Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مرزا غالب سے انٹرویو

نریش کمار شاد

مرزا غالب سے انٹرویو

نریش کمار شاد

MORE BYنریش کمار شاد

     

    میں کیا یہ واقعہ ہے کہ آپ کے والد محترم عبداللہ بیگ آپ کی طرح اہل قلم یا اہل خرابات میں سے نہیں بلکہ اہل سیف میں سے تھے۔ اور ان کا انتقال بھی ایک مہم میں بندوق کی گولی کھا کر ہوا تھا۔ نیز آپ کا سلسلۂ نسب  شاہانِ توراں افسرا سیاب اور پشنگ سے ملتا ہے؟

    غالب سو پشت سے ہے پیشۂ آبا سپہ گری
          کچھ شاعری ذریعہ عزت نہیں مجھے

    میں معاف کیجیے گا قبلہ! میں نےمحض انٹرویو کے شروعات کی غرض سے یہ بات پوچھ لی ورنہ آپ کی شاعری ہی کے بارے میں آپ سے کچھ دریافت  کرنا مقصود ہے۔ حقیقت میں آپ کا پورا اردو کلام موتیوں میں تولنے کے قابل ہے۔ رشید احمد صدیقی نے سچ کہا ہے کہ اگر مجھ سے پوچھا جائے کہ ہندوستان کو مغلیہ سلطنت نے کیا دیا تو میں بے تکلف تین نام لوں گا۔ غالب اردو اور تاج محل! آپ کے مجموعہ کلام کی سی غیر معمولی اہمیت اور مقبولیت آج تک اردو کے کسی دوسرے شعری مجموعے کو نصیب نہیں ہو سکی۔ اردو کے علاوہ دنیا کے بے شمار متمدن زبانوں میں بھی اس کے بےشمار ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔ آپ اپنے آپ کو ’’ہزار گلشن نا آفریدہ‘‘ کا عندلیب کہیں لیکن ہمارے اس دور کے ایک مشہور شاعر تلوک چند محروم کے بقول، 

    گل زارِ سخن سے پھول جو چنتے ہیں
    بلبل کی نوا میں تیری لے سنتے ہیں

    مفہوم ترا سمجھ نہیں پاتے جو
    وہ بھی تیرے اشعار پہ سر دھنتے ہیں

    غالب گر خاموشی سے فائدہ اخفائے حال ہے
          خوش ہوں کہ میری بات سمجھنی محال ہے

    میں آپ کی خوشی سر آنکھوں پر حضور! لیکن اس تمہید سے میرا مقصد آپ سے یہ دریافت کرنا ہے کہ آپ کی اپنی نظر میں آپ کے چند ایسے منتخب اردو اشعار کون سے ہیں جو آپ کے شاعرانہ کمال کی پوری نمائندگی کرتے ہیں۔ 

    غالب فارسی بیں تا ببینی نقش ہائے رنگ رنگ
          بگزر از مجموعۂ اردو کہ بے رنگ من است

    میں لیکن عالی جناب! آپ جسے بے رنگ کہہ رہے ہیں وہ مجموعہ ہمارے لیے تو رنگوں کی ایک کان سے کم نہیں۔ اس کے متعلق ہمارے ایک نوجوان ناقد خلیل الرحمن اعظمی نے پیش گوئی کی ہے کہ اس شاعری کے ایک سے زیادہ رنگ ہیں، جوں جوں زمانہ گزرتا جائے گا، اس میں رنگوں کا اضافہ ہوتا جائے گا۔ حد تو یہ ہے کہ ملحد ہوں، صوفی ہوں یا فلسفی، مارکس کے پجاری ہوں یا فرائڈ کے پیروکار، سبھی کو آپ کے اشعار کے پیمانوں میں اپنے اپنے عقائد کے رنگ جھلکتے دکھائی دے جاتے ہیں،

    غالب دل حسرت زدہ تھا مائدۂ لذتِ درد
          کام یاروں کا بقدر لب و دنداں نکلا

    میں لیکن گستاخی معاف! چند ایسے شارحینِ کرام بھی ہیں جو آپ کے بعض اشعار کو بے معنی قرار دیتے ہیں،  

    غالب نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا
          نہ سہی گر مرے اشعار میں معنی نہ سہی

    میں آپ نے ٹھیک کہا ہے کہ آپ کے اشعار ’’ گنجینۂ معنی کے طلسم‘‘  ہیں۔ انہیں  سمجھنا کار طفلانہ نہیں۔ آپ اسے خود میری شوخیٔ طفلانہ پر ہی محمول کیجیے لیکن یہ کہنے کی جسارت تو میں بھی کروں گا کہ آپ کےاس قسم کے اشعار،  

    غنچہ تا شگفتن ہا برگ عافیت معلوم
    با وجودِ دل جمعی خوابِ گل پریشاں ہے

    یا

    بہ حسرت گاہ نازِ کشتہ جان بخشی خوباں
    خضر کو چشمۂ آب بقا سے ترجبیں پایا

    مجھے بھی  کچھ مبہم سے نظر آتے ہیں اور میرے خیال میں۔۔۔ آپ کے چند شعروں کا مفہوم اجمالی اشاروں کی وجہ سے گنجلک ہوگیا ہے جیسے،  

    میکدہ گر چشمِ مستِ ناز سے پاوے شکست
    موئے شیشہ دیدۂ ساغر کی مژگانی کرے

    یا

    نقشِ نازِ بت طناز بہ آغوشِ رقیب
    پائے طاؤس پئے خامہ مانی مانگے

    غالب میرے ابہام پہ ہوتی ہے تصدق توضیح
           میرے اجمال سے کرتی ہے تراوش تفصیل

    میں اس میں کیا شک ہے قبلہ و کعبہ!
         سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہوگئیں
         خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہوگئیں

    اور،  

    محرم نہیں ہے تو ہی نواہائے راز کا
    یاں ورنہ جو حجاب ہے پردہ ہے ساز کا

    جیسے سدا بہار اور حکیمانہ شعر کہہ کر آپ نے اردو شاعری کے خزانے میں جو بیش بہا اضافہ کیا ہے، اس کی وجہ سے اگر آپ کی شخصیت کو ’’گلِ نغمہ‘‘ اور ’’پردۂ ساز‘‘ سے تعبیر کیا جائے تو نامناسب نہ ہوگا۔ 

    غالب نے گل نغمہ ہوں نہ پردۂ ساز
          میں ہوں اپنی شکست کی آواز

    میں اللہ اللہ اتنی دل شکستگی اور مایوسی! جوش ملیح آبادی نے آپ کے بارے میں واقعی سچ کہا ہے کہ آج غالب کو پوجا جا رہا ہے۔ کل جب وہ زندہ تھا تو اسی دہلی میں اکثر و بیشتر آدھا پاؤ گوشت اور ایک پاؤ شراب کے لیے ترستا رہا۔ آج ملک کے بڑے بڑے دولت مند اس کے مزار کی زیارت کے لیے آتے ہیں۔ کل جب وہ زندہ تھا تو اسے خود امراء کے دروازوں پر جانا پڑتا تھا۔ 

    غالب زندگی اپنی جو اس طور پہ گزری غالب
          ہم بھی کیا یاد کریں گےکہ  خدا رکھتے تھے

    میں غالباً اس طور پر زندگی گزارنے کا نتیجہ ہے ’’کہ غم‘‘ آپ کی شاعری کا غالب رجحان بن گیا ہے۔ جیسے، 

    منحصر مرنے پر ہو جس کی امید
    ناامیدی اس کی دیکھا چاہیے

    اور  

    کہتے ہیں جیتے ہیں امید پہ لوگ
    ہم کو جینے کی بھی امید نہیں

    اور 

    جسے نصیب ہو روزِ سیاہ میرا سا
    وہ شخص دن نہ کہے رات کو تو کیونکر ہو

    غالب غم ہستی کا اسد کس سے ہو جزمرگ علاج
           شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک

    میں چلیے موت غم ہستی کا علاج سہی لیکن جناب من!

     
    موت کتنی بھی خوب صورت ہو
    زندگی کا کوئی جواب نہیں

    غالب ہوس کو ہے نشاطِ کار کیا کیا
          نہ ہو مرنا تو جینے کا مزا کیا

    میں خوب! تو مرکر آپ نے جینے کا مزا حاصل کرلیا۔ لیکن جیتے جی کیا صورت رہی۔ 

    غالب تھا زندگی میں موت کا کھٹکا لگا ہوا
          اڑنے سے پیشتر بھی مرا رنگ زرد تھا

    میں کھٹکے کا سوال مرزا صاحب! موت تو آپ کی زندگی کی بہت بڑی محرومی تھی اور آپ جیتے جی یہی کہتے رہے کہ

    مرتےہیں آرزو میں مرنے کی
    موت آتی ہے پر نہیں آتی

    اور  

    کس سےمحرومیٔ قسمت کی شکایت کیجے
    ہم نے چاہا تھا کہ مرجائیں سو وہ بھی نہ ہوا

    یہ فرمائیے کہ اب آپ کی یہ شکایت رفع ہوچکی ہے۔ آپ کیا محسوس کرتے ہیں؟

    غالب ڈھانپا کفن نے داعِ عیوب برہنگی
          میں ورنہ ہر لباس میں ننگِ وجود تھا

    میں آپ نے فرمایا۔

     
    تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا

    ہمارے نزدیک بادہ خواری کے باوجود آپ کی حقیقت کسی ولی سے کم نہیں۔ لیکن یہ تو بتائیے کیا شراب سے آپ کی اتنی گہری وابستگی محض غم کا ردِعمل ہے؟

    غالب مے سے غرض نشاط ہے کس رو سیاہ کو
          یک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہئے

    میں گستاخی معاف! خوئے بدرا بہانۂ بسیار والی بات ہے۔ خیر اس خانہ خراب کے جواز میں آپ کچھ بھی کہیے لیکن یہ فرمائیے اب ملک عدم میں اس دیرینہ مشغلے کی کیا صورت ہے؟

    غالب غالب چھٹی شراب پر اب بھی کبھی کبھی
          پیتا ہوں روزِ ابرو شب ماہتاب میں

    میں لیکن ایک رند بلانوش ہونے کے باوجود اور اس قسم کی باتیں کہنےکے بعد کہ

    پلا دے اوک سے ساقی جو ہم سے نفرت ہے

    پی جس قدر ملے شبِ مہتاب میں شراب

    صرفِ بہائے مے ہوئے آلاتِ مے کشی

    بے مے کسے ہے طاقتِ آشوبِ آگہی

    قرض کی پیتے تھے مے۔۔۔ 

    آپ نے یہ شعر کیونکر کہہ دیا،  

    صحبتِ رنداں سے لازم ہے حذر
    جائے مے اپنے کو کھینچا چاہئے

    غالب، ترک لذت بھی نہیں لذت سے کم
    کچھ مزا اس کا بھی چکھنا چاہیے

    میں آپ نے حسن و عشق کی نہایت نازک کیفیتوں کے متعلق اکثر نہایت شگفتہ شعر کہے ہیں۔ لیکن اس شگفتگی میں ہجر کا ایک گہرا احساس بھی کارفرما ہے جیسے، 

    کب سے ہوں کیا بتاؤں جہانِ خراب میں
    شب ہائے ہجر کو بھی رکھوں گر حساب میں

    کیا محبوب کے وصل سے محروم ہی رہے؟

    غالب یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا
    اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا

    میں تو گویا وصل یار سے محروم رہنے کے باوجود آپ زندگی بھر عشق میں مبتلا رہے اور آپ کو یہ احساس بھی ہوتا رہا کہ آپ کے ایسے کام کے آدمی کو عشق نے ’’نکما‘‘ کرکے رکھ دیا ہے۔ آخر ایسے عشق سے حاصل؟

    غالب عشق سے طبیعت نے زیست کا مزا پایا
    دَرد کی دوا پائی دردِ لا دَوا پایا

    میں لیکن اب بھی آپ کو محبوب کے وصل کی تمنا ہے یا نہیں؟ کیونکہ ہم نے جگر مرادآبادی کی زبان سے یہی سنا ہے، 

    عشق مرنے پہ بھی نہیں مٹتا
    یہ تعلق ضرور رہتا ہے

    غالب دل میں ذوقِ وصل و یاد یار تک باقی نہیں
         آگ اس گھر میں لگی ایسی کہ جو تھا جل گیا

    میں آپ کی کافی سمع خراشی کی قبلہ، معاف کیجیے گا! آخر میں ایک چھوٹی سی بات اور پوچھنا چاہتا ہوں۔ وہ یہ کہ اپنی شاعری کو زیادہ سے زیادہ مؤثر اور تابناک بنانےکے لیے ایک شاعر کو کس چیز کی ضرورت ہتی ہے۔ 

    غالب حسن فروغ شمع سخن دور ہے اسد
          پہلے دل گداختہ پیدا کرے کوئی

     

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے