ مرزا صاحب! یہ آپ کی خاکساری ہے ورنہ آج دلی بھر میں آپ جیسا ریختہ کا کون شاعر ہے۔
غالب، یہ آپ کی بندہ پروری ہے ورنہ میں کیا اور میری شاعری کیا۔
(سب کا قہقہہ لگانا۔۔۔ کچھ خاموشی)
تفتہ، ایک بات دریافت طلب تھی۔
غالب، وہ کیا؟
تفتہ، پروانہ اور بت خانہ کے ساتھ مردانہ اور دلیرانہ کے قافیے جائز ہیں یا ناجائز۔
غالب، میاں یہ بالکل ناجائز اور نامستحسن ہیں یہ ایطا ہے اور وہ بھی ایطائے قبیح۔
تفتہ، قبلہ دیدۂ مست کی ترکیب صحیح ہے یا غلط؟
غالب، بھائی اس کے بجائے چشم پر خار رکھو۔
تفتہ، بندہ پرور۔ ایک مصرع ہوا ہے،
گردش چرخ استخواں سائید
غالب، (کچھ سوچ کر) اسے یوں بنا لو۔
سودہ شدا ستخواں زگردش چرخ
تفتہ، میں ایک غزل لکھ رہا ہوں اس کا ایک مصرع ہے،
دیگر نتواں گفت غمت را کہ غم است ایں
غالب، تفتہ تمہیں شعر کہتے اتنی مدت ہوگئی اور اب تک تقطیع کرنا بھی نہ آیا۔ میاں غور کرو، بعد غور کے اس ناموزونی کا خود اقرار کروگے۔
تفتہ، قبلہ ایک شعر اور ہے۔
غالب، بھائی! اس گفتگو کو چھوڑو، کوئی اور بات سناؤ۔ کبھی پوچھتے ہو فلاں شعر کا کیا مطلب ہے کبھی پوچھتے ہو فلاں مصرعہ کا وزن صحیح ہے یا نہیں، کبھی دریافت کرتے ہو کہ یہ ترکیب جائز ہے یا ناجائز۔ کچھ آپ بیتی کہو کچھ جگ بیتی سناؤ۔ یہ موقع نہ اس گفتگو کا ہے اور نہ یہ وقت ایسی گفتگو کے لیے موزوں ہے۔ کہو آج کا احسن الاخبار دیکھا ہے؟
تفتہ، جی ہاں دیکھا ہے۔
غالب، کوئی اہم خبر ہو تو سناؤ۔
تفتہ، نواب ریذیڈنٹ بہادر نے اس آدم خور شیر کا شکار کر لیا جو فیروز پور جھرکہ کے جنگل میں تھا۔
غالب، خس کم جہاں پاک، میاں اور کوئی خبر!
تفتہ، آج کل بارش کی وجہ سے شہر میں اکثر مکانات گر رہے ہیں۔ خانم کا بازار، اردو بازار اور فراش خانے میں چارسو کے قریب مکان گرپڑے۔
غالب، بھائی برسات کیا ہے، ایک قیامت ہے۔ خود میرے گھر کا یہ حال ہے کہ مسجد کی طرف کے دالان کو جاتے ہوئے جو دروازہ تھا وہ گر گیا۔ سیڑھیاں گرا چاہتی ہیں۔ صبح کے بیٹھنے کا حجرہ جھک رہا ہے۔ چھتیں چھلنی ہوگئی ہیں۔ مینہ گھڑی بھر بر سے تو چھت گھنٹہ بھر بر سے۔ کتابیں قلمدان توشہ خانہ میں ہیں۔ فرش پر کہیں لگن رکھی ہے، کہیں چلچمی دھری ہوئی ہے۔
تفتہ، آپ مالک مکان کو مرمت کرانے کے لئے کیوں نہیں کہتے؟
غالب، مالک مکان اگر چاہے کہ مرمت کرے تو کیونکر کرے، مینہ ہفتہ دو ہفتے بند ہو تو مرمت کا سامان ہو، پھر اثنائے مرمت میں کس طرح بیٹھا رہوں!
تفتہ، یہ تو بڑی مصیبت ہے۔
غالب، اور کوئی خبر ہو تو سناؤ۔
تفتہ، اور تو کوئی اہم خبر ہے نہیں۔
غالب، خیر!
(کچھ خاموشی)
تفتہ، قبلہ مجھے میر مہدی مجروح سے ملنے جانا ہے۔ اب اجازت دیجیے۔
غالب، ہاں بھائی جاؤ۔
تفتہ، آداب عرض ہے۔
غالب، تسلیم۔ تسلیم دیکھنا میاں کل ضرور آنا، اگر وقت ملا تو تمہاری غزل بنا رکھوں گا۔
(کچھ خاموشی)
مکندی لال، کہیے مرزا صاحب چوسر نکالی جائے؟
مہتا رام، ہاں لالہ مکندی لال جی ضرور نکالیے۔
غالب، جی تو نہیں چاہتا لیکن اگر آپ کی مرضی ہو تو نکالیے۔
(بساط بچھائی جاتی ہے کوڑیاں پھینکنے کی آواز)
مکندی لال، مرزا صاحب کیا یہ بازی جیتنے کا ارادہ ہے؟
غالب، (قہقہہ لگاتے ہوئے ) آپ کامنشا یہ ہے کہ ہمیشہ آپ ہی جیتا کریں؟
مکندی، ارے بھائی مہتا رام سنتے ہو مرزا صاحب کیا فرما رہے ہیں؟
مہتا رام، فرما کیا رہے ہیں؟ ٹھیک کہتے ہیں۔ مرزا صاحب نے تو شاعری میں اپنی عمر گنوادی ورنہ ان کی ٹکر کا چوسر کھیلنے والا دلی بھر میں نہیں نکلتا۔
غالب، (ہنستے ہوئے ) دیکھیے لالہ جی یہ پوبارہ (کوڑیاں پھینکنے کی آواز) بازی میں جیتا۔ (زور سے قہقہہ لگاتے ہوئے )
(دور سے جوتوں کی آوازیں)
مکندی لال، ہیں ادھر سے کون لوگ چلے آ رہے ہیں؟
(جوتوں کی آواز سے لوگوں کا قریب آنا محسوس ہوتا ہے )
مہتا رام، (گھبرائی ہوئی آواز میں) پولس! پولس! (کانپتے ہوئے ) لالہ مکندی لال جی اب کیا ہوگا پولس آ گئی۔ ہائے ہائے اب کیا ہوگا۔
پولس والے، (بیک آواز) پکڑو۔ پکڑو! ان جواریوں کو پکڑو دیکھنا ان میں سے کوئی بھاگنے نہ پائے۔
(مکندی لال اور مہتا رام بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں۔۔۔ قدموں کی آواز)
تھانیدار، یہ دونوں بھاگنے کی کوشش کر رہے ہیں جوانو بڑھ کر ان دونوں کی مشکیں کس لو۔
مہتا رام، (تھرائی ہوئی آواز میں) تھانیدار صاحب رحم کیجیے۔ غلطی ہوگئی اب۔۔۔ اب۔۔۔ حضور۔۔۔ حضور۔۔۔ ہم ایسا نہیں کریں گے ہمیں چھوڑ دیجیے۔۔۔ لالہ مکندی لال جی کو تو مرزا صاحب نے بہکایا تھا۔
غالب، (غصے سے ) سبحان اللہ کمبخت جھوٹا کہیں کا۔ اجی تھانیدار صاحب یہ مردود جھوٹ بکتا ہے اور اگر سچ بھی کہے تو چوسر کھیلنا کوئی جرم نہیں ہے۔
تھانیدار، جی بجا ارشاد بندہ پرور! چوری اور سینہ زوری اسی کو کہتے ہیں۔ (کچھ خاموشی) اخاہ آپ ہیں خوب! خوب! اب میں سمجھا (قہقہہ لگاتے ہوئے ) مرزا اسد اللہ خاں غالب!
غالب، تھانیدار صاحب ہوش کی دوا کیجیے آپ کس سے باتیں کر رہے ہیں؟
تھانیدار، جناب والا یہ کوئی مشاعرے کی محفل نہیں ہے۔ اس وقت آپ جوئے کی علت میں زیر حراست ہیں۔ سمجھے جناب! آپ سے میں جو کچھ کہوں اس کی تعمیل بے چوں و چرا کرنی پڑے گی۔
غالب، مگر۔۔۔!
تھانیدار، میں اگر مگر کچھ نہیں جانتا۔ آپ چپ چاپ میرے پیچھے چلے آئیے۔ (سپاہیوں سے ) جوانو! ذرا ان دونوں لالاؤں کی مشکیں مضبوطی سے کس لینا۔ کہیں یہ راستے سے بھاگ نہ نکلیں۔
مہتا رام اور مکندی لال، (ساتھ ساتھ روتے ہوئے ) ہائے ہائے ہم مرے، بھگوان کے لیے ہمیں چھوڑ دو۔
غالب، نہ معلوم آج صبح کس منحوس کی صورت دیکھ کر اٹھا تھا۔۔۔ آدم کے بیٹے پر جو بھی گزر جائے وہ کم ہے یہ بھی خدا کی قدرت ہے۔
تھانیدار، مرزا صاحب! زیادہ باتیں نہ بنائیے۔ چپ چاپ چلے چلیے۔
غالب، (رک کر) عجیب واہیات انسان سے پالا پڑا ہے۔ کیا تجھے نہیں معلوم کہ ہم کون ہیں؟
تھانیدار، جی بندہ نواز مجھے سب کچھ معلوم ہے مگر اس وقت آپ کی حیثیت ایک ملزم سے زیادہ کچھ نہیں۔
غالب، (بڑبڑاتے ہوئے ) عجیب احمق ہے۔۔۔ یہ آدمی کاہے کو ہے اچھا خاصا پاجامہ ہے!
(وقفہ)
چپراسی، (بآواز بلند) مرزا اسداللہ خاں غالب، لالہ مکندی لال اور لالہ مہتا رام ملزمان حاضر عدالت ہیں۔
(کاغذوں کی کھڑکھڑاہٹ۔ کچھ خاموشی)
مجسٹریٹ، اچھا انسپکٹر صاحب آپ اپنا چالان پیش کیجیے۔
کورٹ انسپکٹر، کل رات مرزا اسد اللہ خاں غالب، لالہ مکندی لال اور لالہ مہتا رام چوسر پر بازی لگاتے ہوئے گرفتار ہوئے۔ لالہ مکندی لال اور لالہ مہتا رام کو اپنے جرم کا اعتراف ہے اور اس شرط پر گواہی دینے پر آمادہ ہیں کہ ان کا گناہ معاف کردیا جائے۔
مجسٹریٹ، لالہ مکندی لال اور لالہ مہتا رام کو پولس کی درخواست پر معاف کیا جاتا ہے۔
مکندی لال، حضور والا! مرزا غالب اور میں کبھی کبھی چوسر کھیل لیا کرتے تھے۔ کھیل سے پہلے ہم بازی لگاتے تھے جو ہارتا وہ بازی کی مقررہ رقم ادا کرتا۔ کل رات بھی ہم اسی طرح کی بازی لگاکر چوسر کھیل رہے تھے۔ اتنے میں پولس کی دوڑ آگئی اور ہم گرفتارہوگئے۔
مجسٹریٹ، لالہ مہتا رام تم کیا کہنا چاہتے ہو۔
مہتا رام، لالہ مکندی لال نے جو کچھ کہا وہ سرکار کمپنی بہادر کے اقبال سے حرف بحرف صحیح ہے۔
مجسٹریٹ، کیوں مرزا صاحب آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟
غالب، بندہ نوازمیرا بیان یہ ہے کہ میں چوسر کھیل رہاتھا۔ چوسر کھیلنا کوئی جرم نہیں۔
مجسٹریٹ، بیشک چوسر کھیلنا کوئی جرم نہیں مگر اس پر بازی لگانا جرم ہے۔ کیا آپ نے اس پر بازی نہیں لگائی؟
مکندی لال اور مہتا رام، (بیک آواز) ہاں ہاں رام کی سوگند، انہوں نے بازی لگائی تھی۔
غالب، یک نہ شد دو شد۔ جناب مجسٹریٹ صاحب ان کمبختوں نے تو خود مجھے بازی لگانے پرآمادہ کیا تھا۔
مجسٹریٹ، اچھا تو آپ کو اپنے جرم کا اقبال ہے۔
غالب، بیشک میں نے بازی لگائی مگر مقصد محض تفریح طبع تھا۔
مجسٹریٹ، خیر تو اب میں اپنا فیصلہ سنانا چاہتا ہوں۔
(تھوڑی خاموشی کے بعد فیصلہ سناتا ہے۔ )
آپ اسد اللہ خاں غالب ساکن حبش خاں کا پھاٹک کو قماربازی کی علت میں چھ ماہ قید بامشقت اور دو سو روپیہ جرمانہ۔۔۔ جرمانہ کی رقم داخل سرکار نہ کی گئی تو مزید چھ ماہ کی قید بھگتنا پڑے گی۔ البتہ اتنی رعایت کی جاتی ہے کہ اگر پچاس روپے زیادہ ادا کیے گئے تو مشقت معاف ہوجائے گی۔ نیز لالہ مکندی لال اور لالہ مہتا رام ساکنان خاص بازار کو وعدہ معاف گواہ ہونے کی بناپر رہا کیا جاتا ہے۔
مکندی لال اور مہتا رام، (دونوں بآواز بلند) سرکار کمپنی بہادر کا اقبال بلند ہو۔ مجسٹریٹ صاحب بہادر کا سایہ شہر پر ہمیشہ قائم رہے۔
(وقفہ)
(لوگوں کے چلنے پھرنے کی آواز)
ایک شخص، بھئی دیکھا آخر مزا غالب بیچارے کو سزا ہوہی گئی۔ انہوں نے ایسا جرم ہی کون سا کیا تھا۔
دوسرا شخص، اجی یہ سب کچھ ظالم کوتوال کا کیا دھرا ہے۔ ہم تو پہلے ہی کہتے تھے کہ حاکم وقت سے بگاڑ اچھا نہیں۔
تیسرا شخص، اجی کوتوال ایسا کون سا بڑا حاکم ہے؟ جس مجسٹریٹ نے مرزا صاحب کو سزا دی وہ خود کوتوال کا حاکم ہے۔ وہ کمبخت مرزا صاحب کو خوب جانتا ہے لیکن عین وقت پر انجان بن گیا۔
پہلا شخص، سنا ہے کہ سیشن میں اپیل ہوئی تھی، اس کابھی کچھ مفید نتیجہ نہ نکلا۔ سیشن جج بھی مرزا صاحب کا پرانا شناسا تھا۔
دوسرا شخص، آپ سیشن جج کا تذکرہ کر رہے ہیں۔ حضرت صدر میں بھی سلسلہ جبنانی کی گئی تھی۔ ہم نے تو یہاں تک سنا ہے کہ حضرت جہاں پناہ نے نواب ریذیڈنٹ بہادر کو بھی سفارشی چھٹی لکھی، مگر وہاں سے بھی ٹکا سا جواب آگیا۔
تیسرا شخص، ارے بھائی جب قسمت بگڑتی ہے تو یونہی ہوتا ہے۔ مرزا صاحب عرصے سے بیمار رہتے ہیں۔ بادام کے ہریرے اور ذرا سے قلیے چپاتی پر ان کی زندگی کا دارومدار ہے۔ جیل کی مشقت سے ان کا جانبر ہونا مشکل نظر آتا ہے۔ اللہ رحم کرے۔
پہلا شخص، خدا بھلا کرے نواب مصطفے ٰ خاں شیفتہ کا۔ بھئی دوست ہو تو ایسا ہو۔ اس آڑے وقت میں انہوں نے مرزا صاحب کا بڑا ساتھ دیا۔
دوسراشخص، سنا ہے کہ انہوں نے جرمانے کی رقم اپنی جیب خاص سے ادا کردی ہے۔
تیسرا شخص، اجی آپ جرمانے کی رقم کو لیے بیٹھے ہیں۔ انہوں نے پچاس روپے بھی اپنے پاس سے سرکار میں جمع کردیے ہیں کہ مرزا صاحب مشقت سے بچ جائیں۔
پہلا شخص، یہ بھی سناگیا ہے کہ انہوں نے حکام سے کہہ سن کر مرزا صاحب کو گھر سے کھانا کپڑا منگوانے اور عزیزوں اور دوستوں سے ملنے جلنے کی اجازت بھی دلوادی ہے۔
دوسرا شخص، میاں قید پھر قید ہے۔ خدا دشمن پر بھی ایسا وقت نہ ڈالے۔
(وقفہ)
(پہلے دور سے پھر نزدیک سے پاؤں کی چاپ)
غالب، ادھر یہ کون آرہا ہے۔
تفتہ، آداب عرض ہے قبلہ! میں ہوں ہرگوپال تفتہ۔
غالب، (آہ سرد کھینچ کر) آؤ میاں تفتہ آؤ، بیٹھو کہو مزاج کیسا ہے؟
تفتہ، میں تو اچھا ہوں قبلہ! آپ اپنے مزاج کی کیفیت کہیے۔
غالب، (کھانستے ہوئے ) میاں کیا کہوں کبھی سرکار انگریزی میں بڑاپایہ رکھتا تھا اور رئیس زادوں میں گنا جاتا تھا۔ پورا خلعت پاتا تھا اب بدنام ہوگیا ہوں۔ اس قید سے عزت پر بڑا دھبہ لگ گیا ہے۔
تفتہ، (روتے ہوئے ) حضور کو قید خانہ میں دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ ہائے قسمت نے کیا برا دن دکھایا ہے۔
غالب، (کھانستے ہوئے ) میاں میں تو ہر حال اور ہر رنگ میں راضی برضا ہوں۔ میں ہر کام کو خدا کی طرف سے جانتا ہوں اور خدا سے لڑا نہیں چاہتا۔ جو گزر رہا ہے اس کے ننگ سے آزاد اور جو کچھ گزرنے والا ہے اس پر راضی ہوں (کھانسنا) اتنا ضرور ہے کہ اب میری آرزو یہ ہے کہ دنیا میں نہ رہوں اور اگر رہوں تو ہندوستان میں نہ رہوں۔ روم ہے، مصر ہے، ایران ہے، بغداد ہے۔ کعبہ آزادوں کی جائے پناہ ہے۔ دیکھیے وہ وقت کب آئے گا کہ اس قید سے نجات پاؤں اور سر بصحرا نکل جاؤں۔ (کھانسنا)
تفتہ، قبلہ اس قدر مایوس نہ ہونا چاہیے۔ خدا کو فضل کرتے دیر نہیں لگتی۔ میں آپ کو یہ خوش خبری سنانے آیا ہوں کہ مجسٹریٹ کو اپنی غلطی کااحساس ہوگیا ہے۔ اس نے صدر میں تحریر کی ہے۔ کوئی دیر میں رہائی کا حکم آیا چاہتا ہے۔
غالب، ’’ہائے اس زود پشیماں کا پشیاں ہونا۔‘‘
(دور سے جوتوں کی آواز آتی ہے )
تفتہ، دیکھیے جیلر ہاتھ میں کوئی پرزہ لیے چلا آرہا ہے۔
(قریب سے جوتوں کی آواز)
خدا کرے یہ رہائی کا پروانہ ہو۔
(جیلر کا آنا)
تفتہ، آئیے جیلر صاحب آئیے۔
جیلر، (خوشی کے لہجے میں) مرزا صاحب مبارک! صدر سے آپ کی رہائی کا حکم وصول ہوا ہے۔ اب آپ آزاد ہیں جہاں چاہیں جاسکتے ہیں۔
غالب، (طنزیہ انداز میں) جناب ہم سے قیدیوں کو آزادی کہاں۔ پہلے گورے کی قید میں تھے، اب کالے کی قید میں جائیں گے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.