مورپنکھ
عہد طفولیت میں
میں نے مورپنکھ چھپایا تھا
اپنی کتاب کے اوراق میں
اور منتظر رہا
اس کی نیلی اولاد کا
عنفوان شباب میں
ایک پرجوش خواب تھا
جذباتی محبت سے لبریز آنکھوں کا
عالم شباب میں
بلاوے تھے جنگل کے
اور سمندر میں نہانے کے
آج جب میں دیکھتا ہوں
یہ مورپنکھ یاد کرتا ہوں
سخت اذیت میں مبتلا نیلے گلے کا آخری گیت
وہ رقص جسے ایک تیر نے بے جان کر دیا تھا
وہ بادل جو کبھی برسے نہیں
وہ دریا جو غائب ہو گئے زیر زمین
ایک ہمیشہ کھلی رہنے والی آنکھ
جو سدا پریشان رکھتی ہے
ہماری احسان فراموش نسل کو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.