ہمیں لپکتی ہوا پر سوار لے آئی
ہمیں لپکتی ہوا پر سوار لے آئی
کوئی تو موج تھی دریا کے پار لے آئی
وہ لوگ جو کبھی باہر نہ گھر سے جھانکتے تھے
یہ شب انہیں بھی سر رہ گزار لے آئی
افق سے تا بہ افق پھیلتی بکھرتی گھٹا
گئی رتوں کا چمکتا غبار لے آئی
متاع وعدہ سنبھالے رہو کہ آج بھی شام
وہاں سے ایک نیا انتظار لے آئی
اداس شام کی یادوں بھری سلگتی ہوا
ہمیں پھر آج پرانے دیار لے آئی
نہ شب سے دیکھی گئی برگ آخری کی تھکن
کہ بوند اوس سے اس کو اتار لے آئی
میں دیکھتا تھا شفق کی طرف مگر تتلی
پروں پہ رکھ کے عجب رنگ زار لے آئی
بہت دنوں سے نہ سوئے تھے ہم اور آج ہوا
کہیں سے نیند کی خوشبو ادھار لے آئی
وہ اک ادا کہ نہ پہچان پائے ہم بانیؔ
ذرا سی بات تھی آفت ہزار لے آئی
- کتاب : Kulliyat-e-bani (Pg. 191)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.