عذرا نقوی کے افسانے
آسمان میں کھڑکی
زہرہ! زہرہ! دونوں وقت مل رہے ہیں نیچے آؤ! کیسی باتیں ہیں تم لوگوں کی جو ختم ہی نہیں ہوتیں، دن میں کالج میں دونوں ساتھ رہتی ہو مگر پھر بھی نجمہ کے ساتھ گھنٹوں چھت پر ٹہل ٹہل کر باتیں کرنا ضروری ہے’‘ دادی کی آواز آئی۔ دادی کی آواز سے میری آنکھ کھل
واپسی کا سفر
ائیرپورٹ کے لاؤنج میں بنے ہوئے کیفیڑیا کی بڑے بڑے شیشوں والی کھڑکی سے باہر کا منظر ایک تصویر کی طرح نظر آ رہا تھا۔ باہر دو ر تک برف کی چادر پھیلی تھی، بےبرگ درختوں کی شاخوں پر کہیں کہیں برف اٹکی ہوئی تھی، دور بہت دور سڑک کے اس پار کسی تنہا مکان کے دروازے
قصوروار
دھائیں۔۔۔ گولی چلنے کی آواز۔۔۔ بند کمرے سے بلند ہوتی ہوئی چیخ۔۔۔ کال بیل بج رہی ہے۔۔۔ مسز شیخ؟ سامنے پولیس آفیسر اپنی ٹوپے اتارکر سر جھکا کر کہہ رہا ہے۔۔۔ I have a bad news for you۔۔۔ یہ خط ہے آپ کے نام۔۔۔ پھر کہیں گولی چلی۔۔۔ ثروت گھبراکر اٹھ بیٹھی،
اس ملبے میں
گھر پر مستقل ٹی دی دیکھ دیکھ کر دماغ اڑا جا رہا تھا تو میں گاڑی نکال کر یوں ہی بے مقصد سڑکو ں پر گھومتا رہا۔ سہ پہر کا وقت مجھے ہمیشہ اداس کر دیتا ہے اور آج تو سارا شہر ہی سائیں سائیں کرتا ہو ا لگ رہا تھا۔ سرسبز درختوں سے گھری صاف شفاف سڑکوں پر گھنٹوں
ڈیڈ انڈ
میں راستہ بھی تو نہیں بدل سکتی، آفس آتے جاتے روز اسی بلڈنگ کے سامنے سے گذرنا ہوتا ہے۔۔۔ سال بھر سے زیادہ ہو گیا، لیکن جب بھی یہاں سے گذرتی ہوں تو کھڑکی سے وہ چہرے جھانکتے نظر آتے ہیں اور خاص طور پر وہ چاند سا چہرہ۔۔۔ ہمیشہ سوچتی ہوں کی اس کھڑکی اور بالکنی
الٰہی یہ جلسہ کہاں ہورہا ہے
مجھے امام باڑے تک پہنچنے میں کافی دیر ہو گئی تھی آج سیٹرڈے نائٹ تھی اور وہ بھی گرمی کے موسم میں، لہٰذا ٹریفک بہت تھا اور مزید مصیبت یہ ہوئی کہ جس راستہ سے مجھے آنا تھا وہ (Forum) فورم اسٹیڈیم کے سامنے سے ہوکر گذرتا تھا، آج فورم میں شاید کسی مشہور سنگر
دو گز زمین
نیم غنودگی کی حالت میں ان کے کانوں میں اماں کے مناقب پڑھنے کی آواز آ رہی تھی۔ ساماں شتاب کر دے مرے دل کے چین کا پروردگار واسطہ پیا رے حسین کا فجر کی نماز کے بعد آنگن کے کونے میں بنے لال پتھر کے چبوترے پر بیٹھی اماں روز پر سوز آواز میں مناقب
انتم سنسکار
ڈیوڑھی نما بڑے دروازے میں داخل ہوکر بیری والا باغ محلہ شروع ہوتا تھا جہاں پھوپی جان کا گھر تھا۔ دروازے سے داخل ہوتے ہی بیچ کی نسبتاََ چوڑی گلی سے دائیں بائیں پتلی پتلی گلیاں نکلتی تھیں جہاں پرانے مکان تھے جو مسلمان پاکستان جاتے وقت چھوڑ گئے تھے اور ان
یہ نصف صدی کا قصہ ہے
ابھی تھوڑی دیر پہلے ماجد کا امریکہ سے فون آیا تھا۔ اصرار کر رہا تھا کہ اس بار میں سالانہ چھٹیوں میں حیدر آباد نہ جاؤں، اس کے پاس امریکہ چلی آؤں، اس نے نیا گھر خریدا ہے، وہ بھی دیکھ لوں گی۔ ماجد کی دادی زبیدہ کے انتقال کو اب پانچ برس ہوگئے اور میری آزمائش
چمکیلی تصویریں
اف! یہ گلیاں اپنی پر پیچ کیوں ہیں۔ نالیوں میں اتنی سڑن کیوں ہے۔ گلی میں آتے جاتے لوگوں کے چہرے دھواں دھواں کیوں ہیں۔ یہ جس رکشہ پر بیٹھی ہوں اتنا بوسیدہ اور خستہ حال کیوں ہے۔۔۔ عفت خود ہی خود الجھی جا رہی تھی۔ رکشہ گھر کے دروازے پر رکا، آنگن کے دوازے
گھر لوٹ کے جانے کا تصّور
آج جمعے کی شام تھی اس لئے بطحیٰ کے بازار میں بہت بھیڑ تھی۔ ہمیشہ کی طرح ٹیکسیوں اور پرائیوٹ کاروں کا دریا سا بہہ رہا تھا۔ سار ابازار برقی روشنیوں سے روشن تھا۔ الکٹرونک سامان بنانے والی مشہور کمپنیوں، سونی، L۔ G، سنسو ئی، سیمسنگ کے بڑے بڑے بورڈ وں سے
بوگن ویلیا کی اوٹ سے
شکر ہے! کل رات بھر لائٹ غائب نہیں ہوئی۔ پنکھا چلتا رہا تو مچھروں سے نجا ت ملی۔ مدت بعد پوری رات سونا نصیب ہوا تھا، ورنہ ہر رات وہی مسئلہ تھا، ایک تو لائٹ غائب، مچھروں کی یلغار اور پھر آس پڑوس کے جنریٹر اپنی خوفناک آو از کے ساتھ چالو ہو جاتے ہیں۔ ہمارے